ملک میں پہلا مارشل لا تو سنہ 58 میں لگا لیکن 1953 میں ملک کے پہلے ڈی ایچ اے کی داغ بیل کراچی میں ‘ڈی او سی ایچ سی’ کے نام سے ڈالی جا چکی تھی اور پھر یہ ڈی ایچ اے ایک بدمست ہاتھی کی طرح شہر کو روندتا ایسا چلا ایسا چلا کہ نہ برساتی نالے بخشے گئے، نہ سمندر کی آبی حیاتیات یا تمر کے جنگلات پر رحم کھایا گیا اور نہ ریتیلے ساحل کی افادیت کو سمجھا گیا۔ نتیجہ سب نے دیکھا کہ جب جب کراچی میں کُھل کر مینہ برسا، شہر بھر سے برسات کا پانی جو پہلے برساتی نالوں سے ہوتا ہوا سیدھا سمندر کا رخ کیا کرتا تھا، شہر کی مقامی آبادیوں میں آن گھسا، کیا مکان، کیسا کاروبار اور کاہے کا روزگارِ زندگی، سبھی کو تہس نہس کرکے وہیں جم کے کھڑا ہوگیا، دوسری جانب خود ڈی ایچ اے کے عالی شان فیز دنوں دریا بنے رہے جن میں گٹروں کے ملبہ کی بھی آمیزش رَستی رہی، شہر کو سوسائیٹیوں میں تقسیم در تقسیم کرنے کی روایت کیا پڑی کہ شہر کی پرانی آبادیوں کا بیڑا غرق ہوتے بھی سب نے ہی دیکھا، وہی علاقے، کالونیاں، نگر اور آباد جو کبھی صفائی ستھرائی اور طور طریقوں میں اپنا جداگانہ مقام رکھتے تھے دیکھتے ہی دیکھتے گندگی کے ڈھیر، ٹوٹی سڑکوں، ابلتے گٹروں اور خستہ حال محلوں میں تبدیل ہوتے گئے اور صاحب استطاعت گھرانے پوش سوسائیٹیوں میں منتقل ہونے لگے، اب ایک بڑا ڈی ایچ اے سٹی کا بورڈ کراچی سے 50 میل کے فاصلے پر حیدرآباد کے راستے میں اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ ایستادہ نظر آتا ہے، جہاں ہزاروں ایکڑ زمین پر ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہے، حیدرآباد پہنچتے پہنچتے کئی الا بلا و فلاں اداروں کی گیٹڈ سوسائیٹیاں (پھاٹک بند سوسائیٹیاں) نظروں کے سامنے سے گزرتی ہیں، درخت، پھول پودے، سبزہ اکھاڑ کر زمین کو تپتی، کُھولتی سِلوں میں تبدیل کرنے کا عمل رکتا دکھائی نہیں دیتا، اب Special Investment Fascilitation Council کے زیر انتظام پیش خدمت ہے ‘سبز پاکستان’ منصوبہ۔
ادارہِ عقل کُل کا یہ کیسا ‘گرین پاکستان’ منصوبہ ہے جہاں ریگستان کو بسانے کے لیے سندھ کی لاکھوں ایکڑ زرعی زمین، پانی کی قلت پیدا کرکے مزید اجاڑنے کے تیاریاں زور و شور سے جا ری ہیں۔ یاد رہے کہ سندھ کو کئی سال سے 1991 کے پانی کے معاہدے کے طے شدہ 48 ملین ایکڑ فیٹ سے 20 فیصد کم پانی مل رہا ہے جس کی وجہ سے کروڑوں انسان پہلے ہی تباہی کے دہانے پر کھڑے تھے، اب یہ سبز پاکستان منصوبہ ان سے جینے کی آخری امید چھیننے کو تیار بیٹھا ہے، وہیں پنجاب کی زمینوں پر صدیوں سے زراعت کرنے والے ہاریوں کو بے دخل کرنے کے لیے الگ اوچھے ہتھکنڈے استعمال ہورہے ہیں، تاکہ عوام کی زمینوں کو ‘کارپوریٹ فارمنگ’ جیسے چمکیلے دمکیلے الفاظ کا روپ دے کر بنا ڈکار لیے ہڑپ کیا جاسکے۔
سندھ کی لاکھوں ایکڑ زرعی زمین کو بنجر بنانے کے لیے اربوں روپے کی انویسمنٹ کی گئی ہے اور عوام کو گرین پاکستان کے سبز خواب دکھا کر ان کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے۔ حکومتِ وقت بھی ارباب اختیار کے آگے دست بستہ کھڑی ہے کہ کہیں سرکار ان کی کرسی نہ کھینچ لے، سو سب ہی کان، آنکھ، منہ حتیٰ کہ ناک بھی بند کیے چپ سادھے بیٹھے ہیں کہ کہیں عوامی غیض و غضب کی ہوا ان کے نتھنوں سے نہ ٹکرا جائے۔
ماڈرن اسٹائل میں جب اسے ‘گرین پاکستان’ کہا جارہا ہے تو عام لوگ تو یہی سمجھیں گے کہ واہ بھئی واہ کیا گلستانی منصوبہ ہے کہ ایک دورافتادہ ریگستان (چولستان) کو کیسی سہولت سے ہرے بھرے گلشن میں تبدیل کردیا جائے گا، بس ذرا سُتلج دریا سے پانی کھینچ کر 6 نہروں کی دھاریں چولستان کی جانب موڑ دی جائیں گی اور تیار ہے قابل کاشت ‘کاروباری زرعی زمین’۔ اب ان داناؤں سے پوچھیں کہ سُتلج میں پانی ہے کہاں بھلا؟ پانی تو دراصل سندھو دریا سے کاٹا جائےگا، جو پہلے ہی اُجڑے دیار میں بدل چکا ہے۔ دوسرا سوال کہ کیا چولستان میں یہ معرکہ سرانجام دینے کی صورت میں کیا ہاریوں، مزارعوں اور کسانوں کا بھی کوئی فائدہ ہوگا؟ جی نہیں قطعی نہیں۔ یہ زمینیں ملک کا کرتا دھرتا ادارہ بین الاقوامی اور قومی سرمایہ داروں کو لیز پر دے گا جن کی مالیت کروڑوں یا اربوں روپے ہوگی تو پھر کہاں کے کسان اور کون سے ہاری؟ سارا معاملہ بندر بانٹ کا ہے نہ کہ عوام کی بھلائی یا خوش حالی کا۔
آج سے 4 دہائیاں قبل جنوبی سندھ میں ‘ایل بی او ڈی’ نامی منصوبہ بدین اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے لیے بدترین تباہی کا مؤجب بنا تھا، بدین کے بظاہر اَن پڑھ لیکن دوراندیش اور موحولیاتی تبدیلیوں سے واقف کسان اور ماہی گیروں کے واویلوں کے باوجود حکومتی اور بین الاقوامی اداروں کی عاقبت نااندیشی کے باعث بدین کے میٹھے پانی کی جھیلیں سمندری پانی سے کئی گنا زیادہ نمکین ہوگئیں اور آبی حیاتیات تڑپ تڑپ کر مر گئے تو دوسری جانب بدین کی قابل کاشت زمین سیم و تھور سے آج بھی بنجر پڑی ہے۔
گرین پاکستان کی تفصیلات پڑھ کر ملتان کا ڈی ایچ اے یاد آگیا جہاں چند برس قبل ہزاروں ایکڑ پر پھیلے میٹھے رسیلے آم کے باغات کاٹ کر پتھر کی سلوں کا ایک وسیع و عریض شہر بسایا گیا اور اب خوبصورتی کے نام پر جھاڑیاں اگائی جارہی ہیں۔
سندھ میں گرین پاکستان کے منصوبے کے خلاف کیا سیاسی کارکن تو کیا قوم پرست، کیا بچے تو کیا بوڑھے، اور کیا عورتیں بچیاں سب ہی یک زبان ہیں۔
آج سے دو تین دہائیاں قبل کراچی سے حیدرآباد جاتے ہوئے کوٹری بیراج یا جام شورو سے گزرتے تھے تو بپھرا ہوا دریائے سندھ اپنی پرزور جوانی پر نازاں حسینہ کی مانند ہمیشہ جولانی پر ہوا کرتا تھا، اب بھی انہی بیراجوں سے گزر ہوتا ہے لیکن حدنگاہ تک سوکھی زمین پر مٹی کے جابجا ٹِیلے نظر پر گراں گزرتے ہیں، سندھ کے عوام نے پتھروں کو کاٹتے، بل کھاتے، جھلملاتے، لہلہاتے، مسکراتے، گنگناتے سندھو دریا کے جوبن کو رفتہ رفتہ رہ زنوں کے ہاتھوں صحرا بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تو اب اگر ان کے سینوں میں غم و غصے کی لہریں موجزن ہیں تو کیا عجب بات ہے؟
ملک ایک فیڈریشن ہوتا ہے، وفاق صوبوں کے مفادات و نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے وسیع وعریض اور مہنگے منصوبوں کا بیڑا اٹھاتا ہے۔
جیسا کہ ماضی میں ون یونٹ یا کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی گئی تھی، اسی طرح آج گرین پاکستان کے علاوہ SIFC کے تحت شروع ہونے والے مزید چار منصوبوں کی بھی مخالفت زوروں پر ہے اور ان تمام منصوبوں کی شفافیت پر سینکڑوں سوالات اٹھ رہے ہیں کیونکہ جن لوگوں کو ان منصوبوں سے فائدہ یا نقصان کا احتمال ہے ان سے رابطہ کاری یا گفت و شنید نہیں کی گئی نہ ہی ماحولیاتی ماہرین سے کوئی رائے طلب کی گئی؟
اگر سندھ کے عوام سندھو دریا کے سوکھنے پر بین کرتے ہیں تو یاد رکھیے بین الاقوامی قانون کے مطابق دریا کے نچلے علاقوں پر دریا کے پانی پر حق زیادہ ہوتا ہے۔
ان کا یہ خوف بھی بجا ہے کہ جب دریائی پانی سمندر تک نہیں پہنچتا تو پھر سمندری پانی ساحلی علاقوں پر چڑھ آتا ہے جسے اچھی بھلی زرعی زمین بھی سیم تھور کا شکار ہو کر بنجر ہو جاتی ہے۔
پاکستان کی آبادی 25 کروڑ ہو چکی ہے اگر اسی طرح ہم اپنی زرعی زمینوں پر بلڈوزر چلا کر کنکریٹ کے ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن بناتے رہیں گے یا اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیے چولستان جیسے ایڈونچر کرتے رہیں گے تو ملک میں غذائی قلت ہی نہیں قحط کی صورت حال پیدا ہونے میں بھی وقت نہیں لگے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
wenews ایڈونچر ازم بحریہ ٹاؤن بدمست ہاتھی ڈی ایچ اے کراچی کنکریٹ ہاؤسنگ سوسائیٹیاں وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایڈونچر ازم بحریہ ٹاؤن بدمست ہاتھی ڈی ایچ اے کراچی کنکریٹ ہاؤسنگ سوسائیٹیاں وی نیوز گرین پاکستان بین الاقوامی دریا کے کی گئی کے لیے
پڑھیں:
پانی‘ پانی اور پانی
انگریز نے 1849میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت ویران اور ناقابل کاشت تھا‘ دور دور تک بیابانی اور دھول ہوتی تھی یا پھر جنگل ہوتے تھے اور ان میں درندے پھرتے رہتے تھے‘ امیر تیمور نے 1398 میں ہندوستان پر حملہ کیا تھا‘ اس زمانے میں دیپال پور سے دہلی تک گھنے جنگل اور دلدلیں تھیں اور ان میں ہاتھیوں کے جھنڈ پھرتے تھے‘ امیر تیمور جیسا بے خوف شخص بھی ان گھنے جنگلوں سے گزرتے ہوئے خوف محسوس کر رہا تھا‘ یہ 6 سو سال پہلے تک پنجاب کی صورت حال تھی‘ انگریز اسے فتح کر کے پریشان ہو گیا‘ اس کی دو وجوہات تھیں‘ پنجاب لینڈ لاکڈ ہے۔
اس کے ساتھ کوئی سمندر نہیں لہٰذا حکومت کے پاس ریونیو کا کوئی بڑا سورس نہیں تھا اور دوسرا پنجاب کی فتح کے بعد دہلی میں 1857 کی جنگ آزادی شروع ہو گئی اور دہلی سے لے کر کولکتہ تک انگریز افسروں کو بچانے کی ذمے داری پنجاب پر آ پڑی‘ انگریز نے لاہور سے فوج بھجوائی اور اس نے انگریز سرکار اور اہلکاروں کی جان بچائی‘ 1857 کی جنگ نے انگریز کو مالی لحاظ سے کم زور کر دیا‘ ان حالات میں سرچارلس ایچی سن لیفٹیننٹ گورنر بن کر پنجاب آیا‘ وہ لاہور کا ڈپٹی کمشنر اور کمشنر بھی رہا‘ اس نے پورے پنجاب کا دورہ کیا اوروہ اس نتیجے پر پہنچا اگر پنجاب میں نئی نہریں بنا دی جائیں تو ہزاروں میل زمینیں کاشت ہو سکتی ہیں جس سے سرکار کا ریونیو بھی بڑھے گا اور پنجاب میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
پنجاب میں اس سے قبل فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں نہریں بنی تھیں‘ وہ 1351 سے 1388 تک ہندوستان کا بادشاہ رہا اور اس نے تاریخ میں پہلی بار ہندوستان میں نہریں بنائیں‘ وہ اس وجہ سے تاریخ میں فادر آف کینالز کے نام سے مشہور ہوا ‘ بہرحال قصہ مختصر چارلس ایچی سن کی اسٹڈی پر انگریز نے 1882 میں نہروں کے تین منصوبے شروع کیے‘ 1892 میں لوئر چناب کینال شروع ہوئی‘ گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ میں خانکی ہیڈ ورکس بنا اور اس نے گوجرانوالہ ڈویژن کو ہریالہ کر دیا ‘ 1906میں اپر چناب کا منصوبہ شروع ہوا اور یہ 1917میں مکمل ہو ئی‘ ہیڈ مرالہ اسی پراجیکٹ کا حصہ تھا‘ اس نہر نے پنجاب کی چھ لاکھ 48 ہزار ایکڑ زمین سیراب کر دی‘ اپر جہلم تیسرا پراجیکٹ تھا‘یہ 1915 میں شروع ہوئی اور 1917میں مکمل ہو گئی‘ یہ دریائے جہلم سے نکل کر دریائے چناب میں گرتی ہے اور اس سے ضلع گجرات کی بنجر زمینیں آباد ہوئیں‘ انگریز نے ان نہروں پر 9 کالونیاں بنائیں۔
ان میں 10 لاکھ لوگ آباد کیے‘ انھیں سرکاری زمینیں دیں اور یہ لوگ انھیں آباد کرتے چلے گئے‘ سندیانی کالونی ملتان میں تھی‘ سوہاگ کالونی ساہیوال میں تھی جب کہ چونیاں‘ لائل پور اور سرگودھا بھی انگریزوں کی کالونیوں پر آباد ہوئے‘ پنجاب میں اس وقت ایسے 50 شہر ہیں جنھوں نے ان نہروں کی وجہ سے جنم لیا تھا‘ یہ تین نہریں آگے چل کر دنیا میں آب پاشی کا سب سے بڑا نظام بنیں اور ان کی وجہ سے چھ ہزار چار سو 73 میل کا رقبہ کاشت کاری کے قابل ہوا اور اس سے مشرقی اور مغربی دونوں پنجاب کے کروڑوں لوگ مستفید ہوئے‘ اب سوال یہ ہے اگر انگریز 1892 میں یہ قدم نہ اٹھاتا یا اس زمانے کے لوگ نہروں کے خلاف مظاہرے شروع کر دیتے تو کیا آب پاشی کا یہ نظام بنتا اور اگر یہ نہ بنتا تو آج پاکستان میں کیا صورت حال ہوتی! کیا ہم 25کروڑ لوگوں کی ضروریات زندگی پوری کر پاتے؟۔
میں مزید آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں دنیا میں میٹھے پانی کے سب سے بڑے سورس قطب شمالی اور قطب جنوبی ہیں‘ دونوں قطبوں پر لاکھوں میل لمبے گلیشیئرز ہیں‘ سردیوں میں ان پر برفیں پڑتی ہیں اور گرمیوں میں یہ گلیشیئرز تھوڑے تھوڑے پگھل کر زیرزمین پانی میں بھی اضافہ کرتے ہیں اور دریاؤں میں بھی پانی بڑھاتے ہیں‘ پانی کا تیسرا بڑا سورس ہمالیہ‘ قراقرم اور کوہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلے ہیں‘ یہ تینوں سلسلے خوش قسمتی سے پاکستان میں جگلوٹ کے مقام پر اکٹھے ہوتے ہیں‘ قدرت کے اس عظیم جغرافیائی معجزے کی وجہ سے شمالی اور جنوبی قطبوں کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ گلیشیئرز ہیں‘ بیافو (Biafo) گلیشیئر پاکستان کا طویل ترین گلیشیئر ہے‘ اس کی لمبائی 67 کلومیٹر ہے اور یہ گلگت بلتستان میں قراقرم کے سلسلے میں واقع ہے۔
دریائے سندھ ہزاروں سال سے ان گلیشیئرز سے پانی لیتا ہے اور یہ پاکستان کی لائف لائین ہے‘ دریائے سندھ کے پانی کا سب سے بڑا سورس سیاچن گلیشیئر ہے‘ یہ 22 ہزار فٹ کی بلندی پر دنیا کا بلند ترین میدان جنگ ہے‘ اس پر 1984 سے بھارت اور پاکستان کی فوجیں موجود ہیں‘ سیاچن کی برفیں 2000 تک سخت ترین ہوتی تھیں لیکن فوجوں کی موجودگی‘ مسلسل گولہ باری اوربرف پر چولہے جلانے‘ کیمپس بنانے اور ہیلی کاپٹروں اوربھاری مشینری کی آمدورفت کی وجہ سے گلیشیئر نرم پڑ رہا ہے وہاں اب باقاعدہ پانی کے چھوٹے چھوٹے تالاب بن رہے ہیں اور گلیشیئر ٹوٹ کر بکھر رہا ہے یہاں تک کہ 2012ء میںگیاری کے مقام پر برف کا بہت بڑا تودہ فوجی کیمپ پر گر گیا اور 140 جوان شہید ہو گئے‘ سیاچن پاکستان کے لیے پانی کا بہت بڑا سورس ہے‘ ہمیں فوری طور پر اسے بھی بچانا ہو گا اور اس کے لیے سیاچن کی جنگ روکنا ہوگی۔
یہ یاد رکھیں پانی آنے والے وقتوں میں دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہو گا اور اس کی بنیاد پر جنگیں ہوں گی اور پاکستان کا شمار پانی کی کمی کے شکار پہلے دس ملکوں میں ہوتا ہے‘ ہم نے اگر خشک سالی سے بچنا ہے تو پھر ہمیں جنگی پیمانے پر پانی بچانے کی حکمت عملی بنانا ہو گی لیکن آپ المیہ دیکھیے‘ ہم سال کے آٹھ ماہ پانی کی کمی کا شکار رہتے ہیں اور مون سون کے چار مہینے ہم سیلابوں کا لقمہ بنتے ہیں یعنی ہم پانی کی کمی اور زیادتی دونوں کا شکار ہیں‘اب سوال یہ ہے ہم اس پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟ ہم پانی کے ذخائر کیوں نہیں بناتے اور ہم سیلاب کے پانی کو محفوظ کیوں نہیں کرتے؟یہ بلین ڈالر کا سوال ہے‘ہمیں چاہیے ہم فوری طور پر آبی گزر گاہوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیمز‘ تالاب اور خشک نہریں بنائیں تاکہ سیلاب کے دنوں میں پانی ان ذخائر کی طرف موڑ دیاجائے‘ اس سے زیر زمین پانی کی سطح بھی بلند ہو جائے گی اور خشک اور ویران علاقے بھی کاشت کے قابل ہو جائیں گے۔
دوسرا ہم مدت سے نئی نہروں کے منصوبے بنا رہے ہیں لیکن سیاسی افراتفری کی وجہ سے حکومتیں ان پر توجہ نہیں دے سکیں‘ 2023 میں آرمی چیف نے گرین پاکستان کا منصوبہ شروع کیا‘ اس کے تحت پاکستان میں چھ نہریں بن رہی ہیں اور ان نہروں سے ہزاروں میل کا علاقہ کاشت کے قابل بن رہا ہے لیکن یہ منصوبہ بھی اب سیاست کی نذر ہو رہا ہے‘ سندھ میں احتجاج شروع ہو گیا ہے‘ لوگ سڑکیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں‘ ان کا کہنا ہے پنجاب سندھ کا پانی چوری کر رہا ہے‘آپ اندازہ کریں انگریز نے 1892 سے 1917 تک موجودہ پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام بنا دیا لیکن ہم 2025 میں ایک نہر کے لیے ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کر بیٹھے ہیں‘ ملک ایک طرف پانی کی شدید قلت کا شکار ہے اور دوسری طرف ہم نہریں روکنے کے لیے سڑکیں بند کر رہے ہیں‘کیا یہ عقل مندی ہے؟ آپ تین ماہ بعد تماشا دیکھ لیجیے گا۔
جولائی اگست میں بارشیں شروع ہوں گی اور نہروں کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ سیلاب میں غوطے کھا رہے ہوں گے اور اسی فوج سے مدد کی اپیل کر رہے ہوں گے جس پر یہ اس وقت نہر بنانے کا الزام لگا رہے ہیں‘ یہ کھیل آخر کب تک چلے گا‘ ہم کب تک بنیادی ایشوز پر سیاست کرتے رہیں گے؟ پانی‘ نہریں اور ڈیمز ماہرین کے کام ہیں‘ عوام ان کی حساسیت نہیں سمجھ سکتے چناں چہ حکومتوں کو چاہیے یہ فوری طور پر ماہرین اکٹھے کریں‘ ملک کے لیے جامع واٹر پالیسی بنائیں اور ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کریں تاکہ ہم کم از کم پانی کے مسئلے سے تو نکل سکیں‘ پنجاب‘ سندھ‘ کے پی‘ بلوچستان اور کشمیر یہ سب پاکستان ہیں‘ کسی ایک صوبے کا فائدہ یا نقصان پورے ملک کا نقصان یا فائدہ ہو گا‘ ہم یہ حقیقت کیوں نہیں سمجھتے‘ ہم آخر کب تک حماقتوں کے جنگلوں میں بھٹکتے رہیں گے اور کب تک نفرت کے گندے تالاب میں غوطے کھاتے رہیں گے؟ ڈھلوانوں کا یہ سفر اب تو رک جانا چاہیے۔
نوٹ:کراچی کی ایک بزرگ خاتون کو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی‘ خواب میں روضہ رسولؐ سے متعلق ایک پیغام ہے‘ خاتون گھریلو عورت ہیں‘ عبادت گزار ہیں‘ ان کا سعودی حکومت کے ساتھ کوئی رابط نہیں اگر کسی صاحب کی سعودی ولی عہد تک رسائی ہو تو یہ مہربانی فرما کر خاتون کا خط ان تک پہنچا دیں‘ اس میں خاتون کی کوئی ذاتی حاجت شامل نہیں ‘ اگر کوئی صاحب اس سلسلے میں ان کی مدد کر سکتے ہوں تو وہ مہربانی فرما کر میرے نمبر 0300-8543103 پر واٹس ایپ کر دیں‘ میں ان کا خاتون سے رابطہ کرا دوں گا۔