سعودی عرب میں اس سال ملازمین اور طلبا کو عید الفطر کی طویل چھٹیاں ملیں گی۔

سعودی میڈیا کے مطابق مملکت میں عید الفطر کی چھٹیاں 30 مارچ بروز اتوار سے 2 اپریل بروز جمعرات تک ہوں گی۔

سعودی عرب میں ہفتہ وار تعطیلات جمعہ اور ہفتے کو ہوتی ہیں اس طرح عید کی تعطیلات میں مزید دو دن اور مل گئے۔

جمعے کے روز ہفتہ وار تعطیلات کے لیے بند ہونے والے دفاتر 6 دن بعد جمعرات کو کھلیں گے اور پھر جمعے اور ہفتے کے روز ہفتہ وار کو چھٹی ہوگی۔

طلبا کے لیے عید کی تعطیلات اس بھی زیادہ ہوں گی۔ وزارتِ تعلیم نے تعلیمی اداروں میں 20 مارچ سے 6 اپریل تک ہوں گی۔

یاد رہے کہ سعودی عرب میں رمضان المبارک کا آغاز یکم مارچ ہوا تھا اور یہ 33 سال بعد پہلی بار ہوا تھا جب اسلامی اور عیسوی ماہ کا آغاز ایک ہی تاریخ کو ہوا۔

 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

یمن کا سعودی عرب کو الٹی میٹم

اسلام ٹائمز: یمنی قیادت نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں سے امن معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد کے سلسلے میں کیے تھے۔ یہ وہی تقاضے ہیں جن پر عمل درآمد طوفان الاقصیٰ کی جنگ اور یمن کی طرف سے غزہ کی حمایت میں کی جانے والی عسکری کارروائیوں کے باعث مؤخر ہو گیا تھا۔ اب صنعاء ان شرائط و مفادات کے نفاذ کی تیاری کر رہا ہے جن پر اس نے پہلے امریکی دباؤ کے باعث عمل نہیں کیا تھا۔ یمن کی اعلیٰ قیادت کے بیانات سے واضح ہے یمن اسلامی اپنے وقار، عزت، حقوق اور غزہ کی نصرت پر کوئی سمجھوتہ کرنیکے لئے تیار نہیں۔ خصوصی رپورٹ:

غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خاتمے اور جنگِ غزہ کی حمایت میں یمنی کارروائیوں کے رک جانے کے بعد، یمن کے اعلیٰ حکام نے حالیہ دنوں میں ریاض سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طے پانے والے امن معاہدے کی شقوں پر اپنے وعدوں پر عمل کرے۔ واضح رہے کہ جب فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی طرف سے صہیونی رژیم کے خلاف طوفان الاقصیٰ آپریشن شروع ہوا تھا، اُسی دوران یمن اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات بھی جاری تھے، جو کئی ماہ تک چلتے رہے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں فریقین کے درمیان جنگ کے خاتمے اور عسکری، انسانی، اور سیاسی اختلافات کے حل کے لیے متعدد سمجھوتے طے پائے تھے۔
غزہ جنگ کیوجہ سے یہ معاہدہ اس وقت مؤخر ہو گیا، جب صنعاء نے فلسطینی مزاحمت کی حمایت اور اہلِ غزہ کے مظلوم عوام کے دفاع کی جنگ میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن غزہ میں صہیونیوں کی نسل کُشی پر مبنی جنگ رک جانے کے بعد، یمنی نقطۂ نظر کے مطابق اب امن معاہدے پر عمل درآمد کی ذمہ داری سعودی فریق پر عائد ہوتی ہے۔ یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے سربراہ مہدی المَشاط نے ریاض کی جانب سے اپنے وعدوں پر عمل نہ کرنے اور سستی و غفلت کی پالیسی جاری رکھنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ صعودیہ صرف کشیدگی میں کمی کے مرحلے تک محدود نہ رہے، بلکہ یمن کے ساتھ امن معاہدے کی واضح شرائط پر عمل درآمد کرے۔

یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے سربراہ نے مزید کہا کہ یہی وہ قریب ترین اور بہترین راستہ ہے جو اُن لوگوں کی لالچ اور فتنہ انگیزی کو روک سکتا ہے جو اسلامی امت کے اندر جنگ کے آپشن پر سرمایہ کاری کر کے اسرائیل کے مفادات کی خدمت کر رہے ہیں، اگر آپ غور کریں تو امریکہ خطے کی تمام حساس صورتحال سے اسرائیل کے حق میں فائدہ اٹھا رہا ہے۔ صنعا نے اس بات کو نہیں چھپایا کہ وہ سعودی عرب کے امریکی و اسرائیلی دباؤ کے تحت اپنے وعدوں سے پہلو تہی کرنے پر گہری تشویش رکھتا ہے۔ یمنی قیادت نے خبردار کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ فوجی کشیدگی کی پالیسی اختیار کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کرے گا، چاہے اس کے نتائج دونوں فریقوں کے لیے تباہ کن ہی کیوں نہ ہوں۔

اسی سلسلے میں یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے رکن ضیفُ اللہ الشامی نے تسنیم کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آج یمنی قوم ہی وہ فریق ہے جو غزہ کی حمایت کے عزم اور فلسطین کی نصرت کے راستے پر کھڑی ہے اور اس نے اس بڑے معرکے میں استقامت دکھانے کے لیے اپنے ذاتی مفادات اور وقتی مصالح کو قربان کیا ہے، ممکن ہے کہ غزہ کی جنگ کے خاتمے کے بعد یمن کے خلاف جاری جارحیت، یمنی عوام کے مطالبات، اور ان کے حقوق کی بازیابی، چاہے وہ امن، گفتگو، مفاہمت کے ذریعے ہو یا طاقت کے ذریعے ایک بار پھر یمنی قیادت کی اولین ترجیحات میں شامل ہو جائے۔   انہوں نے کہا کہ یمنی عوام نے فلسطینی مزاحمت کی حمایت کو اُن ممالک کے ساتھ امن معاہدوں پر ترجیح دی جو یمن کے خلاف جنگ میں شریک ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک فلسطین کی نصرت اور امتِ اسلامی کے مفادات سب سے مقدم ہیں۔ تاہم، یمنی نقطۂ نظر کے مطابق، اس کا مطلب اپنے حقوق سے دستبرداری نہیں، چاہے وہ امن کے ذریعے حاصل ہوں یا جنگ کے ذریعے۔ یمن کی قومی کونسل کے رکن حمید عاصم نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کئی اہم شرائط اور تقاضے ہیں جن پر سعودی حکومت کو عمل کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے وہ باہمی یادداشت ہے جو ڈیڑھ سال قبل ماہِ رمضان میں صنعاء میں طے پایا تھا، جب سعودیوں نے یمن پر اپنی دس سالہ فوجی مہم اور محاصرے کی ناکامی تسلیم کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس معاہدے میں فریقین نے مکمل طور پر کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کیا تھا، لیکن بعد میں سعودیوں نے امریکی ہدایات کے تحت اور طوفان الاقصیٰ کی جنگ کے آغاز کے بعد اس پر عمل درآمد سے انکار کر دیا۔ یمن کی قومی کونسل کے رکن نے مزید کہا کہ میرا کہنا ہے کہ آج سعودی عرب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ امن کا آپشن ابھی بھی موجود ہے، ورنہ ہمارے سامنے کئی متبادل موجود ہیں، جن میں دوبارہ جنگ کی طرف واپس جانا بھی شامل ہے، سعودی بخوبی جانتے ہیں کہ ہم انہیں اس سے بھی زیادہ نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جتنا ہم نے اب تک پہنچایا ہے۔

صہیونی جارحیت کے غزہ میں عارضی تعطل کے بعد، صنعا نے اب دوبارہ اپنے مطالبات کی پیروی شروع کر دی ہے، جو اس نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں سے امن معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد کے سلسلے میں کیے تھے۔ یہ وہی تقاضے ہیں جن پر عمل درآمد طوفان الاقصیٰ کی جنگ اور یمن کی طرف سے غزہ کی حمایت میں کی جانے والی عسکری کارروائیوں کے باعث مؤخر ہو گیا تھا۔ اب صنعاء ان شرائط و مفادات کے نفاذ کی تیاری کر رہا ہے جن پر اس نے پہلے امریکی دباؤ کے باعث عمل نہیں کیا تھا۔ یمن کی اعلیٰ قیادت کے بیانات سے واضح ہے یمن اسلامی اپنے وقار، عزت، حقوق اور غزہ کی نصرت پر کوئی سمجھوتہ کرنیکے لئے تیار نہیں۔  

متعلقہ مضامین

  • حج 2026، عازمین حج پر اہم شرائط عائد ؛ بڑی پابندیاں لگ گئیں
  • سکھر: جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا محمد صالح انڈھڑ ودیگر لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب کررہے ہیں
  • جمعیت علماء اسلام کے تحت عوامی حقوق کیلئے لانگ مارچ
  • جماعت اسلامی کا احتجاجی مارچ ‘ ریڈ لائن منصوبہ فوری مکمل و حتمی تاریخ دینے کا مطالبہ
  • ایم ڈی کیٹ کے نتائج کا اعلان،کراچی کے طلبا نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا
  • ترکیہ کا 102 واں یوم جمہوریہ، کراچی میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں تقریب
  • یمن کا سعودی عرب کو الٹی میٹم
  • اسٹاک مارکیٹ ہفتہ بھار دباؤ میں رہی، سرمایہ کاروں پر خدشات کے سائے گہرے
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں رواں ہفتہ کیسا رہا؟
  • ملتان میں طلبا کا گیریژن کا دورہ، فوجی شہدا کو خراجِ عقیدت پیش