Express News:
2025-04-26@02:45:39 GMT

فزیوتھراپی

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

فزیوتھراپی، جسے طبعی علاج بھی کہا جاتا ہے، صحت کے شعبے کا ایک اہم حصہ ہے جو مریضوں کو جسمانی مسائل، معذوریوں، اور درد کی شدت کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

یہ علاج معالجہ انسانی جسم کی قدرتی حرکات کو بحال کرنے اور بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ فزیوتھراپی کا دائرہ کار وسیع ہے اور یہ مختلف بیماریوں، چوٹوں، اور معذوریوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں فزیکل تھراپی کا زندگی کے مختلف شعبوں میں مختلف پہلوؤں سے تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی (DPT) کے فرائض و ذمے داریوں پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔

فزیوتھراپی کے فوائد

فزیوتھراپی کے کئی فوائد ہیں جن میں درج ذیل اہم ہیں:

1 ۔ درد میں کمی اور حرکت کی بحالی: فزیوتھراپی درد کو کم کرنے کے لیے خصوصی تیکنیکیں اور مشقیں استعمال کرتی ہے۔ مسلز، جوڑوں، یا اعصاب میں ہونے والے مسائل کے علاج کے لیے ورزشیں، مساج، اور الیکٹرو تھراپی جیسے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں، جو مریض کی جسمانی حرکات کو بحال کرتے ہیں۔

2۔ معذوری کو روکنا اور صحت کی بحالی: فزیوتھراپی جسمانی معذوریوں کو روکنے اور حادثات یا بیماریوں کے بعد مریض کی صحت بحال کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ علاج مریض کو روزمرہ کے کاموں کو بہتر طریقے سے انجام دینے میں مدد دیتا ہے۔

3 ۔ پوسچر کی بہتری: پوسچر یا جسمانی وضع کی خرابی عام مسائل میں سے ایک ہے، جو اکثر کمر درد اور گردن کے مسائل کا سبب بنتی ہے۔ فزیوتھراپی کے ذریعے پوسچر کو درست کیا جا سکتا ہے، جو لمبے عرصے تک صحت کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔

4 ۔ سرجری کی ضرورت کو کم کرنا: بعض اوقات فزیوتھراپی اتنی مؤثر ثابت ہوتی ہے کہ سرجری کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ یہ جسمانی علاج کے ذریعے مریض کو قدرتی طریقے سے صحت یاب ہونے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

5 ۔ مختلف عمر کے افراد کے لیے مفید: فزیوتھراپی بچوں سے لے کر بزرگوں تک ہر عمر کے افراد کے لیے مؤثر ہے۔ یہ بچوں میں پیدائشی نقائص کے علاج، جوانوں میں چوٹوں کے علاج، اور بزرگوں میں عمر کے ساتھ ہونے والے مسائل جیسے گٹھیا اور اوسٹیوپوروسس کے لیے مفید ہے۔

فزیوتھراپی (Physical Therapy) دنیا بھر میں ایک مؤثر اور تسلیم شدہ طبی شعبہ ہے، جو مریضوں کی جسمانی بحالی، درد کے خاتمے، اور روزمرہ کے کاموں میں خود مختاری بڑھانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ جدید ممالک میں فزیوتھراپی کو بیماریوں کی روک تھام، علاج اور بحالی کے لیے اہم مانا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، اور یورپ میں فزیوتھراپی ایک لازمی شعبہ بن چکا ہے۔ ان ممالک میں فزیوتھراپسٹس کو جدید ٹیکنالوجی، روبوٹکس، اور ڈیجیٹل ہیلتھ ٹولز کی مدد حاصل ہے۔

جدید ٹیکنالوجی کا استعمال: ری ہیبلیٹیشن روبوٹکس: روبوٹ مریضوں کو دوبارہ چلنے کی تربیت دیتے ہیں۔

ورچوئل ریئلٹی: بحالی کی مشقوں کو دل چسپ بنانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

آرٹیفیشل انٹیلیجنس: مریضوں کی صحت کی نگرانی اور علاج کی منصوبہ بندی کے لیے مددگار ہے۔

تعلیمی پروگرام: فزیوتھراپی کی تعلیم جدید ممالک میں ایک اہم میدان ہے، جہاں بیچلر، ماسٹرز، اور پی ایچ ڈی پروگرامز دست یاب ہیں۔

سماجی خدمات: جدید ممالک میں فزیوتھراپی کو صحت کی انشورنس میں شامل کیا جاتا ہے، تاکہ ہر فرد اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکے۔ پاکستان میں بھی فزیوتھراپی کی افادیت کو تیزی سے تسلیم کیا جا رہا ہے۔ مختلف جامعات اور اسپتال اس شعبے کو فروغ دے رہے ہیں۔

چیلنجز: پاکستان میں فزیوتھراپی کی خدمات کا دائرہ محدود ہے، اور دیہی علاقوں میں سہولیات کی کمی ہے۔ فزیوتھراپسٹس کو جدید ٹیکنالوجی تک رسائی اور حکومتی تعاون کی ضرورت ہے۔ فزیوتھراپی عالم گیر طور پر اہم شعبہ ہے جو بیماریوں کی روک تھام، علاج، اور بحالی کے لیے نہایت مؤثر ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کی افادیت میں اضافہ ہورہا ہے، جب کہ پاکستان میں یہ شعبہ اب بھی ترقی کے مراحل میں ہے۔ بہتر حکومتی پالیسیوں اور عوامی آگاہی کے ذریعے اس شعبے کو مزید فروغ دیا جا سکتا ہے۔

فزیوتھراپی میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال مریضوں کے علاج کو مؤثر اور تیز رفتار بنانے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ درج ذیل جدید ٹیکنالوجیز اور ان کا استعمال فزیوتھراپی میں اہمیت رکھتے ہیں:

الیکٹروتھراپی (Electrotherapy): الیکٹروتھراپی کے ذریعے مریض کے متاثرہ عضلات یا جوڑوں میں برقی لہریں پہنچائی جاتی ہیں۔ یہ تیکنیک درد کم کرنے، سوزش کو ختم کرنے اور عضلات کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

ری ہیبلیٹیشن روبوٹکس ( Robotics Rehabilitation): ری ہیبلیٹیشن روبوٹکس مریضوں کو دوبارہ چلنے یا حرکت کرنے کی تربیت دینے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ فالج یا ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ والے مریض اس ٹیکنالوجی سے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

تھری ڈی موشن اینالیسس ( Analysis Motion 3D): یہ جدید سسٹم مریض کی حرکت کا تین جہتی تجزیہ کرتا ہے۔ اس سے مریض کی جسمانی حرکات میں بہتری کے لیے مخصوص علاج تیار کیا جا سکتا ہے۔

ورچوئل ریئلٹی ( Reality Virtual): ورچوئل ریئلٹی کا استعمال مریضوں کو بحالی کی مشقیں کروانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ کھیلوں اور انٹرایکٹو پروگرامز کے ذریعے مریضوں کو مشغول کرتا ہے اور ان کی جسمانی حالت کو بہتر بناتا ہے۔

 شاک ویو تھراپی ( Therapy Shockwave): یہ تھراپی ہڈیوں، جوڑوں، اور نرم بافتوں کے درد کو کم کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ شاک ویو تھراپی کی لہریں متاثرہ حصے کو متحرک کرتی ہیں اور خون کی روانی کو بہتر بناتی ہیں۔

لیزر تھراپی ( Therapy Laser): لیزر تھراپی سے جلد، پٹھوں، اور جوڑوں کے مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کیا جاتا ہے۔ یہ سوزش کو کم کرنے اور درد کو ختم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

ٹیکنالوجی پر مبنی ورزش کے آلات: جدید ورزش مشینیں جیسے ٹریڈملز، سائیکل ایراجومیٹر، اور ہائیڈرو تھراپی آلات مریضوں کی جسمانی بحالی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

الیکٹریکل مسل اسٹیمولیشن ( Stimulation Muscle Electrical- EMS):  ای ایم ایس کے ذریعے عضلات میں برقی سگنلز بھیجے جاتے ہیں تاکہ پٹھے مضبوط ہوں اور مریض جلد صحت یاب ہو۔

آرٹیفیشل انٹیلیجنس (Artificial Intelligence):  اے آئی پر مبنی سسٹمز مریض کی تشخیص اور علاج کے منصوبے کو زیادہ مؤثر بناتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی مریض کے ڈیٹا کا تجزیہ کر کے بہترین علاج تجویز کرتی ہے۔

ہائیڈرو تھراپی (Hydrotherapy):  پانی کے اندر ورزش اور علاج کو شامل کرنے والی یہ تکنیک جوڑوں کے درد اور موٹاپے کے شکار مریضوں کے لیے بہترین ثابت ہوتی ہے۔

جدید ٹیکنالوجی فزیوتھراپی کو ایک نئے دور میں لے جا رہی ہے، جس سے مریضوں کی بحالی زیادہ مؤثر اور کم وقت میں ممکن ہو رہی ہے۔ یہ پیش رفت فزیوتھراپی کے میدان کو مسلسل ترقی کی طرف لے جا رہی ہے۔

فزیوتھراپی کے میدان میں حالیہ پیش رفت: کینسر کے مریضوں کے لیے فزیوتھراپی کی اہمیت: فزیوتھراپی کینسر کے مریضوں کی بحالی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ لاہور کے ایک اسپتال میں، پھیپھڑوں کے کینسر کی مریضہ، جسے ڈاکٹروں نے وہیل چیئر پر زندگی گزارنے کا مشورہ دیا تھا، فزیوتھراپی کی مدد سے نہ صرف چلنے پھرنے کے قابل ہوئی بلکہ اپنی تین ماہ کی بیٹی کو بھی اٹھا سکتی ہے۔ یہ واقعہ فزیوتھراپی کی مؤثریت کو ظاہر کرتا ہے، خاص طور پر کینسر کے مریضوں کے لیے۔

جدید آلات کا استعمال: گردن کی تکلیف دور کرنے کے لیے جدید برقی فزیوتھراپی پٹیاں متعارف کرائی گئی ہیں۔ 'پورٹیبل الٹراساؤنڈ مساجر' (PUM) نامی یہ آلہ ایک سیکنڈ میں دس لاکھ ارتعاشات خارج کرتا ہے، جو گردن کے درد اور اکڑن کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ آلہ الٹراساؤنڈ تکنیک کے ذریعے پٹھوں کو سکون پہنچاتا ہے اور دورانِ خون کو بہتر بناتا ہے۔

جدید ٹیکنالوجی کا انضمام: فزیوتھراپی میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے، جس میں الٹراساؤنڈ، الیکٹروتھراپی، اور لیزر تھراپی شامل ہیں۔ یہ تیکنیکیں درد کو کم کرنے، سوزش کو کم کرنے، اور شفا کے عمل کو تیز کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ نیز روبوٹک چال تربیت، روبوٹک ہاتھ اور بازو تربیت، اور کمپیوٹرائزڈ توازن اور زوال روک تھام مطالعہ، یہ تیکنیکیں مریضوں کی بحالی کے عمل کو تیز کرنے اور مؤثر بنانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔

پوسٹ سرجری بحالی: سرجری کے بعد مریضوں کی بحالی میں فزیوتھراپی کا کردار اہم ہے۔ یہ علاج مریضوں کو جلد صحت یاب ہونے، قوت برداشت بڑھانے، اور معمول کی زندگی کی طرف واپس آنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

درد کے انتظام میں فزیوتھراپی: درد کے انتظام میں فزیوتھراپی کی تیکنیکیں، جیسے مساج، اسٹریچنگ، اور مخصوص مشقیں، مؤثر ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ طریقے مریضوں کو درد سے نجات دلانے اور زندگی کے معیار کو بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں۔

مختلف امراض میں فزیوتھراپی کے فوائد: فزیوتھراپی آرتھوپیڈک، نیورولوجیکل، اور کارڈیو پلمونری مسائل کے علاج میں مؤثر ثابت ہورہی ہے۔ یہ علاج آرتھوپیڈک مسائل جیسے کھیلوں کی چوٹیں، فریکچر، اور ریڑھ کی ہڈی کے درد میں مددگار ہے۔ نیورولوجیکل عوارض جیسے فالج، پارکنسنز، اور دماغی فالج کے مریض فزیوتھراپی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ کارڈیو پلمونری مسائل میں، یہ علاج مریض کی قوت برداشت کو بڑھانے اور روزمرہ کی سرگرمیوں کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔

ہیموفیلیا کے مریضوں کے لیے فزیوتھراپی:  ہیموفیلیا کے شکار افراد کے لیے فزیوتھراپی جوڑوں کی نقل و حرکت اور پٹھوں کی صحت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ خون بہنے کے بعد متاثرہ حصے کو آرام دینے اور پھر فزیوتھراپی شروع کرنے سے مستقل نقصان اور سرجری کی ضرورت کو کم کیا جا سکتا ہے۔  

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کو بہتر بنانے میں مدد میں مددگار ثابت ہو جدید ٹیکنالوجی کا مریضوں کی بحالی مریضوں کے لیے میں مدد فراہم ثابت ہوتی ہے کا استعمال کو کم کرنے جا سکتا ہے ممالک میں کی جسمانی کے مریضوں مریضوں کو کرنے اور کی ضرورت کے ذریعے کے مریض مریض کی کرتا ہے یہ علاج میں اہم کرتی ہے جاتا ہے علاج کے کے علاج کے درد رہی ہے کیا جا درد کو

پڑھیں:

امانت داری کی فضیلت

اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے، یہی وجہ ہے کہ دین اسلام ان اعمال و افعال کا حکم دیتا ہے جن کے ذریعے انسانی حقوق کی حفاظت ممکن ہو سکے، انھی اعمال میں سے ایک ’’امانت داری‘‘ بھی ہے۔

امانت، امن سے مشتق ہے جس کے معنیٰ مطمین اور مامون کرنے کے ہیں۔ مومن کی شان امانت دار ہونا اور امانت سپرد کرنے والے کے اعتماد و اعتبار کا پاس رکھنا اور اسے تقویت پہنچانا ہے نہ کہ اسے ایذا پہنچانا یا اس کے اعتبار و اعتماد کو ختم کرنا ہے۔ آپس کے معاملات اور لین دین میں امانت داری کا مظاہرہ کرنا اور دیانت داری کا دامن تھامے رکھنا شریعت اسلام کی اہم ترین تعلیمات میں سے ہے۔ امانت داری صرف اخلاقیات ہی نہیں بل کہ ایمانیات کا بھی حصہ ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اس شخص کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں جس میں امانت داری نہیں۔‘‘ (مسند احمد)

یعنی اگر کوئی شخص کسی معاملے میں کسی پر بھروسا کرے اور جس پر بھروسا کیا گیا ہے وہ اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے ایمان میں ابھی نقص ہے اور وہ درجہ کمال تک نہیں پہنچا۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی ذات بابرکات میں امانت داری کا وصف بہت نمایاں تھا، آپ ﷺ پورے مکہ میں صادق و امین کے اعلیٰ القابات سے پکارے جاتے تھے، مشرکین مکہ آپ ﷺ سے شدید ترین اختلافات کے باوجود بھی اپنی امانتیں آپ ﷺ کے پاس رکھواتے تھے۔

حالاں کہ مکہ کا سردار ابُوجہل تھا لیکن اہل مکہ کا اعتماد ابوجہل کے بہ جائے نبی کریم ﷺ پر تھا، کیوں کہ ابوجہل کی بددیانتی کے قصے سارے شہر میں زبان زد عام تھے، جس کی ادنیٰ سی جھلک اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی دکھلائی ہے، مفہوم: ’’وہ شخص جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔‘‘ (سورۃ الماعون)

مفسرین کے مطابق یہ آیت ابُوجہل کے بارے میں نازل ہوئی، اس کی عادت تھی کہ جب مکہ کا کوئی رئیس مرض الوفات میں ہوتا اور اس کی اولاد نابالغ اور ناسمجھ ہوتی تو اس کو جا کر یقین دلاتا کہ اپنی جمع پونجی میرے حوالے کر دو، میں وقت آنے پر آپ کے بچوں کو لوٹا دوں گا، وہ شخص سردار ہونے کی وجہ سے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اپنا تمام وراثتی مال اس کے سپرد کر دیتا، پھر جوان ہونے کے بعد وہ یتیم اولاد اس سے امانت کی ادائی کا مطالبہ کرتی تو اسے دھکے دے کر واپس بھیج دیتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دیانت داری اسوۂ پیغمبرؐ اور بددیانتی شیوۂ ابُوجہل ہے۔

ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ امانت کا تعلق صرف اس مال سے ہے جو کسی کی پاس بہ طور امانت رکھوایا جائے اور وہ مال پوری مقدار میں کوئی عیب پیدا کیے بغیر مالک کے حوالے کر دیا جائے، اس میں شک نہیں کہ یہ بھی امانت میں داخل ہے لیکن احادیث نبوی ﷺ کے مطالعے سے بہت سی ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں جنہیں نبی کریم ﷺ نے بجا طور پر امانت داری میں شمار کیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی معاملے میں کسی سے رائے طلب کرے تو دیانت داری کا تقاضا ہے کہ اس کو درست مشورہ دے اگر مشورہ دینے والا سمجھتا ہے کہ اس کام میں اس کا نقصان ہے پھر بھی اس کو اس کے کرنے کی تجویز دیتا ہے تو یہ سراسر خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ چناں چہ ارشاد نبویﷺ ہے، مفہوم:

’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہوتا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)

اگر کسی مجلس میں کوئی معاملہ طے پائے اور شرکائے مجلس میں اس کو خفیہ رکھنے پر اتفاق ہُوا ہو تو ایسی بات کو ظاہر کرنا بھی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’مجلس کی باتیں امانت ہوتی ہیں۔‘‘ البتہ اگر خلاف شرع کام کرنے یا کسی کو نقصان پہنچانے کے متعلق بات چیت ہوئی ہو تو ایسی بات کو ظاہر کرنا صرف جائز ہی نہیں بل کہ واجب ہے۔

چناں چہ مذکورہ بالا حدیث میں ہی ارشاد نبویﷺ ہے، مفہوم: ’’مگر تین قسم کی مجالس ایسی ہیں جن کی بات ظاہر کی جائے گی، وہ تین چیزیں ناحق خون کا بہانا۔ یا بدکاری کرنا۔ یا کسی کا ناحق مال لینا ہے۔‘‘ (ابو داؤد) اسی طرح کسی بھی قسم کے عہدہ کو سپرد کرنے کے لیے دو بنیادی شرائط ذکر کی جاتی ہیں: اول یہ کہ مذکورہ شخص اس کا اہل ہو۔ یعنی اس کام کے تمام خد و خال کو اچھے طریقے سے جانتا ہو۔ اور دوسرا یہ کہ وہ ایمان دار ہو جو اس عہدہ کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہ کرتا ہو بل کہ پوری دیانت داری سے اپنے کام میں مگن رہتا ہو۔

قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کے ضمن میں ہے کہ جب انھوں نے عزیر مصر سے وزارت خزانہ کا مطالبہ کیا تو اپنی انھیں دو خوبیوں کو پیش کیا، چناں چہ ارشاد فرمایا: ’’(اے عزیز مصر!) میرا زمین کے خزانوں پر تقرر کیجیے، بلاشبہ! میں (مال کی) حفاظت کرنے والا (اور وزارت خزانہ سے متعلق امور کو) جاننے والا ہوں۔‘‘ (سورہ یوسف)

اگر ایسے شخص کو عہدہ دیا جائے جو اس کا اہل نہ ہو تو یہ بھی بدترین قسم کی خیانت ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک اعرابی نے بارگاہ رسالت ﷺ میں آکر سوال کیا، مفہوم: یا رسول اﷲ ﷺ! قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے فرمایا: جب امانت کو ضایع کیا جانے لگے تو پھر تو قیامت کا انتظار کر۔ اس نے عرض کیا: امانت کیسے ضایع کی جائے گی؟ آپؐ نے فرمایا: جب معاملات نااہل کے سپرد کیے جائیں تو پھر تو قیامت کا انتظار کر۔ (صحیح بخاری)

جو شخص کسی کا مزدور یا ملازم ہو اسے چاہیے کہ مالک اور ذمہ دار سامنے ہو یا نہ ہو مکمل دیانت داری کے ساتھ کام کر ے نہ تو وقت میں کمی کرے اور نہ کام میں سستی اور نہ ہی اپنی صلاحیت کو استعمال کر نے سے گریز کرے، ان تینوں میں سے کچھ پایا گیا تو خیانت شمار ہوگی اس لیے کہ ایک ملازم کی صلاحیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے تن خواہ طے ہوتی ہے اگر اس نے کام کر نے میں پوری صلاحیت خرچ نہ کی اور کسی بھی وجہ سے دل چسپی لیے بغیر محض ظاہری طور پر کام کر دیا تو کام میں وہ معنویت پیدا نہیں ہوگی جو ذمے دار کو مطلوب تھی تو یہ بھی خیانت کا ہی ایک حصہ ہے۔

اسی طرح اگر مزدور و ملازم سے جتنے گھنٹے کام کرنے کا وقت طے ہوجائے اور پھر کام کر نے والا وقت میں چوری کرے ، وقت کے بعد آئے یا متعین وقت سے پہلے چلا جائے تو یہ بھی خیانت ہے۔ ایک مسلمان ملازم جو کائنات کے مالک کو سمیع و بصیر سمجھتا ہے اور اس پر پورا یقین رکھتا ہے اسے احساس ہو نا چاہیے کہ اگرچہ میرا مالک اور ذمہ دار شخص مجھے نہیں دیکھ رہا ہے لیکن رب تو مجھے دیکھ رہا ہے، اس کی گرفت سے جو بچ گیا وہی کام یاب اور فلاح پانے والا ہے۔

اسی طرح کام میں سستی اور ٹال مٹول کر نا بھی خیانت ہے، وہ کام جو پانچ گھنٹے میں ہوسکتا تھا اس کو دس گھنٹے میں مکمل کرنا تاکہ مزید پیسے ملتے رہیں اور اس کے معاش کا مسئلہ حل ہو تا رہے، یہ بہت بُری سوچ اور ناپسندیدہ عمل ہے، امانت داری کا تقاضا ہے کہ مکمل محنت سے کام کو انجام دیا جائے طے شدہ مکمل وقت اور پوری طاقت اس کے لیے خرچ کی جائے، ورنہ وہ مالک کے ساتھ خیانت کر نے کا مرتکب ہوگا اور اس کا بھی روز محشر حساب دینا ہوگا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے سفر میں دو لڑکیوں کی بکریوں کے پینے کے لیے پانی بھر دیا تھا تو ان دونوں نے واپس جا کر اپنے بوڑھے باپ سے ان کی تعریف کی اور کہا کہ یہ بڑے امانت دار اور طاقت ور ہیں ان کو اپنے گھر میں ملازم رکھ لیجیے۔ قرآن نے اس کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے، مفہوم: ’’اے میرے ابا! ان کو مزدور رکھ لیجیے اچھا مزدور وہ ہے جو طاقت ور اور امانت دار ہو۔‘‘ (سورۃ القصص) اس آیت کریمہ میں جہاں ملازم اور مزدور کے اوصاف کی طرف راہ نمائی کی گئی ہے وہیں اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ مزدور امین ہو تا ہے اسے کام کر تے ہوئے اپنی امانت داری کا مکمل ثبوت دینا چاہیے، اس سے اس کی اپنی زندگی خوش گوار ہوگی اور اﷲ تعالیٰ اس کے رزق کا انتظام بھی خزانۂ غیب سے فرماتے رہیں گے۔

دیانت داری سے کام لینے والے انسان کو اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن جنت کی نعمتوں سے تو نوازیں گے ہی لیکن دنیا میں بھی اﷲ تعالیٰ اسے بہت زیادہ نوازتے ہیں۔ امانت دار آدمی لوگوں کی نظر میں بہت زیادہ عزت والا اور قابل احترام ہوتا ہے، سب لوگ اسے اچھا دین دار اور مخلص سمجھتے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ اسے یہ حاصل ہوتا ہے کہ اس کی اولاد حرام کھانے سے بچ جاتی ہے اور ا س کے رزق میں برکت باقی رہتی ہے۔

امانت داری کا مظاہرہ کرنے میں خدمت خلق کا پہلو بھی مضمر ہے جو بہ ذات خود ایک بڑی عبادت ہے، جس سے خدا ملتا ہے۔ اس لیے کہ ہر شخص کی ضرورت ہے کہ بہ امر مجبوری اپنی چیز دوسرے کے پاس رکھے اور پھر اس کی امانت اس تک بہ حفاظت اور اسی معیار اور اتنی مقدار میں پہنچے جیسے اس نے رکھوائی تھی، لہٰذا جو شخص لوگوں کی یہ ضرورت پوری کر رہا ہے وہ ایمان داری پر ملنے والے ثواب کے ساتھ خدمت ِ انسانیت کا اجر بھی حاصل کر رہا ہے۔

جو شخص اس اہم دینی تعلیم اور اسلامی ہدایت کو نظر انداز کر دے اور بددیانتی اور بدعنوانی کو اپنا شعار بنا لے اسے دنیا اور آخرت میں بہت سے نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔ دنیاوی نقصان یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا اعتماد اٹھ جانے کے باعث اس کا کاروبار اور روزگار بُری طرح متاثر ہوتا ہے، خود کو اور اہل و عیال کو حرام کھلانے کی وجہ سے رزق سے برکت اٹھ جاتی ہے، لوگ اپنی ذاتی مجبوریوں کی وجہ سے اور اس کے شر سے بچنے کے لیے منہ پر چاہے عزت کریں لیکن پیٹھ پیچھے ہر زبان پر اس کی برائی ہوتی ہے، ایسی بدنامی گلے پڑتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی کوئی اچھے الفاظ میں اس کا ذکر نہیں کرتا۔ اسی طرح اخروی نقصانات کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔ ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ بددیانت شخص اﷲ کی محبت سے محروم ہوجاتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے، مفہوم: ’’بے شک! اﷲ اس شخص سے محبت نہیں کرتا جو خائن (اور) گناہ گار ہو۔‘‘ (النساء)

ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ اعتقاداً تو مسلمان رہتا ہے، لیکن عملاً منافقین کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے، جو کفر کی قبیح ترین قسم ہے۔ حدیث میں ہے کہ ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو وعدے کی خلاف ورزی کرے۔ اور جب اسے امانت سونپی جائے تو اس میں خیانت کرے۔‘‘ (سنن ترمذی)

جس طرح آج ہمارے معاشرے میں بہت ساری اچھائیاں دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں وہیں امانت داری کا بھی فقدان نظر آتا ہے، حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ امانت دار اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے والے افراد کو بعض کم عقل لوگ بے وقوف سمجھنے لگے ہیں اور دھوکا دینے والے کو، خیانت کرنے والے کو ہوشیار اور چالاک انسان کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ گویا کہ معاشرے کی سوچ اس قدر منفی ہوچکی ہے کہ برائی کو اچھائی اور اچھائی کو برائی سمجھا جانے لگا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے اندر امانت داری کی صفت کو اجاگر کریں اور دوسروں کے حقوق پوری طرح ادا کریں۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں تمام امانتوں کی حفاظت کرنے اور ان کو پوری طرح ادا کرتے ہوئے امانت دار اور سچا پکا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم کا ملیریا کے خاتمے اور قابل علاج بیماری کیخلاف جنگ میں آخری حد تک جانے کا عزم
  • وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کا انسدادِ ملیریا کے عالمی دن پر پیغام
  • بچوں کے علاج کیلئے بھارت جانیوالی حیدرآباد کی فیملی مشکلات کا شکار
  • ’’ملیریا کو ختم کرنا ہے‘‘ قابلِ علاج بیماری کیخلاف جنگ کیلیے وزیراعظم کا پیغام
  • امانت داری کی فضیلت
  • پریشان کن خبر ،ٹائیفائیڈ بخار میں مہلک تبدیلی، علاج کا آخری حل بھی ناکام
  • توانائی نفسیات کیا ہے؟
  • سابق کپتان عروج ممتاز نے ڈاکٹر بن کر علاج بھی کرڈالا
  • برطانیہ، ہارٹ فیل کا علاج متعارف، اموات میں 62 فیصد کمی ممکن
  • لنڈی کوتل میں سیکیورٹی فورسز کا فری آئی میڈیکل کیمپ