اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 26 نومبر احتجاج کے دوران درج مقدمات میں پی ٹی آئی کے 56 کارکنان کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی ہے۔

نجی ٹی وی کے مطابق انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے 26 نومبر کے احتجاج کے دوران درج مقدمات میں 56 کارکنان کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستوں کا فیصلہ سنایا۔

عدالت نے 5، 5 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض پی ٹی آئی کے 56 کارکنان کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی۔

پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف 26 نومبر کو احتجاج کرنے پر ملزمان کے خلاف تھانہ ترنول اور کوہسار میں مقدمات درج ہیں۔

پس منظر
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے 24 نومبر 2024کو بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا اور 25 نومبر کی شب وہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے

تاہم اگلے روز اسلام آباد میں داخلے کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جھڑپ کے نتیجے میں متعدد افراد، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

26 نومبر کی شب بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب مارچ کے شرکا کو چھوڑ کر ہری پور کے راستے مانسہرہ چلے گئے تھے، مارچ کے شرکا بھی واپس اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔

احتجاج کے بعد وفاقی دارالحکومت اور راولپنڈی کے مختلف تھانوں میں پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق خاتون اول بشریٰ بی بی، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور و دیگر پارٹی رہنماؤں اور سیکڑوں کارکنان کے خلاف دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت متعدد مقدمات درج کیے گئے تھے۔

پی ٹی آئی کے 24 نومبر کے احتجاج اور پرتشدد مظاہروں پر مختلف تھانوں میں مقدمات انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کیے گئے۔

مظاہرین پر سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے، مجمع جمع کرکے شاہراہوں کو بند کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پی ٹی آئی کی ضمانت گئے تھے

پڑھیں:

نالائق عہدیداروں کا ذمے دار کون؟

بانی تحریک انصاف کا ایک ٹوئٹ آیا ہے، انھوں نے کہا ہے کہ پارٹی کے تمام عہدیداروں کو پیغام ہے کہ جس میں دباؤ برداشت کرنے کی قوت نہیں ہے، وہ عہدے سے الگ ہو جائے۔ لہٰذا کم حوصلہ عہدیداران براہ مہربانی خود ہی پیچھے ہٹ جائیں تا کہ ان کی جگہ ہم دلیر اور نظریاتی ورکرز کو آگے لائیں جو قانون اور آئین کی بالا دستی اور حقیقی آزادی کے لیے ڈٹ کر کھڑا ہو سکیں۔

مجھے یہ ٹوئٹ سمجھ نہیں آیا۔ کیونکہ تحریک انصاف میں مطلق العنان ایک شخص کی حکومت ہے۔ وہ بانی پی ٹی آئی خود ہیں۔ جماعت میں کوئی نظام نہیں۔ فیصلہ سازی کے لیے کوئی فورم نہیں۔ عہدیداروں کو نامزد یا منتخب کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ فرد واحد کے آگے سب سر تسلیم خم ہیں۔

وہ دن کو رات کہے تو رات ہے رات کو دن کہے تو دن ہے۔ نہ کوئی سوال ہو سکتا ہے، نہ کوئی جواب ہو سکتا ہے، ان کا حکم آخری حکم ہے۔ وہی عہدے تقسیم کرتے ہیں، وہی نامزدگیاں کرتے ہیں، وہی چاہیں تو اپنی جماعت میں کسی کو فرش سے عرش پر بٹھا دیں، چاہیں تو کسی کو عرش سے فرش پر بٹھا دیں۔  دوست سوال کریں گے کہ باقی سیاسی جماعتوں میں بھی یہی ہے تو اس وقت میں باقی سیاسی جماعتوں کی بات نہیں کر رہابلکہ تحریک انصاف کی بات کر رہا ہوں جو تبدیلی کے نام پر آئی تھی۔

تحریک انصاف میں تمام عہدے بانی تحریک انصاف نے کو د تقسیم کیے ہوئے ہیںاور سب کو خود نامزد کیا ہے، یہ سب ان کی ذاتی چوائس ہیں۔ اس لیے ان کے اچھے اور برے ہونے کے ذمے دار بھی بانی تحریک انصاف ہی ہیں۔ہمیں تو بتایا ہی یہ گیا تھا کہ کپتان کو ٹیم بنانی آتی ہے، وہ سفارش کو نہیں مانتا۔ وہ کمزور ٹیم کے ساتھ بھی میچ جیت لیتا ہے۔

اب کیاہوا ہے؟ کیا یہ ٹوئٹ ہمیں بتا رہا ہے کہ کپتان نے بری ٹیم بنائی ہے، سلیکشن میں غلطی ہوگئی ہے، نکمے کھلاڑی چن لیے ہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ کپتان گلہ کس سے کر رہا ہے؟اس ٹوئٹ کا مقصد کیا ہے؟ کیونکہ ان عہدیداروں کولگانے اور ہٹانے کا اختیار بھی صرف اور صرف کپتان کے پاس ہے۔ اس ٹوئٹ میں مجھے یہ بات بھی مضحکہ خیز لگی کہ ہم ان کی جگہ دلیر اور نظریاتی ورکرز کو آگے لائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ آپ ابھی تک دلیر اور نظریاتی ورکر کو آگے کیوں نہیں لائے؟ انھیںکیوں نظر انداز کیا ہوا ہے۔ کیوں نالائق لوگوں کو عہدے دیے گئے؟ اس کے ذمے دار بھی کپتان خود ہیں۔

اب یہ بھی عجیب بات ہے کہ کپتان چاہتے ہیں کہ ان کے عہدیدار خود ہی خود کو کم حوصلہ قرار دیں اور عہدے سے الگ ہو جائیں۔ کون خود کو کم حوصلہ کہے گا، ہر ایک کے پاس کم یا زیادہ اپنی قربانیوں کی ایک داستان موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کپتان کے معیار سے کم ہے۔

لیکن اس بیچارے نے تو اپنی استطاعت کے مطابق قربانی دی ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ صرف ایک وارننگ ہے۔ سب تیار ہو جاؤ ورنہ بدل دوں گا۔ حالانکہ بدلنے کی بھی کوئی خاص آپشن موجود نہیں۔ وہی لوگ ہیں تحریک انصاف میں کوئی نئے تو آ سکتے نہیں۔ پہلے حسن روف کو ہٹا کر شیخ وقاص اکرم کو لگایا گیا۔ اب انھیں ہٹا کر واپس رؤف حسن کو لگانے کی بات ہو رہی ہے۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ کپتان کے پاس کوئی وسیع آپشن موجود ہیں۔

اس ٹوئٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب میں جیل سے بطور پارٹی سربراہ خود احتجاج کی قیادت کروں گا۔ یہ بھی عجیب بات ہے پہلے بھی وہ خود ہی قیادت کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی جماعت میں کبھی کسی کو اتنا با اختیار بنایا ہی نہیں کہ وہ قیادت کر سکے۔وہ ڈھونڈ کر ڈمی عہدیدار نامزد کرتے ہیں، کمزور لوگوں کو عہدے دیتے ہیں۔ اس لیے سمجھ نہیں آرہی کہ گلہ کس سے کر رہے ہیں۔ وہ جیل سے کیسے قیادت کر سکتے ہیں۔

تحریک شروع کریں گے تو ملاقاتیں بند ہو جائیں گی۔ پھر کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوگا کہ کیا کرنا ہے۔ پہلے بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ پھر بھی ایسا ہی ہوگا۔ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو سمجھ آگئی ہے کہ اگر تحریک انصاف کو بند گلی میں بندکرنا ہے تو ملاقاتیں بند کردیں۔ کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ ساری سیاست بند ہو جاتی ہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتی۔ اگر کوئی فیصلہ کر بھی لے تو اسے غدار کہہ دیا جاتا ہے کہ اس نے کپتان سے پوچھے بغیر فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے آج تک تحریک انصاف کی ناکامیوں کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ کپتان سب کچھ جیل سے کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ ممکن نہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ کپتان جیل میں ڈپریشن میں ہے، مجھے ان کے حالیہ ٹوئٹ سے ناامیدی نظر آرہی ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں سے ناامید ہیں، وہ بار بار تحریک چلانے کی کوشش کر چکے ہیں مگر ناکام ہوئے ہیں۔ اب پھر کوشش کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن کوئی گیم پلان سمجھ نہیں آرہا۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کو بڑا عہدہ مل گیا
  • عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے پیٹرن انچیف بن گئے
  • نالائق عہدیداروں کا ذمے دار کون؟
  • کیا جیل سے چلائی گئی تحریک پی ٹی آئی کو دوبارہ طاقت دے گی؟
  • پی ٹی آئی کے 271 کارکنوں پر مقدمہ درج کرلیاگیا
  • پی پی رہنما شہریار شر پر حملہ کیس: گرفتار انسپکٹر عبدالشکور کی ضمانت منظور
  • غیرقانونی اسلحے کا کیس:ملزم ارمغان کے والد کامران قریشی کی ضمانت منظور
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس: ارمغان کے والد کامران قریشی کی ضمانت منظور
  • مصطفی عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے والد کی ضمانت منظور
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے والد کی ضمانت منظور