نئی دہلی (نیوزڈیسک)خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس عمل کو عام طور پر بھارتی مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھانے کے لیے گالی کے طور پراستعمال کیا جاتا ہے، مسلمانوں کو کم محب الوطن ہونے کا طعنہ دینے کے لیے اکثر ’پاکستانی‘ ہونے کا طنز کیا جاتا ہے، جس سے انہیں تکلیف پہنچتی ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ گو کہ یہ عمل گالی یا جرم نہیں لیکن یہ کہنا بھی ’اچھی بات نہیں‘ ہے۔دیکھا جائے تو بھارتی عدالت ٹھیک ہی کہتی ہے، ہندو دائیں بازو کے لیے کسی کو ’پاکستانی‘ کہنے کا مطلب ہے کہ وہ سچے محب وطن نہیں، اور راہول گاندھی کو پاکستانی کہا گیا، لہٰذا سختی سے کہا جائے تو یہ کوئی مذہبی تضحیک نہیں، لیکن پھر بھی یہ نفرت انگیز تقاریر کے مترادف ہے، تاہم بھارتی سپریم کورٹ ایسا نہیں سمجھتی۔

انڈین سپریم کورٹ نے فراخدلی سے کہا کہ یہ ریمارکس ’ناقص‘ تھے، چنانچہ بینچ نے ایک سرکاری ملازم کے خلاف ’پاکستانی‘ اور ’میاں تیان‘ کی اصطلاح استعمال کرنے کے ملزم کے خلاف کیس بند کرنے کا حکم جاری کر دیا، اس فیصلے سے ’گالیوں‘ کے سیلاب کا خطرہ ہے، جو ’ذائقے‘ میں اچھا نہیں ہوگا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے ’ناقص ذائقے‘ اور نفرت انگیز تقاریر کے درمیان غیر ضروری حد کھینچی ہے۔جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس ستیش چندر شرما کے بینچ نے سرکاری ملازم کے خلاف بات کرنے والے ملزم کے کیس کو بند کرتے ہوئے یہ ریمارکس دیے تھے۔

شکایت کنندہ ضلع جھارکھنڈ کے چاس میں واقع سب ڈویژنل دفتر میں رائٹ ٹو انفارمیشن کے لیے اردو مترجم اور قائم مقام کلرک تھا۔اس معاملے میں ملزم ہری نندن سنگھ نے ایڈیشنل کلکٹر سے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت معلومات مانگی تھیں۔

اپیلیٹ اتھارٹی نے شکایت کنندہ (ایک مسلمان) کو ہدایت کی تھی کہ وہ سنگھ کو آر ٹی آئی کے تحت مانگی گئی معلومات ذاتی طور پر فراہم کرے۔شکایت کنندہ کے مطابق جب وہ معلومات دینے سنگھ کے گھر گیا، تو سنگھ نے مبینہ طور پر اس کے مذہب کا حوالہ دے کر اس کے ساتھ بدسلوکی کی۔

عدالتی حکم کے مطابق سنگھ نے مبینہ طور پر اپنے سرکاری فرائض کی انجام دہی کے دوران ان کے خلاف مجرمانہ طاقت کا استعمال کیا، جس کا مقصد انہیں ڈرانا دھمکانا اور سرکاری ملازم کے طور پر اپنے فرائض کی انجام دہی سے روکنا تھا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سپریم کورٹ کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

جہیز اور دلہن کو ملنے والے تحائف سے متعلق سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ جاری

جہیز اور دلہن کو ملنے والے تحائف سے متعلق سپریم کورٹ نے اہم فیصلہ جاری کردیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ دلہن کا جہیز اور تحائف پر حق طلاق کے بعد بھی برقرار رہتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے 7 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا کہ دلہن کو دی گئی تمام اشیا جہیز اور تحائف اس کی مکمل اور غیر مشروط ملکیت ہیں، دلہن کا جہیز اور تحائف کا حق طلاق کے بعد بھی برقرار رہتا ہے۔

سپریم کورٹ  نے کہا کہ شوہر یا رشتہ دار جہیز اور برائیڈل گفٹس پر دعوی نہیں کر سکتے، کوئی تحفہ جو دولہا یا اس کے خاندان کو دیا گیا ہو وہ جہیز تصور نہیں کیا جائے گا، عدالتوں کو صرف ایسی اشیا کی بازیابی کا اختیار ہے جو دلہن کی ذاتی ملکیت ہوں۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ کوئی بھی چیز چاہے وہ دلہن کے خاندان، شوہر یا اس کے خاندان کی طرف سے ہو دلہن کی ملکیت ہوگی، یہ فیصلہ جہیز کی رسم کی حمایت نہیں کرتا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ فیصلے کے مطابق جو املاک دلہن کو دی گئیں ہوں وہ اس کی ملکیت رہیں گی، اسلامی تعلیمات کے مطابق صرف حق مہر لازم ہے۔

سپریم کورٹ  نے کہا کہ جہیز کی معاشرتی روایت اکثر استحصال، دباؤ اور امتیاز کا باعث بنتی ہے، سائلین کی آسانی کیلئے یہ فیصلہ کیو آر کوڈ کیساتھ جاری کیا گیا ہے۔

محمد ساجد نے اہلیہ کو طلاق کے بعد جہیز اور نان نفقہ میں کمی کیلئے اپیل دائر کی، سپریم کورٹ نے اپیل خارج کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی اقدامات کے خلاف اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن کے باہر احتجاجی مظاہرہ
  • سپریم کورٹ نے بیوہ خواتین کے حق میں بڑا فیصلہ جاری کردیا
  • جہیز سے متعلق سپریم کورٹ نے اہم فیصلہ جاری کردیا
  • جہیز اور دلہن کو ملنے والے تحائف سے متعلق سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ جاری
  • بیوائیں تمام شہریوں کی طرح روزگار، وقار، برابری اور خودمختاری کا حق رکھتی ہیں، سپریم کورٹ
  • بھارت میں حقوق کیلیے احتجاج کرنا جرم قرار؛ پولیس کا مسلمانوں کیخلاف کریک ڈاؤن
  • سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے وفاقی اداروں میں سخت تشویش
  • ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • پاکستانی عوام نے بھارتی میڈیا کا پروپیگنڈا مسترد کردیا، ’انڈین فالس فلیگ آپریشن‘ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ