Daily Ausaf:
2025-09-18@12:02:38 GMT

غیر مہذب وائٹ ہائوس اور امریکی میڈیا کی گرائوٹ

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

امریکہ جو کبھی دنیا بھر میں اپنی سیاسی پختگی، اعلیٰ اخلاقی معیارات اور میڈیا کی آزادی کے لئے مشہور تھا آج اپنی ہی بنائی ہوئی اقدار کو پامال کرتا نظر آ رہا ہے۔ یوکرینی صدر ولودومیر زیلنسکی کے وائٹ ہائوس کے دورے کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، نائب صدر اور امریکی میڈیا نے جو رویہ اختیار کیا وہ نہ صرف امریکہ کی سیاسی گراوٹ کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس بات کا بھی پتہ دیتا ہے کہ امریکی میڈیا کس قدر اخلاقی زوال کا شکار ہو چکا ہے۔یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی جو اپنے ملک کی روس کے خلاف جنگ میں قیادت کر رہے ہیں کو وائٹ ہائوس میں جس طرح کے سلوک کا سامنا کرنا پڑا وہ کسی بھی بین الاقوامی سفارتی معیار سے گرا ہوا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز نہ صرف تحقیر آمیز تھا بلکہ ان کے الفاظ غرور اور تکبر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ایک کمزور ملک کے سربراہ سے نہیں بلکہ کسی معمولی ماتحت سے مخاطب ہوں۔’’ہم نے آپ کے ملک پر 350 ارب ڈالر خرچ کئے ہیں، آپ کے تمام کارڈز ختم ہو چکے ہیں۔ آپ اس پوزیشن میں نہیں کہ ہمیں بتائیں کہ امریکا کو کیا کرنا ہے۔ آپ امریکا کے بغیر کچھ بھی نہیں ہیں۔ ‘‘ یہ جملے نہ صرف یوکرین کے صدر کی توہین تھے بلکہ ایک ایسے ملک کی بے عزتی تھے جو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ٹرمپ کا رویہ کسی مغرور بادشاہ جیسا تھاجو اپنی طاقت کے نشے میں دوسروں کی تذلیل کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ خود کو خدا سمجھ رہے ہوں، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے:
وہ خدا بن کے بیٹھا تھا تختِ ستم پر
میں فریاد لے کر گیا بھی تو کس پر؟
ٹرمپ کے علاوہ نائب صدر جے ڈی وینس کا رویہ بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ انہوں نے زیلنسکی کے ساتھ نہایت سخت اور بے رخی سے بات چیت کی۔ ان کے الفاظ اور باڈی لینگویج دونوں ہی یوکرینی صدر کے لئے کسی عزت و احترام کے جذبات سے خالی تھے۔اگر صرف سیاسی قیادت ہی گراوٹ کا شکار ہوتی تو شائد یہ اتنا تشویش ناک نہ ہوتا لیکن امریکی میڈیا نے بھی اس موقع پر اپنی بے حسی اور غیر پیشہ ورانہ رویے کا مظاہرہ کیا۔ ٹرمپ کے حمایتی صحافی برین گلین نے یوکرینی صدر سے انتہائی غیر ضروری سوال کیا۔ ’’آپ نے کوئی ڈھنگ کا سوٹ (تھری پیس یا پینٹ کوٹ)کیوں نہیں پہنا؟ آپ امریکا کے سب سے بڑے دفتر (صدارتی آفس) میں آئے ہیں اور آپ نے ڈھنگ کا سوٹ پہننا مناسب نہ سمجھا؟‘‘ یہ سوال نہ صرف غیر متعلق تھا بلکہ یوکرین کے صدر کی توہین کا ایک اور موقع تھا۔ زیلنسکی جو ایک جنگ زدہ ملک کے صدر ہیں نے اس سوال کا جواب بڑے تحمل سے دیا۔’’میں اس وقت سوٹ پہنوں گا جب جنگ ختم ہو جائے گی۔ شاید جو میں نے پہنا ہوا ہے اسی طرح کا، شاید جو آپ نے پہن رکھا ہے اس طرح کا یا شاید اس سے بھی بہتر، شاید سستا، میں نہیں جانتا دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔‘‘ یہ جواب زیلنسکی کی ذہانت اور حاضر جوابی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ سوال ان کی توہین کرنے کے لیے کیا گیا ہے مگر انہوں نے سفارتی سلیقے سے نہ صرف اس کی شدت کو کم کیا بلکہ امریکی میڈیا کی غیر سنجیدگی پر بھی طنز کیا۔ لیکن امریکی میڈیا نے اس موقع کو بھی ایک شو میں تبدیل کر دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صحافت کے بنیادی اصولوں سے کس قدر دور ہو چکا ہے۔امریکی میڈیا نے یوکرینی صدر کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا وہ اس کے دوہرے معیار کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ جب کوئی مغربی لیڈر کسی ترقی پذیر ملک میں جاتا ہے تو اسے ’’مساوات اور سفارتی آداب‘‘کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن جب کوئی غیر مغربی لیڈر ان کے ہاں آتا ہے تو اس کے لباس، انداز اور حیثیت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ جب امریکہ کسی ملک کو امداد دیتا ہے تو اسے احسان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن جب وہی ملک کچھ مطالبہ کرے تو اسے کمتر سمجھا جاتا ہے۔ یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی میڈیا اب ایک آزاد اور غیر جانبدار ادارہ نہیں رہا بلکہ وہ سیاسی ایجنڈے اور طاقت کے مراکز کے تابع ہو چکا ہے۔امریکہ کی یہ سیاسی اور اخلاقی گراوٹ صرف اس کے داخلی معاملات تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے بین الاقوامی تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔
یوکرین جیسے ملک جو روس جیسی طاقت کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے کو امریکہ کی طرف سے جس طرح کے سلوک کا سامنا کرنا پڑا وہ دنیا بھر میں امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف امریکہ کے اتحادیوں کے اعتماد کو کمزور کرتا ہے بلکہ اس بات کا بھی اشارہ دیتا ہے کہ امریکہ اب ایک قابل اعتماد اور مستحکم اتحادی نہیں رہا۔امریکی قیادت کا یہ رویہ نیا نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایسا ہی برتا کیا ہے۔ افغانستان میں اپنے مقاصد پورے کرنے کے بعد وہ طالبان سے معاہدہ کرکے نکل گیا اور افغان حکومت کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ عراق میں ’’جمہوریت‘‘کے نام پر تباہی مچائی لیکن جب وقت آیا تو وہاں سے بھی نکل گیا، بغیر یہ دیکھے کہ اس کی جنگ سے وہاں کیا حالات پیدا ہوئے۔ ویت نام سے لے کر مشرق وسطیٰ تک امریکہ نے ہمیشہ اپنی طاقت کے نشے میں دوسروں کی تذلیل کی مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایسا غرور کبھی بھی دیرپا نہیں رہتا۔’’
تخت والے سنبھل کے بیٹھو یہاں
وقت انصاف کرتا رہا ہے سدا!
وائٹ ہائوس میں ہونے والی یہ بے عزتی صرف گفتگو تک محدود نہیں رہی، بلکہ جب ملاقات ختم ہوئی تو یوکرینی صدر کو محض رسمی جملوں کے ساتھ بددلی سے رخصت کر دیا گیا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے انہیں زبردستی برداشت کیا گیا ہو اور اب جلد از جلد نکال دینا ہی بہتر سمجھا گیا ہو۔ زیلنسکی کو رسمی مصافحے کے بغیر ہی دروازے تک پہنچایا گیا اور امریکی صدر نے ایک مغرور مسکراہٹ کے ساتھ انہیں الوداع کہہ دیا۔ وہ لمحہ دنیا بھر کے میڈیا کے کیمروں میں قید ہو گیا جہاں ایک ملک کا سربراہ بے بسی کے عالم میں وہاں سے روانہ ہو رہا تھا اور دوسرا طاقت کے نشے میں چور کھڑا تھا۔یہ واقعہ امریکہ کی سفارتی روایات پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔ اگرچہ امریکہ ہمیشہ خود کو عالمی قیادت کا دعویدار کہتا ہے مگر اس کا اپنے اتحادیوں کے ساتھ یہ رویہ اس کے اخلاقی دیوالیہ پن کو واضح کرتا ہے۔ طاقت کے نشے میں چور حکمران یہ بھول جاتے ہیں کہ عزت دینے سے ہی عزت ملتی ہے اور تاریخ ایسے مغرور حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ بقول شاعر:
یہ جو تخت و تاج کے کھیل ہیں
کبھی ہم کبھی تم، کبھی اور ہیں!
امریکی صدر ، نائب صدر اور وائٹ ہائوس کے عملے سمیت امریکی میڈیا کی اس بدتمیزی پر دنیا بھر سے امریکہ کے خلاف شدید رد عمل آ رہا ہے۔ برطانیہ، جرمنی، کینیڈا سمیت یورپی ممالک نے یوکرینی صدر سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔امریکہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ طاقت کا استعمال اور دوسروں کو نیچا دکھانا کبھی بھی دیرپا اثرات مرتب نہیں کرتا۔ اصل طاقت وہ ہے جو دوسروں کو ساتھ لے کر چلتی ہے، ان کی عزت کرتی ہے، اور ان کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرتی ہے۔ اگر امریکہ اپنی گراوٹ کو روکنا چاہتا ہے تو اسے اپنے اقدار اور اصولوں کی طرف واپس لوٹنا ہوگا۔ ورنہ تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: امریکی میڈیا نے طاقت کے نشے میں یوکرینی صدر وائٹ ہائوس امریکی صدر امریکہ کی میڈیا کی دنیا بھر ہے تو اس کرتا ہے رہا تھا جاتا ہے کے ساتھ تو اسے رہا ہے کے صدر

پڑھیں:

دوحا میں اسرائیلی حملے سے 50 منٹ قبل ٹرمپ باخبر تھے، امریکی میڈیا کا انکشاف

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکی میڈیا کی تازہ رپورٹ نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحا پر اسرائیلی میزائل حملے کی منصوبہ بندی اور اطلاع محض 50 منٹ پہلے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک پہنچ چکی تھی، لیکن صدر نے اس موقع پر کوئی عملی قدم اٹھانے کے بجائے خاموشی اختیار کی۔

اس انکشاف نے نہ صرف امریکا کے کردار پر سوالات اٹھا دیے ہیں بلکہ اس بات کو مزید اجاگر کیا ہے کہ واشنگٹن کے ناراضی بھرے بیانات محض دنیا کو دکھانے کے لیے تھے، حقیقت میں حملے کو روکنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی۔

امریکی ذرائع ابلاغ نے 3 اعلیٰ اسرائیلی حکام کے حوالے سے بتایا کہ تل ابیب کی قیادت نے حماس رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے کیے جانے والے حملے کی خبر براہِ راست صدر ٹرمپ تک پہنچائی تھی۔ پہلے یہ اطلاع سیاسی سطح پر صدر کو دی گئی اور پھر فوجی چینلز کے ذریعے تفصیلات شیئر کی گئیں۔

اسرائیلی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکا سخت مخالفت کرتا تو اسرائیل دوحا پر حملے کا فیصلہ واپس بھی لے سکتا تھا، لیکن چونکہ واشنگٹن نے کوئی مزاحمت نہ کی، اس لیے اسرائیلی قیادت نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنا دیا۔

یہ بھی بتایا گیا کہ امریکا نے دنیا کے سامنے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ حملے پر خوش نہیں تھا۔ وائٹ ہاؤس نے بعد ازاں یہ موقف اختیار کیا کہ جب اسرائیلی میزائل فضا میں داغے جا چکے تھے تب اطلاع موصول ہوئی، اس لیے صدر ٹرمپ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا، لیکن میڈیا کے انکشافات نے اس وضاحت کو مشکوک بنا دیا ہے، کیونکہ اگر صدر واقعی 50 منٹ پہلے ہی آگاہ ہو چکے تھے تو ان کے پاس اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے کافی وقت موجود تھا۔

یاد رہے کہ 9 ستمبر کو دوحا میں ہونے والے میزائل حملے میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس پر عالمی سطح پر شدید ردِعمل سامنے آیا۔

عرب ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس حملے کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور اسرائیل کو قابض قوت قرار دیتے ہوئے امریکی کردار کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ فلسطینی عوام پہلے ہی اسرائیلی جارحیت کا شکار ہیں، ایسے میں قطر جیسے ملک پر حملے نے خطے کو مزید غیر مستحکم کرنے کا تاثر پیدا کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چین اور امریکہ کے اقتصادی اور تجارتی مذاکرات کے نتائج مشکل سے حاصل ہوئے ہیں، چینی میڈیا
  • اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، خواجہ آصف
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز
  • ٹک ٹاک پر معاہدہ طے پا گیا، امریکی صدر کی برطانیہ روانگی سے قبل میڈیا گفتگو
  • قطر ہمارا اتحادی ملک ہے، اسرائیل دوبارہ اس پر حملہ نہیں کریگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • دوحا میں اسرائیلی حملے سے 50 منٹ قبل ٹرمپ باخبر تھے، امریکی میڈیا کا انکشاف
  • امریکی انخلا ایک دھوکہ
  • دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف