’نو ادر لینڈ‘، فلسطینی اور اسرائیلی ڈائرکٹرز کی مشترکہ فلم نے کونسا ایوارڈ جیت لیا؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
’نو ادر لینڈ‘ دستاویزی فلم جو کہ فلسطینیوں پر ڈھائے گئے اسرائیلی مظالم پر بنائی گئی ہے نے’آسکر‘ ایوارڈ جیت لیا ہے۔
اسرائیلی صحافی یووال ابراہم اورفلسطینی شریم ہدایت کار باسل عدرا کے درمیان تعاون سے بنائی جانے والی اس دستاویزی فلم نے 5 فلموں کو شکست دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اداکارہ ماورا حسین 3 بھارتی فلمیں چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوئیں؟
یہ فلم 2019 سے 2023 کے دوران تیار کی گئی، اور اس میں باسل عدرا کی کہانی دکھائی گئی ہے جو اپنے شہر کی تباہی کو دستاویزی شکل دینے کے لیے گرفتار ہونے کا خطرہ مول لیتا ہے۔
جب ایوارڈ وصول کیا گیا، تو عدرا نے کہا کہ ’نو ادر لینڈ‘ اس کرب کو ظاہر کرتا ہے جو فلسطینی دہائیوں سے جھیل رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ 2 ماہ قبل وہ والد بنے اور دعا ہے کہ ان کی بیٹی وہ زندگی نہ گزارے جو آج وہ گزار رہے ہیں۔ جہاں ہر روز جبری بے دخلی، گھروں کی مسماری اور ظلم کا خوف ہو۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ ’ظلم کو روکنے اور فلسطینی عوام کی نسل کشی کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے‘۔
یہ بھی پڑھیں: چینی فلم’نیژا 2′ اینیمیٹڈ فلم باکس آفس میں پہلے نمبر پر
اسرائیلی صحافی یووال ابراہم نے کہا کہ انہوں نے یہ فلم اس لیے بنائی کیونکہ ان کی آوازیں مل کر زیادہ طاقتور تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دونوں ایک ہی زمین پر بستے ہیں لیکن دونوں کی زندگیاں بہت مختلف ہیں۔ کیونکہ وہ پر امن زندگی گزار رہے ہیں جبکہ ان کے فلسطینی بھائی فوجی عتاب میں رہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ اور اس کے لوگوں کی وحشیانہ تباہی کا خاتمہ ہونا چاہیے جبکہ اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کیا جانا چاہیے۔ ابراہم نے اسرائیلی حکومت پر بھی تنقید کی جو عدرا کی زندگی کو تباہ کر رہی ہے۔
یووال ابراہم نے مزید کہا کہ ’کیا آپ نہیں دیکھ سکتے کہ ہم آپس میں جڑے ہوئے ہیں، میری قوم تب ہی محفوظ ہے جب باسل عدرا کی قوم آزاد اور محفوظ ہو۔ اس کا دوسرا راستہ بھی ہے، ہمیں ایک ایسا حل تلاش کرنا ہوگا جہاں برابری ہو، اور اس میں ابھی دیر نہیں ہوئی‘۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انہوں نے اور اس کہا کہ
پڑھیں:
اسرائیلی فوج کی فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک کرنے پر 2 اعلیٰ افسران گرفتار
اسرائیلی فوجیوں کی فلسطینی قیدی کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور بہیمانہ تشدد کی ویڈیو لیک کرنے کے اسکینڈل پر چیف پراسیکیوٹر اور ملٹری لا آفیسر کو حراست میں لے لیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج کے چیف پراسیکیوٹر کرنل ماتن سولوموش پر الزام تھا کہ انھوں نے فوجی قانونی سربراہ میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی کا کردار چھپانے میں مدد کی تھی۔
میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی نے فلسطینی قیدیوں پر اسرائیلی فوجیوں کے تشدد کی سی سی ٹی وی فوٹیجز کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی اور اپنے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے عہدے سے استعفیٰ بھی دیدیا تھا۔
یہ ویڈیو اسرائیل کے سدے تیمن (Sde Teiman) کے فوجی حراستی مرکز کی تھی جس میں اہلکاروں کو چند قیدیوں پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو میڈیا کو فراہم کی گئی تھی۔
اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ چیف پراسیکیوٹر سولوموش کو گزشتہ رات مستعفی ہونے والی تومر یروشلمی کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔
عدالت میں پولیس کے نمائندے نے بتایا کہ چیف پراسیکیوٹر سولوموش کو پہلے سے علم تھا کہ ویڈیو لیک کرنے میں ملٹری لا آفیسر تومر یروشلمی ملوث ہیں لیکن انھوں نے اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی۔
جس پر چیف پراسیکیوٹر سولوموش کے وکیل ناتی سمخونی نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل کو اس بات کا علم اپنا بیان جمع کرانے کے کافی بعد میں ہوا تھا۔
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ سولوموش اُس ٹیم کا حصہ بھی نہیں تھے جو تومر یروشلمی نے واقعے کی ابتدائی تحقیقات کے لیے بنائی تھی جس میں بریگیڈیئر جنرل گل اسائل اور ڈپٹی اسٹیٹ پراسیکیوٹر آلون آلٹمین شامل تھے۔
اُن کے بقول اس ٹیم نے 25 ستمبر کو اسرائیلی سپریم کورٹ میں ویڈیو لیک سے متعلق رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں تومر یروشلمی کا نام شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اس وقت سولوموش اپنی مدتِ ملازمت مکمل کر کے عہدے سے جا چکے تھے۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ اگر سولوموش کو رہا کیا گیا تو وہ جاری تحقیقات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ عدالت نے ان کی حراست بدھ دوپہر تک بڑھا دی۔
اسی طرح، پولیس نے تومر یروشلمی کی حراست میں پانچ دن کی توسیع کی درخواست کی تھی، تاہم تل ابیب مجسٹریٹ کورٹ کی جج شیلی کوٹین نے اسے تین دن تک محدود کر دیا۔
تومر یروشلمی پر فراڈ، اعتماد شکنی، شواہد میں رکاوٹ ڈالنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں۔
تومر یروشلمی کے وکیل ڈوری کلاگسبلاد نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ان کی موکلہ بے گناہ ہیں اور پولیس کے پاس پہلے ہی دیگر مشتبہ افراد سے حاصل کردہ کافی شواہد موجود ہیں۔
پس منظر:
یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب اسرائیلی میڈیا میں سدے تیمن فوجی حراستی مرکز کی وہ ویڈیو لیک ہوئی جس میں مبینہ طور پر اسرائیلی فوجی غزہ کے قیدی کو تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔
ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد اسرائیل میں فوجی طرزِ عمل پر سخت تنقید ہوئی، اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے فوجی زیادتیوں کا ثبوت قرار دیا۔
تومر یروشلمی، جو اُس وقت فوجی ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر فائز تھیں، نے بعد ازاں اعتراف کیا کہ ویڈیو انھوں نے خود لیک کی تاکہ فوجی زیادتیوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔
جس کے بعد تومر یروشلمی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اب انھیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔
پولیس اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا فوج کے دیگر اعلیٰ افسران، خصوصاً سولوموش، نے اس عمل کو چھپانے یا کم کرنے کی کوشش تو نہیں کی۔