Express News:
2025-09-18@12:06:06 GMT

رمضان الکریم نیکیوں کی فصل بہار

اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT

رمضان المبارک نیکیوں کی فصل بہار ہے اور تہی دامانِ عمل کو بہ قدرِ توفیق اس فصل گل سے استفادے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

رسول اﷲ ﷺ کو اس ماہِ مبارک کا اس قدر اہتمام تھا کہ اس کی آمد سے پہلے ہی آپؐ لوگوں کو اس ماہ کی برکتوں اور سعادتوں کے بارے میں خبردار فرماتے اور عبادت کی طرف خاص طور پر انہیں متوجہ کرتے۔ اس ماہ کا اصل اور بنیادی عمل روزہ ہے، صبح طلوع ہونے سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کھانے، پینے اور دوسرے نفسانی تقاضوں سے اپنے آپ کو باز رکھنا ہے، یہ کوئی معمولی عمل نہیں ہے، انسان کے لیے گھنٹے دو گھنٹے بھی بھوکا رہنا دشوار ہو جاتا ہے، بیمار ہو تو پرہیز مشکل ہو جاتا ہے، دنیا کی ساری لذتیں انھی خواہشات سے متعلق ہیں، آدمی بہ طورِ خود اپنے آپ کو ان سے روک لے، حالاں کہ اس کو روکنے کے لیے کوئی چوکی دار ہو، نہ کوئی قانونی پہرہ دار۔

یہ انسان کی تربیت کا نہایت مؤثر اور بے مثال طریقہ ہے، جس سے محض روحانی مقاصد کے تحت اپنے آپ پر قابو کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور انسان کے لیے یہ بات ممکن ہوتی ہے کہ وہ نفس کے گھوڑے کی لگام کو اپنے ہاتھ میں رکھے، جو شخص نفس کی آواز کو دبانے اور خواہشات کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت حاصل کر لے اس کے لیے کسی بھی گناہ سے بچنا چنداں دشوار نہیں، اسی لیے روزہ کو تقویٰ کا باعث قرار دیا گیا اور رمضان کو صبر کا مہینہ فرمایا گیا ہے۔

لیکن دنیا کی ہر چیز میں صورت اور حقیقت کا ایک فرق پایا جاتا ہے، شیر کی تصویر میں شیر کی طاقت اور آگ کی تصویر میں آگ کی حرارت نہیں آسکتی، شیر کے خوف ناک اور بھیانک مجسموں سے دن رات بچے کھیلتے ہیں اور آگ کی تصویر سے لوگ اپنے گھر سجاتے ہیں، لیکن اگر جاں بہ لب زندہ شیر بھی ہو تو اچھے اچھے بہادر بھی قریب جانے کی ہمت نہیں پاتے اور آگ کی ایک چنگاری بھی ہو تو پورے مکان کو سلگانے کے لیے کافی ہے۔

ہاں! عبادات میں بھی صورت اور حقیقت کا فرق ہے، محض بھوکا، پیاسا رہنا روزہ کی صورت ہے نہ کہ حقیقت۔ اسی لیے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جو جھوٹ بولے اس کا روزہ نہیں، جو غیبت کرے اس کا روزہ نہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزہ داروں کو روزہ سے بھوک و پیاس کے سوا کوئی چیز حاصل نہیں۔ یہ روزے کی صورتیں ہیں، ایسی صورت جو روح اور زندگی سے خالی ہیں، روزہ تو اس لیے ہے کہ انسان کا سینہ خدا کی محبت سے معمور ہوجائے، اس کا دل سب کچھ کھو کر خدا کو پانے کے جذبے سے لبریز ہو اور گناہوں کی نفرت اس کے دل میں سما جائے، اس کی نگاہ ایک پاک دامن نگاہ ہو، اس کی زبان قند و نبات کی مٹھاس سے ہم کنار اور ہر طرح کی بدگوئی سے محفوظ ہو، اس کے اعضاء و جوارح کو نیکی سے لذت حاصل ہوتی ہے، گویا ایک عاشق ہے جو اپنے محبوب کو خوش کرنے کے لیے بھوکا، پیا سا اور دنیا کی لذتوں سے بیگانہ بنا ہوا ہے، اگر روزہ اس کیفیت کے ساتھ رکھا جائے تو یقیناً اس سے نفس کی تربیت ہوگی، انسان کے اندر برائی سے بچنے کی صلاحیت پیدا ہوگی اور انسان اپنے نفس کی غلامی سے آزاد ہوسکے گا، یہ تربیتی نظام اسے آئندہ گیارہ مہینوں میں بھی خدا کی مرضیات پر قائم رکھے گا، اس لیے روزہ کو حقیقت کی سطح پر رکھنا چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ یہ خدا کے حکم کو نفس کے حکم پر غالب رکھنے کا ایک عنوان ہے۔

اس ماہِ مبارک میں رسول اﷲ ﷺ پر نزولِ قرآن کا آغاز ہُوا، ہر سال حضرت جبرئیل علیہ السلام آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور قرآن مجید کے ایک ختم کا آپؐ سے مذاکرہ فرماتے، جس سال دنیا سے رخصتی ہوئی اس سال آپؐ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کے دو دور فرمائے، اس سے معلوم ہوا کہ اس ماہ کو قرآن مجید سے ایک خاص مناسبت ہے، اسی لیے اس مہینہ میں خاص طور پر تراویح کی نماز رکھی گئی کہ اس میں پورا قرآن مجید ختم کیا جائے، تہجد میں بھی زیادہ طویل قیام اور اسی نسبت سے قرأت کا معمول مبارک تھا۔

اسی لیے سلف صالحین کے یہاں اس ماہ میں قرآن مجید کی تلاوت کا بھی خاص اہتمام رہا ہے، اس لیے جہاں رمضان کے دن روزہ کے نور سے منور ہوں، وہیں رمضان کی راتیں تلاوتِ قرآن سے آباد ہونی چاہیے، یہ ہماری کم نصیبی ہے کہ خدا کی آخری اور کائنات میں موجودہ واحد سچی کتاب اس امت کے پاس ہے، جس کا حق یہ تھا کہ مسلمان کا کوئی دن اس کی تلاوت سے خالی نہ ہو، لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ پورا سال گزر جاتا ہے اور بہت سے بے توفیقوں کو قرآن مجید کے ایک ختم کی توفیق بھی میسر نہیں آتی، اس لیے یوں تو پورے سال تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرنا چاہیے، لیکن اگر یہ نہ ہو سکے تو کم سے کم رمضان کو تو ضایع نہ ہونے دیا جائے، عام طور پر بیس منٹ میں ایک پارہ مکمل ہو جاتا ہے، اگر روزانہ صرف ایک گھنٹہ تلاوت کا وقت رکھا جائے تو بہ آسانی ہر دس دن میں ایک ختم ہو سکتا ہے۔

 اس کے ساتھ اگر کسی وقت ایک گھنٹہ قرآن کے ترجمہ و تفسیر کے مطالعے کے لیے بھی رکھ لیا جائے تو کیا کہنا۔۔۔ ! ہونا تو یہ چاہیے کہ سال بھر ترجمہ و تفسیر کے مطالعہ کا اہتمام ہو، لیکن اگر یہ نہ ہوسکے تو کم سے کم رمضان میں کسی ایک بڑی سورت یا منتخب سورتوں ہی کا مطالعہ کر لیا جائے، تاکہ بندہ یہ جان سکے کہ اس کا خدا اس سے کیا کہہ رہا ہے۔ یہ کیسی محرومی ہے کہ ہمارا خدا ہم سے مخاطب ہو اور ہم اس کی طرف متوجہ نہ ہوں؟ وہ ہم سے بات کرے اور ہم اپنے کان بند کر لیں، اس کا کلام اپنی جلوہ فرمائیوں کے ساتھ ہم پر آشکار ہو اور ہم اپنی آنکھیں موند لیں، کیا اس سے زیادہ حق ناشناسی کی بھی کوئی اور مثال مل سکتی ہے؟

رمضان المبارک کا تیسرا اہم عمل دعا ہے، یہ دعا کی قبولیت کا مہینہ ہے، رمضان کی راتوں میں اﷲ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو پکار تا ہے کہ ہے کوئی مغفرت کا طلب گار کہ میں اسے بخش دوں؟ کوئی ہے رزق کا خواست گار کہ میں اسے روزی دوں؟ ہے کوئی ضرورت مند کہ میں اس کی حاجت روائی کروں؟ اس سے زیادہ کم نصیبی کیا ہوگی کہ داتا خود سائل کو طلب کرے اور سائل اپنا دست سوال نہ پھیلائے، تہجد کا وقت دعا کی قبولیت کا ہے، افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے، رمضان المبارک کا آخری عشرہ جس میں شبِ قدر کا امکان ہے، دعا کی قبولیت کی خاص ساعتوں پر مشتمل ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب کہ پوری ملت اسلامیہ زخم سے چور ہے اور پورا عالم اسلام یہود و نصاری کے پنجہ استبداد سے کراہ رہا ہے، اور ہر جگہ مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہیں، ان حالات میں دعا مؤمن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، مگر بد قسمتی سے افطار کے لیے ایک سے ایک کھانے کا انتخاب اور دسترخوان کو خوب سے خوب تر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن یہ وقت دعا کی قبولیت اور اﷲ سے مانگنے اور اپنے خالق کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا ہے، اسی کو فراموش کر دیا جاتا ہے، اس لیے ہم اس ماہ کو دعا کا مہینہ بنالیں، خدا سے مانگنے اور خدا کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا مہینہ۔

رسول اﷲ ﷺ نے اس ماہ کو غم گساری کا مہینہ (شہر المواساۃ) بھی فرمایا ہے، یعنی جیسے یہ خدا کو راضی کرنے اور اس کے سامنے جھکنے کا مہینہ ہے، اسی طرح یہ خدا کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک اور بہتر برتاؤ کا مہینہ بھی ہے، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی سخاوت اس ماہ میں تیز ہوا سے بھی بڑھ جاتی تھی، اسی لیے بعض صحابہؓ اس ماہ میں زکوٰۃ ادا کرنے کا اہتمام فرماتے تھے اور آج کل بھی لوگ خاص طور پر اسی مہینہ میں زکوٰۃ ادا کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن زکوٰۃ تو ایک لازمی فریضہ ہے اور انفاق کا وہ کم سے کم درجہ ہے جس سے انسان جواب دہی سے بچ سکتا ہے لیکن جیسے رمضان میں فرائض کے ساتھ نوافل کا اہتمام کیا جاتا ہے اسی طرح زکوٰۃ کے ساتھ عمومی انفاق پر بھی توجہ ہونی چاہیے بہت سے لوگ محتاج و ضرورت مند ہوتے ہیں لیکن زکوٰۃ کے مستحق نہیں ہوتے، بہت سے دینی کام ایسے ہیں جن میں زکوٰۃ کی رقم صرف نہیں کی جاسکتی، ایسے مواقع پر عمومی انفاق امت کے لیے ایک ضرورت ہے اور اصحابِ ثروت کو محسوس کرنا چاہیے کہ یہ بھی ان پر ایک حق ہے، چناں چہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا دوسرے حقوق بھی ہیں۔

آئیے! ہم عہد کریں کہ ایمان و عمل کی اس فصل بہار سے ہم اس کے تقاضے کے مطابق فائدہ اٹھائیں گے اور اپنی عملی زندگی کو اس کی خوش بُو سے عطر بار کریں گے!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دعا کی قبولیت رسول اﷲ ﷺ کا اہتمام میں زکو ۃ کا مہینہ اسی لیے ہوتی ہے جاتا ہے کے ساتھ ہے اور اس ماہ کے لیے اس لیے بہت سے

پڑھیں:

ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت

انسانی تاریخ میں کچھ بیماریاں ایسی بھی رہی ہیں جو نسلِ انسانی کے وجود پر سوالیہ نشان بن کر ابھریں۔ کینسر ان میں آج بھی سب سے بھیانک ہے۔ مگر سائنس نے انسان کو یہ پیغام دیا کہ اندھیروں میں بھی چراغ جلائے جاسکتے ہیں۔

انہی چراغوں میں سے ایک ہے ایچ پی وی ویکسین (Human Papillomavirus Vaccine)، جسے اردو میں ’’انسانی پیپلیلوما وائرس حفاظتی دوا‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ ویکسین بالخصوص خواتین کی زندگی اور صحت کی حفاظت کے لیے آج کی سائنسی دنیا میں بڑی عظیم کامیابی ہے۔


عالمی تحقیق اور ابتدا

ایچ پی وی ویکسین کی بنیاد 1990 کی دہائی میں رکھی گئی جب آسٹریلیا کے سائنس دان پروفیسر یان فریزر (Ian Frazer) اور ان کے ساتھی جیہان ژو (Jian Zhou) نے وائرس جیسے ذرات (Virus-like Particles) ایجاد کیے۔ یہ ذرات بیماری نہیں پھیلاتے لیکن جسم کو مدافعتی ردعمل کے لیے تیار کر دیتے ہیں۔ 2006 میں امریکا نے پہلی بار اسے Gardasil کے نام سے متعارف کرایا، بعد ازاں Cervarix اور Gardasil 9 جیسے مزید مؤثر ورژن سامنے آئے۔

عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (CDC) کے مطابق یہ ویکسین خواتین میں سروائیکل کینسر (Cervical Cancer) کے تقریباً 70 فیصد سے 90 فیصد تک کیسز کو روکتی ہے۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور ناروے جیسے ممالک میں یہ ویکسینیشن پروگرام اس حد تک کامیاب رہا کہ وہاں نوجوان نسل میں سروائیکل کینسر کی شرح نصف سے بھی کم ہوگئی۔

 

پاکستان میں ضرورت

پاکستان میں ہر سال تقریباً 5,000 خواتین سروائیکل کینسر کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ اموات کی شرح 60 فیصد کے قریب ہے، کیونکہ عموماً مرض کی تشخیص دیر سے ہوتی ہے۔ یہ بیماری صرف عورت تک محدود نہیں رہتی، بلکہ خاندان کی بقا، بچوں کی تربیت اور سماج کی اخلاقی ساخت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایسے میں ایچ پی وی ویکسین کا استعمال ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔

مزید یہ کہ عالمی تحقیق ثابت کرچکی ہے کہ ایچ پی وی صرف خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔ یہ وائرس مردوں میں منہ، گلے اور تولیدی اعضا کے سرطان کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں ویکسین لگنے کے بعد مردوں میں بھی اس کے خلاف نمایاں تحفظ دیکھا گیا ہے۔


سماجی اور مذہبی رکاوٹیں

پاکستان میں اس ویکسین کے فروغ میں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں۔
کچھ حلقے اسے مغربی سازش قرار دیتے ہیں اور مذہبی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں۔
والدین میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ یہ ویکسین نوجوانوں میں جنسی آزادی کو فروغ دے گی۔
لاعلمی اور کم علمی کی وجہ سے اکثر اسے غیر ضروری یا غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔


اسلامی ممالک اور علما کا موقف

کچھ اسلامی ممالک نے نہ صرف ایچ پی وی ویکسینیشن پروگرام فعال کیے ہیں بلکہ علما نے بھی اسے شرعی اعتبار سے جائز قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملیشیا میں 2010 میں Jabatan Kemajuan Islam Malaysia (JAKIM) نے باضابطہ فتوٰی جاری کیا کہ اگر ویکسین کی ترکیب میں کوئی مشکوک جزو نہ ہو اور یہ نقصان دہ نہ ہو تو رحمِ مادر کے سرطان سے بچاؤ کےلیے HPV ویکسین لگوانا ’’مباح‘‘ (permissible) ہے۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات (UAE) نے 2018 میں HPV ویکسین کو اپنے قومی حفاظتی پروگرام میں شامل کیا، اور وہاں کے نیشنل امیونائزیشن ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ نے حکومتی سطح پر اس کی تائید کی۔

مزید یہ کہ سعودی عرب کے صوبے جازان میں عوامی رویے اور تحقیق سے واضح ہوا کہ مذہبی خدشات کے باوجود طبی اور شرعی دلائل نے ویکسین کے استعمال کو قابلِ قبول بنایا ہے۔

یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانی جان کے تحفظ کو اسلام میں اولین ترجیح حاصل ہے، اور جب کوئی دوا جان بچانے کا ذریعہ ہو تو اس کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ واجب کے قریب قرار دیا جا سکتا ہے۔

ایچ پی وی ویکسین آج پاکستانی معاشرے کے لیے محض ایک طبی ایجاد اور ضرورت ہی نہیں بلکہ خواتین کی زندگی، اور معاشرتی بقا کی بھی ضامن ہے۔ اگر حکومت اسے قومی حفاظتی ٹیکوں کے دیگر ذرائع کی طرح مستقل پروگراموں میں شامل کر لے تو ہر سال ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اعداد و شمار، تحقیق اور عالمی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی اور مذہبی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • پنجاب بمقابلہ بہار تنازعہ، مودی کی ناکام پالیسیوں کے باعث بھارت میں نئی دراڑ
  • صفر کی بہار، صائم ایوب نے ایشیا کپ میں کتنے ناپسندیدہ ریکارڈ اپنے نام کرلیے؟
  • وزیر اعظم شہباز شریف کا فقید المثال استقبال ، ریاض میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار ، مختلف شعبوں میں تعاون پرباضابطہ پیش رفت متوقع
  • بہار کے بعد اب دہلی میں بھی ایس آئی آر ہوگا، الیکشن کمیشن تیاریوں میں مصروف
  • لازوال عشق
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage