ماہ رمضان کی بڑھتی مہنگائی میں 800 روپے فی کلو میں بڑا گوشت کہاں دستیاب ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
رمضان المبارک شروع ہوتے ہی دنیا بھر میں جہاں کھانے پینے کی قیمتوں میں کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے، وہیں پاکستان میں اس بابرکت مہینے میں منافع خور اشیا خور و نوش کے دام بڑھا دیتے ہیں، جس کی وجہ سے اس مخصوص ماہ میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے جان محمد روڈ پر ایک ایسا قصاب بھی ہے جو 800 روپے فی کلو میں بڑے جانور کا گوشت فروخت کررہا ہے۔
قصاب عنایت اللہ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں خدا کی خوشنودی کے لیے 800 روپے فی کلو میں بڑا گوشت فروخت کرنا شروع کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کار خیر میں مجھے اپنے گاہک کی مدد حاصل ہے، جنہوں نے نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماہ صیام کے دوران 11 سو والے بڑے گوشت میں 200 روپے میری طرف سے کم کردیں تو پھر ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم شہریوں کو بڑے گوشت میں سبسڈی دیں گے۔
عنایت اللہ نے بتایا کہ ہم ہڈی والا بڑا گوشت 800 روپے میں اور بغیر ہڈی کے 1100 روپے میں فروخت کر رہے ہیں جبکہ اوپن مارکیٹ میں ہڈی والا بڑا گوشت 11 سو جبکہ بغیر ہڈی والا ساڑھے 13 سو سے 1400 روپے فی کلو میں فروخت کیا جارہا ہے۔
عنایت اللہ نے بتایا کہ لوگ بڑی تعداد میں مجھ سے گوشت خریدنے آرہے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر 5 سو سے 6 سو کلو گوشت فروخت کر رہا ہوں جب کہ میرے گوشت کی کوالٹی بھی اوپن مارکیٹ کے گوشت جیسی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سستا گوشت غالب نہاد کوئٹہ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سستا گوشت غالب نہاد کوئٹہ وی نیوز روپے فی کلو میں بڑا گوشت
پڑھیں:
رشتہ ایک سرد مہری کا
وہ کڑیل جوان اچانک پسینے سے شرابور، دل کی دھڑکن قابو سے باہر، گھر میں کہرام، بھاگم بھاگ اسپتال پہنچے۔ دوا دی گئی، کوئی اثر نہیں ہوا، دوسری دوا دی گئی۔ دھڑکن کچھ تھمی اور رگوں پر خون کا پریشر کچھ کم ہوا۔ لیکن یہ کیا، تھوڑی دیر بعد الٹیاں شروع ہوگئیں، تازہ تازہ خون سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ اور دواؤں کے پے در پے ادوار شاید زندگی پر چلنے والے کلہاڑے کے وار ثابت ہوئے۔
وہ کل جو اس وقت زندگی کے شور میں ہنس اور دوسروں کو ہنسا رہا تھا، آج سرد پڑا ہے۔ آنکھیں ٹنگی ہیں، ہر طرف خاموشی ہے۔ اس کا مردہ جسم شفا خانے میں رسمی کاروائی کا منتظر ہے۔ انسانی مشاہدات تو درکنار، ڈاکٹر یا نرس کے کہنے پر بھی اسپتال کے کاغذات اس بے جان جسم کو مردہ نہیں کہتے۔ دل کی بند دھڑکنوں کو مشینوں پر چیک کرکے روح کے نکل جانے کا اعلان باقی ہے۔ اس چیکنگ کی فیس اور لاکھوں کے تاوان ادا کرکے احساس کے قید خانے میں ضبط کی ہوئی لاش لے جائی جاسکتی ہے۔
کیا ہوا، کیوں ہوا، کیسے ہوا؟ کیا اس جوان کو بچایا جاسکتا تھا؟ معلومات اور خیالات کی زنجیر میں کیا کیا خلا ہیں۔ علم سے دانشمندی کی کشید میں کہاں کہاں آلودگی ہے، کہاں کہاں ملاوٹ ہے۔ اس سفر میں کہاں کہاں سیاہ دھبے ہیں، راستوں میں کہاں کہاں پر گھپ اندھیرا ہے۔ کہاں کہاں خندقیں بنائی گئی ہیں، کہاں کہاں گڑھے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پہلی دوا نے اثر نہیں کیا، کہیں دوا نے مہلک اثر تو نہیں کیا۔ راقم عہد وفا میں خاموش ہے۔
امریکا دنیا کا طاقتور ملک، سائنس کے افق پر حکومت کرنے والا ملک، جہاں سر توڑ کوشش کے باوجود سال 2024 میں 900 سے کم جنیرک ادویات استعمال کےلیے منظور ہوئیں۔ وہاں ادویات کے لیبل پر لکھے گئے وعدوں کی نگہبانی حکومت کے ادارے کرتے ہیں۔ دواؤں سے منسلک دعووں کو پرکھنے کےلیے ہزاروں پیشہ ور افراد مامور ہوتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ 2024 میں کسی آزاد وطن میں 15000 سے زائد جنیرک ادویات رجسٹرڈ کی گئیں۔ ان میں سے ایک بھی ترقی یافتہ ملک میں منظور نہیں ہوئیں۔ نہ ہی کسی نے منظوری کی درخواست جمع کرانے کی ہمت کی اور نہ ہی کسی دنیا کے ضامنوں نے اس قابل سمجھا کہ ان تک پہنچے۔
ترتیب پانے والی غیبی آواز سے بے اعتنائی کا حوصلہ نہیں۔ اس دشت کی سیاحی میں زندگی گزر گئی، اپنے مسقبل سے بے نیاز ہمارے خیالات میں جارحانہ پن حاوی رہا اور انصاف کی پیروی میں لوٹ مار کے خلاف ہمارے خواب صف آرا ہی رہے۔ ہر طرف خاموشی ہے، سناٹا ہے، گم صم ہیں۔ میسنے اور گھنے کا ہجوم ہے۔ سچ کہنے پر دشمنی پر اتر آتے ہیں، کردار کشی کرنے کےلیے محاذ بناتے ہیں۔ مجرے کراتے ہیں، پیسے لٹاتے ہیں، کوئی نہیں کہتا کہ ادویات اگر ناقص ہوں تو کسی کی روح ایسے نکلتی ہے جیسے سڑک پر آوارہ کتے کی لاش تڑپ رہی ہو اور گاڑیوں میں موسیقی کی دھن اور اپنی دھن میں مست رواں دواں۔ دواؤں کی اور جنیرک دواؤں کی بھرمار، مگر جان کی قیمت کون پوچھے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔