رمضان الکریم نیکیوں کی فصل بہار
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
رمضان المبارک نیکیوں کی فصل بہار ہے اور تہی دامانِ عمل کو بہ قدرِ توفیق اس فصل گل سے استفادے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
رسول اﷲ ﷺ کو اس ماہِ مبارک کا اس قدر اہتمام تھا کہ اس کی آمد سے پہلے ہی آپؐ لوگوں کو اس ماہ کی برکتوں اور سعادتوں کے بارے میں خبردار فرماتے اور عبادت کی طرف خاص طور پر انہیں متوجہ کرتے۔ اس ماہ کا اصل اور بنیادی عمل روزہ ہے، صبح طلوع ہونے سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کھانے، پینے اور دوسرے نفسانی تقاضوں سے اپنے آپ کو باز رکھنا ہے، یہ کوئی معمولی عمل نہیں ہے، انسان کے لیے گھنٹے دو گھنٹے بھی بھوکا رہنا دشوار ہو جاتا ہے، بیمار ہو تو پرہیز مشکل ہو جاتا ہے، دنیا کی ساری لذتیں انھی خواہشات سے متعلق ہیں، آدمی بہ طورِ خود اپنے آپ کو ان سے روک لے، حالاں کہ اس کو روکنے کے لیے کوئی چوکی دار ہو، نہ کوئی قانونی پہرہ دار۔
یہ انسان کی تربیت کا نہایت مؤثر اور بے مثال طریقہ ہے، جس سے محض روحانی مقاصد کے تحت اپنے آپ پر قابو کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور انسان کے لیے یہ بات ممکن ہوتی ہے کہ وہ نفس کے گھوڑے کی لگام کو اپنے ہاتھ میں رکھے، جو شخص نفس کی آواز کو دبانے اور خواہشات کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت حاصل کر لے اس کے لیے کسی بھی گناہ سے بچنا چنداں دشوار نہیں، اسی لیے روزہ کو تقویٰ کا باعث قرار دیا گیا اور رمضان کو صبر کا مہینہ فرمایا گیا ہے۔
لیکن دنیا کی ہر چیز میں صورت اور حقیقت کا ایک فرق پایا جاتا ہے، شیر کی تصویر میں شیر کی طاقت اور آگ کی تصویر میں آگ کی حرارت نہیں آسکتی، شیر کے خوف ناک اور بھیانک مجسموں سے دن رات بچے کھیلتے ہیں اور آگ کی تصویر سے لوگ اپنے گھر سجاتے ہیں، لیکن اگر جاں بہ لب زندہ شیر بھی ہو تو اچھے اچھے بہادر بھی قریب جانے کی ہمت نہیں پاتے اور آگ کی ایک چنگاری بھی ہو تو پورے مکان کو سلگانے کے لیے کافی ہے۔
ہاں! عبادات میں بھی صورت اور حقیقت کا فرق ہے، محض بھوکا، پیاسا رہنا روزہ کی صورت ہے نہ کہ حقیقت۔ اسی لیے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جو جھوٹ بولے اس کا روزہ نہیں، جو غیبت کرے اس کا روزہ نہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزہ داروں کو روزہ سے بھوک و پیاس کے سوا کوئی چیز حاصل نہیں۔ یہ روزے کی صورتیں ہیں، ایسی صورت جو روح اور زندگی سے خالی ہیں، روزہ تو اس لیے ہے کہ انسان کا سینہ خدا کی محبت سے معمور ہوجائے، اس کا دل سب کچھ کھو کر خدا کو پانے کے جذبے سے لبریز ہو اور گناہوں کی نفرت اس کے دل میں سما جائے، اس کی نگاہ ایک پاک دامن نگاہ ہو، اس کی زبان قند و نبات کی مٹھاس سے ہم کنار اور ہر طرح کی بدگوئی سے محفوظ ہو، اس کے اعضاء و جوارح کو نیکی سے لذت حاصل ہوتی ہے، گویا ایک عاشق ہے جو اپنے محبوب کو خوش کرنے کے لیے بھوکا، پیا سا اور دنیا کی لذتوں سے بیگانہ بنا ہوا ہے، اگر روزہ اس کیفیت کے ساتھ رکھا جائے تو یقیناً اس سے نفس کی تربیت ہوگی، انسان کے اندر برائی سے بچنے کی صلاحیت پیدا ہوگی اور انسان اپنے نفس کی غلامی سے آزاد ہوسکے گا، یہ تربیتی نظام اسے آئندہ گیارہ مہینوں میں بھی خدا کی مرضیات پر قائم رکھے گا، اس لیے روزہ کو حقیقت کی سطح پر رکھنا چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ یہ خدا کے حکم کو نفس کے حکم پر غالب رکھنے کا ایک عنوان ہے۔
اس ماہِ مبارک میں رسول اﷲ ﷺ پر نزولِ قرآن کا آغاز ہُوا، ہر سال حضرت جبرئیل علیہ السلام آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور قرآن مجید کے ایک ختم کا آپؐ سے مذاکرہ فرماتے، جس سال دنیا سے رخصتی ہوئی اس سال آپؐ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کے دو دور فرمائے، اس سے معلوم ہوا کہ اس ماہ کو قرآن مجید سے ایک خاص مناسبت ہے، اسی لیے اس مہینہ میں خاص طور پر تراویح کی نماز رکھی گئی کہ اس میں پورا قرآن مجید ختم کیا جائے، تہجد میں بھی زیادہ طویل قیام اور اسی نسبت سے قرأت کا معمول مبارک تھا۔
اسی لیے سلف صالحین کے یہاں اس ماہ میں قرآن مجید کی تلاوت کا بھی خاص اہتمام رہا ہے، اس لیے جہاں رمضان کے دن روزہ کے نور سے منور ہوں، وہیں رمضان کی راتیں تلاوتِ قرآن سے آباد ہونی چاہیے، یہ ہماری کم نصیبی ہے کہ خدا کی آخری اور کائنات میں موجودہ واحد سچی کتاب اس امت کے پاس ہے، جس کا حق یہ تھا کہ مسلمان کا کوئی دن اس کی تلاوت سے خالی نہ ہو، لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ پورا سال گزر جاتا ہے اور بہت سے بے توفیقوں کو قرآن مجید کے ایک ختم کی توفیق بھی میسر نہیں آتی، اس لیے یوں تو پورے سال تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرنا چاہیے، لیکن اگر یہ نہ ہو سکے تو کم سے کم رمضان کو تو ضایع نہ ہونے دیا جائے، عام طور پر بیس منٹ میں ایک پارہ مکمل ہو جاتا ہے، اگر روزانہ صرف ایک گھنٹہ تلاوت کا وقت رکھا جائے تو بہ آسانی ہر دس دن میں ایک ختم ہو سکتا ہے۔
اس کے ساتھ اگر کسی وقت ایک گھنٹہ قرآن کے ترجمہ و تفسیر کے مطالعے کے لیے بھی رکھ لیا جائے تو کیا کہنا۔۔۔ ! ہونا تو یہ چاہیے کہ سال بھر ترجمہ و تفسیر کے مطالعہ کا اہتمام ہو، لیکن اگر یہ نہ ہوسکے تو کم سے کم رمضان میں کسی ایک بڑی سورت یا منتخب سورتوں ہی کا مطالعہ کر لیا جائے، تاکہ بندہ یہ جان سکے کہ اس کا خدا اس سے کیا کہہ رہا ہے۔ یہ کیسی محرومی ہے کہ ہمارا خدا ہم سے مخاطب ہو اور ہم اس کی طرف متوجہ نہ ہوں؟ وہ ہم سے بات کرے اور ہم اپنے کان بند کر لیں، اس کا کلام اپنی جلوہ فرمائیوں کے ساتھ ہم پر آشکار ہو اور ہم اپنی آنکھیں موند لیں، کیا اس سے زیادہ حق ناشناسی کی بھی کوئی اور مثال مل سکتی ہے؟
رمضان المبارک کا تیسرا اہم عمل دعا ہے، یہ دعا کی قبولیت کا مہینہ ہے، رمضان کی راتوں میں اﷲ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو پکار تا ہے کہ ہے کوئی مغفرت کا طلب گار کہ میں اسے بخش دوں؟ کوئی ہے رزق کا خواست گار کہ میں اسے روزی دوں؟ ہے کوئی ضرورت مند کہ میں اس کی حاجت روائی کروں؟ اس سے زیادہ کم نصیبی کیا ہوگی کہ داتا خود سائل کو طلب کرے اور سائل اپنا دست سوال نہ پھیلائے، تہجد کا وقت دعا کی قبولیت کا ہے، افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے، رمضان المبارک کا آخری عشرہ جس میں شبِ قدر کا امکان ہے، دعا کی قبولیت کی خاص ساعتوں پر مشتمل ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ پوری ملت اسلامیہ زخم سے چور ہے اور پورا عالم اسلام یہود و نصاری کے پنجہ استبداد سے کراہ رہا ہے، اور ہر جگہ مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہیں، ان حالات میں دعا مؤمن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، مگر بد قسمتی سے افطار کے لیے ایک سے ایک کھانے کا انتخاب اور دسترخوان کو خوب سے خوب تر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن یہ وقت دعا کی قبولیت اور اﷲ سے مانگنے اور اپنے خالق کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا ہے، اسی کو فراموش کر دیا جاتا ہے، اس لیے ہم اس ماہ کو دعا کا مہینہ بنالیں، خدا سے مانگنے اور خدا کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا مہینہ۔
رسول اﷲ ﷺ نے اس ماہ کو غم گساری کا مہینہ (شہر المواساۃ) بھی فرمایا ہے، یعنی جیسے یہ خدا کو راضی کرنے اور اس کے سامنے جھکنے کا مہینہ ہے، اسی طرح یہ خدا کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک اور بہتر برتاؤ کا مہینہ بھی ہے، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی سخاوت اس ماہ میں تیز ہوا سے بھی بڑھ جاتی تھی، اسی لیے بعض صحابہؓ اس ماہ میں زکوٰۃ ادا کرنے کا اہتمام فرماتے تھے اور آج کل بھی لوگ خاص طور پر اسی مہینہ میں زکوٰۃ ادا کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن زکوٰۃ تو ایک لازمی فریضہ ہے اور انفاق کا وہ کم سے کم درجہ ہے جس سے انسان جواب دہی سے بچ سکتا ہے لیکن جیسے رمضان میں فرائض کے ساتھ نوافل کا اہتمام کیا جاتا ہے اسی طرح زکوٰۃ کے ساتھ عمومی انفاق پر بھی توجہ ہونی چاہیے بہت سے لوگ محتاج و ضرورت مند ہوتے ہیں لیکن زکوٰۃ کے مستحق نہیں ہوتے، بہت سے دینی کام ایسے ہیں جن میں زکوٰۃ کی رقم صرف نہیں کی جاسکتی، ایسے مواقع پر عمومی انفاق امت کے لیے ایک ضرورت ہے اور اصحابِ ثروت کو محسوس کرنا چاہیے کہ یہ بھی ان پر ایک حق ہے، چناں چہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا دوسرے حقوق بھی ہیں۔
آئیے! ہم عہد کریں کہ ایمان و عمل کی اس فصل بہار سے ہم اس کے تقاضے کے مطابق فائدہ اٹھائیں گے اور اپنی عملی زندگی کو اس کی خوش بُو سے عطر بار کریں گے!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دعا کی قبولیت رسول اﷲ ﷺ کا اہتمام میں زکو ۃ کا مہینہ اسی لیے ہوتی ہے جاتا ہے کے ساتھ ہے اور اس ماہ کے لیے اس لیے بہت سے
پڑھیں:
تین سنہرے اصول
کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ دنیا میں، اس ہمارے ملک میں اور ہمارے اردگرد بہت کچھ اُلٹ پلٹ ہوچکا ہے، ہورہا ہے اور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ صرف سورج ابھی مغرب کی طرف تو نہیں نکل رہا ہے۔لیکن باقی سب کچھ بدل چکا ہے، الٹ ہوچکا ہے۔ایک مستند دانا دانشور نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کبھی بچے اپنے والدین سے بات کرتے تھے تو بہت جھجھکتے تھے، سوچتے تھے اور ڈرتے تھے کہ بات کی تو کیا نتیجہ نکلے گا لیکن زمانہ بدل گیا ہے، اب والدین اپنے بچوں سے بات کرتے ہوئے یہی کچھ کرتے ہیں۔
بیویاں اپنے شوہروں سے بات کرتے ہوئے ڈرا کرتی تھیں لیکن اب شوہر اپنی بیوی سے بات کرتے ہوئے بہت سوچتے، سمجھتے اور بہت تول تول کر منہ سے ’’بول‘‘ نکالتے ہیں کہ کہیں پارہ نہ چڑھ جائے، ماضی میں شوہر بیویوں سے حساب مانگتے تھے اور اب بیویاں شوہروں کا آڈٹ کرتی ہیں۔تنخواہ کا بھی اور وقت کا بھی؟ چھٹی تو دو بجے ہوتی ہے اور تم اب چار بجے گھر پہنچے ہو۔یہ دو گھنٹے کہاں تھے، کیا کرتے تھے اور کیوں کرتے تھے؟ پرانے زمانے میں ’’مجرم‘‘ پولیس سے ڈرتے تھے اور اب پولیس مجرموں سے ڈرتی ہے کہ کہیں’’کام چھوڑ‘‘ ہڑتال کرکے ہمیں اپنی تنخواہ کے ساتھ تنہا نہ چھوڑ دیں۔
پہلے انسان درندوں سے ڈرا کرتے تھے، اب درندے انسانوں سے ڈرکر نہ جانے کہاں غائب ہورہے ہیں؟ اس خیال سے کہ ہمارا سارا کام تو انسانوں نے سنبھال لیا ہے اور درندگی کا وہ کام شہروں میں کھلے عام کررہا ہے تو ہم کیا کریں گے اور کہاں رہیں گے کہ جنگل میں بھی انسانوں نے شہر اگا لیے ہیں۔
مسجد میں ہم نے ایک بزرگ کو دیکھا کہ ہر وقت مسجد میں بیٹھے یا لیٹے یا اونگتے رہتے تھے اور گھر بہت کم کم جاتے تھے۔پوچھا حضور کیا بات ہے گھر میں کوئی ناچاقی ہے، ناہمواری ہے اور پریشانی ہے کیا؟ بولے نہ ناچاقی ہے نہ پریشانی ہے نہ ناہمواری ہے ’’شرمندگی ہے‘‘۔کیسی شرمندگی؟ ہم نے پوچھا تو بولے بلکہ تقریباً روئے اور کہا، سارے گھر والے مجھ سے ناراض ہیں، شاکی ہیں، روٹھے ہوئے ہیں، احترام و عزت تو دور کی بات ہے سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتے، گھر میں کہیں بیٹھا یا لیٹا ہوتا ہوں تو یوں دور دور رہتے ہیں جیسے مجھے چھوت کی کوئی خطرناک بیماری لاحق ہو۔
پوچھا کیوں ؟ آپ نے ایسا کیا کیا ہے ؟
بولے، اس لیے کہ میں نے کچھ’’کیا‘‘ کیوں نہیں ہے۔
ساری زندگی جوتے اور انگلیاں گھسا گھسا کر انھیں دیا نہ دے پایا، وہ میرے بیٹوں نے چار پانچ سال میں دے دیا ہے،میں نے ان کو دس مرلے کے ٹوٹے پھوٹے اور کھنڈر نما گھر میں جس ہر ہر سہولت سے ترسایا تھا، بیٹوں نے آٹھ کنال کے لگژری بنگلے میں وہ سب کچھ مہیا کردیا ہے۔ میں نے عمر بھر انھیں مچھروں سے کٹوایا اور کھڑکھڑاتے ہوئے ایک پنکھے کے نیچے سلایا بلکہ جگائے رکھا تھا اور اب بیٹوں نے اے سی کمروں میں پہنچا دیا ہے۔
میں نے مانگے تانگے کا برف ڈال کر کولر کا پانی پلایا تھا اور اب ان کے پاس ہر کمرے میں ایک فریج ہے اور کچن میں دو بڑے ڈیپ فریزرز۔ میں نے ان کو ایک وقت کا پکا ہوا کھانا دو وقت کھلایا تھا۔اور اب ان کے کچن سے ہر وقت خوشبو دار کھانے نکلتے ہیں۔اب تم بتاؤ کہ ایک ناکام و نامراد انسان ان کامیاب اور بامراد انسانوں کے بیچ کیسے رہے؟ یہ تو ایک عام انسان ریٹائرڈ سرکاری ملازم کا المیہ تھا۔لیکن ہم ایک ایسے خاص انسان سے بھی واقف ہیں جس نے اپنی ساری زندگی ایک نظریاتی سیاسی پارٹی میں ’’ضایع‘‘ کی ہے اور اس کا کل اثاثہ جسم پر پرانے زخموں کے نشان، قیدوبند کی یادوں اور قربانیوں کی صورت میں اس کے پاس ہے باقی کچھ نہیں۔جس کی ساری عمر،پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ،میں گزری ہے اور آخر تھک ہار کر یہ کہتے گھر پہنچا کہ
ہم باغ تمنا میں دن اپنے گزار آئے
لیکن نہ بہار آئی شاید نہ بہار آئے
لیکن بہار ایک اور طرف سے ایک اور راستے سے آئی بلکہ اس کا ایک بیٹا اس’’بہار‘‘ کو کان سے پکڑ کر سیدھا اپنے گھر لے آٰیا۔’’باغ تمنا‘‘ میں ایک لمحہ گزارے بغیر وہ آج کل اپنے بلکہ بیٹے کی عظیم الشان حویلی کے مردانہ حصے کی ایک بیٹھک میں مقیم ہے، بیٹے اور گھروالوں نے اسے ہر طرح سے جتن کرکے گھر کے اندر لانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانا۔اور خود اپنے اوپر نافذ کی ہوئی سزائے قید میں پڑا ہوا ہے۔بیٹے نے ایک خدمت گار تعینات کردیا۔ تو اس نے اسے بھی یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ایک خدمت گار کسی اور سے خدمت کیسے لے سکتا ہے۔
وہ اپنی ناکامی کے احساس سے شرمندہ ہے کہ جو کچھ اس نے پچاس سال ایک پارٹی سے وابستہ رہ کر حاصل نہیں کیا تھا، وہ اس کے بیٹے نے ایک پارٹی میں چند ہی سال میں حاصل کرلیا۔کیونکہ وہ باپ کی فرسودہ پارٹی کو چھوڑ کر نئے دور کی ایک ’’بیسٹ سیلر‘‘ پارٹی میں شامل ہوگیا۔ جو ’’شارٹ کٹوں‘‘ سے بھرپور بھی ہے اور پورے گھر کو ہر چیز سے بھردیا ہے، ہم کبھی کبھی اس ناکام نامراد اور نکمے سے جاکر حال چال پوچھتے ہیں اور اگلے زمانے کے بیوقوف لوگوں کی کہانیاں سنتے ہیں۔
ایک دن اس کے بیٹے سے ملاقات ہوئی تو اس نے شکایت کی کہ میں تو ہر طرح سے ان کا خیال رکھنا چاہتا ہوں لیکن وہ میرا کچھ بھی قبول نہیں کرتے حالانکہ میں نے یہ سب کچھ انھی کی برکت سے پایا ہے۔
ہم نے کہا ہاں ان کا ایک ’’نام‘‘ تو تھا۔بولا میں نام کی بات نہیں کر رہاہوں، نام تو آج کل ایک کھوٹا سکہ ہے۔میں ان کے اصولوں کی بات کررہا ہوں۔ان کے تین اصول تھے ایمانداری، خودداری اور وفاداری۔ میں نے ان کے ان تین اصولوں کو ہمیشہ یاد رکھا، اپنے سامنے رکھا۔اور ہمیشہ ان سے’’بچنے‘‘ کی کوشش کی، ان کو کبھی اپنے قریب آنے نہیں دیا۔ اور یہ سب کچھ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ میں نے ہمیشہ ان اصولوں کو راستے کا روڑا سمجھ کر یا تو لات مارکر راستے سے ہٹا دیا ہے۔یا پیر اٹھا کر اور انھیں پھلانگ کر آگے بڑھا ہوں۔