بالآخر ترکیہ کے کرد رہنما عبداللہ اوجلان قریباً 3 ہفتے قبل، 27فروری کو اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ جس انداز میں اپنی قوم کے حقوق حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ درست نہیں تھا۔ اس مقام فکر پر وہ بتدریج پہنچے۔ اس وقت تک وہ اپنی  قوم کا بہت نقصان کروا چکے تھے۔ بہرحال انھوں نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت‘ کردستان ورکرز پارٹی‘ (پی کے کے) کے ارکان نہ صرف ہتھیار پھینک دیں بلکہ پارٹی ہی کو تحلیل کردیں۔ انھوں نے ترکیہ کے ساتھ عشروں پرانا تنازعہ باقاعدہ ختم کرنے کا اعلان کیا۔

عبداللہ اوجلان ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے 1978 میں علیحدگی پسند تنظیم ’ کردستان ورکرز پارٹی‘ کی بنیاد رکھی۔ بائیں بازو کے نظریات سے متاثر اوجلان 1979 سے 1998 تک شام میں رہ کر دہشتگرد گروہ کی قیادت کرتے رہے۔ بعدازاں جب ترکیہ نے شام پر دباؤ بڑھایا کہ وہ دہشتگردوں کو اپنے ہاں سے بے دخل کرے تو اوجلان مختلف ملکوں میں سے ہوتے ہوئے کینیا جا پہنچے لیکن  وہاں انھیں ترک انٹیلی جنس اہلکاروں نے دھر لیا اور اٹھا کر ترک جزیرے’امرالی‘ کے قید خانے میں ڈال دیا، جہاں ان پر بغاوت کا مقدمہ چلا اور انھیں سزائے موت سزا سنا دی گئی۔ بعدازاں جب ملکی قوانین میں سے ’سزائے موت‘ نکال دی گئی تو سزا عمر قید میں بدل گئی۔ 1999 سے 2009 تک انھیں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔

اب کچھ تذکرہ ان کی تنظیم ’کردستان ورکرز پارٹی(پی کے کے) کا، جسے ترکیہ اور بعض مغربی ممالک نے ’دہشت گرد‘ قرار دے رکھا ہے۔ پی کے کے 1984 سے یعنی گزشتہ 39 برس سے ترک ریاست سے لڑائی جاری رکھے ہوئے تھی۔ ابتدا میں اس کا مقصد جنوب مشرقی ترکیہ میں کردوں کے لیے ایک آزاد وطن کا حصول تھا، بعدازاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الگ وطن کے بجائے زیادہ خودمختاری کا مطالبہ کرنے لگی۔ اگرچہ اس دوران اس نے مسلح جدوجہد بھی جاری رکھی۔ جب اور جہاں موقع ملتا، تشدد کے مظاہرے کرتی رہی۔

پھر اوجلان کو سمجھ آئی کہ وہ مسلح جدوجہد اور بم دھماکوں سے اپنی قوم کے لیے کچھ بھی حاصل نہیں کر پائیں گے چنانچہ انھوں نے سیاسی حل کی باتیں کرنا شروع کردیں۔ اگرچہ اس نئے موقف پر انھیں پارٹی کے اندر سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔ پارٹی کے اندر ایک حصہ عسکریت پسندی کی راہ سے ہٹنا نہیں چاہتا تھا۔

پچھلے سال اکتوبر میں، اس تنظیم کے دہشتگردوں نے انقرہ کے قریب ترک سرکاری دفاعی کمپنی پر حملہ کیا تھا، جس میں 5 افراد ہلاک اور 22 زخمی ہوئے۔ اس کے فوراً بعد ترکیہ نے عراق اور شام میں ’پی کے کے‘ کے ٹھکانوں پر حملے کیے تھے۔ یہ حملے اس کے بعد بھی باقاعدگی سے جاری رہے۔ نتیجتاً تنظیم کی رہی سہی قوت بھی ختم ہوگئی۔

اب عبداللہ اوجلان نے پہلی بار اپنے ساتھیوں سے ہتھیار ڈالنے کو کہا ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے۔ اوجلان کا کہنا ہے کہ ’پی کے کے‘ ایسے دور میں قائم ہوئی تھی جب ترک ریاست نے کردوں کے حقوق پر پابندیاں عائد کر رکھی تھیں، البتہ ترکیہ میں کردوں کو ان کی شناخت سے محروم نہیں کیا گیا۔ اب یہاں ’اظہار رائے کی آزادی‘ میں بہتری آئی ہے۔

واضح رہے کہ ترکیہ نے پچھلے چند عشروں سے، بالخصوص جب سے رجب طیب اردوان برسراقتدار آئے ہیں، کرد زبان کے استعمال اور شناخت کے آزادانہ اظہار پر عائد پابندیاں ختم کردی گئی ہیں۔

اوجلان نے اپنے خط میں مزید لکھا ’ شناخت کا احترام، آزادانہ اظہار رائے، معاشرے کے ہر طبقے کی ان کے اپنے سماجی، اقتصادی اور سیاسی ڈھانچے کی بنیاد پر جمہوری تنظیم، صرف اور صرف ایک جمہوری معاشرے اور سیاسی وجود سے ہی ممکن ہے۔

اوجلان کا یہ اہم اعلان اس کرد گروہ اور ترک ریاست کے درمیان امن کے لیے اس نئی کوشش کا حصہ ہے، جس کا آغاز اکتوبر میں صدر اردوان کے اتحادی دولت باہیلی نے کیا تھا۔ انھوں نے تجویز پیش کی تھی کہ اگر پی کے کے  تشدد کے راستے سے واپس آ جائے تو عبداللہ اوجلان کو رہا کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ پی کے کے نے اس پیشکش سے باقاعدہ فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔

اب سوال یہ ہے کہ بلوچستان کے ضمن میں ہم ترکیہ اور عبداللہ اوجلان کے مابین تصفیے سے روشنی حاصل کرسکتے ہیں؟ اس باب میں حکومت کو بھی سوچنا ہے اور جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والوں کو بھی۔

حملہ آوروں کو سوچنا ہے کہ آخر وہ کن کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں اور ایک بھیانک انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ وہ خود بھی موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں اور اس قوم کا بھی نقصان کر رہے ہیں جس کے حقوق کا پرچم انھوں نے اٹھا رکھا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید نقصان کریں، انھیں عبداللہ اوجلان اور ’پی کے کے‘ سے سبق حاصل کرلینا چاہیے۔

حالیہ کچھ عرصہ کے دوران میں کالعدم تحریک طالبان اور بی ایل اے نے جس طرح اپنی سرگرمیوں کو بڑھایا ہے، وہ قومی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ ٹرین پر حملے کے علاوہ، انھوں نے بسوں اور گاڑیوں پر حملے کیے اور مسلسل کر رہے ہیں، غیر مقامی افراد کو محض اس لیے قتل کیا جارہا ہے کہ وہ غیر مقامی ہیں۔ پولیس تھانوں پر قبضہ کیا جارہا ہے، وہاں سے اسلحہ سمیت اہلکار اغوا کیے جارہے ہیں۔ دہشتگرد گروہوں کے دماغوں پر خون سوار ہے، اس کیفیت میں وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔

دہشتگردوں کی طاقت میں اضافہ صرف اور صرف اس وجہ سے ہوا کہ ان کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان کے تحت نمٹا نہیں گیا۔ نتیجتاً  عام لوگوں کو بھی  بڑے پیمانے پرجانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور سیکورٹی فورسز کو بھی۔ جبکہ ہمارے کرتا دھرتا ابھی تک اس سوال پر غوروفکر کرنے کے لیے وقت ہی نہیں نکال پا رہے کہ آخر اس مرض کا کیا علاج کیا جائے؟ ہماری حکومتوں کا طرزعمل 2 قدم آگے بڑھنے اور 4 قدم پیچھے ہٹنے کا ہے۔

سادہ اور سیدھی سی بات ہے کہ خیبر پختون خوا کے بعض علاقوں سے بلوچستان تک، امن و امان کے حالات جس قدر خراب ہوچکے ہیں، وہاں امن کے قیام کے لیے پہلے مرحلے پر ایک بھرپور آپریشن کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پچھلے دنوں وفاقی وزیر داخلہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر 14 نکات بھی پیش کرچکے ہیں۔ آپریشن میں مزید تاخیر خون کی ہولیاں کھیلنے والوں کو مزید مواقع فراہم کرنا ہے۔ آپریشن کرنے والوں کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ اس دوران مجرموں ہی سے نمٹا جائے۔ کسی سے نادانستگی میں بھی ناانصافی کرکے مجرموں کے گروہ کو مزید طاقتور نہ بنایا جائے۔

دوسری طرف حکومت علاقائی سالمیت اور آئین کی بالادستی پر سمجھوتہ کیے بغیر بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کی مخلصانہ اور تیز رفتار حکمت عملی پر کام کرے۔ آخر اس پراپیگنڈا کا توڑ کیوں نہیں کیا جا سکتا کہ بلوچستان کے وسائل غیر مقامی لوگوں اور طاقتوں کے پاس جا رہے ہیں؟ انھیں کیوں یقین نہیں دلایا جارہا ہے کہ بلوچستان کی ترقی میں ان کا زیادہ حصہ ہوگا۔ کیا یہ کوئی اس قدر مشکل کام ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کے اذہان و  قلوب کو مسخر نہ کیا جاسکے؟

ہاں! اس سے پہلے ان سے سابقہ گناہوں کی معافی مانگنا بھی ضروری ہے کہ انھیں محرومیوں کا شکار کرنے میں ہماری حکومتوں کا بھی کردار رہا ہے۔ موجودہ صورت حال میں ہمارے حکمرانوں سے صرف اور صرف اخلاص اور تحرک کا تقاضا ہے جس کا ہمارے ہاں شدید  فقدان ہے۔ اسی فقدان کی یہ قوم بھاری قیمت چکا رہی ہے۔ اور ہمارے بعض ہمسائے ہمارے حالات پر کھی کھی کر رہے ہیں، اور تالیاں پیٹ رہے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبیداللہ عابد

بلوچستان پی کے کے ترکیہ جعفر ایکسپریس عبداللہ اوجلان کردستان ورکرز پارٹی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلوچستان پی کے کے ترکیہ جعفر ایکسپریس عبداللہ اوجلان کردستان ورکرز پارٹی کردستان ورکرز پارٹی عبداللہ اوجلان کہ بلوچستان انھوں نے پی کے کے کے ساتھ رہے ہیں کے لیے کیا جا کو بھی

پڑھیں:

حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں کسی طور بھی غافل نہیں، وزیراعظم

حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں کسی طور بھی غافل نہیں، وزیراعظم WhatsAppFacebookTwitter 0 25 July, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس) وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ملاقات ہوئی، جس میں انہوں نے واضح کیا کہ حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں کسی طور غافل نہیں۔

وزیرِ اعظم نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں اب بھی حکومت کی جانب سے ہر ممکنہ قانونی و سفارتی مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

مزید برآں، اس ضمن میں وزیرِ اعظم نہ صرف پہلے ہی سابق امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھ چکے ہیں جبکہ وزیرِ اعظم نے اس معاملے میں مزید پیش رفت کے لیے وفاقی وزیرِ قانون و انصاف، اعظم نذیر تارڑ کی صدارت میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔

کمیٹی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے اس حوالے سے رابطے میں رہے گی اور درکار ممکنہ معاونت کے لیے کام کرے گی۔

واضح رہے کہ وزیرِ اعظم کی ہدایت پر حکومت کی جانب سے پہلے بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں سفارتی و قانونی مدد فراہم کی جاتی رہی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرٹک ٹاکر ثناء یوسف قتل کیس میں اہم پیشرفت فرانس کا ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان پی ٹی آئی کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا: اسد عمر مغربی کنارے کا الحاق غیر قانونی، عالمی برادری اسرائیل کو جواب دہ ٹھہرائے: پاکستان اسلامو فوبیا کے خلاف اجتماعی اقدام ناگزیر ہے، اسحٰق ڈار کا سلامتی کونسل میں دوٹوک مؤقف اسلامی نظریاتی کونسل نے ماں اوربچے کی صحت کیلئے بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ ناگزیرقراردیدیا قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی عمر ایوب خان کا مستونگ آپریشن کے شہدا کو خراجِ عقیدت TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • فرانس؛ اسرائیل کیخلاف لبنانی مزاحمت کے ہیرو ابراہیم عبداللہ 40 سال بعد قید سے رہا
  • حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں کسی طور غافل نہیں:وزیراعظم
  • حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں کسی طور بھی غافل نہیں، وزیراعظم
  • مٹھی بھر دہشت گرد بلوچستان اور پاکستان کی ترقی کا راستہ نہیں روک سکتے(ترجمان پاک فوج)
  • مٹھی بھر دہشتگرد بلوچستان، پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا راستہ نہیں روک سکتے: ڈی جی آئی ایس پی آر
  • مٹھی بھر دہشت گرد بلوچستان کی ترقی کا راستہ نہیں روک سکتے: ترجمان پاک فوج
  • مٹھی بھر دہشتگرد بلوچستان اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا راستہ نہیں روک سکتے، ترجمان پاک فوج
  • مٹھی بھر دہشتگرد بلوچستان اور پاکستان کی ترقی نہیں روک سکتے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پاکستان معاملے پر نریندر مودی حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے، راہل گاندھی
  • جب تم رفال اڑا ہی نہیں سکتے تو نئے جہاز کس لعنت کے لیے خرید رہے ہو؟ڈمی خواجہ آصف