سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس؛ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے معروضات جمع کرا دیں
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
سویلینز کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے تحریری معروضات عدالت میں جمع کروا دی گئیں۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کیس کی سماعت کی، جس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے تحریری معروضات عدالت میں جمع کرا دی گئیں۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی تحریری معروضات میں بتایا گیا کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے۔ آرمی ایکٹ کی شقوں کو مختلف عدالتی فیصلوں میں درست قرار دیا جاچکا ہے۔ آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
بعد ازاں لاہور بار ایسوسی ایشن اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل کا آغاز کیا اور سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور کا حوالہ دیا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم پرانی کہانی کی طرف نہیں جائیں گے۔ مرکزی سوال یہ ہے کہ کیا سویلین کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ آرمی ایکٹ مئی 1952 میں آیا۔ جب آرمی ایکٹ آیا اس وقت پاکستان میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ تھا۔ پاکستان میں پہلا آئین 1956 میں آیا۔ پہلے آئین میں بنیادی حقوق پہلی مرتبہ متعارف کرائے گئے۔ آرمی ایکٹ 1952 میں پہلی ترمیم 1967 میں ہوئی۔تاشقند معاہدے کے بعد لاہور میں ایک سیاسی میٹنگ ہوئی۔ سازش پر پہلا مقدمہ 1951 میں راولپنڈی سازش پر بنا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض جیسے لوگوں کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔
حامد خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ملزمان پر کیس چلانے کے لیے راولپنڈی سازش اسپیشل ٹرائل ایکٹ 1951 متعارف کرایا گیا۔ راولپنڈی سازش کا مقصد ملک میں کمیونسٹ نظام نافذ کرنا تھا۔ ملزمان میں جنرل اکبر خان سمیت سویلین افراد شامل تھے۔ راولپنڈی سازش کا ملٹری ٹرائل نہیں بلکہ اسپیشل ٹریبونل کے تحت ٹرائل کا فیصلہ ہوا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا 1951 میں آرمی ایکٹ موجود تھا، جس پر وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ پاکستان میں 1911 کا ملٹری ایکٹ لاگو تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا اسپیشل ٹریبونل صرف پنڈی سازش ٹرائل کے لیے بنایا گیا، جس پر وکیل حامد خان نے بتایا کہ نقطہ یہ ہے کہ راولپنڈی سازش میں اعلیٰ سویلین و غیرسویلین افراد شامل تھے۔ راولپنڈی سازش کے ملزمان کا ٹرائل ملٹری نہیں اسپیشل ٹریبونل میں ٹرائل ہوا۔
وکیل نے دلائل میں مزید بتایا کہ ملٹری کورٹ پہلی بار 1953 میں تشکیل دی گئی۔ لاہور میں 1953 میں ہنگامے پھوٹ پڑے تو شہر کی حد تک مارشل لگایا گیا۔ ہنگاموں کے ملزمان کے ٹرائل کےلیے ملٹری کورٹس بنیں۔ مولانا عبدالستار نیازی اور مولانا مودودی جیسے لوگوں پر کیسز چلے۔ اس موقع پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ بعد میں انہیں معافیاں بھی مل گئی تھیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن وکیل حامد خان نے راولپنڈی سازش ملٹری ٹرائل ملٹری کورٹ آرمی ایکٹ کا ملٹری
پڑھیں:
کمزور اور سمجھوتہ شدہ نظام انصاف سے بدعنوانی، آمریت اور طاقتور طبقے کی حکمرانی کو فروغ ملتا ہے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 03 جولائی2025ء) 34 سال پرانے کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کا اہم فیصلہ، کہا کہ کمزور اور سمجھوتہ شدہ نظام انصاف سے بدعنوانی، آمریت اور طاقتور طبقے کی حکمرانی کو فروغ ملتا ہے، مالی لحاظ سے کمزور افراد انصاف میں تاخیر کا سب سے زیادہ نشانہ بنتے ہیں، فوجداری نظام انصاف طاقتور اور بااثرافراد کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوجاتا ہے، ۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے 34 سال پرانے قتل کیس میں ملزم کی اپیل منظور کرلی، عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں عدالتی نظام میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے ریمارکس میں کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے فوجداری نظام انصاف طاقتور اور بااثرافراد کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوجاتا ہے۔(جاری ہے)
میڈیارپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے 34 سالہ پرانے قتل کے ایک مقدمے میں نامزد ملزم کی اپیل پر 20 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وہ سزا جو کسی قیدی کو ایک کمزور، ناکام اور سمجھوتہ شدہ نظام انصاف کے باعث برداشت کرنا پڑے، نہ تو قانونی حیثیت رکھتی ہے اور نہ ہی اس کی گنجائش ہے۔عدالت نے مشاہدہ کیا کہ انصاف میں تاخیر کا سب سے زیادہ نشانہ وہ افراد بنتے ہیں جو مالی لحاظ سے اس قدر کمزور ہیں کہ اپنی مرضی کا وکیل رکھنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔فیصلے میں کہا گیا کہ ایسا لگتا ہے کہ فوجداری نظام انصاف، تفتیش سے لے کر اپیل کی سماعت تک، طاقتور اور بااثر افراد کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہو جاتا ہے۔سپریم کورٹ نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ ایک کمزور اور سمجھوتہ شدہ نظام انصاف قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچاتا ہے، جس سے بدعنوانی، آمریت اور طاقتور طبقے کی حکمرانی کو فروغ ملتا ہے۔فیصلے کے مطابق سیاسی مداخلت اور کرپشن سے پاک فوجداری نظام انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔عدالت نے موجودہ کیس میں نوٹ کیا کہ 1991 میں اپیل کنندہ کم عمر تھا اور اس کا ماضی کا کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں ملتا، اس کے علاوہ، عناد قتل بھی اپیل کنندہ کے والد سے منسوب کیا گیا اور ریکور کیے گئے آتشیں اسلحے کے شواہد کو شک سے بالا تر نہیں سمجھا گیا۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ اپیل کنندہ عمر قید سے بھی زیادہ سزا جیل میں کاٹ چکا ہے، ان تمام وجوہات کی بنا پر، سپریم کورٹ نے اپیل جزوی طور پر منظور کر لی ہے۔