فہد مصطفیٰ پر بھی فرشی شلوار کا جادو چل گیا،ویڈیو وائرل
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
کراچی(شوبز ڈیسک)رواں سال عید سے قبل ٹرینڈ میں آنے والا لباس ‘فرشی شلوار’ جہاں سوشل میڈیا پر جاتے ہی اب کوئی نہ کوئی سلیبریٹی اس ڈریس کو پہنی نظر آرہی ہے وہیں فہد مصطفیٰ نے بھی اس ٹرینڈ میں انٹرسٹ ظاہر کردیا ہے۔
رواں سال عید سے قبل ٹرینڈ میں آنے والا لباس کوئی اور نہیں بلکہ ‘فرشی شلوار’ ہے جو کسی کی نئی سوچ کا نتیجہ نہیں بلکہ دہائیوں قبل پاکستان میں سب سے زیادہ فیشن ایبل ڈریس تھا جس کو اب واپس لایا گیا ہے۔یوں تو تمام ہی برانڈز نے اسے اپنی عید کلیکشن کا حصہ بنایا لیکن اصل میں اس فیشن کو واپس لانے والی صدف کنول ہیں جنہوں نے 2023 میں چھوٹی قمیص کے ساتھ فرشی شلوار کو واپس لاتے ہوئے اپنے برانڈ کا حصہ بنایا۔
View this post on InstagramA post shared by Galaxy Lollywood (@galaxylollywood)
فہد مصطفیٰ کا اس ٹرینڈ میں انٹرسٹ ظاہر کرنا ان کے فینز کو بالکل حیران کرتا نہیں دکھا کیوں کہ وہ اپنے شو ‘جیتو پاکستان’ میں ایسے ایسے ملبوسات پہن چکے ہیں جو بے انتہا انوکھے تھے اور اکثر لباس تو ایسے تھے جو ان پر زنانہ لباس پہننے کا الزام لگا گئے۔سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں فہد مصطفیٰ اپنے گیم شو کے دوران شائستہ لودھی سے یہ پوچھتے نظر آئے کہ ‘یہ فرشی شلوار کے کے آیا ہوا ہے کچھ، کیا ہے یہ، زارا بیان کیجیے۔’
اس پر شائستہ لودھی نے کہا کہ ‘پُرانے زمانے میں پہنی جاتی تھیں جو چوڑے پائنچوں کی شلوار ہوتی تھیں تو وہ اب واپس آگئی ہیں’۔فہد مصطفیٰ نے شائستہ لودھی سے اگلا سوال کیا کہ ‘تو کیا یہ فرشی شلوار میں بھی پہن سکتا ہوں؟’ جس پر شائشہ لودھی بولیں کہ ‘جی آپ بالکل پہن سکتے ہیں، آپ نے کل جو جیکٹ پہن لی ہے نا اب تو آپ کچھ بھی پہن سکتے ہیں۔
فہد مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ بیٹا جو میں پہن سکتا ہوں ناں وہ پورے پاکستان میں کوئی بھی کیری نہیں کرسکتا ہے۔
اس ویڈیو کے وائرل ہونے کی دیر تھی کہ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے مختلف تبصرے شروع کردیے۔ایک صارف کا کہنا تھا کہ ‘فہد بھائی آپ پہن تو سب لیتے ہو لیکن اچھا بھی تو لگنا چاہئے، کبھی عورت کے کپڑے پہن کر آجاتے ہو کبھی دعوتِ ولیمہ کے جبکہ ایک اور صارف نے لکھا کہ فہد نے بات تو صحیح کی ہے کچھ بھی پہن لے، عجیب و غریب نہیں لگتا۔
یاد رہے کہ جس دور میں خواتین میں فرشی شلوار فیشن میں تھی مردوں میں بھی فیشن چوڑے پائنچوں والی شلوار کا ہی تھا اور سوشل میڈیا پر پرانے زمانے میں لی گئیں کچھ پاکستانی مردوں کی یادگار تصویر بھی زیرِ گردش ہے۔ تصویر کا بے رنگ ہونا پُرانے کیمروں کی یاد تو تازہ کرتا دکھا ہی لیکن فرشی شلواروں کی مردوں میں مقبولیت کو بھی عیاں کرگیا کیونکہ اس تصویر میں لائن سے کھڑے مرد ایک جیسی شلواریں ہی پہنے ہوئے ہیں۔
مزیدپڑھیں:وزیراعلیٰ سندھ کا رواں سال گندم نہ خریدنے کا اعلان
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا فرشی شلوار فہد مصطفی
پڑھیں:
کپتان کی مردم شناسی اور زرداری کا جادو!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251105-03-7
میر بابر مشتاق
سنتے تھے کہ طوائف اپنی عزت بیچ کر اپنے گرو کا پیٹ بھرتی ہے۔ اب یہ مثال سیاست پر فٹ کر کے دیکھ لیجیے؛ آج تحریک انصاف کے ارکان وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو طوائف ادا کرتی ہے، اور پیپلزپارٹی وہ گرو ہے جو ہر وقت اپنی ’’مانگ‘‘ بھروانے کے لیے ان ارکان کو بلا لیتی ہے۔ جب گرو یعنی پیپلزپارٹی کو ووٹوں کی ضرورت پڑی، تحریک انصاف کے ارکان حاضری دینے پہنچ گئے۔ سینیٹ الیکشن میں زرداری صاحب کے نامزد امیدواروں کو مدد درکار تھی؟ کپتان کے کھمبے دوڑ پڑے۔ کراچی کے میئر کے لیے 32 ووٹ کم تھے؟ پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمین خدمت کے لیے پیش ہو گئے۔ آزاد کشمیر میں حکومت سازی کے لیے 6 ووٹ درکار تھے؟ تحریک انصاف نے سخاوت میں 9 ارکان زرداری کی جھولی میں ڈال دیے۔ کسی نے سچ کہا تھا، ’’تم پی ٹی آئی کو ووٹ دو، ووٹ زرداری کی جیب میں ملے گا!‘‘
اب سوال یہ ہے کہ آخر یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ وجہ سادہ ہے: عوام اپنے نمائندوں کو نمائندہ نہیں، کپتان کا کھمبا سمجھتے ہیں۔ انہیں کہہ دیا جاتا ہے کہ تمہاری کوئی حیثیت نہیں، تم صرف کپتان کے کھڑے کیے گئے آدمی ہو۔ کپتان چاہے جس پر ہاتھ رکھ دے، وہ چور بھی سر آنکھوں پر، اور جسے رد کر دے، وہ حاجی بھی بھاڑ میں جائے۔ اب سوچو! جب ایک نمائندہ جانتا ہے کہ وہ عوام کے ووٹ سے نہیں بلکہ ’’کپتان کے کرشمے‘‘ سے آیا ہے، تو وہ تمہارے لیے کیوں کھڑا ہوگا؟ جہاں زیادہ مفاد اور اقتدار دکھائی دے گا، وہ وہیں جا لگے گا۔ ویسے بھی کپتان صاحب نے آج تک ’’بہتر مردم شناسی‘‘ کا ثبوت کب دیا ہے؟ محمود خان سے بزدار تک، گنڈاپور سے موجودہ مراد سعید کی سستی نقل تک، ہر مثال بتاتی ہے کہ عمران خان کی ٹیم چننے کی صلاحیت کسی تجربہ گاہ میں ناکام تجربے سے زیادہ کچھ نہیں۔ کپتان کھمبے کھڑا کرتا ہے، زرداری کی کرین آکر اٹھا لے جاتی ہے۔ بس یہی ہے پوری سیاست کی تلخ سچائی۔
اب آتے ہیں اس کھیل کے دوسرے منظر پر؛ جہاں نظریہ کی موت کو ’’سیاسی حکمت ِ عملی‘‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔ جب تک عمران خان ہے، زرداری چاروں صوبوں میں حکومت بنائے گا۔ سینیٹ الیکشن؟ عمران زرداری کے جیب میں۔ رجیم چینج؟ عمران زرداری کی جیب میں۔ کراچی میئر الیکشن؟ عمران زرداری کی جیب میں۔ کشمیر حکومت سازی؟ عمران زرداری کی جیب میں۔ یعنی عمران کو ووٹ دو، زرداری کو اقتدار دو۔ ’’کپتان کھیلتا کہیں ہے، جیتتا زرداری ہے!‘‘ اللہ بخشے عمران خان کو، فرمایا کرتے تھے کہ ’’لوگ میرے نظریے پر اکٹھے ہو رہے ہیں‘‘۔ واقعی اکٹھے ہوئے تھے لاکھوں کی تعداد میں نوجوان، خواتین، بزرگ۔ مگر اب لگتا ہے وہ سب نظریے کے گرد نہیں، اقتدار کے گرد جمع ہوئے تھے۔
آزاد کشمیر کی سیاست نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ تحریک انصاف کے نو وزراء ایک ایک کر کے پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے وہی چہرے جو کل تک ’’نیا کشمیر‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے، آج ’’پرانے پاکستان‘‘ کی کرسیوں پر بیٹھے مسکرا رہے ہیں۔ زرداری ہاؤس میں شمولیت کی تقریب ایسے منعقد ہوئی جیسے نظریہ نہیں، بلکہ سیاسی وفاداری کا جنازہ پڑھا جا رہا ہو۔ ظفر اقبال، عبدالماجد، اکبر ابراہیم اور دیگر وہ نام ہیں جو کبھی خود کو انقلاب کا سپاہی سمجھتے تھے، آج وہ اقتدار کے غلام بن گئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر نظریہ کہاں گیا؟ کیا تحریک انصاف واقعی تبدیلی کی علامت تھی؟ یا وہ صرف ایک سیاسی پروجیکٹ تھا جو اپنا کام مکمل کر چکا؟ کہتے ہیں زرداری سیاست نہیں کھیلتے، وہ کھیل بناتے ہیں۔ کراچی، کشمیر، یا سینیٹ۔ ہر جگہ پیپلز پارٹی کا جادو چل رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کپتان کی ’’ٹیم‘‘ دراصل زرداری کی ’’ریزرو فورس‘‘ ہے۔ جہاں اسے ضرورت پڑتی ہے، وہاں یہ فورس پہنچ جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو ’’سیاسی چالاکی‘‘ کا ماسٹر کہا جاتا ہے، مگر تحریک انصاف نے تو ’’سیاسی نادانی‘‘ میں بھی نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ نظریہ بیچ کر وزارتیں خریدنے والوں کا قافلہ روز لمبا ہوتا جا رہا ہے۔
یہ المیہ صرف تحریک انصاف کا نہیں، یہ پورے سیاسی نظام کا عکاس ہے۔ یہاں جماعتیں نظریے سے نہیں، اقتدار کی ہوا کے رُخ سے چلتی ہیں۔ جب اقتدار کا موسم بدلتا ہے تو نظریہ بھی نئی سمت اُڑ جاتا ہے۔ وفاداریاں وزارتوں اور وعدوں کے بدلے فروخت ہوتی ہیں، اور عوام سوچتے رہ جاتے ہیں۔ کیا واقعی یہ وہی ’’تبدیلی‘‘ تھی جس کا خواب انہیں دکھایا گیا تھا؟ عمران خان کہا کرتے تھے: ’’ہم پرانے پاکستان کی سیاست ختم کرنے آئے ہیں‘‘۔ افسوس! آج لگتا ہے کہ پرانے پاکستان کی سیاست نے تحریک انصاف کو ہی ختم کر دیا ہے۔ زرداری ہاؤس میں جشن کا سماں ہے۔ فریال تالپور مسکرا رہی ہیں۔ جن لوگوں نے کل ’’کرپشن مافیا‘‘ کے خلاف نعرے لگائے تھے، آج وہی ہاتھ بڑھا کر اسی مافیا کے ساتھ سیلفیاں لے رہے ہیں۔ یہ سیاست نہیں، تماشا ہے تماشائی عوام ہیں، اور اداکار وہ رہنما جو نظریے کو لباس کی طرح بدل لیتے ہیں۔ قیام پاکستان نظریے کی بنیاد پر ہوا، مگر اس ملک کی سیاست ہمیشہ مفاد کی بنیاد پر چلی۔ آج تحریک انصاف کے ٹوٹتے دھاگے دراصل نظریہ سیاست کی تدفین ہیں۔ یہ محض وفاداریوں کی تبدیلی نہیں، یہ اخلاقیات، شرافت اور امید کے جنازے کا منظر ہے۔
سوال یہ نہیں کہ یہ وزراء کیوں گئے، سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف میں ایسا کیا باقی نہیں رہا کہ وہ لوگ رُکے نہیں؟ کیا خان صاحب کا نظریہ صرف جیل کی دیواروں میں قید ہو گیا ہے؟ یا یہ جماعت ایک ایسی کشتی بن چکی ہے جس کے ملاح اب اپنے اپنے کنارے ڈھونڈ رہے ہیں؟ پاکستان میں اگر تبدیلی آنی ہے تو پہلے سیاسی کلچر بدلنا ہوگا۔ ضرورت ہے کہ: 1۔ سیاسی جماعتیں اپنے اندرونی جمہوری نظام کو مضبوط کریں۔ 2۔ شفافیت کو سیاست کا حصہ بنائیں۔ 3۔ نظریاتی تربیت کو لازم کریں۔ 4۔ وفاداری بدلنے والوں کے لیے واضح قانون بنائیں۔ 5۔ عوام نمائندوں سے کارکردگی کا حساب لیں۔ ورنہ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ کپتان کھمبے کھڑا کرے گا، زرداری کرین لے جائے گا۔ عوام نظریے کا نعرہ لگائیں گے، اور اقتدار والے مفاد کا جشن منائیں گے۔
شاید اصل سوال اب یہ نہیں کہ کپتان کی ٹیم ناکام ہوئی یا زرداری کامیاب، بلکہ یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کبھی نظریہ جیتے گا؟ یا یہاں ہمیشہ مفاد ہی بادشاہ رہے گا؟ فی الحال تو لگتا ہے کہ نظریہ قبر میں ہے، اور اس کی قبر پر سیاست دان پھول نہیں۔ بیان بازی کے پتھر رکھ رہے ہیں۔ یہ سیاست نہیں، ایک کھیل ہے۔ جس میں کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں، مگر کھیل وہی رہتا ہے۔
(یہ کالم کسی مخصوص جماعت کے حق یا مخالفت میں نہیں بلکہ پاکستانی سیاست کے بدلتے ہوئے طنزیہ رویوں پر ایک فکری تبصرہ ہے۔)