ملک میں پہلا مارشل لا تو سنہ 58 میں لگا لیکن 1953 میں ملک کے پہلے ڈی ایچ اے کی داغ بیل کراچی میں ‘ڈی او سی ایچ سی’ کے نام سے ڈالی جا چکی تھی اور پھر یہ ڈی ایچ اے ایک بدمست ہاتھی کی طرح شہر کو روندتا ایسا چلا ایسا چلا کہ نہ برساتی نالے بخشے گئے، نہ سمندر کی آبی حیاتیات یا تمر کے جنگلات پر رحم کھایا گیا اور نہ ریتیلے ساحل کی افادیت کو سمجھا گیا۔ نتیجہ سب نے دیکھا کہ جب جب کراچی میں کُھل کر مینہ برسا، شہر بھر سے برسات کا پانی جو پہلے برساتی نالوں سے ہوتا ہوا سیدھا سمندر کا رخ کیا کرتا تھا، شہر کی مقامی آبادیوں میں آن گھسا، کیا مکان، کیسا کاروبار اور کاہے کا روزگارِ زندگی، سبھی کو تہس نہس کرکے وہیں جم کے کھڑا ہوگیا، دوسری جانب خود ڈی ایچ اے کے عالی شان فیز دنوں دریا بنے رہے جن میں گٹروں کے ملبہ کی بھی آمیزش رَستی رہی، شہر کو سوسائیٹیوں میں تقسیم در تقسیم کرنے کی روایت کیا پڑی کہ شہر کی پرانی آبادیوں کا بیڑا غرق ہوتے بھی سب نے ہی دیکھا، وہی علاقے، کالونیاں، نگر اور آباد جو کبھی صفائی ستھرائی اور طور طریقوں میں اپنا جداگانہ مقام رکھتے تھے دیکھتے ہی دیکھتے گندگی کے ڈھیر، ٹوٹی سڑکوں، ابلتے گٹروں اور خستہ حال محلوں میں تبدیل ہوتے گئے اور صاحب استطاعت گھرانے پوش سوسائیٹیوں میں منتقل ہونے لگے، اب ایک بڑا ڈی ایچ اے سٹی کا بورڈ کراچی سے 50 میل کے فاصلے پر حیدرآباد کے راستے میں اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ ایستادہ نظر آتا ہے، جہاں ہزاروں ایکڑ زمین پر ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہے، حیدرآباد پہنچتے پہنچتے کئی الا بلا و فلاں اداروں کی گیٹڈ سوسائیٹیاں (پھاٹک بند سوسائیٹیاں) نظروں کے سامنے سے گزرتی ہیں، درخت، پھول پودے، سبزہ اکھاڑ کر زمین کو تپتی، کُھولتی سِلوں میں تبدیل کرنے کا عمل رکتا دکھائی نہیں دیتا، اب Special Investment Fascilitation Council کے زیر انتظام پیش خدمت ہے ‘سبز پاکستان’ منصوبہ۔
ادارہِ عقل کُل کا یہ کیسا ‘گرین پاکستان’ منصوبہ ہے جہاں ریگستان کو بسانے کے لیے سندھ کی لاکھوں ایکڑ زرعی زمین، پانی کی قلت پیدا کرکے مزید اجاڑنے کے تیاریاں زور و شور سے جا ری ہیں۔ یاد رہے کہ سندھ کو کئی سال سے 1991 کے پانی کے معاہدے کے طے شدہ 48 ملین ایکڑ فیٹ سے 20 فیصد کم پانی مل رہا ہے جس کی وجہ سے کروڑوں انسان پہلے ہی تباہی کے دہانے پر کھڑے تھے، اب یہ سبز پاکستان منصوبہ ان سے جینے کی آخری امید چھیننے کو تیار بیٹھا ہے، وہیں پنجاب کی زمینوں پر صدیوں سے زراعت کرنے والے ہاریوں کو بے دخل کرنے کے لیے الگ اوچھے ہتھکنڈے استعمال ہورہے ہیں، تاکہ عوام کی زمینوں کو ‘کارپوریٹ فارمنگ’ جیسے چمکیلے دمکیلے الفاظ کا روپ دے کر بنا ڈکار لیے ہڑپ کیا جاسکے۔
سندھ کی لاکھوں ایکڑ زرعی زمین کو بنجر بنانے کے لیے اربوں روپے کی انویسمنٹ کی گئی ہے اور عوام کو گرین پاکستان کے سبز خواب دکھا کر ان کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے۔ حکومتِ وقت بھی ارباب اختیار کے آگے دست بستہ کھڑی ہے کہ کہیں سرکار ان کی کرسی نہ کھینچ لے، سو سب ہی کان، آنکھ، منہ حتیٰ کہ ناک بھی بند کیے چپ سادھے بیٹھے ہیں کہ کہیں عوامی غیض و غضب کی ہوا ان کے نتھنوں سے نہ ٹکرا جائے۔
ماڈرن اسٹائل میں جب اسے ‘گرین پاکستان’ کہا جارہا ہے تو عام لوگ تو یہی سمجھیں گے کہ واہ بھئی واہ کیا گلستانی منصوبہ ہے کہ ایک دورافتادہ ریگستان (چولستان) کو کیسی سہولت سے ہرے بھرے گلشن میں تبدیل کردیا جائے گا، بس ذرا سُتلج دریا سے پانی کھینچ کر 6 نہروں کی دھاریں چولستان کی جانب موڑ دی جائیں گی اور تیار ہے قابل کاشت ‘کاروباری زرعی زمین’۔ اب ان داناؤں سے پوچھیں کہ سُتلج میں پانی ہے کہاں بھلا؟ پانی تو دراصل سندھو دریا سے کاٹا جائےگا، جو پہلے ہی اُجڑے دیار میں بدل چکا ہے۔ دوسرا سوال کہ کیا چولستان میں یہ معرکہ سرانجام دینے کی صورت میں کیا ہاریوں، مزارعوں اور کسانوں کا بھی کوئی فائدہ ہوگا؟ جی نہیں قطعی نہیں۔ یہ زمینیں ملک کا کرتا دھرتا ادارہ بین الاقوامی اور قومی سرمایہ داروں کو لیز پر دے گا جن کی مالیت کروڑوں یا اربوں روپے ہوگی تو پھر کہاں کے کسان اور کون سے ہاری؟ سارا معاملہ بندر بانٹ کا ہے نہ کہ عوام کی بھلائی یا خوش حالی کا۔
آج سے 4 دہائیاں قبل جنوبی سندھ میں ‘ایل بی او ڈی’ نامی منصوبہ بدین اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے لیے بدترین تباہی کا مؤجب بنا تھا، بدین کے بظاہر اَن پڑھ لیکن دوراندیش اور موحولیاتی تبدیلیوں سے واقف کسان اور ماہی گیروں کے واویلوں کے باوجود حکومتی اور بین الاقوامی اداروں کی عاقبت نااندیشی کے باعث بدین کے میٹھے پانی کی جھیلیں سمندری پانی سے کئی گنا زیادہ نمکین ہوگئیں اور آبی حیاتیات تڑپ تڑپ کر مر گئے تو دوسری جانب بدین کی قابل کاشت زمین سیم و تھور سے آج بھی بنجر پڑی ہے۔
گرین پاکستان کی تفصیلات پڑھ کر ملتان کا ڈی ایچ اے یاد آگیا جہاں چند برس قبل ہزاروں ایکڑ پر پھیلے میٹھے رسیلے آم کے باغات کاٹ کر پتھر کی سلوں کا ایک وسیع و عریض شہر بسایا گیا اور اب خوبصورتی کے نام پر جھاڑیاں اگائی جارہی ہیں۔
سندھ میں گرین پاکستان کے منصوبے کے خلاف کیا سیاسی کارکن تو کیا قوم پرست، کیا بچے تو کیا بوڑھے، اور کیا عورتیں بچیاں سب ہی یک زبان ہیں۔
آج سے دو تین دہائیاں قبل کراچی سے حیدرآباد جاتے ہوئے کوٹری بیراج یا جام شورو سے گزرتے تھے تو بپھرا ہوا دریائے سندھ اپنی پرزور جوانی پر نازاں حسینہ کی مانند ہمیشہ جولانی پر ہوا کرتا تھا، اب بھی انہی بیراجوں سے گزر ہوتا ہے لیکن حدنگاہ تک سوکھی زمین پر مٹی کے جابجا ٹِیلے نظر پر گراں گزرتے ہیں، سندھ کے عوام نے پتھروں کو کاٹتے، بل کھاتے، جھلملاتے، لہلہاتے، مسکراتے، گنگناتے سندھو دریا کے جوبن کو رفتہ رفتہ رہ زنوں کے ہاتھوں صحرا بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تو اب اگر ان کے سینوں میں غم و غصے کی لہریں موجزن ہیں تو کیا عجب بات ہے؟
ملک ایک فیڈریشن ہوتا ہے، وفاق صوبوں کے مفادات و نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے وسیع وعریض اور مہنگے منصوبوں کا بیڑا اٹھاتا ہے۔
جیسا کہ ماضی میں ون یونٹ یا کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی گئی تھی، اسی طرح آج گرین پاکستان کے علاوہ SIFC کے تحت شروع ہونے والے مزید چار منصوبوں کی بھی مخالفت زوروں پر ہے اور ان تمام منصوبوں کی شفافیت پر سینکڑوں سوالات اٹھ رہے ہیں کیونکہ جن لوگوں کو ان منصوبوں سے فائدہ یا نقصان کا احتمال ہے ان سے رابطہ کاری یا گفت و شنید نہیں کی گئی نہ ہی ماحولیاتی ماہرین سے کوئی رائے طلب کی گئی؟
اگر سندھ کے عوام سندھو دریا کے سوکھنے پر بین کرتے ہیں تو یاد رکھیے بین الاقوامی قانون کے مطابق دریا کے نچلے علاقوں پر دریا کے پانی پر حق زیادہ ہوتا ہے۔
ان کا یہ خوف بھی بجا ہے کہ جب دریائی پانی سمندر تک نہیں پہنچتا تو پھر سمندری پانی ساحلی علاقوں پر چڑھ آتا ہے جسے اچھی بھلی زرعی زمین بھی سیم تھور کا شکار ہو کر بنجر ہو جاتی ہے۔
پاکستان کی آبادی 25 کروڑ ہو چکی ہے اگر اسی طرح ہم اپنی زرعی زمینوں پر بلڈوزر چلا کر کنکریٹ کے ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن بناتے رہیں گے یا اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیے چولستان جیسے ایڈونچر کرتے رہیں گے تو ملک میں غذائی قلت ہی نہیں قحط کی صورت حال پیدا ہونے میں بھی وقت نہیں لگے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
wenews ایڈونچر ازم بحریہ ٹاؤن بدمست ہاتھی ڈی ایچ اے کراچی کنکریٹ ہاؤسنگ سوسائیٹیاں وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایڈونچر ازم بحریہ ٹاؤن بدمست ہاتھی ڈی ایچ اے کراچی کنکریٹ ہاؤسنگ سوسائیٹیاں وی نیوز گرین پاکستان بین الاقوامی دریا کے کی گئی کے لیے
پڑھیں:
زمین کے ستائے ہوئے لوگ
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
کیر ولین نے کہا ہے ” کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں ” ۔ فرانز فینن بیسو ی صدی کا ایک ایسا نفسیا تی معالج،
فلاسفر اورسر گر م سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعدا د میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے
اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے اس کی کتاب ”زمین کے ستا ئے ہوئے ” تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا
درجہ رکھتی ہے ۔یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب کا دیبا چہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے ۔فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں
تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں۔ اول ! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے ۔جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی
رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم ! غرباء مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آباد ی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی
طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ فینن کا خیا ل ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔
خدا کے نام پر نسلی امتیا ز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خو د ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتاہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں
کامیاب ہوجاتا ہے کہ خدا دنیا وی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضایہ ہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔لیکن
انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کر نا چاہتے ہیں ۔وہ
احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتا تا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان
استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے
لباس ، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادکی تضحیک کی جائے اور انہیں غیر انسانی
ثابت کیاجائے ۔نوآبادیاتی طاقتیں ایسا رو پ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور
روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے نا راضگی اور جھنجھلا ہٹ کا سبب بنتاہے اورپھر یہ ہی
ناراضگی بتدریج نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہی نفرت بدلے کی آگ
میںبہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لا وا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھا رلیتا ہے اور اس آگ میں زبان ، کلچر ،
مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھو پی گئی ہر روایت بھسم ہوجاتی ہے۔ اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کردیتے ہیں۔فینن
کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے
علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خو ش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے
ہیںکیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کاقیام چاہتے ہیں ۔مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی
ہڈیوں میںغصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔یہ وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغو ل ہوتے ہیں۔
فینن اس جھنجھلا ہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیںکہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر
داخلی رخ اختیا ر کرلیتی ہے اور بالا خر جب یہ نفرت ظالم کے خلا ف تشدد کی شکل اختیا ر کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا
شعوری طورپر اس جلاد کا روپ دھا رلیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا ۔مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں
جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طوروہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہ ہی
حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے ؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم
خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے؟ کیا آج ہر عام
پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں
سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے ؟کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اورلٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انہیں
سزائیں نہیں دے رہے ہیں ؟کیا 25کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں؟
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہربوسید ہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کررہے ہیں؟ کیاپاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں
اگنے والا ہے ؟کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے؟ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والوں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے
والوں ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں ان کے آنگنوں میں ذلت بھر نے والوں انہیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والوں
مذہب کی آڑ میں انہیں تقسیم کرنے والوں انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرنے والوں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کیاتم امید
رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصو ر آوازیں آزاد ہونگیں تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی ؟جب صدیوں سے سِیے ہوئے
ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا تمہاری تعریف کر یں گے؟ جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں
تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لوگے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی تمہیں معافی مل
سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔
٭٭٭