Express News:
2025-04-25@11:19:38 GMT

’’ معافیاں ‘‘

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

پاکستان کی سیاست نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ ہم نے ایسے سیاستدان بھی دیکھے ہیں جنھوں نے ملک سے وفا میں اپنی سیاست قربان کی ہے۔ ایسے سیاستدان بھی دیکھے ہیں جنھوں نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے ملک سے بے وفائی بھی کی ہے۔ ایسے سیاستدان بھی دیکھے ہیں جنھوں نے ملک کی خاطر اقتدار قربان کیا ہے۔

ایسے سیاستدان بھی دیکھے جنھوں نے اقتدار کی خاطر ملک بھی قربان کیا ہے۔ ملک توڑنے والے سیاستدان بھی دیکھے ہیں، ملک جوڑنے والے سیاستدان بھی دیکھے ہیں۔دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے والے سیاستدان بھی دیکھے ہیں۔ دشمن کے ہم نوا بننے والے سیاستدان بھی دیکھے ہیں۔ہم نے غیرمقبول سیاستدان کو مقبول بنتے اور مقبول سیاستدان کو غیر مقبول بنتے بھی دیکھا ہے۔ سیاست عجیب کھیل ہیں یہاں ہیرو سے بندہ زیرو بھی ہو جاتا ہے اور پھر زیرو سے ہیرو بھی ہو سکتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاستدان جب تک نہیں مرتا تب تک اس کی سیاست بھی نہیں مرتی۔

سیاستدان کے پاس سیاسی غلطیاں سدھارنے کا موقع رہتا ہے۔ وہ عوام سے اپنی غلطیوں کی معافیاں بھی مانگتا ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی معافی مشکل ہوتی ہے۔ معافی مانگ کر بھی ان کو معافی نہیں ملتی ہے۔  سیاسی غلطیوں کی تو معافی ہوتی ہے۔ لیکن جب آپ اپنے ملک کے خلاف سیاست کریں تو اس کی معافی نہیں ہونی چاہیے۔ ریاست کو بھی معاف نہیں کرنا چاہیے اور عوام کو بھی معاف نہیں کرنا چاہیے۔ ملک پہلے‘ سیاست بعد میں، یہ ہم سب کو سمجھنا چاہیے۔ اس اصول کو سامنے رکھ کر ہی عام آدمی کو بھی سیاسی فیصلے کرنے چاہیے۔

آج کل بانی ایم کیو ایم بار بار معافیاں مانگ رہے ہیں۔ وہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی معافیاں مانگ رہے ہیں۔ وہ دیگر اداروں کے سربراہوں سے بھی معافیاں مانگ رہے ہیں۔ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں پر بھی معافی مانگ رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ جب کوئی جماعت مشکل میں ہوتی ہے یا کوئی لیڈر مشکل میں ہوتا ہے تو اس سے غلطیاں ہو جاتی ہیں، وہ غلط باتیں بھی کر لیتا ہے لیکن پھر جب حالات ٹھیک ہو جاتے ہیں تو پھر وہ غلط باتیں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔ ریاست کو بھی غلط باتوں کو نظر انداز کرنا چاہیے۔

مجھے لگتا ہے کہ بانی ایم کیو ایم اب ذہنی طور پر شکست کھا گئے ہیں۔ وہ اب ایک ہارے ہوئے سیاستدان کی طرح سرنڈر کر رہے ہیں۔ انھیں اندازہ ہوگیا ہے کہ پاکستان کے خلاف نعرہ لگا کر انھوں نے ایک فاش غلطی کر دی تھی اور اس غلطی کی وجہ سے ان کی سیاست ختم ہو گئی ہے۔ وہ بندہ جو کل تک خود کو کراچی کا مالک کہتا تھا۔ اب اس کا کراچی میں کوئی نام لینے والا بھی نہیں ہے۔ اس کی سیاست ختم ہو گئی ہے۔ اس کی دہشت ختم ہو گئی ہے۔

جس نیٹ ورک پر اس کو بہت مان تھا وہ ختم ہو گیا ہے ۔ کبھی اس کے ٹکٹ پر لوگ لاکھوں ووٹ لیتے تھے۔ آج اس کے نام پر کوئی الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ اس کی جماعت کے جو لیڈر اس سے ڈرتے تھے آج انھوں نے اس کی جگہ کمان سنبھال لی ہے۔ اس کی صرف سیاست ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کا خوف بھی ختم ہو گیا ہے۔ اس کے لوگ ہی اس کو اب چھوڑ گئے ہیں۔ یہ سب کیوں ہوا کیونکہ اس نے پاکستان کے خلاف نعرہ لگایا۔ اس ایک نعرہ نے اس کی سیاست ختم کر دی ہے۔ آج وہ اس غلطی پر معافیاں مانگ رہا ہے۔ توجیحات پیش کر رہا ہے۔ لیکن کوئی معاف کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کی سیاست میں ان کا باب ختم ہوگیا۔ ان کی زندگی میں ان کی سیاست ختم ہوگئی۔ بلا شبہ وہ پاکستان کی سیاست میں نشان عبرت بن گئے۔

سوال یہ بھی ہے کہ آخر بانی ایم کیو ایم معافیاں کیوں مانگ رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے پاکستان کے جو دشمن بانی ایم کیو ایم کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے تھے جنھوں نے پاکستان کے خلاف نعرہ لگوایا‘ انھوں نے بھی بانی ایم کیو ایم کی سیاست سے منہ موڑ لیا ہے۔ وہ اب ان کے لیے بھی ناکارہ ہو گئے ہیں۔

اسی لیے اب ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ انھیں یہ سمجھ نہیں آئی دشمن بھی انھیں ان کی سیاسی اہمیت کی وجہ سے لفٹ کروا رہا تھا۔ جب ان کی سیاست ہی ختم ہو گئی تو وہ بھی دشمن کے لیے کسی کام کے نہ رہے۔ وہ سب کے لیے بے فائدہ ہو گئے ۔لگتا ہے بانی ایم کیو ایم کو لڑ ائی کے سواکچھ نہیں آتا۔ا سی لیے وہ آرمی چیف کو بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر انھیں موقع دیا جائے تو وہ ملک سے لڑنے کے لیے ایک لاکھ نوجوانوں کادستہ تیار کر کے دیں گے۔

شاید انھیں اس کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا۔ پہلے وہ یہ کام دشمن کے لیے کرتے تھے اب جب دشمن نے لفٹ ختم کر دی ہے تو آرمی چیف کو اپنی دستیابی سے آگاہ کر رہے ہیں۔ لیکن شاید انھیں علم نہیں کہ پاکستان کے نوجوان ملک پر جان دینے پر فخر کرتے ہیں۔ اس کام کے لیے قوم کو ان کی یا کسی اور باغی سیاستدان کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب ان کی دکان ختم ہو گئی۔

بانی ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی تاریخ میں باقی سیاستدانوں کے لیے ایک سبق ہیں کہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے بعد پاکستان میں کوئی سیاست ممکن نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ پاکستان کے خلاف بات بھی کریں اور پھر پاکستان میں سیاست بھی کریں۔ آج مجھے بانی ایم کیو ایم کے علاوہ بھی کچھ ایسے نام نظر آتے ہیں جو پاکستان کے خلاف سیاست کر رہے ہیں۔ ان کے عزائم بھی ٹھیک نہیں۔لیکن بانی ایم کیو ایم کے انجام نے ان کو روک دیا ہے۔ وہ گفتگو میں احتیاط برت رہے ہیں، وہ سیاسی کارروائیوں میں احتیاط کر رہے ہیں۔ ہمیں اب یہ واضح کرنا ہوگا کہ اب نہ تو کسی کو بانی ایم کیو ایم بننے دیں گے اور نہ ہی کسی کو پاکستان کے خلاف سازش کرنے دیں گے۔

ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت بانی ایم کیو ایم کا انداز اپنانے کی بہت کوشش کر رہی ہے۔ نو مئی کو بھی ایسی کوشش کی گئی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے جیسے بانی ایم کیو ایم کو کوئی معافی نہیں ایسے ہی نو مئی والوں کو بھی کوئی معافی نہیں ملنی چاہیے۔ وہ بھی پاکستان پر حملہ تھا‘اس پر بھی کوئی رعائت نہیں ہو سکتی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بانی ایم کیو ایم پاکستان کے خلاف معافیاں مانگ کی سیاست ختم مانگ رہے ہیں ان کی سیاست معافی نہیں پاکستان کی کر رہے ہیں ختم ہو گئی جنھوں نے نہیں ہو کے لیے ہیں کہ نہیں ا کو بھی

پڑھیں:

پانی‘ پانی اور پانی

انگریز نے 1849میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت ویران اور ناقابل کاشت تھا‘ دور دور تک بیابانی اور دھول ہوتی تھی یا پھر جنگل ہوتے تھے اور ان میں درندے پھرتے رہتے تھے‘ امیر تیمور نے 1398 میں ہندوستان پر حملہ کیا تھا‘ اس زمانے میں دیپال پور سے دہلی تک گھنے جنگل اور دلدلیں تھیں اور ان میں ہاتھیوں کے جھنڈ پھرتے تھے‘ امیر تیمور جیسا بے خوف شخص بھی ان گھنے جنگلوں سے گزرتے ہوئے خوف محسوس کر رہا تھا‘ یہ 6 سو سال پہلے تک پنجاب کی صورت حال تھی‘ انگریز اسے فتح کر کے پریشان ہو گیا‘ اس کی دو وجوہات تھیں‘ پنجاب لینڈ لاکڈ ہے۔

 اس کے ساتھ کوئی سمندر نہیں لہٰذا حکومت کے پاس ریونیو کا کوئی بڑا سورس نہیں تھا اور دوسرا پنجاب کی فتح کے بعد دہلی میں 1857 کی جنگ آزادی شروع ہو گئی اور دہلی سے لے کر کولکتہ تک انگریز افسروں کو بچانے کی ذمے داری پنجاب پر آ پڑی‘ انگریز نے لاہور سے فوج بھجوائی اور اس نے انگریز سرکار اور اہلکاروں کی جان بچائی‘ 1857 کی جنگ نے انگریز کو مالی لحاظ سے کم زور کر دیا‘ ان حالات میں سرچارلس ایچی سن لیفٹیننٹ گورنر بن کر پنجاب آیا‘ وہ لاہور کا ڈپٹی کمشنر اور کمشنر بھی رہا‘ اس نے پورے پنجاب کا دورہ کیا اوروہ اس نتیجے پر پہنچا اگر پنجاب میں نئی نہریں بنا دی جائیں تو ہزاروں میل زمینیں کاشت ہو سکتی ہیں جس سے سرکار کا ریونیو بھی بڑھے گا اور پنجاب میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

 پنجاب میں اس سے قبل فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں نہریں بنی تھیں‘ وہ 1351 سے 1388 تک ہندوستان کا بادشاہ رہا اور اس نے تاریخ میں پہلی بار ہندوستان میں نہریں بنائیں‘ وہ اس وجہ سے تاریخ میں فادر آف کینالز کے نام سے مشہور ہوا ‘ بہرحال قصہ مختصر چارلس ایچی سن کی اسٹڈی پر انگریز نے 1882 میں نہروں کے تین منصوبے شروع کیے‘ 1892 میں لوئر چناب کینال شروع ہوئی‘ گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ میں خانکی ہیڈ ورکس بنا اور اس نے گوجرانوالہ ڈویژن کو ہریالہ کر دیا ‘ 1906میں اپر چناب کا منصوبہ شروع ہوا اور یہ 1917میں مکمل ہو ئی‘ ہیڈ مرالہ اسی پراجیکٹ کا حصہ تھا‘ اس نہر نے پنجاب کی چھ لاکھ 48 ہزار ایکڑ زمین سیراب کر دی‘ اپر جہلم تیسرا پراجیکٹ تھا‘یہ 1915 میں شروع ہوئی اور 1917میں مکمل ہو گئی‘ یہ دریائے جہلم سے نکل کر دریائے چناب میں گرتی ہے اور اس سے ضلع گجرات کی بنجر زمینیں آباد ہوئیں‘ انگریز نے ان نہروں پر 9 کالونیاں بنائیں۔

 ان میں 10 لاکھ لوگ آباد کیے‘ انھیں سرکاری زمینیں دیں اور یہ لوگ انھیں آباد کرتے چلے گئے‘ سندیانی کالونی ملتان میں تھی‘ سوہاگ کالونی ساہیوال میں تھی جب کہ چونیاں‘ لائل پور اور سرگودھا بھی انگریزوں کی کالونیوں پر آباد ہوئے‘ پنجاب میں اس وقت ایسے 50 شہر ہیں جنھوں نے ان نہروں کی وجہ سے جنم لیا تھا‘ یہ تین نہریں آگے چل کر دنیا میں آب پاشی کا سب سے بڑا نظام بنیں اور ان کی وجہ سے چھ ہزار چار سو 73 میل کا رقبہ کاشت کاری کے قابل ہوا اور اس سے مشرقی اور مغربی دونوں پنجاب کے کروڑوں لوگ مستفید ہوئے‘ اب سوال یہ ہے اگر انگریز 1892 میں یہ قدم نہ اٹھاتا یا اس زمانے کے لوگ نہروں کے خلاف مظاہرے شروع کر دیتے تو کیا آب پاشی کا یہ نظام بنتا اور اگر یہ نہ بنتا تو آج پاکستان میں کیا صورت حال ہوتی! کیا ہم 25کروڑ لوگوں کی ضروریات زندگی پوری کر پاتے؟۔

میں مزید آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں دنیا میں میٹھے پانی کے سب سے بڑے سورس قطب شمالی اور قطب جنوبی ہیں‘ دونوں قطبوں پر لاکھوں میل لمبے گلیشیئرز ہیں‘ سردیوں میں ان پر برفیں پڑتی ہیں اور گرمیوں میں یہ گلیشیئرز تھوڑے تھوڑے پگھل کر زیرزمین پانی میں بھی اضافہ کرتے ہیں اور دریاؤں میں بھی پانی بڑھاتے ہیں‘ پانی کا تیسرا بڑا سورس ہمالیہ‘ قراقرم اور کوہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلے ہیں‘ یہ تینوں سلسلے خوش قسمتی سے پاکستان میں جگلوٹ کے مقام پر اکٹھے ہوتے ہیں‘ قدرت کے اس عظیم جغرافیائی معجزے کی وجہ سے شمالی اور جنوبی قطبوں کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ گلیشیئرز ہیں‘ بیافو (Biafo) گلیشیئر پاکستان کا طویل ترین گلیشیئر ہے‘ اس کی لمبائی 67 کلومیٹر ہے اور یہ گلگت بلتستان میں قراقرم کے سلسلے میں واقع ہے۔

 دریائے سندھ ہزاروں سال سے ان گلیشیئرز سے پانی لیتا ہے اور یہ پاکستان کی لائف لائین ہے‘ دریائے سندھ کے پانی کا سب سے بڑا سورس سیاچن گلیشیئر ہے‘ یہ 22 ہزار فٹ کی بلندی پر دنیا کا بلند ترین میدان جنگ ہے‘ اس پر 1984 سے بھارت اور پاکستان کی فوجیں موجود ہیں‘ سیاچن کی برفیں 2000 تک سخت ترین ہوتی تھیں لیکن فوجوں کی موجودگی‘ مسلسل گولہ باری اوربرف پر چولہے جلانے‘ کیمپس بنانے اور ہیلی کاپٹروں اوربھاری مشینری کی آمدورفت کی وجہ سے گلیشیئر نرم پڑ رہا ہے وہاں اب باقاعدہ پانی کے چھوٹے چھوٹے تالاب بن رہے ہیں اور گلیشیئر ٹوٹ کر بکھر رہا ہے یہاں تک کہ 2012ء میںگیاری کے مقام پر برف کا بہت بڑا تودہ فوجی کیمپ پر گر گیا اور 140 جوان شہید ہو گئے‘ سیاچن پاکستان کے لیے پانی کا بہت بڑا سورس ہے‘ ہمیں فوری طور پر اسے بھی بچانا ہو گا اور اس کے لیے سیاچن کی جنگ روکنا ہوگی۔

یہ یاد رکھیں پانی آنے والے وقتوں میں دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہو گا اور اس کی بنیاد پر جنگیں ہوں گی اور پاکستان کا شمار پانی کی کمی کے شکار پہلے دس ملکوں میں ہوتا ہے‘ ہم نے اگر خشک سالی سے بچنا ہے تو پھر ہمیں جنگی پیمانے پر پانی بچانے کی حکمت عملی بنانا ہو گی لیکن آپ المیہ دیکھیے‘ ہم سال کے آٹھ ماہ پانی کی کمی کا شکار رہتے ہیں اور مون سون کے چار مہینے ہم سیلابوں کا لقمہ بنتے ہیں یعنی ہم پانی کی کمی اور زیادتی دونوں کا شکار ہیں‘اب سوال یہ ہے ہم اس پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟ ہم پانی کے ذخائر کیوں نہیں بناتے اور ہم سیلاب کے پانی کو محفوظ کیوں نہیں کرتے؟یہ بلین ڈالر کا سوال ہے‘ہمیں چاہیے ہم فوری طور پر آبی گزر گاہوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیمز‘ تالاب اور خشک نہریں بنائیں تاکہ سیلاب کے دنوں میں پانی ان ذخائر کی طرف موڑ دیاجائے‘ اس سے زیر زمین پانی کی سطح بھی بلند ہو جائے گی اور خشک اور ویران علاقے بھی کاشت کے قابل ہو جائیں گے۔

 دوسرا ہم مدت سے نئی نہروں کے منصوبے بنا رہے ہیں لیکن سیاسی افراتفری کی وجہ سے حکومتیں ان پر توجہ نہیں دے سکیں‘ 2023 میں آرمی چیف نے گرین پاکستان کا منصوبہ شروع کیا‘ اس کے تحت پاکستان میں چھ نہریں بن رہی ہیں اور ان نہروں سے ہزاروں میل کا علاقہ کاشت کے قابل بن رہا ہے لیکن یہ منصوبہ بھی اب سیاست کی نذر ہو رہا ہے‘ سندھ میں احتجاج شروع ہو گیا ہے‘ لوگ سڑکیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں‘ ان کا کہنا ہے پنجاب سندھ کا پانی چوری کر رہا ہے‘آپ اندازہ کریں انگریز نے 1892 سے 1917 تک موجودہ پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام بنا دیا لیکن ہم 2025 میں ایک نہر کے لیے ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کر بیٹھے ہیں‘ ملک ایک طرف پانی کی شدید قلت کا شکار ہے اور دوسری طرف ہم نہریں روکنے کے لیے سڑکیں بند کر رہے ہیں‘کیا یہ عقل مندی ہے؟ آپ تین ماہ بعد تماشا دیکھ لیجیے گا۔

 جولائی اگست میں بارشیں شروع ہوں گی اور نہروں کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ سیلاب میں غوطے کھا رہے ہوں گے اور اسی فوج سے مدد کی اپیل کر رہے ہوں گے جس پر یہ اس وقت نہر بنانے کا الزام لگا رہے ہیں‘ یہ کھیل آخر کب تک چلے گا‘ ہم کب تک بنیادی ایشوز پر سیاست کرتے رہیں گے؟ پانی‘ نہریں اور ڈیمز ماہرین کے کام ہیں‘ عوام ان کی حساسیت نہیں سمجھ سکتے چناں چہ حکومتوں کو چاہیے یہ فوری طور پر ماہرین اکٹھے کریں‘ ملک کے لیے جامع واٹر پالیسی بنائیں اور ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کریں تاکہ ہم کم از کم پانی کے مسئلے سے تو نکل سکیں‘ پنجاب‘ سندھ‘ کے پی‘ بلوچستان اور کشمیر یہ سب پاکستان ہیں‘ کسی ایک صوبے کا فائدہ یا نقصان پورے ملک کا نقصان یا فائدہ ہو گا‘ ہم یہ حقیقت کیوں نہیں سمجھتے‘ ہم آخر کب تک حماقتوں کے جنگلوں میں بھٹکتے رہیں گے اور کب تک نفرت کے گندے تالاب میں غوطے کھاتے رہیں گے؟ ڈھلوانوں کا یہ سفر اب تو رک جانا چاہیے۔

نوٹ:کراچی کی ایک بزرگ خاتون کو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی‘ خواب میں روضہ رسولؐ سے متعلق ایک پیغام ہے‘ خاتون گھریلو عورت ہیں‘ عبادت گزار ہیں‘ ان کا سعودی حکومت کے ساتھ کوئی رابط نہیں اگر کسی صاحب کی سعودی ولی عہد تک رسائی ہو تو یہ مہربانی فرما کر خاتون کا خط ان تک پہنچا دیں‘ اس میں خاتون کی کوئی ذاتی حاجت شامل نہیں ‘ اگر کوئی صاحب اس سلسلے میں ان کی مدد کر سکتے ہوں تو وہ مہربانی فرما کر میرے نمبر 0300-8543103 پر واٹس ایپ کر دیں‘ میں ان کا خاتون سے رابطہ کرا دوں گا۔

متعلقہ مضامین

  • نہروں کا تنازع؛ چشمہ رائٹ بینک کینال سیاست کی نذر نہ ہو، ترجمان پختونخوا حکومت کا انتباہ
  • ملک کی حفاظت کے لیے ہم سب سینہ سپر ہیں، علی محمد خان
  • رجب بٹ پاکستان واپس کب آئیں گے؟ یوٹیوبر نے خاموشی توڑ دی
  • کرکٹ میں بھی سیاست، پہلگام حملے کے بعد بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کو کیا پیغام دیا؟
  • ایک مرتبہ پھر کھیل میں سیاست لے آیا۔پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے سے انکار
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! “کرکٹ نہیں کھیلیں گے”
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! کرکٹ نہیں کھیلیں گے
  • پانی‘ پانی اور پانی
  • بدقسمتی سے سیاستدان جمہوریت کا جنازہ نکال رہے ہیں، ایمل ولی خان
  • سیاستدان کو الیکشن اور موت کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے، عمر ایوب