Islam Times:
2025-07-26@00:44:50 GMT

علوی کون؟

اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT

علوی کون؟

اسلام ٹائمز: کسی مسلک کے عقائد کی درست طور پر آگاہی اس مسلک کے ذمے دار افراد کے عقائد کو جان کر ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا شام کے علویوں کے عقائد کی گتھی عصر حاضر میں ان کے ذمے دار علماء ہی کے ذریعے سلجھائی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اہل تشیع میں ایک منحرف طبقہ وجود میں آگیا تھا جسے ”نصیری“ کہا جاتا تھا اور شاید اب بھی کچھ گمراہ لوگ اسی قسم کے مشرکانہ عقائد رکھتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اہل سنت کی ایک بھاری تعداد نے قادیانیت کو قبول کیا اور اب بھی روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہیں۔ تحریر: سید تنویر حیدر

اپنے دامن میں جولان کی پہاڑیاں رکھنے والا ”ملک شام“ لمحہء موجود میں فتنوں کی جولان گاہ بنا ہوا ہے۔ شام کا جب ذکر آتا ہے تو اس ملک میں بسنے والے علویوں کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے۔ علوی کون ہیں؟ ان کا عقیدہ کیا ہے؟ اس حوالے سے تحقیق کے میدان سے ناآشنا لوگ اپنے ذہنوں میں کئی طرح کے درست اور غلط تصورات رکھتے ہیں مثلاً ایک یہ نظریہ کہ ان کا تعلق ”نصیری“ فرقے سے ہے جو مولائے کائنات علی علیہ السلام کو خدا مانتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ علویوں کے ان عقائد کے حوالے سے اس قسم کے خیالات ایسے ہی ہیں جس طرح کے بے سر و پا خیالات ”شیعہ اثنا عشری“ مسلمانوں کے بارے میں ذہنوں میں بٹھائے گئے ہیں۔ کسی مسلک کے عقائد کی درست طور پر آگاہی اس مسلک کے ذمے دار افراد کے عقائد کو جان کر ہی ہوتی ہے۔

شام کے علویوں کے عقائد کی گتھی عصر حاضر میں ان کے ذمے دار علماء ہی کے ذریعے سلجھائی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اہل تشیع میں ایک منحرف طبقہ وجود میں آگیا تھا جسے ”نصیری“ کہا جاتا تھا اور شاید اب بھی کچھ گمراہ لوگ اسی قسم کے مشرکانہ عقائد رکھتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اہل سنت کی ایک بھاری تعداد نے قادیانیت کو قبول کیا اور اب بھی روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس تمہید کے بعد اب آئیے دیکھتے ہیں کہ آج کے علویوں کا کیا عقیدہ ہے۔ بعض جید شیعہ علماء اور شام کے علوی علماء کے مابین رابطے، قربت اور افہام و تفہیم کے نتیجے میں علوی فرقے کے علماء نے ایک باضابطہ ”اعلامیہ“ جاری کیا ہے جس میں انہوں نے دین کے اصولوں اور فروعات پر اپنے عقائد اور اپنے نظریاتی موقف کا اظہار کیا ہے جس کا ایک حصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔

1۔ ہر علوی مسلمان ہے، شہادتین پڑھتا ہے، اس پر کامل ایمان رکھتا ہے اور اسلام کے پانچ ستونوں کا قائل ہے۔
2۔ علوی مسلمان ہیں اور شیعہ ہیں نیز پیروان و یاران امام علی (ع) ہیں۔ علویوں کی آسمانی کتاب ”قرآن کریم“ ہے اور ان کا مذہب وہی ہے جو مذہبِ امام جعفر صادق (ع) ہے۔
3۔ علوی اپنی عبادات، لین دین کے مسائل اور دیگر احکام کے حوالے سے اپنا کوئی جداگانہ مسلک نہیں رکھتے بلکہ وہ اپنے تمام معاملات میں ”مذہب امامیہ“ کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کے نذدیک ”مذہبِ جعفری“ ریشہء مذہبِ علوی ہے ”مکتب جعفریہ“ علوی فرقے کی جڑ ہے اور علوی اس کی شاخ ہیں۔

عقائد مکتب علوی
1۔ اسلام: ہمارا دین اسلام ہے جو دو شہادتوں کا اقرار کرنے اور اس دین پر ایمان لانے پر مشتمل ہے جو پیغمبر اسلام لائے تھے۔
2۔ ایمان: خدا، فرشتوں، آسمانی کتابوں اور انبیاء پر سچا ایمان شہادتین کے اقرار کے ساتھ۔
3۔ دین کے اصول: توحید، عدل، نبوت، امامت، معاد۔
4۔ توحید: خدا کی کوئی مثال نہیں اور وہ لاشریک ہے۔
5۔ انصاف: خدا عادل ہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا۔
6۔ نبوت: اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں پر لطف و احسان کرتے ہوئے ان کے لیے برگزیدہ انبیاء کا انتخاب کیا ہے اور معجزات سے ان کی مدد کی ہے۔
7۔ امامت: امامت ایک منصب الہٰی ہے جسے خدا نے اپنے بندوں کے نفع کے لیے ضروری سمجھا ہے۔ خدا کا فضل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ ایک نصِ قاطع و صریح کے ساتھ  امام کا تقرر کرے۔ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ امام مانند پیغمبر، معصوم ہوتا ہے اور اس سے کسی قسم کا گناہ اور اشتباہ سرزد نہیں ہوتا۔ ہمارے عقیدے کے مطابق امام 12 ہیں۔ رسول خداؐ نے ایک ایک کرکے ان کے ناموں کی تصریح کر دی ہے۔ (امام علی علیہ السلام سے لے کر آخری امام حجت ابن الحسنؑ تک)۔
8۔ معاذ: اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو ان کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے تاکہ بروز قیامت ان کے اعمال کا حساب لیا جا سکے۔

احکام شرعی چار ہیں
1۔ قرآن کریم
2۔ سنت نبوی
3۔ اجماع
4۔ عقل
ہماری نظر میں ”مرجع تقلید“ کے حوالے سے ہمارا نظریہ وہی ہے جس کے بارے میں امام زمانہ (عج) نے فرمایا ہے: ”عام لوگوں کو چاہیئے کہ وہ فقہا میں سے اس شخص کی تقلید کریں، جو خود پر قابو رکھتا ہو، اپنے دین کی حفاظت کرتا ہو، اپنی نفسانی خواہشات کی مخالفت کرتا ہو اور ”مطیع امر مولیٰ “ ہو۔ عام لوگوں کو          چاہیئے کہ اس کی تقلید کریں۔

فروعات دین
1۔ نماز فرض ہے
2۔ اذان و اقامہ مستحب ہیں
3۔ روزہ دین کے ستونوں میں سے ہے
4۔ ذکوٰۃ دین کا دوسرا ستون ہے
5۔ خمس
6۔ جہاد
7۔ حج
8۔ امر با المعروف و نہی عن المنکر
9۔ تولیٰ و تبریٰ
علوی دیگر تمام اسلامی احکام اور معاملات میں فقہ جعفری پر عمل کرتے ہیں۔ ہمارے فقہاء ”کتب اربعہء شیعہ امامیہ“ کی طرف رجوع کرتے ہیں جو یہ ہیں: کافی، تہذیب، استبصار، من لا یحضر فقیہ۔ ہمارے عوام ”رسالہ ہائے عملیہء مراجع تقلید“ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس بیانیے پر شام اور لبنان کے 80 علماء نے دستخط کیے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے عقائد کی کے ذمے دار رکھتے ہیں حوالے سے کرتے ہیں کے علوی مسلک کے اب بھی ہے اور دین کے کیا ہے

پڑھیں:

سوشل میڈیا اور ہم

انگریز نے جب ہندوستان میں اپنے قدم  جما لیے اور حکمران بن  بیٹھا تو چونکہ وہ اپنے دوست اور دیگر رشتے دار پیچھے چھوڑ آیا تھا تو یہ ثابت کرنے کےلیے کہ وہ بھی سماجی حیوان ہے، اس نے ہندوستان میں جم خانے اور کلب بنائے تاکہ وہ اپنے ہم رنگ،  ہم نسل، ہم منصب، ہم نوالہ، ہم پیالہ کے ساتھ وقت گزار سکے اور سماجی سرگرمیاں کرسکے۔ اس کو صرف اپنے لوگوں تک محدود کرنے کےلیے اس نے باہر بورڈ لگوا دیے کہ ’’کتوں اور ہندوستانیوں‘‘ کا داخلہ ممنوع ہے۔

انگریز چلے گئے، قوم آزاد ہوگئی اور جم خانوں اور کلبوں سے بورڈ اتر گئے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ بورڈ آج بھی آویزاں ہیں بس نظر نہں آتے۔ کیونکہ آج بھی صرف ایک مخصوص سماجی حیثیت کے لوگ ہی ان جم خانوں اور کلبوں میں جلوہ گر ہوتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر ان کے رشتے دار خاص طور پر وہ جو سماجی حیثیت میں اُن کے ہم پلہ نہ ہوں، اگر وہ ان سے ملنے کے خواستگار ہوں تو یہ انکار کر دیتے ہیں کہ ہم مصروف ہیں اور کلب جارہے ہیں۔ اس صورتحال میں نوٹس تو اب بھی موجود ہے لیکن اب وہ مقامی ضروریات پوری کرتے ہیں۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے اور اس میں سے سماجی نکال دوں تو صرف حیوان رہ جاتا ہے۔ انسان کی سماجی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے ہر دور میں کچھ نہ کچھ نئی چیزیں اور طریقے متعارف کرائے جاتے رہے۔ موجودہ دور سماجی ذرائع ابلاغ کا ہے، بدقسمتی سے اس سماجی ذرائع ابلاغ نے ملاقات کے معنی بدل دیے ہیں۔ اب ملنا بھی آن لائن ہوگیا ہے کہ جس کے نتیجے میں ملاقات تو آن لائن ہوجاتی ہے لیکن موت تنہائی یا اکیلے میں ہوتی ہے۔

جس تواتر سے اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے لگتا ہے کہ قوم جلد ہی اس کو بھی قبول کرلے گی اور ابھی جو تھوڑا بہت اثر ہم دیکھ رہے ہیں وہ بھی وقت کے ساتھ ختم ہوجائے گا اور ہم بالکل احساس سے عاری لوگوں کا ہجوم بنے ہوئے تو ہیں ہی بس یہ سب کچھ اور پکا ہوجائے گا۔ جب بھی کوئی نئی چیز یا طریقہ متعارف کرایا گیا تو یہ خیال رکھا گیا کہ نئی چیز یا طریقہ انسان کے تابع ہوں۔ یہ پہلی بار ہے کہ انسان اس سوشل میڈیا کا عادی بلکہ ’’غلام‘‘ بن گیا ہے۔ بے شمار ایسی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں کہ جس میں ہم نے دیکھا کہ لوگ اس قدر سوشل میڈیا پر منہمک تھے کہ حادثے کا شکار ہوگئے لیکن کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔

ہمارا مذہب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تم اگر کچھ اچھا کھاتے یا پیتے ہو لیکن کسی بھی وجہ سے اسے اپنے ہمسایے کے ساتھ بانٹ نہیں سکتے تو اس کی باقیات کو باہر مت پھینکو کہ تمہارے ہمسایے کو اپنی کم مائیگی کا احساس نہ ہو۔ لیکن آج سوشل میڈیا پر کیا ہو رہا ہے، ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کی نمائش کی جاتی ہے، جیسے میں پیزا کھا رہا ہوں، میں نے حلوہ پوری کھائی اور دیگر چیزوں میں کہ میں طیران گاہ سے ملکی اور غیر ملکی سفر پر روانہ ہورہا ہوں اور لوگ کھانے کی چیزوں پر yummy اور دیگر چیزوں پر مختلف تاثرات دیتے ہیں۔ ایک اور طریقہ "like" کا ہے جس میں مختلف اشکال بھی ہیں، جیسے دل یا انگوٹھا۔ اگر فیس بک کا بٹن دلی کیفیت بتا سکتا تو دل کے ساتھ ’’چھریاں‘‘ بھی ہوتیں اور ’’انگوٹھے‘‘ کے ساتھ بقایا انگلیاں بھی ہوتیں، باقی آپ سب سمجھدار ہیں۔

خدا کےلیے ہوش کے ناخن لیجیے۔ یہ موجودہ دور کا فتنہ ہے۔ ہر دور کے اپنے فتنے ہوتے ہیں اور اگر ان فتنوں کا وقت پر سدِباب نہیں  کیا گیا تو یہ قوموں کو تباہ کردیتے ہیں اور قرآن میں اس قسم  کے واقعات کی بہت مثالیں ہے۔ انتہا تو یہ کہ میں نے مسجد میں داخلے کے (check in) کے پیغامات بھی پڑھے ہیں۔ اگر یہ خدا کےلیے ہے تو کیا اس کو پتہ نہیں ہے؟ ہمارا تو ایمان ہے کہ وہ دلوں کے حال جانتا ہے اور اگر لوگوں کےلیے ہیں تو پھر اسے دکھاوے کے سوا کیا نام دوں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ آخرت میں ہر چیز بشمول ہمارے اپنے اعضا ہمارے اعمال کی گواہی دیں گے، تو کہیں اس فیس بک کے چکر میں ہم کہیں فیس دکھانے کہ لائق نہ رہے اور یہ فیس بک والا like نہیں، آگے اپ کی مرضی اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین۔  

آخر میں ہماری قومی ذہنیت پر ایک کہانی اور اختتام۔

ایک گھر کے دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھولا تو سامنے پیزا ڈلیوری والا لڑکا کھڑا تھا۔ گھر کے مکین نے کہا کہ ہم نے تو کوئی پیزا کا آرڈر نہیں دیا ہے۔ پیزا ڈلیوری والے نے کہا کہ معلوم ہے اور یہ کہہ کر پیزا کا ڈبہ کھول کر انھیں پیزا دکھایا اور کہا کہ یہ آپ کے پڑوسیوں کا آرڈر ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو دکھا دوں  کیونکہ ان کے یہاں بجلی نہیں ہے اور اس کو فیس بک پر پوسٹ نہ کرسکیں گے۔

آپ پیزا دیکھ کر جل بھن کر کباب بنیں اور چاہے تو پھر وہی جلے بھنے کباب کھا لیجئے گا اور اپنے پڑوسیوں کو پیزا سے لطف اندوز ہونے دیں۔ 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • وفاقی وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی کی زیر صدارت حضرت بری امام سرکارؒ کے سالانہ عرس مبارک کے انتظامات سے متعلق ذیلی کمیٹی کا اجلاس
  • کوئٹہ، امام جمعہ علامہ غلام حسنین وجدانی کی رہائی کیلئے احتجاج
  • فساد قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے۔۔۔۔۔ ! 
  • سوشل میڈیا اور ہم
  • (26 نومبر احتجاج کے مقدمات )عارف علوی ،گنڈاپورکے وارنٹ گرفتاری
  • جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟
  • سابق صدر عارف علوی کے وارنٹ گرفتاری جاری
  •   عارف علوی، علی امین گنڈاپور سمیت 10 پی ٹی آئی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری
  • قومی ٹیسٹ کرکٹر امام الحق کا انگلش کاؤنٹی یارکشائر سے باقاعدہ معاہدہ
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟