Express News:
2025-04-26@03:25:58 GMT

ٹرمپ اور امریکا

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

ٹرمپ کے دور اقتدار میں کیا ہوا تھا اور انھیں کیوں ایک کے بعد فوری دوسری بار اقتدار میں آنے سے روکنا پڑا تھا اور پہلے ناکام دورکے بعد عوام نے انھیں ایک وقفے کے بعد ان کو کیسے قبول کر لیا۔ یہ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکا کا دنیا میں مانیٹر بننے اور حکم چلانے کے عمل میں خود اس کا اور اس کے حواریوں کا کتنا نقصان ہوا ہے۔

افغانستان کی جنگ میں کودنے کا عمل دراصل روس سے چلتی ایک طویل سرد جنگ کا نتیجہ تھا جس نے نہ صرف امریکا کو بلکہ دنیا بھر میں تعصب کی جنگ کو ہوا دی تھی۔ لوگوں نے افغانستان میں کی جانے والی خون ریزی کو تسلیم کیا ہو یا نہ کیا ہو، خود امریکی افواج میں اس متعصبانہ رجحان سے نفسیاتی عوارض ناپسندیدگی کی حد تک ابھرے اور یہ تاثر ابھرا کہ امریکا کا اس بڑی جنگ میں اپنا کرتب دکھانے کا عمل کس قدر نقصان کی صورت میں نکلا، جس کے اثر سے آج بھی امریکا اپنا پلو نہیں چھڑا سکا ہے۔

نہ صرف مالی دور پر بلکہ ذہنی و جسمانی کوفت اور اذیت کے نشان امریکی افواج کے اراکین پر نظر آتے ہیں، اس بڑی ناکامی کے بعد بھی یہ عمل رکا نہیں بلکہ کسی اور جانب کا رخ کرگیا۔ بڑی طاقت سے عناد اور ٹکر لینے کا جذبہ امریکا کا پرانا نفسیاتی مرض ہے، اس لیے کہ جب سے برطانیہ کی بادشاہی کا تاج کمزور پڑا، امریکا کو اس کا مقام حاصل کرنے کا چسکا لگ گیا، لیکن یہ آج کی دنیا ہے، یہاں یقینا ماضی کی طرح اب بھی بڑے مظالم قوموں پر ڈھائے گئے ہیں جس کی بڑی مثال غزہ ہے، لیکن ویت نام کی ناکام جنگ نے اسے کوئی سبق نہ دیا اور ایک کے بعد ایک وہ اس طرح کے خونی کھیل میں ڈبکیاں لگاتا رہا، یہاں تک کہ افغانستان اور پھر اسامہ بن لادن کے ڈراپ سین کے بعد اسے مجبوراً اپنی جانب سے یہ سبق بند کرنا پڑا تھا۔

روس ایک بڑا بھوت بن کر اس کے حواسوں پر ایسا سوار ہوا کہ ماضی تک جو کھیل افغانستان کی آڑ میں چلتا رہا تھا، اب سے یوکرین کے چھوٹے سے پلو سے پکڑنا پڑا اور ہدف تھا روس۔ روس نے یقینا یوکرین کے ساتھ بڑا برا کیا لیکن امریکا نے ایک بار پھر مانیٹرکی ڈیوٹی انجام دینے کی سوچی اور یورپ کے بااثر ممالک کے دروازوں کو بجا کر چوکنا کیا۔

جنگ کے بلند شعلے یورپ تک محسوس کیے گئے۔ پوتن ایک انتہائی ظالم اور مکار انسان ڈکلیئر کردیا گیا جو یوکرین پر پھر سے قبضہ کر کے اپنی حدود بڑھانا چاہتا ہے وہ بھی امریکا کی ناک کے نیچے اور بھلا یہ اسے کیسے گوارا تھا۔ معاملہ بڑھتا گیا امریکی صدر جوبائیڈن نے یوکرین کی بھرپور مدد کا اعلان کیا جس کے سہارے ولادیمیر زیلنسکی نے روس جیسے بڑے بھوت سے ٹکر لینے کا عہدکیا، پوتن نے امریکی سرکار کے بڑے دعوے مسترد کر دیے اور وہ رکا نہیں، تب ہی فلسطین کی سرد جنگ شعلوں میں لپٹ کر منظر عام پر آگئی۔

دنیا کے ناظرین کے لیے ایک اور جنگی اسٹیج سج گیا، اب یوکرین اور روس کی جنگ پس منظر میں چلی گئی۔ اس دوران زیلنسکی نے بہت دہائیاں دیں، لیکن بے سود رہیں کہ اچانک امریکی سیاست کا نقشہ بدلتا نظر آتا ہے۔ جوبائیڈن کیا بیمار ہوئے وہاں تو دنیا ہی بدل گئی۔

بدکار، بدفطرت،کرپٹ، چالاک، عیار اور پر تعصب نجانے کن کن القابات کا بوجھ اٹھائے ٹرمپ میدان میں اتر ہی آئے۔ ایک بار پھر منظرنامہ تیزی سے بدلنے لگا۔یوکرین کی حمایت کرنے والا امریکا اب روس کی جانب بڑھ رہا ہے اور یوکرین پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ روس سے جنگ بندی کر لے اور بدلے میں وہ تمام کڑی شرائط قبول کر لے جو اس کی گردن میں طوق پہنانے کے مترادف ہیں۔

یہ بہت بڑی قلابازی تھی جو ٹرمپ نے آتے ہی کھائی اور دکھا دیا کہ وہ ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں الگ سوچتے ہیں۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ پہلے حملہ روس کی جانب سے کیا گیا تھا اور اس نے ہی کڑی شرائط عائد کی ہیں۔ یہ اندھا قانون لاگوکرنے میں دو بڑی طاقتیں ایک ساتھ جڑگئی ہیں۔ جو کچھ جوبائیڈن کرچکے تھے اورکہہ چکے تھے، ٹرمپ اس سے ہٹ کر اپنے لیے نئی روش بنا رہے ہیں۔

پوری دنیا نے زیلنسکی اور ٹرمپ کی اس تکرار کو دیکھا جس میں ٹرمپ نے اپنے منصب سے اتر کر ایسی باتیں کیں جو ان کے امیج کو مزید داغ دار کر گئیں۔ زیلنسکی جوبائیڈن کے دور حکومت تک فارم میں نظر آتے تھے لیکن ٹرمپ کی آنکھیں بدلتے ہی انھیں اپنے ملک کا مستقبل بھی تاریک نظر آنے لگا، دراصل ٹرمپ کی نگاہ کسی اور ہدف پر ہے وہ روس جیسے طاقتور جن کا ہاتھ تھام کر ایشیا میں قدم بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ بنیادی طور پر وہ ایک ایسے کاروباری انسان ہیں جو اپنے نفع کے آگے کچھ نہیں دیکھتا۔

اس منظر میں غزہ بھی ابھرتا ہے جہاں طویل جنگ نے آگ وخون کی ہولی کھیلی لیکن یہاں بھی ٹرمپ نیتن یاہو کے ساتھی بنے نظر آتے ہیں۔ انھیں اپنے یہودی داماد کے زبردست بزنس پلان سے اس حد تک اتفاق ہے کہ اس کے لیے وہ سب کچھ کرگزرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

آج ٹرمپ کی انتظامیہ میں ایسے ایسے شاہکار شامل ہیں جنھیں پہلے کبھی نہ دیکھا گیا تھا کرپٹ، داغ دارکردار والے شاید امریکا کی تاریخ میں پہلے ایسی ٹیم کبھی نہ دیکھی نہ سنی۔آخر ٹرمپ چاہتے کیا ہیں؟ ٹرمپ کی راہ ماضی کے تمام حکمرانوں کے مقابلے میں کچھ الگ ہے اور یہ انھوں نے ظاہرکرنا شروع کر دیا ہے۔

وہ خود غرض ہے، انا پرست ہیں یا نہیں لیکن امریکا اور اپنی قوم کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہے، وہ کسی بھی طرح اپنے ملک اور امریکی قوم کی بھلائی چاہتے ہیں، انھیں فکر ہے تو اپنے ملک کے سرمائے کی جسے وہ کسی کمزور ہوتے ملک یا قوم کی بھلائی، سدھارکے لیے استعمال کرنے سے گریزکرتے ہیں۔

اس لیے کہ وہ امریکا کوگریٹر بنانے کا خواب رکھتے ہیں۔ وہ ایک چال باز بزنس مین کی طرح چین اور یورپی یونین پر پابندیاں لادنا چاہتے ہیں، امپورٹ ڈیوٹی بڑھنے سے سستی اشیا مہنگی ہوکر عوام کو مشکلات میں ڈال دے گی، لیکن چین کو زیرکرنے کے لیے کاروباری ٹرمپ کے لیے یہ ضروری ہے اسی طرح کی کاروباری چالیں وہ اپنی پہلی باری میں بھارت کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کر چکے ہیں۔

ٹرمپ عوام کے لیے کیسے بھی ہوں، انھیں اس سے غرض نہیں ہے لیکن ان کے اپنے دماغ میں جو بات بیٹھ گئی ہے وہ اسے پورا کرنے میں مستعد ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ پہلی بار 2017 میں کامیاب ہونے کے بعد 2021 میں وہ اس تخت سے دور ہوگئے تھے اور اس میں ان کی جو غلطیاں تھیں وہ آج بھی انھی پرکاربند ہیں کہ وہ اپنی فطرت نہیں بدل سکتے۔

کاروبار چلانے کے لیے تمام حربے اختیارکرنا انھیں خوب آتا ہے لیکن ملک چلانے کے لیے وہ کیا کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے نتائج دنیا پر کس طرح اپنے اثرات مرتب کریں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے کہ انسانی عقل و شعور اس راز کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ کیا دنیا ایک گریٹر امریکا کو دیکھ سکے گی یا ڈونلڈ ٹرمپ کی احمقانہ پالیسیوں کے باعث امریکا کی ریاستیں دور ہو جائیں گی اس لیے کہ فیصلہ قدرت کا ہوتا ہے لیکن وہ انسانوں سے ہی یہ فیصلے کرواتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکا کو چاہتے ہیں ٹرمپ کی کے بعد کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کسان اتحاد کا گندم کی کاشت میں بہت بڑی کمی لانے کا اعلان

پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین خالد حسین کھوکھر نے آئندہ سال اگلے سال گندم کی کاشت میں بہت بڑی کمی لانے کا اعلان کر تے ہوئے کہاہے کہ پاکستان میں گندم کا کاشتکار ڈپریشن کا شکار ہے، ہم بات کرنے کو تیار ہیں لیکن وزیر اعلی پنجاب بات کرنا نہیں چاہتیں۔

لاہور پریس کلب میں پاکستان کسان اتحاد کے دیگر عہدیداروں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خالد حسین کھوکھر نے کہا کہ کسان اگلی فصل کہاں سے کاشت کریں گے؟، کسان کے لیے کوئی درد نہیں، کیا ہم گندم جلا دیں؟۔ خالد کھوکھر نے کہا کہ گندم کا مسئلہ ملکی مسئلہ ہے۔ بارڈر سیکیورٹی دوسرا لیکن خوراک کا مسئلہ پہلے نمبر پر ہے۔ گندم کے کاشت کار کے گھر بچے اور صحت کے حالات خراب ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گندم کا کاشتکار ڈپریشن کا شکار ہے اور کاشتکار صرف اپنی محنت ی اجرت مانگ رہا ہے۔ کاشتکار ملک کے تمام لوگوں کی خدمت کرتا ہے۔ اور وہ اپنی زمین کا ٹکڑا دوسرے ملک منتقل نہیں کرسکتا۔ کیا چینی والے زیادہ محب وطن ہیں۔

خالد کھوکھر نے کہا کہ کسان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ گندم کی لاگت کاشت کا اعلان کیا جائے۔ عالمی اصول ہے کہ لاگت میں 25 فیصد اضافہ کر کے ریٹ مقرر کیا جائے۔ 3900 روہے من گندم کا ریٹ مقرر کیا جائے کیونکہ 3400 روہے تو ہماری لاگت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے پر بات کرنے کو تیار ہیں مگر وزیراعلی پنجاب بات کرنا نہیں چاہتیں۔ آج ملکی زراعت تباہ ہو رہی ہے اور کسان آج رو رہا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب کسان تنظیموں سے نہ ملیں لیکن حقیقی کسانوں سے تو ملیں۔کسا ن رہنما نے کہا کہ گندم امپورٹ کر کے اربوں ڈالرز کمائے گئے لیکن کسی کو سزا نہیں ملی۔ معاون خصوصی وزیر اعلی پنجاب کہتی ہیں کہ کسان چند ہزار ہیں انہیں تو زراعت کی الف ب بھی نہیں معلوم۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اراکین اسمبلی کی تنخواہ بڑھا سکتی ہے لیکن کاشتکار کے لیے فصل کی قیمت نہیں بڑھا سکتی۔ کاشتکار اگلی فصلیں لگانے کو تیار نہیں ہیں۔ محکمہ زراعت کے کہنے پر اگیتی گندم زیادہ کاشت کی تھی جبکہ پاکستان کا کاشتکار گندم بیچے تو اس پر 18 فیصد ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ انہوں نے طنز کیا کہ چینی والے زیادہ محب وطن ہیں، کسان سال بھر کام کرتا اور عوام کی خدمت کرتا ہے، کسان کے گھر میں صف ماتم ہے، اس کی تمام امید گندم سے ہوتی ہے، محکمہ زراعت بتائے گندم پر کتنا خرچہ آتا ہے؟۔انہوں نے کہاکہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کسانوں کے ساتھ ملنا نہیں چاہتی ہیں، گندم امپورٹ کر کے ڈالر کمائے گئے کوئی انکوائری نہیں ہوئی۔

خالد کھوکھر نے کہا کہ جس محترمہ کا کاشتکار سے کوئی تعلق نہیں اس کو بٹھا دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ آئندہ سال گندم کی پیداوار میں بہت بڑی کمی آئے گی تو عوام پریشان ہوں گے، ہم تو مزدور اور کسان لوگ ہیں، لسی چٹی کھالیں گے، لیکن عوام کیا کریں گے؟۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا سعودی عرب کو 100 بلین ڈالر کا اسلحہ دینے کو تیار
  • ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ
  • ٹرمپ ٹیرف کے خلاف امریکا کی 12 ریاستوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا
  • مجھ سے زبردستی اداکاری کروائی گئی؛ خوشبو نے درد ناک کہانی بتادی
  • ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم
  • پاکستان کسان اتحاد کا گندم کی کاشت میں بہت بڑی کمی لانے کا اعلان
  • وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
  • وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
  • ’’ہم آپ کے ہیں کون‘‘ کا سیکوئل؛ فلم میکر کا سلمان خان اور مادھوری کے حوالے سے اہم انکشاف
  • عمران خان کو  رہائی کی پیشکش کی گئی لیکن بات نہ بن سکی، لطیف کھوسہ