Daily Ausaf:
2025-11-04@01:09:05 GMT

دلچسپ موڑ

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

پاکستان کی سیاسی جماعتیں عموماً اپنی حکومت کی ناکامیوں کو تسلیم کرنے سے گریز کرتی ہیں، لیکن تحریک انصاف خیبرپختونخوا نے اس روایت کو توڑتے ہوئے اپنی ہی حکومت پر کھلی تنقید کی ہے۔ یہ ایک غیرمعمولی پیش رفت ہے کیونکہ پاکستان میں حکمران جماعتیں عموماً اپنی کارکردگی کے دفاع میں مصروف رہتی ہیں۔
تحریک انصاف کے اس اعتراف کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ چیئرمین عمران خان جیل میں ہیں۔ ورنہ ماضی میں ان کی موجودگی میں نہ تو پارٹی کے اندر کوئی تنقید کر سکتا تھا اور نہ ہی حکومت کی ناکامیوں پر آواز اٹھانے کی اجازت تھی۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں بزدار، فرح گوگی اور بشری بی بی جیسی شخصیات کے کرپشن کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔ اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرتا تو اسے خاموش کروا دیا جاتا یا برطرف کر دیا جاتا، چاہے وہ کسی بھی عہدے پر ہو۔ یہاں تک کہ اگر کوئی حساس ادارے کا سربراہ بھی حکومت کے بعض فیصلوں پر انگلی اٹھاتا تو اس کا عہدہ خطرے میں پڑ جاتا۔
تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی ضلعی سطح پر ہونے والی میٹنگ میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈہ پور کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ جاری کیے گئے اعلامیے میں اعتراف کیا گیا کہ صوبے میں مسلسل تیسری حکومت ہونے کے باوجود مسائل حل نہیں ہو سکے۔ خاص طور پر پشاور، جو صوبائی دارالحکومت ہے، بنیادی شہری سہولیات سے محروم ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ سیوریج نظام تباہ حال ہے، جس کے باعث بارشوں کے دوران شہر سیلاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ صفائی کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے اور واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز کی ناقص کارکردگی کے باعث گندگی کے ڈھیر لگ چکے ہیں۔ پشاور کے کئی علاقے پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں جبکہ اسٹریٹ لائٹس کی عدم دستیابی کے باعث سڑکوں پر اندھیرا رہتا ہے۔ پشاور کا ترقیاتی فنڈ دیگر اضلاع میں منتقل کیا جا رہا ہے جس سے شہر مزید بدحالی کا شکار ہو رہا ہے۔ سیف سٹی پراجیکٹ جو 2009 ء میں تجویز کیا گیا تھا آج تک مکمل نہیں ہو سکا۔ یہ صورتحال اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے دعوے حقیقت سے دور تھے اور ہیں بھی۔
یہاں کس کا بس چلتا ہے
یہاں کس کی چلتی ہے
یہاں جو بھی آیا ہے
اس نے دھوکہ کھایا ہے
تحریک انصاف خیبرپختونخوا کے اس اعلامیے کے بعد صوبائی حکومت کی طرف سے فوکل پرسن وزیر اعلی برائے پشاور میگا پراجیکٹس ارباب عاصم نے وضاحت دی کہ صوبے بھر میں بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے اور اجلاس میں دی گئی تجاویز پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ یہ وضاحت اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ترقیاتی منصوبے جاری ہیں تو ان کے اثرات زمین پر کیوں نظر نہیں آرہے؟ اگر تمام مسائل پر کام ہو رہا ہے تو پشاور کے شہری آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم کیوں ہیں؟
تحریک انصاف کی حکومت نے ہمیشہ احتساب کے نعرے لگائے مگر جب وہ خود حکومت میں آئی تو کیا اس نعرے پر عمل کیا؟ اپوزیشن کے ادوار میں عمران خان کی قیادت میں ان کی جماعت نے کرپشن کے خلاف بھرپور مہم چلائی مگر اپنے دورِ حکومت میں بزدار، فرح گوگی سمیت دیگر شخصیات کے مالی معاملات پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔ اب جبکہ پارٹی قیادت کمزور ہے اور عمران خان جیل میں ہیں تو خیبرپختونخوا میں پارٹی رہنما اپنی حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس تنقید کے بعد اصلاحات بھی ہوں گی یا پھر یہ محض ایک رسمی کاروائی ثابت ہو گی؟ یہ راز کھلنے میں دیر ہے شاید ابھی کچھ پردہ گرا ہوا ہیعمران خان کی موجودگی میں ان کے فیصلوں اور حکومت کی کارکردگی پر تنقید ممکن نہیں تھی۔ مگر ان کی غیرموجودگی میں خیبرپختونخوا کے تحریک انصاف رہنمائوں نے حکومت کی خامیوں کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ ایک دلچسپ موڑ ہے، کیونکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ جب قیادت سخت کنٹرول رکھتی ہے تو اندرونی احتساب کا عمل رک جاتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا المیہ یہی رہا ہے کہ وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے شفافیت اور اصلاحات کی بات کرتی ہیں مگر جیسے ہی اقتدار میں آتی ہیں، وہی پرانی روایات دہرانا شروع کر دیتی ہیں۔
تحریک انصاف نے 2018 ء میں حکومت سنبھالی تو بڑے دعوے کیے لیکن کیا وہ واقعی اپنے وعدے پورے کر سکی؟ خیبرپختونخوا میں تیسری مرتبہ حکومت بنانے کے باوجود اگر بنیادی مسائل جوں کے توں ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان نو سالوں میں کیا کیا گیا؟ اگر اب بھی پشاور جیسے بڑے شہر میں میٹرو بس، پانی، صفائی اور سیف سٹی جیسے منصوبے حل طلب ہیں تو حکومت کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔
یہ کس کا لہو ہے، کون مرا
یہ کیا ماجرا ہے، میں کیا جانوں
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف اس خوداحتسابی کو مزید آگے بڑھائے گی یا یہ صرف ایک وقتی بیانیہ ہے؟ کیا پارٹی کے دیگر رہنما بھی اپنے دورِ حکومت کے دیگر فیصلوں پر نظرثانی کریں گے؟ اور کیا پارٹی کے اندرونی ڈھانچے میں اتنی جمہوریت موجود ہے کہ قیادت کے فیصلوں پر تنقید برداشت کی جا سکے؟
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ تحریک انصاف اپنے اندرونی نظام کو جمہوری بنائے، جہاں قیادت کے فیصلوں پر بھی سوال اٹھایا جا سکے اور عوامی مسائل کے حل کے لیے حقیقی اقدامات کیے جائیں۔ صرف اعتراف کر لینا کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ عوام کو واضح فرق محسوس ہو۔
تحریک انصاف ہمیشہ سے دوسروں پر تنقید کرتی آئی ہے، مگر اب اسے اپنے اندر بھی جھانکنا ہوگا۔ اگر خیبرپختونخوا حکومت اس تنقید کو اصلاحات میں تبدیل نہیں کر پاتی تو پھر یہ اعترافی بیانات محض تاریخ کا حصہ بن جائیں گے، اور عوام ایک بار پھر محرومی کا شکار رہیں گے۔ پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی تبھی آ سکتی ہے جب جماعتیں اپنی ناکامیوں کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح کے لیے عملی اقدامات بھی کریں۔ ورنہ محض بیانات اور تنقیدی اعلامیے عوامی مسائل کا حل نہیں ہو سکتے۔
جو خواب دیکھے تھے، وہ ٹوٹتے کیوں ہیں
یہ لوگ چپ چپ سے، یوں روٹھتے کیوں ہیں

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کی کارکردگی پر تحریک انصاف فیصلوں پر حکومت کی یہ ہے کہ کیا گیا ہیں تو رہا ہے

پڑھیں:

اس وقت آزاد کشمیر میں حکومت بنانا بڑا چیلنج، تحریک عدم اعتماد اسی ہفتے آ جائےگی، راجا فیصل ممتاز راٹھور

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) آزاد کشمیر کے سیکریٹری جنرل راجا فیصل ممتاز راٹھور نے کہا ہے کہ اسی ہفتے آزاد کشمیر میں تحریک عدم اعتماد پیش کرکے اپنی حکومت قائم کرلیں گے، اب مزید تاخیر نہیں ہوگی۔ موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی حکومت نہیں بنانے جا رہی بلکہ جوا کھیلنے جا رہی ہے۔

’وی نیوز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ 29 ستمبر کو شروع ہونے والی عوامی ایکشن کمیٹی کی احتجاجی تحریک کے باعث ہم نے یہ فیصلہ کیاکہ ہمیں اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اپنی حکومت بنانی چاہیے، اور مذاکرات پیپلز پارٹی سے بہتر کوئی اور جماعت نہیں کر سکتی۔

’ایکشن کمیٹی احتجاج کے باعث پیدا شدہ صورت حال کی وجہ سے حکومت بنانے کا فیصلہ کیا‘

انہوں ںے کہاکہ ایکشن کمیٹی کے احتجاج کے باعث پیدا ہونے والے ماحول کی وجہ سے ہم نے اپنی حکومت بنانے کا فیصلہ کیا، پھر مرکزی قیادت کو پیغام پہنچایا۔

فیصل ممتاز راٹھور نے کہاکہ جب مرکزی لیڈر شپ نے منظوری دے دی، تو ہم نے سادہ اکثریت کے لیے 27 ارکان اسمبلی پورے کیے، اور 3 سے 4 لوگ ایسے بھی ہیں جن کے نام خفیہ رکھے گئے۔

انہوں نے کہاکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو نے کہاکہ ہم نے مرکز میں حکومت بنانے کے لیے مسلم لیگ ن کو سپورٹ کیا ہے، لہٰذا ان کو آزاد کشمیر میں ہمیں ووٹ دینا چاہیے، جس پر مشاورت کی وجہ سے عدم اعتماد پیش کرنے میں تاخیر ہوئی۔

’تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے 100 فیصد امکانات ہیں‘

پی پی رہنما نے کہاکہ اب مسلم لیگ ن نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے ہمیں ووٹ دینے کا فیصلہ کرلیا، اب یہ تحریک پیش ہوگی، اور کامیابی کے امکانات 100 فیصد ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں فیصل راٹھور نے کہاکہ مسلم لیگ ن آزاد کشمیر میں قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کررہی تھی، لیکن ان کو بتایا گیا کہ اب کل 8 ماہ کا وقت رہ گیا ہے، اس سے قبل انتخابات ہونا ممکن نہیں، تاہم موسم کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کچھ وقت پہلے بھی ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ آزاد کشمیر میں ایم ایل ایز کی حکومت کا تجربہ ناکام رہا، ہماری چوہدری انوارالحق کے ساتھ کوئی ذاتی لڑائی نہیں، لیکن 29 ستمبر کے بعد جو حالات پیدا ہوئے تھے، انہیں خود ہی مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔

فیصل ممتاز راٹھور نے کہاکہ آزاد کشمیر میں مہاجرین کی نشستیں ختم نہیں کی جاسکتیں، تاہم اس حوالے سے جو کمیٹی بنائی گئی ہے وہ بیٹھ کر فیصلہ کرے گی کہ مہاجرین کی نمائندگی کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے۔

موجودہ حالات میں آزاد کشمیر میں حکومت بنانا کوئی آسان فیصلہ ’نہیں‘

فیصل راٹھور نے کہاکہ موجودہ حالات میں آزاد کشمیر میں اپنی حکومت بنانا کوئی آسان فیصلہ نہیں، لیکن ہم ریاست کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے جوا کھیلنے جا رہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ آزاد کشمیر کے نئے وزیراعظم کا فیصلہ مرکزی قیادت نے کرنا ہے، ابھی تک کسی کا نام فائنل نہیں ہوا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں ںے کہاکہ اس وقت جو بھی ریاست کا وزیراعظم بنے گا اس کے سامنے بہت سے چیلنجز ہوں گے، چونکہ نئے انتخابات کو بہت کم وقت رہ گیا ہے، اس عرصے میں آپ کو عوام کو مطمئن کرنا پڑے گا کہ ریاست آپ کے مسائل حل کرے گی۔

’بنیان مرصوص کے موقع پر کشمیری قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی تھی‘

سیکریٹری جنرل پیپلز پارٹی نے کہاکہ بھارت نے جب پاکستان پر حملہ کیا تو پوری کشمیری قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوگئی، کیوں کہ ہم قابض اور محافظ افواج میں فرق سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ آپریشن ’بنیان مرصوص‘ کی کامیابی کے بعد بھارت کو ذلت اٹھانا پڑی ہے، اور پاکستان کا وقار پوری دنیا میں بلند ہوا۔

فیصل ممتاز راٹھور نے کہاکہ پاکستان اور کشمیر کے رشتے کو دنیا کی کوئی طاقت کمزور نہیں کر سکتی، تاہم اگر ریاست میں کوئی افراتفری ہوتی ہے تو بھارت اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔

’والد نے اپنی زندگی میں خاندان سے کسی کو سیاست میں نہیں آنے دیا‘

خاندانی پس منظر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے راجا فیصل ممتاز راٹھور ںے کہاکہ میرے والد مرحوم نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں میں سے کسی کو سیاست میں نہیں آنے دیا، وہ موروثی سیاست کے خلاف تھے۔

فیصل ممتاز راٹھور نے کہاکہ میرے بڑے بھائی والد کے ساتھ ہوتے تھے اور سیاست میں آنے کے خواہشمند تھے، لیکن والد نے انہیں سیاست میں نہیں آنے دیا، بعد ازاں ان کے انتقال کے بعد میں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا، جو میری مجبوری تھی۔

’سیاستدان کی زندگی اتنی آسان نہیں ہوتی جتنی نظر آتی ہے‘

انہوں نے سیاستدانوں کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ سیاستدان کی زندگی اتنی آسان نہیں ہوتی، سیاست اصل میں عوامی خدمت کا دوسرا نام ہے، میرے والد جب وزیراعظم تھے تو وہ اتنے مصروف تھے کہ ڈیڑھ سال تک میری ان سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews تحریک عدم اعتماد چوہدری انوارالحق چیلنج سیکریٹری جنرل پیپلز پارٹی عوامی ایکشن کمیٹی فیصل ممتاز راٹھور وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • انتظامیہ نے حکومت کی ایماء پر کوئٹہ میں جلسے کی اجازت نہیں دی، تحریک تحفظ آئین
  • آزاد کشمیر: تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار طے پا گیا، نمبر پورے ہیں، وزیر قانون میاں عبدالوحید
  • اس وقت آزاد کشمیر میں حکومت بنانا بڑا چیلنج، تحریک عدم اعتماد اسی ہفتے آ جائےگی، راجا فیصل ممتاز راٹھور
  • آزاد ‘ محفوظ صحافت انصاف ‘ جمہوریت کی ضامن: سینیٹر عبدالکریم 
  • تحریک انصاف ،پنجاب لوکل گورنمنٹ بل ہائیکورٹ میں چیلنج کرنیکا اعلان
  • تحریک انصاف کا پنجاب لوکل گورنمنٹ بل چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • جہادِ افغانستان کے اثرات
  • خیبرپختونخوا کابینہ ممبران کے محکموں کا باضابطہ اعلامیہ جاری،شفیع اللہ جان معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر
  • خیبرپختونخوا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سکیورٹی اور گورننس کے معاملات میں بہتری لائے؛ رانا ثناءاللہ
  • ذاتی مفادات کی سیاست چھوڑ کر قومی مفاد کے لیے کام کریں، رانا ثنا اللہ کی پی ٹی آئی رہنماؤں کو تلقین