Daily Ausaf:
2025-09-18@16:28:35 GMT

ماہ صیام اور مہنگائی کا طوفان

اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
ایک مزدور یا ملازم پیشہ آدمی زیادہ تعداد یا مقدار میں کوئی چیز خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا، اس کی جیب صرف چند ایک ہی اشیاء کی خریدنے کی استطاعت رکھتی ہے پر وہ بھی اس کو میسر نہیں ہوتی اور بلآخر جھک مار کر وہ بھی بے چارہ بازار میں بیٹھے ظالم دکان داروں کے ہاتھوں چار کی جگہ دو چیزیں لیے گھر کی راہ لیتا ہے۔
ماہِ رمضان میں جہاں برکتیں نازل ہوتی ہیں وہیں ملک کے بڑے شہروں میں تھوک کے حساب سے بھکاری بھی نازل ہو جاتے ہیں، کراچی پر ان کی یلغار قابلِ دید ہوتی ہے۔ بھانت بھانت کے بھکاری نظر آرہے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اس طرح گلے کا ہار بن جاتے ہیں کہ آپ انہیں اتارے نہیں سکتے۔ کوئی دامن پکڑ رہا ہے، کوئی ہاتھ پکڑ کر گھسیٹ رہا ہے تو بچّے ٹانگوں سے لپٹ جاتے ہیں۔ ایک عجیب ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے مگر کچھ دیئے دلائے بغیر جان نہیں چھوٹتی۔ کچھ ایسی ہی حالت چندہ وصول کرنے والوں کی بھی ہوتی ہے، یہ حضرات بھی ماہِ رمضان میں برساتی مینڈکوں کی طرح نکل آتے ہیں اور اپنے پاس ڈپٹی کمشنر سے منظور شدہ ’’چند سرٹیفیکیٹ‘‘ اور رسید بک بھی رکھتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ یتیم خانے کا چندہ، ختمِ قرآن کا چندہ، مسجد کی تعمیر کا چندہ، مدارس کا چندہ وغیرہ وغیرہ۔ یہ لوگ بھی جونک کی طرح چمٹ جاتے ہیں، گھر گھر دروازہ اس طرح کھٹکھٹاتے ہیں جیسے کوئی عزیزِ خاص ملاقات کے لیے آیا ہے۔ آپ باہر نکلتے ہیں تو ماہِ رمضان کا واسطہ دے کر بڑے رقّت آمیز انداز میں چندے کے حصول کا مقصد بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں، ان کے الفاظ کچھ ایسے نپے تلے اور گھیرائو والے ہوتے ہیں کہ سب کچھ جاننے بُوجھنے کے باوجود آپ کو کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑ جاتا ہے۔ ماہ رمضان میں ایک اور مخلوق بھی منظرعام پر آکر اپنے وجود کا بھرپور انداز میں اظہار کرتی ہے اور یہ ہیں سحری میں جگانے والے۔ آج کل سحری کا وقت تقریباً پانچ بج کر چالیس منٹ تک ہے۔ ایک عام روزہ دار سوا چار بجے اٹھ کر اطمینان سے سحری کرسکتا ہے مگر یہ حضرات دو بجے سے سحری کے لیے بیدار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی ڈھول اور کنستر پیٹ رہا ہے، کوئی قوالی گا کر روزہ داروں کو اٹھانے کا فرض انجام دے رہا ہے اور کوئی دروازے پر ڈنڈے برسا کر چلا جاتا ہے۔
اس موقع پر ہمیں ابنِ انشاء مرحوم کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو انہوں نے اپنے کالم میں قلم بند کیا تھا۔ انہی کی زبانی سنیئے۔ ’’میں اس روز رات گئے تک کام کرتا رہا، خیال تھا کہ سحری اور نماز سے فارغ ہوکر سو جائوں گا۔ تقریباً دو بجے کا عمل ہوگا کہ دروازے کے باہر کچھ حرکت اور کھٹ پٹ سی محسوس ہوئی۔ میں باہر نکلا، دیکھا تو ایک شخص میری دیوار کے ساتھ سکڑا سمٹا بیٹھا ہے، میں سمجھا چور ہے لہٰذا کڑک کر پوچھا۔ کون ہے؟ وہ اٹھ کر میرے قریب آیا اور معصوم صورت بنا کر بولا جناب سحری کو جگانے والا ہوں۔ میں نے کہا اس وقت دو بجے ہیں اور تم ابھی سے سحری کے لیے جگانے آگئے ہو۔ کہنے لگا جناب کئی علاقے میری تحویل میں ہیں، اب سے شروع کروں گا تو وقتِ آخر سے کچھ وقت پہلے تمام علاقے نمٹا سکوں گا۔ میں نے کہا تو پھر جائو یہاں کیوں بیٹھے ہو۔ بولا میں انتظار کررہا ہوں کہ آپ سو جائیں تو آپ کو اُٹھا کر جائوں۔‘‘
اس جیسے کئی دلچسپ واقعات اور بھی ہیں اور اللہ کے کرم سے ہر سال کوئی نا کوئی نیا واقع سننے کو مل ہی جاتا ہے اب دیکھنا یہ کہ اس ماہِ صیام ہمیں کیا کیا دیکھتا ہے بقول شخصے کے یہ دور تو ’’سوشل میڈیا‘‘ کا دور ہے اور اس میں ہر کام جدید طرز پر ہی کیا جاتا ہے اور اب بھیک اور چندہ مانگنا بھی ایک فن کی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے کہ ‘‘جدید دور کے جدید تقاضے‘‘ اس کا نقصان صرف اور صرف ان سفید پوش افراد اور اداروں کو ہوتا ہے کہ جو حقیقی حق دار ہوتے ہوئے بھی خاموشی کی بکل مارے اپنی پناہ گاہ میں بیٹھے ہوتے ہیں اور ان کی مدد صرف اللہ رب العزت ہی کرتے ہیں اپنے خاص فضل و کرم سے۔
آپ سب سے بھی یہی استدعا کہ حقیقی حق دار افراد اور اداروں کو ہی اپنی زکوٰۃ، خیرات اور صدقات دینے کی کوشش کریں تاکہ ان تمام سفید پوش اداروں اور افراد کی داد رسی ہو پائے۔
اللہ رب العزت ہم سب کو اس ماہِ صیام کی تمام برکتیں، رحمتیں، مغفرتیں، بخششیں اور اپنی رضا عطا فرمائیں اور ہمیں اس ماہِ صیام کا پوری طرح حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: جاتے ہیں کا چندہ جاتا ہے ہیں اور ہے اور رہا ہے

پڑھیں:

ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری، حالات سے تنگ تقریباً 29لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ گئے

لاہور:

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری اور کاروبار شروع کرنے میں طرح طرح کی ایسی مشکلات کہ اللہ کی پناہ، اگر کسی طریقے سے کاروبار شروع ہو جائے تو درجنوں ادارے تنگ کرنے پہنچ جاتے ہیں جبکہ رہی سہی کسر بجلی اور گیس کی قیمتوں نے پوری کر دی۔

بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم دلانا مشکل اور مہنگا ترین کام، اگر تعلیم مکمل ہو جائے تو اس حساب سے نہ ملازمت اور نہ تنخواہیں، انہی حالات سے تنگ آئے 28 لاکھ 94 ہزار 645 پاکستانی اپنے بہن، بھائی اور والدین سمیت دیگر عزیز و اقارب کو روتے دھوتے ملک چھوڑ کر بیرون ممالک چلے گئے جن میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینیئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاؤنٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔

ایکسپریس نیوز کو محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔ بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔

https://cdn.jwplayer.com/players/GOlYfc9G-jBGrqoj9.html

پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاؤنٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔

باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔

بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔

خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • اگست میں سالانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح 3 فیصداضافہ
  • ملائیشیا: طوفان کے باعث تودے گرنے سے 13 افراد جاں بحق
  • ملائیشیا میں تودے گرنے سے متعدد افراد جاں بحق
  • وزیراعلیٰ سندھ کی آٹے کی قیمت پر کڑی نظر رکھنے اور غیرضروری مہنگائی روکنے کی ہدایت
  • ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری، حالات سے تنگ تقریباً 29لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ گئے
  • ملائیشیا میں طوفانی بارشوں سے تودے گرنے کے نتیجے میں 13 افراد ہلاک
  • شرح سود کو 11فیصد پر برقرار رکھنا مانیٹری پالیسی کا غلط فیصلہ ہے‘ گوہر اعجاز
  • سیلاب مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ‘ سٹیٹ بنک : شرح سود 11فیصدبرقرار
  •  امریکی ریاست یوٹا میں بگولوں سے کئی مکانات تباہ
  • امریکی ریاست میں بگولوں کے باعث کئی مکانات تباہ