شہید کا لخت جگر بھی شہید (پہلا حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
شہید اسلام مولانا سمیع الحق رحمہ اللہ کے جانشین میرے عزیز و محترم بھائی اور دوست مولانا حامد الحق حقانی کی شہادت کی اطلاع نے ہلاکے رکھ دیا ہے، ایک لمحے کے لیے بھی اس خبر کی صداقت پر یقین نہیں ہورہا، ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے یہ خود کش حملہ مولانا حامد الحق حقانی پر نہیں میرے سگے بھائی یا میرے جگر گوشوں پر ہوا ہے۔
مولانا حامد الحق حقانی بہت اعلیٰ و ارفع نسبتوں کے امین تھے، وہ شیخ الحدیث مولانا عبد الحقؒ کے پوتے اور مولانا سمیع الحق شہید کے بیٹے تھے۔ ان کا جامعہ دارالعلوم حقانیہ پاکستان کی سب سے بڑی اور بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی یونیورسٹی ہے جسے دارالعلوم دیوبند ثانی بھی کہا جاتا ہے، اس ادارے سے لاکھوں علماء فیوض و برکات اپنی جھولیوں میں سمیٹنے کے بعد دنیا کے کونے کونے میں بانٹ رہے ہیں، مولانا حامد الحق حقانی کی المناک شہادت پر سبھی دکھی ہیں، سب کی آنکھیں نمناک ہیں، سب کے سب غمزدہ ہیں مگر میرا درد تھوڑا سا مختلف ہے کیونکہ میری پوری کائنات میرے مرشد و مربی باباجان رحمہ اللہ کے گرد گھومتی ہے اور ان سے جڑی ہر نسبت میرے لیے جان سے عزیز ہے اور انشاء اللہ تادم مرگ رہے گی۔
علماء وشہداء کے اس گھرانے کے جد امجد ولی کامل شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ کے ساتھ میرے باباجانؒ کا ایسا روحانی قلبی تعلق تھا کہ ان کی زندگی میںان کی ملاقاتوں اور مولانا عبدالحقؒ کی رحلت کے بعد باباجانؒ جس انداز میں ان کو یاد کرتے تھے دونوں پر رشک آتا تھا۔ تادم مرگ وہ کئی تحاریک میں ایک ساتھ مل کر جدوجہد کرتے رہے۔
مولانا عبدالحقؒ کی رحلت کے بعد شہید اسلام مولانا سمیع الحق شہید صاحب کے ساتھ میرے باباجان رحمہ کے اس بے تکلف اور قلبی تعلق کا خاکہ کھینچنے سے میرا قلم قاصر ہے۔
مولانا سمیع الحق صاحب کی شہادت پر میں نے اپنے باباجانؒ کو جتنا غمگین اور نڈھال پایا یہ صرف میرے بڑے بھائی مولانا فضل اللہ کلیمؒ کی وفات یا جب 11/9 کے امریکا بدمست ہاتھی کی طرح امارت اسلامیہ افغانستان پر چڑھ دوڑا اور باباجانؒ افعانستان سے واپس پہنچے ان دو مواقع کے بعد تیسرا موقع مولانا سمیع الحق کی شہادت پر دلگیر پاپا۔ مولانا سمیع الحقؒ کی شہادت کے بعد مولانا حامد الحق حقانی نے باباجانؒ کو اپنے روحانی باپ کی طرح عزت دی اور ہر موقع پر حاضری دی۔ پھر جب باباجانؒ رحلت کر گئے تو لاکھوں عقیدت مندوں کے درمیان ہزاروں اکابرین و بزرگان ایسے تھے جن کی خواہش تھی اور ہماری بھی خواہش تھی کہ مظہرالعلوم سے جنازگاہ تک ایمبولینس میں باباجانؒ کے ساتھ بیٹھ جائیں مگر یہ سعادت بھی چند افراد کے علاوہ مولانا حامد الحق حقانی کو ملی جو میرے باباجانؒ کے ساتھ ان کی قلبی تعلق پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لیے کافی ہے اور باباجانؒ کی رحلت کے بعد مولانا حامد الحق حقانیؒ مجھ سے ایسے جڑ گئے کہ مجھے یقین نہیں آتا۔
میری ان سے طویل اور خوشگوار ملاقات امارت اسلامیہ افغانستان کے دوبارہ فتح مبین اور افعانستان سے نیٹو فورسز کے بھاگ جانے کے بعد لاہور پریس کلب میں ہوئی جس کے بعد وہ پورے وفد کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے اور مجھے ان کی خدمت کی سعادت حاصل کرنے کا موقع ملا اس طویل نشت میں کئی بار باباجانؒ اور شہید اسلام مولانا سمیع الحقؒ کا ذکرخیر کچھ اس طرح آیا کہ افعانستان میں امارت اسلامیہ کی فتح پر دونوں کی روح مسرور ہوں گی۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ میری مولانا حامد الحق کے بڑے صاحبزادے سے پہلی بار ملاقات ہوئی اور اس طرح مجھے ایک تابعدار اور دل موہ لینا والا بھتیجا مولانا عبدالحق ثانی کی شکل میں ملا اور اس دن کے بعد تقریباً روازنہ کی بنیاد پر میرا بھتیجا میرے ساتھ رابطے میں رہا۔
اللہ رب العزت مولانا حامد الحق حقانی کے جانشین مولانا عبدالحق ثانی کو کامل روحانی جسمانی صحت کے ساتھ اپنے دادا مولانا عبدالحقؒ کی طرح لمبی عمر اور نافع علم اور علم سے نوازیں، انشاء اللہ ان کے ذریعے میں یہ رشتہ اور تعلق اپنی اولاد محمد ابوبکر اور محمد عمر کے ساتھ اپنے خاندان کی آیندہ نسلوں کے لیے چھوڑ کر جاؤنگا۔ کیونکہ دونوں خاندانوں کا یہ قلبی اور روحانی تعلق دو چار برس کی بات نہیں بلکہ تین صدیوں پر محیط طویل داستان ہے اور میرے پاس میرے باباجانؒ کی میراث ہے جو میں اپنی اولاد کو وراثت میں چھوڑ کر جاونگا، انشاء اللہ۔
آج میں اپنے باباجانؒ کی طرح کرب و اذیت سے دوچار نڈھال ہوں کیونکہ میں آج اپنے باباجانؒ سے میراث میں ملے مولانا حامد الحق حقانیؒ کی رفاقت سے محروم ہو گیا ہوں۔ وہ دارالعلوم حقانیہ کی جامعہ مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مسجد سے باہر نکلے، مسجد کے سیڑھیوں کے سامنے ان کے گھر کا دروازہ تھا، مسجد سے باہر نکل کر وہ حسب روایت اپنے عقیدت مندوں سے مل رہے تھے، اس دوران کچھ غرباء ومساکین بھی ان سے مدد کی غرض سے ملنے آتے تھے۔
مولانا حامد الحق حقانی انھی میں مشغول تھے کہ ایک بدبخت خود کش بمبار بھکاری کے روپ میں ان سے ملنے آیا، مولانا نے اسے دیکھ کر جیب سے کچھ رقم نکالی اور اسے دینے کے لیے پدرانہ شفقت کے ساتھ ہاتھ آگے بڑھایا، بھکاری کے روپ میں بدبخت خودکش بمبار نے وہ رقم مولانا سے وصول کی اور ان کا ہاتھ چوما، ان سے گلے ملا اور اسی دوران اس نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا کر جہنم واصل ہوا اور مولانا حامد الحق اپنے سینے پر تمغہ شہادت سجا کر اپنے پروردگار کے دربار میں پیش ہوئے۔ عینی شاہدین کے مطابق اگر خود کش بمبار تین منزلہ مسجد کے اندر خود کو دھماکے سے اڑاتا تو جانی نقصان کہیں گنا بڑھ جاتا۔
(جاری ہے)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مولانا حامد الحق حقانی مولانا سمیع الحق مولانا عبدالحق کی شہادت کے ساتھ اور اس کی طرح کے بعد کے لیے
پڑھیں:
مالدیپ نئی نسل کیلئے تمباکو نوشی پر مکمل پابندی لگانے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا
مالدیپ نے تمباکو نوشی کے خلاف ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے نئی نسل کے لیے تمباکو کے استعمال پر مستقل پابندی نافذ کر دی، یوں وہ دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے آئندہ نسلوں کے لیے سگریٹ نوشی کو قانونی طور پر ممنوع قرار دیا ہے۔
مالدیپ کی وزارتِ صحت کے مطابق نئے قانون کے تحت یکم جنوری 2007 کے بعد پیدا ہونے والے افراد پر زندگی بھر تمباکو مصنوعات کی خرید و فروخت اور استعمال مکمل طور پر ممنوع ہوگا۔
یہ قانون صدر محمد معیزو نے مئی میں منظور کیا تھا، جس کا مقصد تمباکو سے پاک نسل کی تشکیل اور عوامی صحت کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
وزارتِ صحت کے بیان میں کہا گیا کہ یہ پابندی ایک جرات مندانہ اقدام ہے تاکہ نوجوان شہری تمباکو کے مہلک اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔
حکام کے مطابق یہ پالیسی عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے فریم ورک کنونشن آن ٹوبیکو کنٹرول کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔