Express News:
2025-07-26@14:03:38 GMT

ٹرمپ اور امریکا

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

ٹرمپ کے دور اقتدار میں کیا ہوا تھا اور انھیں کیوں ایک کے بعد فوری دوسری بار اقتدار میں آنے سے روکنا پڑا تھا اور پہلے ناکام دورکے بعد عوام نے انھیں ایک وقفے کے بعد ان کو کیسے قبول کر لیا۔ یہ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکا کا دنیا میں مانیٹر بننے اور حکم چلانے کے عمل میں خود اس کا اور اس کے حواریوں کا کتنا نقصان ہوا ہے۔

افغانستان کی جنگ میں کودنے کا عمل دراصل روس سے چلتی ایک طویل سرد جنگ کا نتیجہ تھا جس نے نہ صرف امریکا کو بلکہ دنیا بھر میں تعصب کی جنگ کو ہوا دی تھی۔ لوگوں نے افغانستان میں کی جانے والی خون ریزی کو تسلیم کیا ہو یا نہ کیا ہو، خود امریکی افواج میں اس متعصبانہ رجحان سے نفسیاتی عوارض ناپسندیدگی کی حد تک ابھرے اور یہ تاثر ابھرا کہ امریکا کا اس بڑی جنگ میں اپنا کرتب دکھانے کا عمل کس قدر نقصان کی صورت میں نکلا، جس کے اثر سے آج بھی امریکا اپنا پلو نہیں چھڑا سکا ہے۔

نہ صرف مالی دور پر بلکہ ذہنی و جسمانی کوفت اور اذیت کے نشان امریکی افواج کے اراکین پر نظر آتے ہیں، اس بڑی ناکامی کے بعد بھی یہ عمل رکا نہیں بلکہ کسی اور جانب کا رخ کرگیا۔ بڑی طاقت سے عناد اور ٹکر لینے کا جذبہ امریکا کا پرانا نفسیاتی مرض ہے، اس لیے کہ جب سے برطانیہ کی بادشاہی کا تاج کمزور پڑا، امریکا کو اس کا مقام حاصل کرنے کا چسکا لگ گیا، لیکن یہ آج کی دنیا ہے، یہاں یقینا ماضی کی طرح اب بھی بڑے مظالم قوموں پر ڈھائے گئے ہیں جس کی بڑی مثال غزہ ہے، لیکن ویت نام کی ناکام جنگ نے اسے کوئی سبق نہ دیا اور ایک کے بعد ایک وہ اس طرح کے خونی کھیل میں ڈبکیاں لگاتا رہا، یہاں تک کہ افغانستان اور پھر اسامہ بن لادن کے ڈراپ سین کے بعد اسے مجبوراً اپنی جانب سے یہ سبق بند کرنا پڑا تھا۔

روس ایک بڑا بھوت بن کر اس کے حواسوں پر ایسا سوار ہوا کہ ماضی تک جو کھیل افغانستان کی آڑ میں چلتا رہا تھا، اب سے یوکرین کے چھوٹے سے پلو سے پکڑنا پڑا اور ہدف تھا روس۔ روس نے یقینا یوکرین کے ساتھ بڑا برا کیا لیکن امریکا نے ایک بار پھر مانیٹرکی ڈیوٹی انجام دینے کی سوچی اور یورپ کے بااثر ممالک کے دروازوں کو بجا کر چوکنا کیا۔

جنگ کے بلند شعلے یورپ تک محسوس کیے گئے۔ پوتن ایک انتہائی ظالم اور مکار انسان ڈکلیئر کردیا گیا جو یوکرین پر پھر سے قبضہ کر کے اپنی حدود بڑھانا چاہتا ہے وہ بھی امریکا کی ناک کے نیچے اور بھلا یہ اسے کیسے گوارا تھا۔ معاملہ بڑھتا گیا امریکی صدر جوبائیڈن نے یوکرین کی بھرپور مدد کا اعلان کیا جس کے سہارے ولادیمیر زیلنسکی نے روس جیسے بڑے بھوت سے ٹکر لینے کا عہدکیا، پوتن نے امریکی سرکار کے بڑے دعوے مسترد کر دیے اور وہ رکا نہیں، تب ہی فلسطین کی سرد جنگ شعلوں میں لپٹ کر منظر عام پر آگئی۔

دنیا کے ناظرین کے لیے ایک اور جنگی اسٹیج سج گیا، اب یوکرین اور روس کی جنگ پس منظر میں چلی گئی۔ اس دوران زیلنسکی نے بہت دہائیاں دیں، لیکن بے سود رہیں کہ اچانک امریکی سیاست کا نقشہ بدلتا نظر آتا ہے۔ جوبائیڈن کیا بیمار ہوئے وہاں تو دنیا ہی بدل گئی۔

بدکار، بدفطرت،کرپٹ، چالاک، عیار اور پر تعصب نجانے کن کن القابات کا بوجھ اٹھائے ٹرمپ میدان میں اتر ہی آئے۔ ایک بار پھر منظرنامہ تیزی سے بدلنے لگا۔یوکرین کی حمایت کرنے والا امریکا اب روس کی جانب بڑھ رہا ہے اور یوکرین پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ روس سے جنگ بندی کر لے اور بدلے میں وہ تمام کڑی شرائط قبول کر لے جو اس کی گردن میں طوق پہنانے کے مترادف ہیں۔

یہ بہت بڑی قلابازی تھی جو ٹرمپ نے آتے ہی کھائی اور دکھا دیا کہ وہ ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں الگ سوچتے ہیں۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ پہلے حملہ روس کی جانب سے کیا گیا تھا اور اس نے ہی کڑی شرائط عائد کی ہیں۔ یہ اندھا قانون لاگوکرنے میں دو بڑی طاقتیں ایک ساتھ جڑگئی ہیں۔ جو کچھ جوبائیڈن کرچکے تھے اورکہہ چکے تھے، ٹرمپ اس سے ہٹ کر اپنے لیے نئی روش بنا رہے ہیں۔

پوری دنیا نے زیلنسکی اور ٹرمپ کی اس تکرار کو دیکھا جس میں ٹرمپ نے اپنے منصب سے اتر کر ایسی باتیں کیں جو ان کے امیج کو مزید داغ دار کر گئیں۔ زیلنسکی جوبائیڈن کے دور حکومت تک فارم میں نظر آتے تھے لیکن ٹرمپ کی آنکھیں بدلتے ہی انھیں اپنے ملک کا مستقبل بھی تاریک نظر آنے لگا، دراصل ٹرمپ کی نگاہ کسی اور ہدف پر ہے وہ روس جیسے طاقتور جن کا ہاتھ تھام کر ایشیا میں قدم بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ بنیادی طور پر وہ ایک ایسے کاروباری انسان ہیں جو اپنے نفع کے آگے کچھ نہیں دیکھتا۔

اس منظر میں غزہ بھی ابھرتا ہے جہاں طویل جنگ نے آگ وخون کی ہولی کھیلی لیکن یہاں بھی ٹرمپ نیتن یاہو کے ساتھی بنے نظر آتے ہیں۔ انھیں اپنے یہودی داماد کے زبردست بزنس پلان سے اس حد تک اتفاق ہے کہ اس کے لیے وہ سب کچھ کرگزرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

آج ٹرمپ کی انتظامیہ میں ایسے ایسے شاہکار شامل ہیں جنھیں پہلے کبھی نہ دیکھا گیا تھا کرپٹ، داغ دارکردار والے شاید امریکا کی تاریخ میں پہلے ایسی ٹیم کبھی نہ دیکھی نہ سنی۔آخر ٹرمپ چاہتے کیا ہیں؟ ٹرمپ کی راہ ماضی کے تمام حکمرانوں کے مقابلے میں کچھ الگ ہے اور یہ انھوں نے ظاہرکرنا شروع کر دیا ہے۔

وہ خود غرض ہے، انا پرست ہیں یا نہیں لیکن امریکا اور اپنی قوم کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہے، وہ کسی بھی طرح اپنے ملک اور امریکی قوم کی بھلائی چاہتے ہیں، انھیں فکر ہے تو اپنے ملک کے سرمائے کی جسے وہ کسی کمزور ہوتے ملک یا قوم کی بھلائی، سدھارکے لیے استعمال کرنے سے گریزکرتے ہیں۔

اس لیے کہ وہ امریکا کوگریٹر بنانے کا خواب رکھتے ہیں۔ وہ ایک چال باز بزنس مین کی طرح چین اور یورپی یونین پر پابندیاں لادنا چاہتے ہیں، امپورٹ ڈیوٹی بڑھنے سے سستی اشیا مہنگی ہوکر عوام کو مشکلات میں ڈال دے گی، لیکن چین کو زیرکرنے کے لیے کاروباری ٹرمپ کے لیے یہ ضروری ہے اسی طرح کی کاروباری چالیں وہ اپنی پہلی باری میں بھارت کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کر چکے ہیں۔

ٹرمپ عوام کے لیے کیسے بھی ہوں، انھیں اس سے غرض نہیں ہے لیکن ان کے اپنے دماغ میں جو بات بیٹھ گئی ہے وہ اسے پورا کرنے میں مستعد ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ پہلی بار 2017 میں کامیاب ہونے کے بعد 2021 میں وہ اس تخت سے دور ہوگئے تھے اور اس میں ان کی جو غلطیاں تھیں وہ آج بھی انھی پرکاربند ہیں کہ وہ اپنی فطرت نہیں بدل سکتے۔

کاروبار چلانے کے لیے تمام حربے اختیارکرنا انھیں خوب آتا ہے لیکن ملک چلانے کے لیے وہ کیا کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے نتائج دنیا پر کس طرح اپنے اثرات مرتب کریں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے کہ انسانی عقل و شعور اس راز کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ کیا دنیا ایک گریٹر امریکا کو دیکھ سکے گی یا ڈونلڈ ٹرمپ کی احمقانہ پالیسیوں کے باعث امریکا کی ریاستیں دور ہو جائیں گی اس لیے کہ فیصلہ قدرت کا ہوتا ہے لیکن وہ انسانوں سے ہی یہ فیصلے کرواتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکا کو چاہتے ہیں ٹرمپ کی کے بعد کے لیے

پڑھیں:

شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …

یہ کہا جا رہا ہے کہ سزاؤں کا موسم شروع ہو گیا ہے۔ نو مئی کے مقدمات میں سزاؤں کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ ایک دن میں دو فیصلوں نے ملک کا سیاسی منظر نامہ ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ملک بھر میں نو مئی کے مقدمات کا ٹرائل جاری ہے۔

سپریم کورٹ جلد فیصلوں کا کہہ چکی ہے۔ اور اب سزائیں شروع ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی بری بھی ہو گئے ہیں۔ ایک طرف سزائیں ہیں دوسری طرف بریت ہے۔ اس لیے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بریت اور سزائیں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی بریت نے ملک کے سیاسی منظر نامہ پر بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ انھی سوالات کی وجہ سے شاہ محمود قریشی نے اپنی بریت کے بعد ویڈیو پیغام جاری کیا ہے کہ وہ کل بھی بانی تحریک انصاف کے ساتھ تھے، آج بھی بانی تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے سائفر میں بانی کا ساتھ دیا ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ویڈیو پیغام انھوں نے ان انگنت شکوک و شبہات کے بعد جاری کیا ہے جو ان کی بریت کے بعد پیدا ہوئے۔ ایک عمومی رائے یہی بن رہی ہے کہ ان کی بریت ان کے اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کا نتیجہ ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ شاہ محمود قریشی کبھی مزاحمت کی سیاست نہیں کرتے۔ ان کا ماضی گواہ ہے کہ انھوں نے اور ان کے خاندان نے ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر مفاہمت کی سیاست ہی کی ہے۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ ہم نے ان کو بانی تحریک انصاف کے ساتھ مزاحمت کی سیاست کرتے دیکھا۔ جس پر سب حیران بھی تھے۔ لوگ سوال کر رہے تھے کہ شاہ محمود قریشی کا خاندان تو مفاہمت کی سیاست کی پہچان رکھتا ہے۔ پھر وہ کیسے اسٹبلشمنٹ کے خلاف چل رہے ہیں۔ لیکن اب رائے یہ ہے کہ وہ واپس مفاہمت کی سیاست کی طرف آگئے ہیں۔

یہ درست ہے کہ نو مئی کو شاہ محمود قریشی کراچی میں تھے۔ وہ کسی احتجاج میں شریک نہیں تھے۔ شائد نو مئی کے احتجاج کی تیاری کے لیے جو اجلاس ہوئے وہ ان میں بھی شریک نہیں تھے۔ بانی جانتے تھے کہ وہ اسٹبلشمنٹ پر اس طرح حملے کے حق میں نہیں ہوں گے، اس لیے وہ شامل نہیں تھے۔ لیکن یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ اس سے پہلے بھی شاہ محمود قریشی کو گرفتار کیا گیا تھا پھر وہ رہا ہو گئے تھے۔

اس وقت بھی یہی بات سامنے آئی تھی کہ ان کی رہائی سیاسی طور پر مشروط تھی۔ وہ رہائی کے بعد بانی تحریک انصاف کو ملے تھے لیکن ان کی ملاقات کامیاب نہیں رہی تھی۔ اس کی خبریں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب شاہ محمود قریشی کو کوئی فیصلہ کرنا تھا ۔ لیکن انھوں نے نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے وہ دوبارہ گرفتار ہوئے۔ اور اب انھوں نے لمبی جیل بھی کاٹی ہے اور ٹرائل کا بھی سامنا کیا ہے۔ لیکن اب ان کی بریت ہو گئی ہے۔ جس کے بعد ان کی مفاہمت کی مفاہمت کی دوبارہ خبریں سامنے آئی ہیں۔ جس کی وجہ سے شاہ محمود قریشی نے وضاحتی بیان جاری کیا ہے۔

شاہ محمود قریشی کی اس بریت سے پہلے 26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر بھی شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی جو رکن قومی اسمبلی بھی ہیں، ان کے اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان ڈیل کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں۔ تحریک انصاف نے یہ الزام لگایا تھا کہ ان کو جہاں چھپنے کے لیے کہا گیا تھا وہ وہاں نہیں تھے بلکہ وہاں سے غائب تھے۔

غائب ہونے کا مطلب ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے پاس چلے گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ زین قریشی نے 26ویں آئینی ترمیم میں حکومت کو ووٹ نہیں دیا۔ لیکن وہ شک کے دائرے میں تھے۔ ایک رائے یہ ہے کہ ان کے ووٹ کی ضرورت نہیں پڑی، اس لیے ان کا ووٹ استعمال نہیں کیا گیا۔ لیکن ان کا ووٹ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے پاس تھا۔ وہ ووٹ دینے پر راضی تھے۔

زین قریشی اس سے انکار کرتے ہیں۔ لیکن انھیں تحریک انصاف کی طرف سے شو کاز جاری کیا گیا، انھیں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ انھوں نے شوکاز کا جواب دیا جس کے بعد اس پر مزید کارروائی نہیں کی گئی۔ لیکن تب سے زین قریشی خاموش ہیں۔ پہلے وہ باقاعدگی سے ٹاک شوز میں آتے تھے لیکن اب وہ غائب ہیں۔

ان کا غا ئب ہونا بھی سوالات پیدا کر رہا ہے۔ وہ خاموش ہیں یہ بھی معنی خیز ہے۔ اس لیے لوگ یہ بات کر رہے ہیں کہ بات پہلے طے ہو گئی تھی۔ بہر حال سوال اب شاہ محمود قریشی کیا کریں گے۔ میری رائے میں وہ تحریک انصاف میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف بننے کی کوشش کریں گے۔ وہ مفاہمت کو آگے لے کر چلیں گے، انھوں نے جیل سے بھی مفاہمت کے لیے خط لکھے ہیں۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ وہ تحریک انصاف کی مفاہمت کی آواز بن جائیں۔ وہ مفاہمت اور ڈائیلاگ کی بات کریں۔ لیکن کیا بانی انھیں یہ کرنے دیں گے ۔ شائد انھیں نکالنا بھی مشکل ہو جائے ۔ لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے انھیں پارٹی سے نکالنا مشکل ہو جائے گا۔ ایسے ہی انھیں رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔

وہ مفاہمت کا گروپ بنا سکتے ہیں، وہ لوگ جو تحریک انصاف میں واپس آنا چاہتے ہیں وہ ان کو ساتھ ملا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف میں مفاہمت کے لیے لوگوں کو اکٹھا کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی بھی مفاہمت کے نام پر ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ وہ تحریک انصاف میں مفاہمت کا ایک دھڑا بنا لیں۔ وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ڈائیلاگ اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنے کی بات کریں۔

جو بات چیت سے بند دروازے کھولنے کی بات کریں۔ یہ سب کہیں گے یہی کہ ہم کپتان کے وفادار ہیں۔ لیکن مزاحمت بند ہونی چاہیے۔ گالم گلوچ بند ہونی چاہیے۔ چوہدری پرویز الہیٰ بھی گھر میں ہیں۔ وہ بھی باہر آسکتے ہیں ایسے اور بھی لوگ ہیں۔ شاہ محمود قریشی کو بانی سے ملنے کی سہولت بھی مل سکتی ہے۔ وہ ایک بار نہیں بار بار مل سکتے ہیں۔ جیل سے مل کر وہ اپنا پیغام دے سکتے ہیں۔

یہ سب بانی کو قبول نہیں ہوگا۔ یہی سب سے بڑا سوال ہے۔ پھر شاہ محمود قریشی کو فیصلہ کرنا ہوگا۔وہ فیصلہ کیا ہوگا، ان کے پاس کوئی گھر نہیں۔ ان کا حال بھی فواد چوہدری کا ہے، کوئی سیاسی جماعت لینے کو تیار نہیں۔ لیکن اگر میں ملتان کی سیاست کو سامنے رکھوں تو وہ ن لیگ میں آسکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی میں ان کے لیے جگہ نہیں۔ لیکن ابھی وہ تحریک انصاف میں رہ کر کام کریں گے ، پھر آگے چل کر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بند دروازے کھل سکتے ہیں۔

یہ ایک مشکل کھیل ہے۔ لیکن آگے چل کر کچھ ایسا نظر آرہا ہے۔ اب یہ بانی پر منحصر ہے کہ وہ انھیں کب تک برداشت کرتا ہے۔ جب تک بانی برداشت کرے گا وہ بانی کے ساتھ ہی ہوں گے۔ لیکن کھیل اپنا کھیلیں گے۔ اس بار وہ کوئی غلطی نہیں کریں گے۔ انھیں سمجھ آگئی ہے، وہ کافی سمجھدار ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا سے گوشت نہ خریدنے والے ممالک ‘نوٹس’ پر ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا انتباہ
  • شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
  • ٹرمپ کا ‘اے آئی ایکشن پلان’ کا اعلان، کیا امریکا چین کی مصنوعی ذہانت میں ترقی سے خوفزدہ ہے؟
  • ٹرمپ کا گوگل، مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیوں کو بھارتی شہریوں کو ملازمتیں نہ دینے کا انتباہ
  • نیل کٹر میں موجود اس سوراخ کی وجہ جانتے ہیں؟
  • امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی نے قانونی جنگ ختم کرنے اور وفاقی فنڈنگ پر ٹرمپ انتظامیہ سے ڈیل کر لی
  • ٹرمپ انتظامیہ کاامریکا کا سفر کرنے والے ہر فرد پر 250 ڈالرز اضافی رقم عائد کرنے کا فیصلہ
  • تیل کی قیمت نیچے لانا چاہتے ہیں، امریکا میں کاروبار نہ کھولنے والوں کو زیادہ ٹیرف دینا پڑے گا، ٹرمپ
  • امریکا مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں چین کو پیچھے چھوڑ دے گا، ٹرمپ
  • عمران خان کے بیٹوں کی امریکا میں اہم شخصیت سے ملاقات، ڈونلڈ ٹرمپ کی مودی کو پھر چپیڑ