خواتین کا عالمی دن اور دریائے سندھ
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
خواتین اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے خواتین کے عالمی دن کو دریائے سندھ کو خشک سالی سے بچانے کے نام کردیا ہے۔ یہ دن دنیا بھر میں 8 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ ان تنظیموں نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ سندھ کی 5000 سالہ تہذیب کو حکمرانوں کی غلط پالیسیوں نے تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی، سیلاب اور آبی وسائل کی لوٹ مار نے سندھ کے وجود اور کروڑوں انسانوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
انڈس ڈیلٹا کی تباہی، زرعی زمینوں کا سمندر برد ہونا اور پانی کی قلت جیسے مسائل شدت اختیارکرچکے ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ فصلوں کی پیداوار کم ہو رہی ہے اور غذائی بحران بڑھ رہا ہے۔ ہوم لینڈ وومن ورکرز فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری زہرا خان، فشرز فورم کی فاطمہ مجید، لیاری میں تعلیم اور صحت کے لیے آگہی کی مہم کی روحِ رواں حانی واحد بلوچ، جمیلہ، میمونہ اور کامی چوہدری اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے عہدیداروں کا بیانیہ ہے کہ سندھ نے ہمیشہ آبی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ کالا باغ ڈیم کو عوامی جدوجہد سے روکا ہے۔
کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر زرعی زمینوں پر قبضہ ماحولیاتی تباہی اور جبری بے دخلی جیسے مسائل سب سے زیادہ مظلوم طبقات، عورتوں اور بچوں کو متاثر کررہے ہیں۔ ان رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سندھ میں چند برسوں قبل آنے والے سیلابوں، ہیٹ ویو اور دیگر آفات سے سب سے زیادہ عورتیں اور بچے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ اکابرین اس نکتے پر متفق ہیں کہ خواتین کا عالمی دن ان مسائل پر رائے عامہ کو ہموارکرنے کے لیے ہے ۔
یورپ اور امریکا میں بھی 19ویں صدی تک خواتین کے حقوق کا کوئی تصور نہیں تھا۔ عورتیں پدر شاہی نظام میں زندگی گزارنے پر مجبور تھیں۔ عورتوں کو اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم سے بھی محروم رکھا جاتا تھا۔ عورتوں کو انفرادی طور پر معاہدے میں فریق بننے، جائیداد بنانے اور اعلیٰ عدالتوں میں پیش ہونے کے حقوق حاصل نہیں تھے۔ معاشی اعتبار سے عورتوں کا مردوں کا سہارا حاصل کرنا ضروری تھا۔
فرانس میں 19ویں صدی اور 20ویں صدی میں اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے سیاسی تحریکوں کا آغاز کیا تھا۔ انقلابِ فرانس کے دوران فرانس کی آئین ساز اسمبلی نے The Declaration of the rights of man of the Citizen کے اعلامیہ کی منظوری دی تھی۔ باشعور شہریوں کا کہنا تھا کہ اس دستاویز میں شہریوں کے درمیان جنس، طبقہ، ذات اور مذہب جیسے معاملات پر امتیازی سلوک کیا گیا۔
19ویں صدی کے آخری اور 20 ویں صدی کے اوائل کے ابتدائی برسوں میں برطانیہ کے شہر مانچسٹر سے تعلق رکھنے والی خاتون ایم لیکس کی قیادت میں عورتوں کے حق کو تسلیم کرنے کی تحریک شروع ہوئی۔ معروف ماہر سماجیات جان اسٹیورٹ مل نے 1866میں پارلیمان میں ویمن سوچ ترمیم بل (عورتوں کے ووٹ کے حق کے لیے ترمیمی بل) پیش کیا مگر ایوان نے اس بل کو کثرتِ رائے سے مسترد کر دیا۔ 1877میں برطانوی پارلیمنٹ میں شادی شدہ عورتوں کو جائیداد پر حق کا قانون منظورکیا۔ اسی طرح زیرِ اثر جزیرہ اہل آف اسپین میں عورتوں کو ووٹ کا حق مل گیا۔
برطانیہ میں 1894 میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی منظوری سے عورتوں کو کاؤنٹی اور یورو کونسل میں ووٹ کا حق مل گیا۔ برطانیہ میں خواتین کی طویل جدوجہد جس میں تادمِ مرگ بھوک ہڑتال اور قیدوبند کی صعوبتیں شامل ہیں کے نتیجہ میں جولائی 1928میں 21 سال سے زائد عمر کی تمام خواتین کو ووٹ کا حق مل گیا۔
1969میں عوامی نمایندگی کے ایکٹ میں ترمیم کی گئی اور ووٹ دینے کی عمر 21 سال سے کم کر کے 18سال کردی گئی۔ جب 1917میں کمیونسٹ پارٹی نے سوویت یونین کا اقتدار سنبھالا تو سوویت یونین کے آئین میں خواتین کو مردوں کے برابر حیثیت دینے کی شق بھی شامل ہوئی اور خواتین کی جدوجہد کے حوالہ سے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیا گیا۔ بعد میں اقوام متحدہ نے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیدیا۔
ہندوستان میں خواتین کو مردوں کے برابر حقوق کی حمایت سب سے پہلے بیرسٹر محمد علی جناح نے کی ۔ جب 20 ویں صدی کے آغاز پر انگریز حکومت نے کمسن لڑکیوں کی شادی پر پابندی کا قانون منظورکیا تو پورے ہندوستان میں بیرسٹر محمد علی جناح واحد رہنما تھے جنھوں نے اس قانون کی بھرپور حمایت کی۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں خواتین کے حقوق کو غصب کرنے والے قوانین نافذ ہوئے۔ 12 فروری 1983 کو لاہور میں دو سو کے قریب خواتین کے احتجاجی جلوس نکالا۔ انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی وغیرہ نے اس جلوس کو منعقد کیا تھا۔ پولیس نے خواتین پر تشدد کیا۔ جب شاعرِ انقلاب حبیب جالب خواتین کے ساتھ یکجہتی کے لیے پہنچے تو پولیس نے ان پر بھی لاٹھیاں برسائیں۔ لاہورکی خواتین کی اس جدوجہد سے ملک میں خواتین کی تحریک کا آغاز ہوا۔
پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے دور میں ویمن بینک، ویمن پولیس اسٹیشن قائم ہوئے۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت 2008 میں برسر اقتدار آئی تو خواتین کو جائیداد میں حصہ دلانے،گھریلو تشدد،کام کرنے کی جگہ پر ہراسگی کے متعلق مؤثر قوانین بنائے گئے۔
جب میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے توگھریلو تشدد کی روک تھام کا جامع قانون بنایا گیا مگر پھر دباؤ پر یہ قانون معطل ہوا مگر میاں شہباز شریف کے اس دور میں خواتین پولیس کو موٹر سائیکلیں فراہم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پنجاب کی موجودہ وزیر اعلیٰ مریم نوازکے دور میں خواتین کو مردوںکی برابری کے لیے کئی اہم منصوبے شروع ہوئے، مگر حکومتوں کے ان تمام تر اقدامات کے باوجود وفاق، پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں 18سال سے کم عمر بچیوں کی شادی پر پابندی کے لیے کوئی قانون نہیں بن سکا۔ ورلڈ اکنامکس فورم کی Global Gender Gap Report 2023 کے مطابق پاکستان صنفی امتیاز کے حوالے سے دنیا کے 146 ممالک میں 95 ویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ برسر اقتدار حکومتیں خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دینے کا پرچار تو کرتی ہیں مگر یہ معاملہ حکومتوں کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں ہوتا۔ اس وقت ملک بھر میں 2 کروڑ سے زیادہ بچے اسکول نہیں جاتے۔ ان میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔
خواتین کے خلاف جرائم میں مجرموں کو سزا دینے کے فیصلوں کی تعداد بہت کم ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انصاف کا نظام خواتین کو تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے۔ اخبار میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات ہیں، مجرموں کو دی جانے والے فیصلوں کی شرح 0.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خواتین کا عالمی دن خواتین کو مردوں میں خواتین خواتین کے عورتوں کو خواتین کی کے لیے کے دور
پڑھیں:
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دھمکیوں کی مذمت
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جولائی 2025ء) ایچ آر سی پی نے ایک بیان میں کہا، ''گزشتہ چند ماہ کے دوران، ایچ آر سی پی کو، غیر قانونی اور غیر منصفانہ اقدامات کے سلسلے کا سامنا کرنا پڑا ہے جس نے تنظیم کی اپنے مینڈیٹ کو پورا کرنے کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔‘‘
گروپ نے جنوبی ایشیائی ملک میں انسانی حقوق کی وکالت کے لیے بڑھتی مشکلات کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا۔
پاکستان میں بنیادی حقوق کی عدم موجودگی
خیبر پختونخوا میں قانون کی عملداری کمزور، ایچ آر سی پی
گروپ کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں غیر معمولی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، حکام ہمیں ایونٹس منعقد کرنے سے روک رہے ہیں اور خلل ڈالتے ہیں۔
(جاری ہے)
انہوں نے ایچ آر سی پی کے لاہور دفتر کو سیل کر دیا ہے، تجارتی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ہمارے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے ہیں اور اضافی بل جاری کرتے ہوئے ہمارے بجلی کے میٹر بند کر دیے ہیں۔
‘‘ایچ آر سی پی کی بنیاد 1987ء میں رکھی گئی تھی، جو پاکستان کی معروف انسانی حقوق کی تنظیم ہے۔ اس تنظیم نے ملک کے اندر اور عالمی سطح پر شہری آزادیوں کے لیے مسلسل آزاد اور قابل اعتماد طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔
ایچ آر سی پی کے ایونٹس میں رکاوٹاس تنظیم کے مطابق ملک کے مختلف شہروں میں منعقد ہونے والی اس کی تقریبات میں رکاوٹ ڈالی گئی اور عملے کو دھمکی آمیز فون کالز موصول ہوئیں جن میں انہیں حساس سمجھے جانے والے موضوعات پر بات کرنے کے خلاف متنبہ کیا گیا تھا۔
حارث خلیق کے مطابق، ''ہم ریاست کی آنکھیں اور کان ہیں۔ ہم تشدد اور عسکریت پسندی دونوں کے خلاف ہیں۔ سکیورٹی اداروں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے افراد اور وزارت داخلہ کے اہلکاروں کے طور پر شناخت کرنے والے افراد ہماری خواتین عملے کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔‘‘
پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ امور، طلال چوہدری نے ایچ آر سی پی کی جانب سے ہراساں کیے جانے اور دباؤ کے الزامات کی تردید کی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سکیورٹی خدشات کی وجہ سے ایونٹس کے لیے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ طریقہ کار موجود ہے اور ملک بھر میں مظاہرے جاری ہیں۔ ہم نے اظہار رائے کی آزادی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے۔‘‘
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ آن لائن تقریبات بھی بغیر کسی پابندی کے منعقد کی جارہی ہیں اور ریاست ان پر پابندی نہیں لگا رہی ہے۔
ایچ آر سی پی کی بانی رکن اور کونسل کی موجودہ رکن حنا جیلانی کہتی ہیں، ''حکومت گروپ کی سرگرمیوں کو خاموش کرانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ ہمارے ایونٹس میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے اور ایسے قوانین متعارف کرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جو ہمارے مالیاتی معاملات کو متاثر کر سکتے ہیں، جس سے کام کرنے کی ہماری صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔
‘‘اس سال ایچ آر سی پی کا ہدف گلگت بلتستان میں قدرتی وسائل پر مقامی برادریوں کے حقوق پر مشاورت کرنا اور اسلام آباد میں ایک گول میز ایونٹ کی میزبانی کرنا ہے جس میں شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا اور جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر توجہ مرکوز کی جانا ہے۔
تاہم، حکام نے انتظامی رکاوٹیں عائد کر کے ان ایونٹس کو روکنے کے لیے مداخلت کی، جس کے نتیجے یہ منعقد نہ ہو سکے۔
اسلام آباد اور گلگت دونوں شہروں میں جن ہوٹلوں میں ان ایونٹس کو منعقد کیا جانا تھا ان کے لیے مقامی انتظامیہ کی جانب سے این او سی کی ضرورت لاگو کر دی ہے۔
ایچ آر سی پی مالی شفافیت کی حمایت کرتا ہے، حنا جیلانی نے تشویش کا اظہار کیا کہ ''ان اقدامات سے ایچ آر سی پی کی خود مختاری کو خطرہ ہے اور یہ چیز پاکستان کے عوام کے انسانی حقوق کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گئی ہے۔
‘‘ مسائل کے حل کی امیدتاہم، ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق ریاست کے ساتھ مسائل کو جلد حل کرنے کے بارے میں پراُمید ہیں، اور وہ لوگوں کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اس گروپ کے عزم کو اہم قرار دیتے ہیں۔
ریاستی خدشات کے حوالے سے ان کا کہنا ہے، ''ہم اہم دوست ہیں، مخالف نہیں اور ہم ایک صحت مند معاشرے اور ایک مضبوط ملک کے خواہاں ہیں۔
‘‘ان کا مزید کہنا ہے، ''ہم ایک آزاد تنظیم ہیں جو غیر جانبدار اور شواہد کی بنیاد پر کام کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہماری رپورٹس کا حوالہ دفتر خارجہ کی جانب سے دیا گیا ہے لیکن ہم اپنی سالمیت پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔‘‘
خلیق کا کہنا ہے کہ پابندیوں کے باوجود وہ اپنا کام جاری رکھیں گے اور پاکستان کے عوام کے حقوق کی وکالت کرنے کی اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حالپاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال اب بھی پریشان کن ہے، جس میں انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیاں، ادارہ جاتی استثنیٰ اور کم ہوتی ہوئی شہری آزادیاں شامل ہیں۔ سیاست میں فوج کا اثر و رسوخ، ناکافی عدالتی تحفظ اور بڑھتی ہوئی آمریت اس بحران کے اہم عوامل ہیں۔
جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے، خاص طور پر بلوچستان میں، جہاں مہرنگ بلوچ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف وکالت کرنے والے دیگر کارکنوں کو ہراسانی، حراست اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
32 سالہ مہرنگ بلوچ کو رواں برس مارچ میں دہشت گردی، قتل اور بغاوت کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کی ایک معروف کارکن اور وکیل ایمان مزاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان مکمل طور پر آمرانہ حکومت بن چکا ہے، کوئی عدالتیں نہیں ہیں، میڈیا نہیں ہے، انہوں نے بارز کو توڑا ہے اور سول سوسائٹی کو توڑا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال افسوسناک ہے اور ہم اصل میں ایک مارشل لاء میں رہ رہے ہیں۔
‘‘حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کو دبانے کے لیے قانونی اقدامات کو سخت کیا ہے، خاص طور پر نو مئی 2023ء کو ہونے والے مظاہروں کے بعد عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کو نشانہ بنانا شامل ہے۔ پی ٹی آئی کے بہت سے رہنماؤں اور حامیوں کو قید کیا گیا، فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے، یا پھر سیاست چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔
سکیورٹی فورسز بلوچ علیحدگی پسندوں، خاص طور پر بلوچستان لبریشن آرمی کے خلاف طویل عرصے سے آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔
علیحدگی پسند جو حکام اور غیر ملکی سرمایہ کاروں بشمول چین کے سرمایہ کاروں پر خطے کا استحصال کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔سینکڑوں بلوچ کارکنوں نے، جن میں بہت سی خواتین بھی شامل ہیں، اسلام آباد اور بلوچستان میں احتجاجی مظاہرے کیے ہیں اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے بدسلوکی کا الزام عائد کیا ہے جس کی حکومت تردید کرتی ہے۔
اسلام آباد نے بھارت اور افغانستان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے ان عسکریت پسندوں کی مدد کر رہے ہیں۔
ادارت: کشور مصطفیٰ