ایثار و شہادت کے کلچر کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، مسعود پزیشکیان
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
راہیان نور تحریک کے قومی دن کی مناسبت سے گفتگو میں صدر مسعود پزیشکیان نے شہداء کے اخلاق اور کردار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شہداء نے جبر اور زبردستی کے ذریعے نہیں بلکہ اخلاقی اور عملی رویے سے معاشرے کی اصلاح کی طرف قدم اٹھایا۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزیشکیان نے راہیان نور کے مسئولین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کے حالات دفاع مقدس کے دور کی نسبت کہیں زیادہ مشکل ہیں اور دشمن مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے عوام کے نظریات اور اذہان پر حملہ آور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نے ایثار اور شہادت کے کلچر کو زندہ رکھنے اور نوجوان نسل میں اسے ایک رویے کے طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے شہداء کی راہ و روش کو ملکی مسائل کے حل اور عوام کی خدمت کا نمونہ قرار دیا اور مسئولین سے محنت اور مسابقت کے جذبے کے ساتھ اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
راہیان نور تحریک کے قومی دن کی مناسبت سے گفتگو میں صدر مسعود پزیشکیان نے شہداء کے اخلاق اور کردار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شہداء نے جبر اور زبردستی کے ذریعے نہیں بلکہ اخلاقی اور عملی رویے سے معاشرے کی اصلاح کی طرف قدم اٹھایا۔ واضح رہے کہ راہیان نور تحریک ایک ثقافتی تحریک ہے جو دفاع مقدس کی اقدار کو نئی نسل تک پہنچانے میں اہم کردار کی حامل ہے۔ بالخصوص ایسی صورتحال میں جہاں نئی نسل کو شناخت اور ثقافتی چیلنجز کا سامنا کرنا ہے، ایثار اور شہادت کے کلچر کو فروغ دینا قومی اور مذہبی تشخص کو مضبوط کرنے کے لیے ایک موثر حکمت عملی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مسعود پزیشکیان
پڑھیں:
کراچی آرٹس کونسل میں 38 روزہ ورلڈ کلچر فیسٹیول کا آغاز
کراچی (اسٹاف رپورٹر)آرٹس کونسل آف پاکستان میں دوسرے ورلڈ کلچر فیسٹیول (ڈبلیو سی ایف) کا آغاز 31 اکتوبر کو دھوم دام سے ہوگیا، پہلے دن میٹھی گیت، جوش بھرے رقص اور دلچسپ پرفارمنس آرٹ سب کا مرکز رہے۔ویب ڈیسک کے مطابق افتتاحی تقریب کے دوران مہمانوں کے آتے ہی باہر کھلے میدان میں مشہور مجسمہ ساز امین گلجی اور ان کی ٹیم نے ’دی گیم‘ نامی پرفارمنس آرٹ پیش کی۔مذکورہ آرٹ پرفارمنس کے بعد مرکزی ہال میں رسمی تقریب ہوئی، سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ مہمانِ خصوصی تھے۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ آرٹس کونسل شہر ہی نہیں، پورے ملک کا ثقافتی دل بن چکا ہے۔ گزشتہ سال 44 ممالک تھے، اب 142 ممالک اور 1000 سے زائد فنکار فیسٹیول میں موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ سندھ کا دارالحکومت کراچی دنیا کا استقبال کر رہا ہے، فن صرف خوبصورتی نہیں، یہ شفا، رابطہ اور مزاحمت کی طاقت ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ نے سندھ کی ثقافتی روایات، شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری اور صوفی دھنوں کا ذکر بھی کیا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ فنکار نسل کشی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور انہوں نے بھی آرٹس کونسل کے پلیٹ فارم سے سب فنکاروں کے ساتھ آواز اٹھائی۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں 21ویں صدی کی سب سے بڑی نسل کشی ہوئی لیکن اب عارضی جنگ بندی ہو چکی ہے، ثقافت لوگوں کو جوڑتی ہے۔فیسٹیول کے آغاز کے پہلے ہی دن ’شاہ جا فقیر‘ کے گروپ نے شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری پر مبنی سر ماروی پیش کیا، نیپال سے تعلق رکھنے والے مدن گوپال نے اپنے ملک کا گیت گایا، جس میں انہوں نے کراچی کا لفظ شامل کیا۔پہلے ہی دن لسی ٹاسکر (بیلجیم) نے بیس کلیرنیٹ پر جادو جگایا، عمار اشکر (شام) نے ڈھولک کے ساتھ عربی اور سندھی فیوژن پر پرفارمنس کی جب کہ اکبر خمیسو خان نے الغوزہ پر سب کو تالیاں بجوانے پر مجبور کیا۔اسی طرح زکریا حفار (فرانس) نے سنتور کی نرمی سے دل جیتا، کانگو کے اسٹریٹ ڈانسرز کی پرفارمنس نوجوانوں کو بہت پسند آئی، بیلیٹ بیونڈ بارڈرز (امریکا) کے پرفارمرز نے دو سولو ڈانس جنگ کا رقص اور تضاد پیش کیا جب کہ شیرین جواد (بنگلہ دیش) نے خوبصورت گلوکاری کی۔