دنیا کے سرد مقامات سے کراچی سمیت دیہی سندھ کی مختلف آب گاہوں پرعارضی قیام کرنے والے مہمان پرندوں نے واپسی کے لیے رخت سفرباندھ لیا۔

سائبیریا سمیت دنیا کے سرد ممالک سے خوراک کی تلاش میں نقل مکانی کرنے والے مہمان پرندوں کی واپسی کا سفرشروع ہوگیا، پرندوں کےغول کے غول کی انتہائی منظم اندازمیں واپسی کے مناظرشہر کی فضاؤں میں اکثروبیشتردکھائی دینے لگے ہیں۔

واضح رہے کہ موسم سرما کے آغاز پرسائبیریا سمیت دنیا کے سردترین مقامات سے مہمان پرندوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، یہ مہمان پرندے انڈس فلائی وے زون کے راستے ہزاروں میل کا سفرطے کرکے کراچی سمیت سندھ بھر کی آب گاہوں کا رخ کرتے ہیں۔

ویڈیو بشکریہ جواد میمن

ہرسال نومبر کے مہینے سے ان کی آمد کا سلسلہ شروع ہوتا ہے،4ماہ قیام کے بعد مارچ کے مہینے میں یہ پرندے واپس اپنے اصل مسکن کی جانب رخت سفرباندھتے ہیں۔

ان مہمان پرندوں میں پانی اورخشکی دونوں اقسام کے پرندے شامل ہوتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پرندے اس وقت سردعلاقوں سے ہجرت کرتے ہیں جب شدید سردی اورمسلسل برفباری کی وجہ سے ان کی خوراک پر برف کی گہری تہہ جم جاتی ہے، تب یہ خوراک کی تلاش سردی کے لحاط سے قدرے معتدل ممالک کا رخ کرتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

بھوک سے غزہ کے مکین چلتی پھرتی لاشیں، لازارینی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 جولائی 2025ء) فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ غزہ کے لوگ زندہ ہیں نہ مردہ بلکہ وہ چلتی پھرتی لاشیں بنتے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جب بچوں میں غذائی قلت بڑھ جائے، اس پر قابو پانے کے طریقے ناکام ہو جائیں اور خوراک و طبی نگہداشت تک رسائی ختم ہو جائے تو قحط خاموشی سے اپنے پنجے گاڑ لیتا ہے۔

غزہ میں ایسی ہی صورتحال جنم لے چکی ہے جہاں بچوں اور بڑوں سبھی کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ Tweet URL

انہوں نے بتایا ہے کہ علاقے میں 20 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں اور یہ تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جبکہ انسانی امداد کی فراہمی کو کڑی پابندیوں اور مسائل کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

بھوک سے نڈھال اور کمزور بچوں کو ہنگامی بنیاد پر علاج کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے درکار وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ غزہ کو تقریباً دو سال سے متواتر بمباری کا سامنا ہے جس میں ہزاروں لوگ ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں لیکن اب بھوک بھی اسی قدر خوفناک قاتل بن چکی ہے۔

جو لوگ گولیوں اور بموں سے بچتے آئے ہیں انہیں بھوک سے ہلاکت کا سنگین خطرہ ہے۔بھوک سے 100 ہلاکتیں

اطلاعات کے مطابق، غزہ میں اب تک کم از کم 100 لوگ بھوک سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ 'ڈبلیو ایچ او' نے غذائی قلت کے نتیجے میں پانچ سال سے کم عمر کے کم از کم 21 بچوں کی ہلاکتوں کے بارے میں بتایا ہے۔

مارچ کے اوائل اور مئی کے وسط تک 80 یوم میں غزہ ہر طرح کی امداد سے محروم رہا جس کے باعث علاقے کی آبادی قحط کے دھانے پر پہنچ گئی ہے۔

اگرچہ مئی میں امداد کی فراہمی کسی حد تک بحال ہو گئی تھی لیکن اس کی مقدار ضروریات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ علاقے میں امدادی خوراک کی وقفوں سے فراہمی جاری ہے لیکن یہ 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی بقا کے لیے کافی نہیں۔

خوراک کے لیے جان کا خطرہ

'ڈبلیو ایچ او' کے سربراہ نے بتایا ہے کہ 27 مئی اور 21 جولائی کے درمیان 1,000 سے زیادہ لوگ خوراک کے حصول کی کوشش میں فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک ہو چکے ہیں۔

ان میں بیشتر ہلاکتیں امریکہ اور اسرائیل کے زیرانتظام غزہ امدادی فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے مراکز پر ہوئیں جس کے بارے میں اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ خوراک کی تقسیم کا یہ اقدام بین الاقوامی امدادی قانون کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

والدین بتاتے ہیں کہ ان کے بچے بھوک سے بلکتے سو جاتے ہیں۔ خوراک تقسیم کرنے کے مراکز پر لوگوں کو جان کا خطرہ رہتا ہے۔

ہسپتال بھی حملوں سے محفوظ نہیں رہے جنہیں متواتر بمباری کا سامنا ہے جبکہ بیشتر طبی مراکز غیرفعال ہو چکے ہیں۔

سوموار کو اسرائیل کی فوج 'ڈبلیو ایچ او' کی عمارت میں داخل ہو گئی جہاں مرد عملے کو برہنہ کر کے ان کی تلاشی لی گئی جبکہ خواتین اور بچوں کو وہاں سے پیدل انخلا پر مجبور کیا گیا۔ ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہےکہ ان حالات کے باوجود اقوام متحدہ کے ادارے غزہ میں رہ کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

امدادی نظام کا انہدام

فلپ لازارینی نے بتایا ہے کہ غزہ میں امداد کی قلت عام شہریوں کے علاوہ امدادی کارکنوں کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ 'انروا' کے کارکن روزانہ معمولی مقدار میں دال پر گزارا کر رہے ہیں اور ان میں بہت سے لوگ کام کے دوران بھوک سے نڈھال اور بے ہوش ہو جاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کی نگہداشت کرنے والوں کو بھی کھانا میسر نہ ہو تو اس کا مطلب پورے امدادی نظام کا انہدام ہے۔

'انروا' کے 6,000 ٹرک خوراک اور طبی سازوسامان لے کر اردن اور مصر میں تیار کھڑے ہیں جنہیں غزہ میں داخلے کی اجازت کا انتظار ہے۔ موجودہ حالات میں لوگوں کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے اور زندگیوں کو تحفظ دینے کے لیے بڑے پیمانے پر امداد کی بلارکاوٹ فراہمی ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چیلوں اور کوؤں کے کتنے گھونسلے ہٹائے گئے؟ مریم اورنگزیب نے بتا دیا
  • محکمہ تحفظ ماحول کا فضائی نگرانی فورس کے ذریعے پرندوں کے پنجروں اور گھونسلوں کی ’’ای میپنگ‘‘ دو روز میں مکمل کرنے کا فیصلہ
  • دورہ ویسٹ انڈیز کیلیے قومی ٹیم کا اعلان، رضوان کپتان، بابر اور شاہین کی بھی واپسی
  • بھوک سے غزہ کے مکین چلتی پھرتی لاشیں، لازارینی
  • پی این ایس ساہیوال گن بوٹ کی لانچنگ تقریب، وائس ایڈمرل اویس بلگرامی مہمان خصوصی تھے
  • پاک بحریہ کیلیے مقامی طور پر تیار کردہ پی این ایس ساہیوال گن بوٹ کی لانچنگ تقریب، وائس ایڈمرل اویس احمد بلگرامی کی بطور مہمان خصوصی شرکت
  • یکم اگست سے نمبر پلیٹوں پر اجرک کی بجائے قومی پرچم لگائینگے، آفاق احمد
  • پاکستان کو وائٹ واش کی خفت سے بچنے کا چیلنج درپیش
  • غزہ: یو این امدادی اہلکار بھی بھوک اور تھکن سے بے ہوش ہونے لگے
  • ماحول دوست توانائی کی طرف سفر سے واپسی ناممکن، یو این چیف