بیجنگ :چودہویں نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) کے تیسرے سیشن کا دوسرا مکمل اجلاس منعقد ہوا جس میں این پی سی اسٹینڈنگ کمیٹی، سپریم پیپلز کورٹ اور سپریم پیپلز پروکیوریٹر کی ورک رپورٹس کو سنا گیا اور ان پر نظرثانی کی گئی۔ چینی صدر شی جن پھنگ سمیت دیگر رہنماؤں نے اجلاس میں شرکت کی۔این پی سی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین چاؤ لہ جی نے اجلاس کو این پی سی اسٹینڈنگ کمیٹی کی ورک رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ این پی سی اسٹینڈنگ کمیٹی نے اپنے کام کے تمام پہلوؤں میں نئی پیش رفت اور کامیابیاں حاصل کی ہیں۔اہم امور میں پہلا یہ کہ آئین کے نفاذ اور نگرانی کو مضبوط کیا گیا۔ دوسرا یہ ہے کہ قانون سازی کے فرائض کو ایمانداری سے انجام دیا گیااور چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلسٹ قانونی نظام کو مسلسل بہتر بنایا گیا۔ تیسرا یہ کہ قانون کے مطابق نگرانی کے اختیارات کا فعال استعمال کیا گیا۔سپریم پیپلز کورٹ کے سربراہ چانگ جون نے سپریم پیپلز کورٹ کی ورک رپورٹ میں بتایا کہ 2024 میں سپریم پیپلز کورٹ نے 34 ہزار 898 کیسز قبول کیے اور 32 ہزار 539 کیسز کو نمٹا یا گیا جو بالترتیب 65.

5 فیصد اور 82.2 فیصد کا سال بہ سال اضافہ ہے۔ ملک بھر کی تمام سطحوں پر عدالتوں نے 4 کروڑ 60 لاکھ 18 ہزار مقدمات منظور کیے اور 4 کروڑ 54 لاکھ 19 ہزار مقدمات کا فیصلہ کیا گیا ۔سپریم پیپلز پروکیوریٹریٹ کے پروکیوریٹر جنرل ینگ یونگ نے سپریم پیپلز پروکیوریٹریٹ کی ورک رپورٹ میں بتایا کہ 2024 میں ملک بھر میں پروکیوریٹریل اداروں نے مختلف اقسام کے کل 40 لاکھ 99 ہزار 600 کیسز کو ہینڈل کیا جن میں سے 8 ہزار 980 کو سپریم پیپلز پروکیوریٹرنے ہینڈل کیا۔

Post Views: 1

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پی سی اسٹینڈنگ کمیٹی سپریم پیپلز کورٹ کی ورک رپورٹ

پڑھیں:

بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، بے ضابطگیوں کی نشاندہی

اجلاس میں بجٹ و اکاؤنٹس کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ اور کمپلائنس رپورٹ پر غور کیا گیا، جس میں متعدد سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔ کمیٹی نے شفافیت پر زور دیتے ہوئے مختلف ہدایات جاری کیں۔ اسلام ٹائمز۔ صوبائی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی اصغر علی ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے اراکین رحمت صالح بلوچ، غلام دستگیر بادینی، ولی محمد نورزئی، فضل قادر مندوخیل، زابد علی ریکی، صفیہ بی بی، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو قمبر دشتی، ڈائریکٹر جنرل آڈٹ بلوچستان شجاع علی، ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل نورالحق، سیکرٹری بورڈ آف ریونیو جاوید رحیم، ایڈیشنل سیکرٹری پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سراج لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری فنانس محمد عارف اچکزئی، ڈائریکٹر آڈٹ ثناء اللہ، ایڈیشنل سیکرٹری بورڈ آف ریونیو گرداری لعل، مجیب قمبرانی کمشنر رخشان ڈویژن، ڈی سی آواران عائشہ زہری، منیر سومرو ڈی سی خاران، عظیم جان ڈی سی کوہلو، عبداللہ کھوسہ ڈی سی بارکھان، محمد حسین ڈی سی نوشکی، بہرام سلیم ڈی سی مستونگ، جمیل احمد ڈی سی قلات، مہراللہ جمالدینی ڈی سی کوئٹہ، و دیگر ڈپٹی کمشنرز اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز شریک ہوئے۔

اجلاس میں بجٹ و اکاؤنٹس کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ اور کمپلائنس رپورٹ پر غور کیا گیا، جس میں متعدد سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2016-17 میں نان ڈویلپمنٹ فنڈز کی مد میں 3,336.1 ملین روپے مختص کیے گئے تھے، جن میں سے 2,595.47 ملین روپے خرچ ہوئے جبکہ 740.6 ملین روپے کی بچت کو سرنڈر نہیں کیا گیا، جو کہ کمزور مالی نظم و نسق کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسی طرح 2019-20 اور 2020-21 کے دوران بورڈ آف ریونیو کے مختلف دفاتر کی جانب سے 33.736 ملین روپے کے اخراجات کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا جس کے باعث اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال ممکن نہ ہو سکی۔ کمیٹی نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

مزید برآں کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2020-21 اور 2021-22 میں مختلف ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر کی جانب سے 19,144.236 ملین روپے سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے بجائے مختلف بینک اکاؤنٹس میں رکھے گئے، جو قواعد و ضوابط کے منافی ہے۔ کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ 2019-21 کے دوران عشر، آبپاشی ٹیکس (ابانہ) اور زرعی انکم ٹیکس کی مد میں 1,101.469 ملین روپے کی وصولی نہیں کی گئی جس سے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچا۔ مزید انکشاف ہوا کہ 2019-22 کے دوران مختلف کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر کی جانب سے 228.964 ملین روپے کے اخراجات ڈی ڈی اوز کے نام پر چیک جاری کیے گئے، بجائے اس کے کہ ادائیگی براہ راست وینڈرز کو کی جاتی۔ یہ عمل بھی قواعد و ضوابط کے برخلاف قرار دیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بجٹ کی بچت بروقت سرنڈر کرنا لازمی ہے اور آئندہ ایسی غیر شفاف مالی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔

اراکین کمیٹی نے ہدایت کی کہ تمام ریکارڈ فوری طور پر آڈٹ اور پی اے سی کو برائے تصدیق فراہم کیا جائے، غیر قانونی طور پر روکے گئے فنڈز کو سرکاری خزانے میں جمع کرایا جائے اور ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ کئی کیسز میں انکوائری کا حکم جاری کیا گیا۔ پی اے سی ممبرز نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا کہ 2020 میں کیے گئے پی اے سی کے احکامات پر تاحال متعدد ڈپٹی کمشنرز نے عملدرآمد نہیں کئے۔ پی اے سی نے فیصلہ کیا کہ اگر ایک ماہ کے اندر پرانے اور نئے کیسز پر دیئے گئے احکامات پر عمل نہیں کیا گیا تو مذکورہ ڈپٹی کمشنرز اور کمشنرز کے خلاف سخت فیصلے کیے جائیں گے۔ آخر میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے واضح کیا کہ قواعد و ضوابط کے بغیر مالی نظم و نسق بہتر نہیں ہو سکتا اور اس ضمن میں غفلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • سکھر چیمبر آف کامرس میں پولیس کوآرڈینیشن کمیٹی کا تیسر اجلاس
  • پی اے سی ذیلی کمیٹی اجلاس: قومی ورثہ و ثقافت سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ
  • قائمہ کمیٹی اجلاس میں محکمہ موسمیات کی پیشگوئی سے متعلق سوالات
  • جسٹس سرفراز ڈوگر کیخلاف شکایت، ایمان مزاری نے اضافی دستاویزات جمع کرادیں
  • وفاقی وزیرآئی ٹی شزا فاطمہ خواجہ ماسکو پہنچ گئیں۔
  • بلوچستان کے محکمہ ریونیو میں سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف
  • بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، بے ضابطگیوں کی نشاندہی
  • عرب اسلامی ممالک کے ہنگامی اجلاس میں شرکت؛ وزیراعظم کی عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں
  • دوحہ؛ عرب اسلامی ممالک کا ہنگامی اجلاس شروع، 50 سے زائد مسلم ممالک کے سربراہان کی شرکت
  • سپریم کورٹ بلڈنگ کمیٹی کا اجلاس، کراچی برانچ رجسٹری کے ماسٹر پلان کی منظوری