قومیں ڈنڈے کے زور پر نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی سے ترقی کرتی ہیں، حلیم عادل شیخ
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 مارچ2025ء)پاکستان تحریک انصاف سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ نے ملک میں قانون کی حکمرانی کے خاتمے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ عادل ہائوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک زبردستی ڈنڈے کے زور پر نہیں چلایا جا سکتا، بلکہ ترقی صرف آئین اور قانون کی بالادستی سے ہی ممکن ہے۔
تاہم، بدقسمتی سے پاکستان میں نہ آئین کی پاسداری ہے اور نہ ہی قانون پر عمل ہوتا ہے۔حلیم عادل شیخ نے ملتان سے پی ٹی آئی رہنما سینیٹر اون عباس بپی کے اغوا کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دن دہاڑے ایک پارلیمنٹیرین کو اس طرح اغوا کرنا عوام کے دلوں میں نفرت پیدا کر رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان کو بنانا ریپبلک نہ بنایا جائے۔(جاری ہے)
انہوں نے مزید کہا کہ جعلی مینڈیٹ سے بننے والی حکومتوں کو عوام پر حکمرانی کرنے کا کوئی حق نہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایسی حکومتوں کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے، عوام کو مہنگائی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے اور معیشت روز بروز زوال پذیر ہے۔ جعلی حکومتوں کے باعث ملکی معیشت مسلسل گرتی جا رہی ہے، اور عام آدمی مہنگائی کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔الیکشن کے عمل پر تنقید کرتے ہوئے، حلیم عادل شیخ نے کہا کہ اصل جمہوریت عوام کی طاقت سے بنتی ہے لیکن یہاں عوام کے ووٹ کو بھی چرا لیا جاتا ہے۔ پانچ سال بعد عوام کو ووٹ ڈالنے کا جو حق ملتا ہے، وہ بھی الیکشن کے دن چھین لیا جاتا ہے۔ عوام جسے ووٹ دیتے ہیں، نتیجہ کسی اور کے حق میں آتا ہے۔حلیم عادل شیخ نے کہا ملک میں قانون کی بالادستی اور حقیقی آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے عمران خان اس ملک و قوم کی جنگ لڑ رہے ہیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے حلیم عادل شیخ نے انہوں نے قانون کی کہا کہ
پڑھیں:
مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟
دنیاکے سیاسی افق پرکچھ خطے ایسے ہوتے ہیں جوتاریخ کے ہرموڑپرآزمائش کی بھٹی میں تپتے ہیں۔جنوبی ایشیاانہی سرزمینوں میں سے ایک ہے،جہاں سرحدیں فقط جغرافیے کی لکیرنہیں بلکہ نظریات، عقائد اوراحساسات کی خونچکاں تاریخ کا استعارہ بن چکی ہیں۔ ایسے میں جب ایک ریاست کامتعصب اور شدت پسند سربراہ، جس کے ہاتھ میں ایٹمی بٹن بھی ہے اور اقتدارکازعم بھی،اپنے سیاسی جلسے میں کروڑوں پاکستانیوں کے ’’گولی سے اڑادینے‘‘کی کھلی دھمکی دے،توسوال صرف اخلاقیات یاسفارت کانہیں رہتا بلکہ یہ انسانی تہذیب کے اجتماعی شعور،بین الاقوامی قوانین، اورعالمی اداروں کی بقاکاسوال بن جاتاہے۔
مودی کایہ حالیہ بیان،جوگجرات کی زمین پرگونجا،محض ایک انتخابی نعرہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی جنون کااظہارہے ایک ایسا جنون جواپنی ہی تاریخ کے آئینے میں شرمندہ نظر آتا ہے،مگر اپنے آس پاس کے دشمنوں پرللکارکے ذریعے خودکوزندہ رکھنے کی کوشش کرتاہے مگر یہ للکاراب ہنسی میں نہیں اڑائی جاسکتی،کیونکہ یہ اس خطے میں بسنے والے دوایٹمی طاقتوں کے کروڑوں انسانوں کے مستقبل کوجھونکنے کی ایک شعوری کوشش ہے۔
مودی کی دھمکی نے نہ صرف بین الاقوامی سفارتی آداب کی کھلم کھلاخلاف ورزی کی ہے بلکہ ایک ایسے ذہنی پس منظرکوآشکارکیاہےجوخطے میں امن کے امکانات کوزائل کرنے میں مصروف ہے۔یہ دھمکی،جو اخلاقیات اورانسانی حقوق کے اصولوں کے برعکس ہے، نہ صرف ایک جنگی جنون کی علامت ہےبلکہ اس سے بھارت کی داخلی سیاسی صورتِ حال کابھی پتہ چلتاہےجس میں جارحیت کوسیاسی سرمایہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ بیان،جوانسانی اقدارکےمنافی ہے،ایک ایسے ذہن کی ترجمانی کرتاہےجوجارحیت اورتفرقہ اندازی میں یقین رکھتا ہے، اورجوخطے کی سلامتی واستحکام کے لئے شدید خطرہ ہے۔
دراصل مودی کاحالیہ بیان ،شکست خوردہ ضمیراس مکاری کے سفرکی طرف لے گیاجہاں وہ ووٹوں کے لئے بڑھکیں مارکردجل وفریب سے کام لے رہاتھاکیونکہ ایک عالم جان چکاہے کہ دردیارِہند،جہاں غرورِقوم پرستی کاشعلہ ایوانوں میں بلندہوتاہے اوردہلی کے ایوانِ اقتدار میں تکبر،جاہ ومنصب کالباس پہنے بیٹھاہے،وہاں رافیل نامی وہ پرندے،جن پرخزان ملت کے خزف وگوہرلٹائےگئے،طیارہ تقدیرکے دوش پر پاکستان کے جواں ہمت صاعقہ برداروں کے سامنے خاک وخون میں گِر گئے۔جب رافیل کی شکست پر فرانس کی کمپنی نے تین پرندوں کی ہلاکت کااقرار کیا ، تودہلی کی فصیلِ غرورپرایساسناٹاطاری ہوا، گویا آگرہ کے قلعہ لال پرسیاہ پرچم لہرانہیں بلکہ آنسوبہارہاہو۔وہی ایئرمارشل اے کے بھارتی، جن کے بیانات سے پیشتر بادل گرجتے تھے،اب کہنے لگےکہ’’جنگ میں نقصان معمول ہے‘‘گویاشکست کوسبکی میں ملفوف کرکےپیش کیاجائے،اورخون کےرسنے کولفظوں کےرومال سےچھپایاجائے مگر تاریخ کی نگاہ تیزہے،وہ زخم دیکھ لیتی ہے،وہ چیخ سن لیتی ہے۔
پاکستانی شاہین،جن کی پروازپاک سرزمین کے افق تک محدودرہی،مگرجن کے فولادی تیردشمن کی فضائوں کوکاٹتے ہوئے عبرت کانشان بنے،محض عسکری چابک دستی نہ تھے، بلکہ پاک وچین کے باہمی تدبرکا مجسمہ بنے۔اس معرکہ کی جیت،پاکستان کی ہمت سے زیادہ، چین کی تجارتی حکمت اورعسکری فن کاغیراعلانیہ اعلان تھی۔
دراصل مودی کے شعلہ اگلتے ہوئے بیان کی ایک وجہ یہ بھی ہے جب سیزفائرکی راکھ میں چینی حکمت نے ایک چنگاری رکھی جب بھارت کی توجہ مغرب میں پاکستان پرتھی،بیجنگ نے مشرق میں اروناچل پردیش کے مقامات کےنام،چینی وتبتی زبان میں بدل کریہ پیغام دیا کہ’’نقشے فقط کاغذپرنہیں بنتے،وہ ذہنوں،دعووں اورقوتِ ارادہ میں نقش ہوتےہیں‘‘۔یہ تبدیلی فقط زبان کی تکرارنہ تھی،بلکہ زمین کی ملکیت کاادبی اعلان تھااورجب بھارت نے مشرق کی جانب نظرکی،تووہاں پہاڑوں کے نام بدلےجاچکے تھے،وادیاں بیگانہ ہوچکی تھیں، اورنقشہ،اس کااپنانہ رہاتھا۔
بھارت کی تینوں سمتوں پرتین دیواریں چین، پاکستان،نیپال تناؤکی تین چٹانیں،جن میں ہندوستان ایک فریب زدہ خواب کی مانند محصورہو چکاہے۔ نیپال،چھوٹاسہی،مگراس کی خودداری نے بھارتی غرور کےقلعے میں دراڑیں ڈال دیں۔ پاکستان،جواب صرف فوجی نہیں بلکہ فکری قوت بھی ہے اورچین،جس کی طاقت صرف عسکری نہیں بلکہ تمدنی بھی ہے۔ یہ ایسے ہے،جیسے ایک کمزورپروانہ تین شیروں کی کمین گاہوں میں جاگرے،اور سمجھے کہ یہ رات کابادل ہے،جس سے سلامت گزرجائے گا۔بس یہی شکست خوردہ مودی کی حالت ہوچکی ہے۔مودی کے اس بیان کاپس منظرایک نہایت پیچیدہ اورکشیدہ خطے میں ہے،جہاں بھارت اورپاکستان کے مابین فضائی جھڑپیں، سرحدی کشیدگی اورنفسیاتی جنگ جاری ہے۔گزشتہ دنوں بھارتی فضائیہ کے فرانسیسی ساختہ رافیل طیاروں کی تباہی،پاکستان کی عسکری حکمت عملی اورپاک چین تعاون کی بدولت، بھارت کی عسکری اورسیاسی حالت کوایک نئے سنگ میل پرلے گئی ہے۔
مودی کی دھمکی اسی تناظرمیں سامنے آئی ہے،جہاں ایک طرف بھارت نے سرتاج کی طرح اپنی عسکری طاقت کامظاہرہ کرنے کی ناکام کوشش میں بری طرح منہ کی کھائی ہے اور جہاں عالمی طورپرشرمندگی کاسامناکرناپڑاہے وہاں دوسری طرف،بھارت کی داخلی اورخارجی پالیسیوں میں شدیدالجھن اورعدم استحکام کی جھلک بھی نظرآتی ہے۔مودی کے اس جارحانہ بیان کاپس منظرایک ایسے خطے میں ہےجہاں کشیدگی عروج پرہے اورحالیہ دنوں میں بھارت اورپاکستان کے مابین فضائی جھڑپیں اورمیزائلوں کی بازگشت سنی گئی ہے۔ بھارت کی جانب سےاس دوران عام طورپرایک خاموشی کامظاہرہ اس لئےکیاگیاکہ مودی کو پاکستان کی طرف سے ایسے جواب کاقطعی اندازہ ہی نہیں تھامگرمودی کی اس تازہ تقریرنےاس خاموشی کی نقاب کشائی کردی ہے اوربے لاگ جارحانہ بیانیہ سامنے لا دیا ہے ۔یہ تضاد،خاموشی اوردھمکی کےدرمیان،بین الاقوامی سیاست میں ایک پراناالمیہ ہے ۔ کیاخاموشی واقعی فتح کی علامت ہےیایہ شکست کاپردہ ہے؟
عالمی سیاست میں خاموشی کواکثرحکمت اور صبرکی علامت سمجھاجاتاہے،لیکن تاریخ اس بات کابھی درس دیتی ہے کہ حکمت صرف اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب وہ بروقت ہو، مناسب ہواورمثبت نتائج دے۔اگردشمن تمہاری حدودمیں گھس آئے اورتم زبان سے بھی جواب نہ دے سکوتویہ خاموشی حکمت نہیں،بزدلی کے سواکچھ نہیں۔مودی کے بیان سے قبل،بھارت نے چینی فوج کی سرحدی پیش قدمیوں کے سامنے توہمیشہ خاموشی اختیار کی ، جوحکمتِ عملی کی بجائے خوف اور غیریقینی کی علامت تھی۔اس کے برعکس،پاکستان نے اپنی عسکری کارروائیوں اورسفارتی حکمت عملیوں سے خطے میں اپنامقام مستحکم کیا جبکہ چین نے اپنے جغرافیائی دعوؤں کوعملی جامہ پہناکرخطے کی سیاست میں نئی جہتیں پیداکیں۔
تاریخ نے ہمیں بارہاسکھایاہے کہ حکمت صرف تب ہوتی ہے جب وقت کی نزاکت کوسمجھ کرجواب دیاجائے،اوروہ جواب فتح کی جانب لےجائے۔ سفارتی خاموشی کواکثرطاقت کی علامت تصورکیاجاتا ہے،لیکن جب یہ خاموشی دشمن کے سامنے گھبراہٹ اور نااہلی کی شکل اختیارکرلے توپھریہ بہادری کے بجائے بزدلی کے سواکچھ نہیں۔بھارت کی جانب سے چین کی سرحدی پیش قدمیوں اورسرحدپارداخلوں پرجوردعمل نظرآیا،وہ اس بات کاثبوت ہے کہ اس خاموشی کےپیچھے کمزوری اورحکمت کی کمی ہےجبکہ پاکستان کے خلاف ہر وقت جارحانہ بیانات دینے والے بھارتی میڈیااورعسکری حلقے چین کے خلاف مکمل طورپرخاموش ہیں، جوان کے فکری الجھن اورحکمت کی کمی کوظاہرکرتاہے۔
(جاری ہے)