Express News:
2025-06-09@19:36:49 GMT

رمضان الکریم نیکیوں کی فصل بہار

اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT

رمضان المبارک نیکیوں کی فصل بہار ہے اور تہی دامانِ عمل کو بہ قدرِ توفیق اس فصل گل سے استفادے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

رسول اﷲ ﷺ کو اس ماہِ مبارک کا اس قدر اہتمام تھا کہ اس کی آمد سے پہلے ہی آپؐ لوگوں کو اس ماہ کی برکتوں اور سعادتوں کے بارے میں خبردار فرماتے اور عبادت کی طرف خاص طور پر انہیں متوجہ کرتے۔ اس ماہ کا اصل اور بنیادی عمل روزہ ہے، صبح طلوع ہونے سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کھانے، پینے اور دوسرے نفسانی تقاضوں سے اپنے آپ کو باز رکھنا ہے، یہ کوئی معمولی عمل نہیں ہے، انسان کے لیے گھنٹے دو گھنٹے بھی بھوکا رہنا دشوار ہو جاتا ہے، بیمار ہو تو پرہیز مشکل ہو جاتا ہے، دنیا کی ساری لذتیں انھی خواہشات سے متعلق ہیں، آدمی بہ طورِ خود اپنے آپ کو ان سے روک لے، حالاں کہ اس کو روکنے کے لیے کوئی چوکی دار ہو، نہ کوئی قانونی پہرہ دار۔

یہ انسان کی تربیت کا نہایت مؤثر اور بے مثال طریقہ ہے، جس سے محض روحانی مقاصد کے تحت اپنے آپ پر قابو کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور انسان کے لیے یہ بات ممکن ہوتی ہے کہ وہ نفس کے گھوڑے کی لگام کو اپنے ہاتھ میں رکھے، جو شخص نفس کی آواز کو دبانے اور خواہشات کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت حاصل کر لے اس کے لیے کسی بھی گناہ سے بچنا چنداں دشوار نہیں، اسی لیے روزہ کو تقویٰ کا باعث قرار دیا گیا اور رمضان کو صبر کا مہینہ فرمایا گیا ہے۔

لیکن دنیا کی ہر چیز میں صورت اور حقیقت کا ایک فرق پایا جاتا ہے، شیر کی تصویر میں شیر کی طاقت اور آگ کی تصویر میں آگ کی حرارت نہیں آسکتی، شیر کے خوف ناک اور بھیانک مجسموں سے دن رات بچے کھیلتے ہیں اور آگ کی تصویر سے لوگ اپنے گھر سجاتے ہیں، لیکن اگر جاں بہ لب زندہ شیر بھی ہو تو اچھے اچھے بہادر بھی قریب جانے کی ہمت نہیں پاتے اور آگ کی ایک چنگاری بھی ہو تو پورے مکان کو سلگانے کے لیے کافی ہے۔

ہاں! عبادات میں بھی صورت اور حقیقت کا فرق ہے، محض بھوکا، پیاسا رہنا روزہ کی صورت ہے نہ کہ حقیقت۔ اسی لیے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جو جھوٹ بولے اس کا روزہ نہیں، جو غیبت کرے اس کا روزہ نہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزہ داروں کو روزہ سے بھوک و پیاس کے سوا کوئی چیز حاصل نہیں۔ یہ روزے کی صورتیں ہیں، ایسی صورت جو روح اور زندگی سے خالی ہیں، روزہ تو اس لیے ہے کہ انسان کا سینہ خدا کی محبت سے معمور ہوجائے، اس کا دل سب کچھ کھو کر خدا کو پانے کے جذبے سے لبریز ہو اور گناہوں کی نفرت اس کے دل میں سما جائے، اس کی نگاہ ایک پاک دامن نگاہ ہو، اس کی زبان قند و نبات کی مٹھاس سے ہم کنار اور ہر طرح کی بدگوئی سے محفوظ ہو، اس کے اعضاء و جوارح کو نیکی سے لذت حاصل ہوتی ہے، گویا ایک عاشق ہے جو اپنے محبوب کو خوش کرنے کے لیے بھوکا، پیا سا اور دنیا کی لذتوں سے بیگانہ بنا ہوا ہے، اگر روزہ اس کیفیت کے ساتھ رکھا جائے تو یقیناً اس سے نفس کی تربیت ہوگی، انسان کے اندر برائی سے بچنے کی صلاحیت پیدا ہوگی اور انسان اپنے نفس کی غلامی سے آزاد ہوسکے گا، یہ تربیتی نظام اسے آئندہ گیارہ مہینوں میں بھی خدا کی مرضیات پر قائم رکھے گا، اس لیے روزہ کو حقیقت کی سطح پر رکھنا چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ یہ خدا کے حکم کو نفس کے حکم پر غالب رکھنے کا ایک عنوان ہے۔

اس ماہِ مبارک میں رسول اﷲ ﷺ پر نزولِ قرآن کا آغاز ہُوا، ہر سال حضرت جبرئیل علیہ السلام آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور قرآن مجید کے ایک ختم کا آپؐ سے مذاکرہ فرماتے، جس سال دنیا سے رخصتی ہوئی اس سال آپؐ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کے دو دور فرمائے، اس سے معلوم ہوا کہ اس ماہ کو قرآن مجید سے ایک خاص مناسبت ہے، اسی لیے اس مہینہ میں خاص طور پر تراویح کی نماز رکھی گئی کہ اس میں پورا قرآن مجید ختم کیا جائے، تہجد میں بھی زیادہ طویل قیام اور اسی نسبت سے قرأت کا معمول مبارک تھا۔

اسی لیے سلف صالحین کے یہاں اس ماہ میں قرآن مجید کی تلاوت کا بھی خاص اہتمام رہا ہے، اس لیے جہاں رمضان کے دن روزہ کے نور سے منور ہوں، وہیں رمضان کی راتیں تلاوتِ قرآن سے آباد ہونی چاہیے، یہ ہماری کم نصیبی ہے کہ خدا کی آخری اور کائنات میں موجودہ واحد سچی کتاب اس امت کے پاس ہے، جس کا حق یہ تھا کہ مسلمان کا کوئی دن اس کی تلاوت سے خالی نہ ہو، لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ پورا سال گزر جاتا ہے اور بہت سے بے توفیقوں کو قرآن مجید کے ایک ختم کی توفیق بھی میسر نہیں آتی، اس لیے یوں تو پورے سال تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرنا چاہیے، لیکن اگر یہ نہ ہو سکے تو کم سے کم رمضان کو تو ضایع نہ ہونے دیا جائے، عام طور پر بیس منٹ میں ایک پارہ مکمل ہو جاتا ہے، اگر روزانہ صرف ایک گھنٹہ تلاوت کا وقت رکھا جائے تو بہ آسانی ہر دس دن میں ایک ختم ہو سکتا ہے۔

 اس کے ساتھ اگر کسی وقت ایک گھنٹہ قرآن کے ترجمہ و تفسیر کے مطالعے کے لیے بھی رکھ لیا جائے تو کیا کہنا۔۔۔ ! ہونا تو یہ چاہیے کہ سال بھر ترجمہ و تفسیر کے مطالعہ کا اہتمام ہو، لیکن اگر یہ نہ ہوسکے تو کم سے کم رمضان میں کسی ایک بڑی سورت یا منتخب سورتوں ہی کا مطالعہ کر لیا جائے، تاکہ بندہ یہ جان سکے کہ اس کا خدا اس سے کیا کہہ رہا ہے۔ یہ کیسی محرومی ہے کہ ہمارا خدا ہم سے مخاطب ہو اور ہم اس کی طرف متوجہ نہ ہوں؟ وہ ہم سے بات کرے اور ہم اپنے کان بند کر لیں، اس کا کلام اپنی جلوہ فرمائیوں کے ساتھ ہم پر آشکار ہو اور ہم اپنی آنکھیں موند لیں، کیا اس سے زیادہ حق ناشناسی کی بھی کوئی اور مثال مل سکتی ہے؟

رمضان المبارک کا تیسرا اہم عمل دعا ہے، یہ دعا کی قبولیت کا مہینہ ہے، رمضان کی راتوں میں اﷲ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو پکار تا ہے کہ ہے کوئی مغفرت کا طلب گار کہ میں اسے بخش دوں؟ کوئی ہے رزق کا خواست گار کہ میں اسے روزی دوں؟ ہے کوئی ضرورت مند کہ میں اس کی حاجت روائی کروں؟ اس سے زیادہ کم نصیبی کیا ہوگی کہ داتا خود سائل کو طلب کرے اور سائل اپنا دست سوال نہ پھیلائے، تہجد کا وقت دعا کی قبولیت کا ہے، افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے، رمضان المبارک کا آخری عشرہ جس میں شبِ قدر کا امکان ہے، دعا کی قبولیت کی خاص ساعتوں پر مشتمل ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب کہ پوری ملت اسلامیہ زخم سے چور ہے اور پورا عالم اسلام یہود و نصاری کے پنجہ استبداد سے کراہ رہا ہے، اور ہر جگہ مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہیں، ان حالات میں دعا مؤمن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، مگر بد قسمتی سے افطار کے لیے ایک سے ایک کھانے کا انتخاب اور دسترخوان کو خوب سے خوب تر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن یہ وقت دعا کی قبولیت اور اﷲ سے مانگنے اور اپنے خالق کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا ہے، اسی کو فراموش کر دیا جاتا ہے، اس لیے ہم اس ماہ کو دعا کا مہینہ بنالیں، خدا سے مانگنے اور خدا کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا مہینہ۔

رسول اﷲ ﷺ نے اس ماہ کو غم گساری کا مہینہ (شہر المواساۃ) بھی فرمایا ہے، یعنی جیسے یہ خدا کو راضی کرنے اور اس کے سامنے جھکنے کا مہینہ ہے، اسی طرح یہ خدا کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک اور بہتر برتاؤ کا مہینہ بھی ہے، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی سخاوت اس ماہ میں تیز ہوا سے بھی بڑھ جاتی تھی، اسی لیے بعض صحابہؓ اس ماہ میں زکوٰۃ ادا کرنے کا اہتمام فرماتے تھے اور آج کل بھی لوگ خاص طور پر اسی مہینہ میں زکوٰۃ ادا کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن زکوٰۃ تو ایک لازمی فریضہ ہے اور انفاق کا وہ کم سے کم درجہ ہے جس سے انسان جواب دہی سے بچ سکتا ہے لیکن جیسے رمضان میں فرائض کے ساتھ نوافل کا اہتمام کیا جاتا ہے اسی طرح زکوٰۃ کے ساتھ عمومی انفاق پر بھی توجہ ہونی چاہیے بہت سے لوگ محتاج و ضرورت مند ہوتے ہیں لیکن زکوٰۃ کے مستحق نہیں ہوتے، بہت سے دینی کام ایسے ہیں جن میں زکوٰۃ کی رقم صرف نہیں کی جاسکتی، ایسے مواقع پر عمومی انفاق امت کے لیے ایک ضرورت ہے اور اصحابِ ثروت کو محسوس کرنا چاہیے کہ یہ بھی ان پر ایک حق ہے، چناں چہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا دوسرے حقوق بھی ہیں۔

آئیے! ہم عہد کریں کہ ایمان و عمل کی اس فصل بہار سے ہم اس کے تقاضے کے مطابق فائدہ اٹھائیں گے اور اپنی عملی زندگی کو اس کی خوش بُو سے عطر بار کریں گے!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دعا کی قبولیت رسول اﷲ ﷺ کا اہتمام میں زکو ۃ کا مہینہ اسی لیے ہوتی ہے جاتا ہے کے ساتھ ہے اور اس ماہ کے لیے اس لیے بہت سے

پڑھیں:

نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے

قومی ٹیم کے نوجوان اوپنر صائم ایوب بھی اپنے نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر بول اُٹھے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے یوٹیوب پر جاری کردہ خصوصی عید شو کے دوران گفتگو کرتے ہوئے جارح مزاج اوپنر صائم ایوب نے ہوسٹ محمد حارث کے ساتھ مزاحیہ واقعہ شیئر کیا جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ 

بائیں ہاتھ کے بلےباز بتایا کہ انجری کے بعد قومی ٹیم اور پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں واپسی ہوئی تو فارم میں نہیں تھا، ایسے میں ایک میسج آیا، اس پیغام میں لکھا تھا کہ نو لُک شاٹ کی طرح کہیں نہ نظر آنے والا کھانا بھی کھارہے ہیں کیونکہ اب چھکے نہیں لگ رہے؟۔

مزید پڑھیں: وسیم اکرم کا مجسمہ دیکھ کر میمز کا طوفان اُمڈ آیا

صائم ایوب نے کہا کہ مجھے اس میسج پر غصہ نہیں آیا بلکہ خوب ہنسی آئی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگ ہمیں محبت اور سپورٹ کرتے ہیں، انہیں فکر ہوتی ہے اور بات کرتے ہیں، اس لیے ایسی باتوں پر ناراض نہیں ہوتا بلکہ اُسے مثبت انداز میں لیتا ہوں۔ 

مزید پڑھیں: بابر، رضوان، شاہین کا مستقبل کیا؟ سابق کرکٹر نے بتادیا

جارح مزاج اوپنر نے کہا کہ میں نے اپنے نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید کو کبھی منفی انداز میں نہیں لیا، یہ لوگوں کے پیار دکھانے کا طریقہ ہے اور یہی اسٹورک میری انٹرنیشنل کرکٹ میں پہنچان کا سبب بھی بنا ہے۔
 

 

متعلقہ مضامین

  • ✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
  • حج اگلے سال سے موسم بہار میں داخل، گرمیوں میں اگلا حج 25 سال بعد ہوگا، سعودی محکمہ موسمیات
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • مودی کے دور حکومت میں تمام آئینی ادارے یرغمال بنا لئے گئے، تیجسوی یادو
  • فیصل آباد سے گرفتار بھارتی ایجنسی ’را‘ کے 3 ایجنٹس کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
  • نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • قیدیوں کیلئے خوشخبری، پنجاب بھر میں 90 روزہ سزا معافی کا اعلان
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • انکار کیوں کیا؟