پنسلوانیا کی آبی گزرگاہ میں ‘میگالوڈن’ گولڈ فش خطرہ کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
پنسلوانیا کی آبی گزرگاہ میں ‘میگالوڈن’ گولڈ فش پائی گئی ہے۔
امریکی فش اینڈ وائلڈ لائف سروس نے پالتو جانور پالنے والوں کو یاد دلایا ہے کہ وہ اپنی گولڈ فش کو آبی گزرگاہوں میں نہ چھوڑیں کیوں کہ پنسلوانیا میں محققین کو بڑے پیمانے پر’میگالوڈن‘ کا پتا چلا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا کی دوسری بڑی گولڈ فِش برطانیہ میں دریافت ہو گئی
یو ایس ایف ڈبلیو ایس کے مطابق ایری کاؤنٹی کے پریسک آئل میں الیکٹرو فشنگ سروے کرنے والے محققین کو بڑی گولڈ فش ملی۔
یو ایس ایف ڈبلیو ایس کا کہنا ہے کہ گولڈ فش مچھلیوں کی ایک انویسو نسل ہے، جو جھیلوں اور آبی گزرگاہوں کو گندی گندگی میں تبدیل کرسکتی ہیں، مقامی مچھلیوں سے کھانا چرا سکتی ہیں اور پانی کے معیار کو بھی خراب کرسکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: انڈس ڈولفن کو مارنے کے جرم میں 5 سال قید اور ڈھائی لاکھ روپے جرمانہ
’گولڈ فش ایک سیزن میں کئی بار اپنی نسل بڑھاتی ہے اور شمالی امریکا کے بیشتر پانیوں میں ان کا کوئی قدرتی شکاری نہیں ہے جس کے باعث ان کی آبادی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا ہے جو دوسری مچھلیوں کا شکار کرسکتی ہیں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا فش اینڈ وائلڈ لائف سروس گولڈ فش یو ایس ایف ڈبلیو ایس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا گولڈ فش گولڈ فش
پڑھیں:
ہیٹی: گینگ وار اور امدادی کٹوتیاں بھوک پھیلنے کا سبب، ڈبلیو ایف پی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کیا ہے کہ ہیٹی کے دارالحکومت پورٹ او پرنس میں جرائم پیشہ مسلح جتھوں کے بڑھتے ہوئے تشدد نے انسانی امداد کی فراہمی کو محدود کر دیا ہے جس کے باعث بڑے پیمانے پر بھوک پھیل رہی ہے۔
ملک مین 'ڈبلیو ایف پی' کی ڈائریکٹر وانجا کاریا نے کہا ہے کہ ہیٹی کو بدترین غذائی بحران کا سامنا ہے جو ادارے کے امدادی پروگراموں کے لیے مالی وسائل کی شدید قلت کے باعث بگڑتا جا رہا ہے۔
Tweet URLانہوں نے بین الاقوامی شراکت داروں سے اپیل کی ہے کہ وہ 'ڈبلیو ایف پی' کو ضروری امدادی وسائل کی فراہمی میں مدد دیں اور ایسے پروگراموں میں سرمایہ کاری کریں جن سے بھوک کی بنیادی وجوہات پر قابو پایا جا سکے۔
(جاری ہے)
'ڈبلیو ایف پی' نے کہا ہے کہ مسلح گروہ اب پورٹ او پرنس کے تقریباً 90 فیصد حصے پر قابض ہیں جس کے نتیجے میں خوراک کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں اور پہلے سے ہی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار لوگوں کو مزید مشکلات کا سامنا ہے جبکہ منڈیوں تک کسانوں کی رسائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
16 ہزار ہلاکتیںادارے کا کہنا ہے کہ 13 لاکھ افراد خوراک اور پناہ کی تلاش میں نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک کے مطابق، جنوری 2022 سے اب تک مسلح جتھوں کے تشدد میں 16,000 سے زیادہ لوگ ہلاک اور تقریباً 7,000 زخمی ہو چکے ہیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کو ہیٹی کی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تشدد دارالحکومت سے نکل کر آس پاس کے علاقوں میں پھیل رہا ہے جس سے ہتھیاروں، منشیات اور انسانوں کی سمگلنگ کے لیے سازگار حالات جنم لے رہے ہیں۔
بڑی تعداد میں بچے بھی مسلح جتھوں کے ہاتھوں جبری بھرتیوں، سمگلنگ اور استحصال کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس صورتحال کے ان کی زندگی اور بحیثیت مجموعی معاشرے پر بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔
خوراک کی قلت'ڈبلیو ایف پی' کو آئندہ 12 ماہ کے دوران ہیٹی کے بحران سے بری طرح متاثرہ خاندانوں تک امداد پہنچانے کے لیے 139 ملین ڈالر درکار ہیں۔ تاہم، امدادی وسائل کی شدید کمی کے باعث ادارے کو بے گھر ہوجانے والوں کے لیے گرم کھانے کی فراہمی معطل کرنے اور غذائی راشن کی مقدار میں نصف حد تک کمی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے جب 'ڈبلیو ایف پی' کے پاس بحر اوقیانوس میں سمندری طوفانوں کے موسم میں ممکنہ آفات کے دوران لوگوں کی مدد کے لیے خوراک کا ذخیرہ موجود نہیں ہے۔
وانجا کاریا کا کہنا ہے کہ ہیٹی کی نصف سے زیادہ آبادی کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ مسائل کے باوجود ادارے نے جنوری 2022 سے اب تک 20 لاکھ سے زیادہ ضرورت مند افراد تک رسائی حاصل کی ہے اور ہیٹی کی حکومت کے تعاون سے سکولوں کے ہزاروں طلبہ کو کھانا فراہم کر رہا ہے۔
ریاستی تشددوولکر ترک نے ہیٹی کی صورتحال پر اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا ہے کہ حکومتی سکیورٹی فورسز امن و امان کی بحالی کے لیے حد سے زیادہ مہلک طاقت کے استعمال کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ رواں سال اب تک ہلاک و زخمی ہونے والوں کی نصف سے زیادہ تعداد سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کا نشانہ بنی۔ ان میں 174 سے زیادہ لوگوں کو مسلح جتھوں سے مبینہ تعلق کی بنا پر ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔
حکومتی فورسز نے دارالحکومت کو مسلح گروہوں سے پاک کرنے کے لیے دھماکہ خیز مواد اور ڈرون حملے بھی استعمال کیے ہیں جبکہ یہ اقدامات بین الاقوامی قانون کی پامالی کے مترادف ہو سکتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، ستمبر کے وسط تک ان حملوں میں کم از کم 559 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔
مسلح جتھوں کی سرکوبیاقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے رواں ہفتے ہیٹی میں مسلح جتھوں کی سرکوبی کے لیے ایک نئی فورس تعینات کرنے کی منظوری دی ہے جس میں 5,000 سے زیادہ مسلح اہلکار شامل ہوں گے۔
اس فورس کا مقصد ان جتھوں کو غیر موثر بنانا اور عوام کی حفاظت کرنا ہے۔تاہم، ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس فورس کے لیے مالی وسائل کہاں سے فراہم کیے جائیں گے اور کون سے ممالک اس کے لیے اپنے اہلکار مہیا کریں گے۔