گولڈن گلوب نے ووٹنگ ممبران کی ہزاروں ڈالر تنخواہوں پر پابندی لگا دی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
شو بز کی دنیا کے معروف ایوارڈ گولڈن گلوبز کی انتظامیہ نے اپنے ووٹنگ ممبران کو 75 ہزار ڈالر سالانہ تنخواہ دینا بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
گولڈن گلوبز کے ترجمان نے اس فیصلے کو ووٹنگ میں تعصب کے الزامات کو روکنے کی کوشش قرار دیا۔
پہلے گولڈن گلوبز کے ووٹنگ ممبران کو سالانہ تنخواہ دی جاتی تھی جو فلموں اور ٹیلی ویژن شو کے ایوارڈز کے انتخاب میں حصہ لیتے تھے۔
تاہم 2021 میں ایچ ایف پی اے اسکینڈل کے بعد گولڈن گلوبز کو تنقید کا سامنا تھا اور اس کے نشر ہونے کا عمل بھی متاثر ہوا تھا۔
گولڈن گلوب کے صدر ہیلن ہوہنے نے متاثرہ 50 اراکین کو اس تبدیلی کی اطلاع دی۔ اب گولڈن گلوبز کی ووٹنگ باڈی 300 اراکین پر مشتمل ہے، جن میں 85 ممالک کے تفریحی صحافی شامل ہیں۔
گولڈن گلوبز کی نئی پالیسی کے مطابق دیگر معروف ایوارڈ شو جیسے آسکر اور گریمی کی طرح اب ووٹنگ ممبران کو کوئی تنخواہ نہیں دی جائے گی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ووٹنگ ممبران
پڑھیں:
کراچی: 25 ہزار تنخواہ 5 ہزار کا چالان، شہریوں پر بھاری جرمانوں کے نفسیاتی اثرات پڑنے لگے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر حکومت سندھ کی جانب سے عائد کیے گئے بھاری جرمانوں نے عام اور متوسط طبقے کو شدید مالی دباؤ اور ذہنی اذیت میں ڈال دیا ہے۔
نئے نافذ کیے گئے قوانین کے مطابق موٹر سائیکل کے لیے تیز رفتاری کا سب سے چھوٹا جرمانہ 5 ہزار روپے اور غلط سمت گاڑی چلانے کا جرمانہ 25 ہزار روپے تک ہے۔ کار یا جیپ کے لیے بغیر رجسٹریشن کے ڈرائیونگ پر 50 ہزار اور ہیوی ٹریفک وہیکل کے لیے یہی جرمانہ 1 لاکھ روپے تک ہے۔
ان نئے قوانین سے شہر میں کام کرنے والے موٹر سائیکل رائیڈرز سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک رائیڈر نے بتایا کہ ان کی ماہانہ آمدنی صرف 25 ہزار روپے ہے اور کسی نادانستہ خلاف ورزی پر ان کے لیے 5 ہزار روپے کا چالان ادا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ایسے حالات میں وہ موٹر سائیکل چلانا چھوڑنے پر مجبور ہو سکتے ہیں، کیوں کہ بھاری ٹریفک جرمانے کا خوف ذہن پر طاری ہے اور اکثر بائیک رائیڈرز پر ان بھاری جرمانوں پر مشتمل قوانین کے نفسیاتی اثرات پڑ رہے ہیں۔
سماجی رہنماؤں کی جانب سے بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر کے نوجوانوں کی بڑی تعداد، جن کی آمدنی 30 ہزار سے بھی کم ہے، وہ یہ بھاری چالان کیسے ادا کریں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جرمانے کی شرح کو لاگو کرتے وقت شہریوں کی مالی حیثیت اور کراچی میں غربت کی شرح کو مدنظر نہیں رکھا گیا ہے۔