بلوچستان: کیا ہم عبداللہ اوجلان کے معاملے سے سبق سیکھ سکتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
بالآخر ترکیہ کے کرد رہنما عبداللہ اوجلان قریباً 3 ہفتے قبل، 27فروری کو اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ جس انداز میں اپنی قوم کے حقوق حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ درست نہیں تھا۔ اس مقام فکر پر وہ بتدریج پہنچے۔ اس وقت تک وہ اپنی قوم کا بہت نقصان کروا چکے تھے۔ بہرحال انھوں نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت‘ کردستان ورکرز پارٹی‘ (پی کے کے) کے ارکان نہ صرف ہتھیار پھینک دیں بلکہ پارٹی ہی کو تحلیل کردیں۔ انھوں نے ترکیہ کے ساتھ عشروں پرانا تنازعہ باقاعدہ ختم کرنے کا اعلان کیا۔
عبداللہ اوجلان ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے 1978 میں علیحدگی پسند تنظیم ’ کردستان ورکرز پارٹی‘ کی بنیاد رکھی۔ بائیں بازو کے نظریات سے متاثر اوجلان 1979 سے 1998 تک شام میں رہ کر دہشتگرد گروہ کی قیادت کرتے رہے۔ بعدازاں جب ترکیہ نے شام پر دباؤ بڑھایا کہ وہ دہشتگردوں کو اپنے ہاں سے بے دخل کرے تو اوجلان مختلف ملکوں میں سے ہوتے ہوئے کینیا جا پہنچے لیکن وہاں انھیں ترک انٹیلی جنس اہلکاروں نے دھر لیا اور اٹھا کر ترک جزیرے’امرالی‘ کے قید خانے میں ڈال دیا، جہاں ان پر بغاوت کا مقدمہ چلا اور انھیں سزائے موت سزا سنا دی گئی۔ بعدازاں جب ملکی قوانین میں سے ’سزائے موت‘ نکال دی گئی تو سزا عمر قید میں بدل گئی۔ 1999 سے 2009 تک انھیں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔
اب کچھ تذکرہ ان کی تنظیم ’کردستان ورکرز پارٹی(پی کے کے) کا، جسے ترکیہ اور بعض مغربی ممالک نے ’دہشت گرد‘ قرار دے رکھا ہے۔ پی کے کے 1984 سے یعنی گزشتہ 39 برس سے ترک ریاست سے لڑائی جاری رکھے ہوئے تھی۔ ابتدا میں اس کا مقصد جنوب مشرقی ترکیہ میں کردوں کے لیے ایک آزاد وطن کا حصول تھا، بعدازاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الگ وطن کے بجائے زیادہ خودمختاری کا مطالبہ کرنے لگی۔ اگرچہ اس دوران اس نے مسلح جدوجہد بھی جاری رکھی۔ جب اور جہاں موقع ملتا، تشدد کے مظاہرے کرتی رہی۔
پھر اوجلان کو سمجھ آئی کہ وہ مسلح جدوجہد اور بم دھماکوں سے اپنی قوم کے لیے کچھ بھی حاصل نہیں کر پائیں گے چنانچہ انھوں نے سیاسی حل کی باتیں کرنا شروع کردیں۔ اگرچہ اس نئے موقف پر انھیں پارٹی کے اندر سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔ پارٹی کے اندر ایک حصہ عسکریت پسندی کی راہ سے ہٹنا نہیں چاہتا تھا۔
پچھلے سال اکتوبر میں، اس تنظیم کے دہشتگردوں نے انقرہ کے قریب ترک سرکاری دفاعی کمپنی پر حملہ کیا تھا، جس میں 5 افراد ہلاک اور 22 زخمی ہوئے۔ اس کے فوراً بعد ترکیہ نے عراق اور شام میں ’پی کے کے‘ کے ٹھکانوں پر حملے کیے تھے۔ یہ حملے اس کے بعد بھی باقاعدگی سے جاری رہے۔ نتیجتاً تنظیم کی رہی سہی قوت بھی ختم ہوگئی۔
اب عبداللہ اوجلان نے پہلی بار اپنے ساتھیوں سے ہتھیار ڈالنے کو کہا ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے۔ اوجلان کا کہنا ہے کہ ’پی کے کے‘ ایسے دور میں قائم ہوئی تھی جب ترک ریاست نے کردوں کے حقوق پر پابندیاں عائد کر رکھی تھیں، البتہ ترکیہ میں کردوں کو ان کی شناخت سے محروم نہیں کیا گیا۔ اب یہاں ’اظہار رائے کی آزادی‘ میں بہتری آئی ہے۔
واضح رہے کہ ترکیہ نے پچھلے چند عشروں سے، بالخصوص جب سے رجب طیب اردوان برسراقتدار آئے ہیں، کرد زبان کے استعمال اور شناخت کے آزادانہ اظہار پر عائد پابندیاں ختم کردی گئی ہیں۔
اوجلان نے اپنے خط میں مزید لکھا ’ شناخت کا احترام، آزادانہ اظہار رائے، معاشرے کے ہر طبقے کی ان کے اپنے سماجی، اقتصادی اور سیاسی ڈھانچے کی بنیاد پر جمہوری تنظیم، صرف اور صرف ایک جمہوری معاشرے اور سیاسی وجود سے ہی ممکن ہے۔
اوجلان کا یہ اہم اعلان اس کرد گروہ اور ترک ریاست کے درمیان امن کے لیے اس نئی کوشش کا حصہ ہے، جس کا آغاز اکتوبر میں صدر اردوان کے اتحادی دولت باہیلی نے کیا تھا۔ انھوں نے تجویز پیش کی تھی کہ اگر پی کے کے تشدد کے راستے سے واپس آ جائے تو عبداللہ اوجلان کو رہا کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ پی کے کے نے اس پیشکش سے باقاعدہ فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔
اب سوال یہ ہے کہ بلوچستان کے ضمن میں ہم ترکیہ اور عبداللہ اوجلان کے مابین تصفیے سے روشنی حاصل کرسکتے ہیں؟ اس باب میں حکومت کو بھی سوچنا ہے اور جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والوں کو بھی۔
حملہ آوروں کو سوچنا ہے کہ آخر وہ کن کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں اور ایک بھیانک انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ وہ خود بھی موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں اور اس قوم کا بھی نقصان کر رہے ہیں جس کے حقوق کا پرچم انھوں نے اٹھا رکھا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید نقصان کریں، انھیں عبداللہ اوجلان اور ’پی کے کے‘ سے سبق حاصل کرلینا چاہیے۔
حالیہ کچھ عرصہ کے دوران میں کالعدم تحریک طالبان اور بی ایل اے نے جس طرح اپنی سرگرمیوں کو بڑھایا ہے، وہ قومی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ ٹرین پر حملے کے علاوہ، انھوں نے بسوں اور گاڑیوں پر حملے کیے اور مسلسل کر رہے ہیں، غیر مقامی افراد کو محض اس لیے قتل کیا جارہا ہے کہ وہ غیر مقامی ہیں۔ پولیس تھانوں پر قبضہ کیا جارہا ہے، وہاں سے اسلحہ سمیت اہلکار اغوا کیے جارہے ہیں۔ دہشتگرد گروہوں کے دماغوں پر خون سوار ہے، اس کیفیت میں وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
دہشتگردوں کی طاقت میں اضافہ صرف اور صرف اس وجہ سے ہوا کہ ان کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان کے تحت نمٹا نہیں گیا۔ نتیجتاً عام لوگوں کو بھی بڑے پیمانے پرجانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور سیکورٹی فورسز کو بھی۔ جبکہ ہمارے کرتا دھرتا ابھی تک اس سوال پر غوروفکر کرنے کے لیے وقت ہی نہیں نکال پا رہے کہ آخر اس مرض کا کیا علاج کیا جائے؟ ہماری حکومتوں کا طرزعمل 2 قدم آگے بڑھنے اور 4 قدم پیچھے ہٹنے کا ہے۔
سادہ اور سیدھی سی بات ہے کہ خیبر پختون خوا کے بعض علاقوں سے بلوچستان تک، امن و امان کے حالات جس قدر خراب ہوچکے ہیں، وہاں امن کے قیام کے لیے پہلے مرحلے پر ایک بھرپور آپریشن کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پچھلے دنوں وفاقی وزیر داخلہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر 14 نکات بھی پیش کرچکے ہیں۔ آپریشن میں مزید تاخیر خون کی ہولیاں کھیلنے والوں کو مزید مواقع فراہم کرنا ہے۔ آپریشن کرنے والوں کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ اس دوران مجرموں ہی سے نمٹا جائے۔ کسی سے نادانستگی میں بھی ناانصافی کرکے مجرموں کے گروہ کو مزید طاقتور نہ بنایا جائے۔
دوسری طرف حکومت علاقائی سالمیت اور آئین کی بالادستی پر سمجھوتہ کیے بغیر بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کی مخلصانہ اور تیز رفتار حکمت عملی پر کام کرے۔ آخر اس پراپیگنڈا کا توڑ کیوں نہیں کیا جا سکتا کہ بلوچستان کے وسائل غیر مقامی لوگوں اور طاقتوں کے پاس جا رہے ہیں؟ انھیں کیوں یقین نہیں دلایا جارہا ہے کہ بلوچستان کی ترقی میں ان کا زیادہ حصہ ہوگا۔ کیا یہ کوئی اس قدر مشکل کام ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کے اذہان و قلوب کو مسخر نہ کیا جاسکے؟
ہاں! اس سے پہلے ان سے سابقہ گناہوں کی معافی مانگنا بھی ضروری ہے کہ انھیں محرومیوں کا شکار کرنے میں ہماری حکومتوں کا بھی کردار رہا ہے۔ موجودہ صورت حال میں ہمارے حکمرانوں سے صرف اور صرف اخلاص اور تحرک کا تقاضا ہے جس کا ہمارے ہاں شدید فقدان ہے۔ اسی فقدان کی یہ قوم بھاری قیمت چکا رہی ہے۔ اور ہمارے بعض ہمسائے ہمارے حالات پر کھی کھی کر رہے ہیں، اور تالیاں پیٹ رہے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان پی کے کے ترکیہ جعفر ایکسپریس عبداللہ اوجلان کردستان ورکرز پارٹی کردستان ورکرز پارٹی عبداللہ اوجلان کہ بلوچستان انھوں نے پی کے کے کے ساتھ رہے ہیں کے لیے کیا جا کو بھی
پڑھیں:
عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو; وزیراعلیٰ بلوچستان
ویب ڈیسک : وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں، کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو۔
بلوچستان کے دور دراز اور پسماندہ علاقے سنجاوی میں اتوار کو اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بلوچستان کے ہر کونے میں جانے کو تیار ہوں، وسائل کی کمی ہو تو پیدل بھی عوام تک پہنچوں گا.انہوں نے کہا کہ صوبے کے وسائل اور مسائل سب کے سامنے ہیں مگر صوبائی حکومت کی اولین ترجیح وسائل کے شفاف اور درست استعمال کو یقینی بنانا ہے, جو وعدہ کیا وہ پورا کیا ہے، کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو۔
لاہور :ڈمپر نے موٹر سائیکل کو کچل دیا، 3 افراد جاں بحق
انہوں نے کہا کہ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے سنجاوی کو ترقی کے نقشے پر نمایاں کرنے کیلئے فوری طور پر کئی بڑے اعلانات کیے جو علاقے کی صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر اور سیکیورٹی کو انقلابی تبدیلی دیں گے۔انہوں نے تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال سنجاوی کو 20 بستروں پر مشتمل مثالی طبی ادارے میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اسپتال کو بیکڑ کی طرز پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت فعال بنایا جائے گا۔
موٹرسائیکل فلائی اوور سے نیچے گر گئی،سوارموقع پر جاں بحق
اس موقع پر اسپتال کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹرز اور عملے سے ملاقات کی اور مریضوں کی فوری سہولیات کیلئے ہدایات جاری کیں تعلیم کے شعبے میں سنجاوی کے بوائز اور گرلز کالجز کیلئے علیحدہ عمارتوں کی تعمیر اور دو بسوں کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا۔وزیراعلیٰ نے کیڈٹ کالج زیارت میں سنجاوی کے طلبہ کیلئے دو نئے بلاکس اور چار بسوں کی فراہمی کا بھی اعلان کیا۔
انہوں نے بتایا کہ زیارت کے 14 غیر فعال اسکول موسم سرما کی تعطیلات کے بعد مکمل طور پر فعال ہوں گے جبکہ محکمہ تعلیم میں بھرتیاں سو فیصد میرٹ پر کی جا رہی ہیں۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ میرٹ کی خلاف ورزی کی نشاندہی کی جائے تو فوری کارروائی یقینی بنائی جائے گی ۔
شادی کی خوشیاں غم میں بدل گئیں
سیکیورٹی اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے عوامی مطالبے پر سنجاوی میں چار نئے پولیس اسٹیشنز قائم کرنے، بائی پاس اور نشاندہی کردہ 15 کلومیٹر نئی سڑک کی تعمیر کا اعلان کیا۔
انہوں نے افسران و اہلکاروں کیلئے نیا انتظامی کمپلیکس تعمیر کرنے کا بھی وعدہ کیا، لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کے فیصلے کو بظاہر غیر مقبول مگر وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دیرپا امن کیلئے ضروری ہے لینڈ سیٹلمنٹ کے عمل کا آغاز کرتے ہوئےوزیراعلیٰ نے کہا کہ سنجاوی کیلئے یہ عمل فوری شروع ہوگا جبکہ بلوچستان بھر میں انتظامی حدود کا ازسرنو تعین کیا جا رہا ہے، زیارت میں نئے ضلع کے قیام پر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے سنجیدہ غور جاری ہے ۔
نیوزی لینڈ کے بیٹرکین ولیمسن کا ٹی 20 فارمیٹ سےریٹائرمنٹ کا اعلان
اجتماع سے قبل وزیراعلیٰ نے استحکام پاکستان فٹ بال ٹورنامنٹ کے فائنل میچ میں شرکت کی اور کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کیے۔ انہوں نے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کھیلوں کے فروغ کیلئے مزید اقدامات کا وعدہ کیا۔دورے کے دوران صوبائی وزیر حاجی نور محمد خان ڈمر، پارلیمانی سیکریٹری ولی محمد نورزئی، سردار کوہیار خان ڈومکی اور میر اصغر رند سمیت اعلیٰ حکام موجود تھے۔
وزیراعلیٰ ہیلی کاپٹر کے ذریعے سنجاوی پہنچے جہاں ڈپٹی کمشنر محمد ریاض خان داوڑ نے پرتپاک استقبال کیا عوام نے وزیراعلیٰ کے اعلانات پر زوردار نعرے بازی کی اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
اداکارہ خوشبو کا ارباز خان سے طلاق کی خبروں پر یوٹرن، مداح حیران