برطانیہ جانے والے یورپی مسافروں کے لیے نئی داخلہ پالیسی
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 مارچ 2025ء) برطانوی ہوم آفس کے مطابق الیکٹرانک ٹریول اتھارائزیشن (ای ٹی اے) ایک ڈیجیٹل سکیورٹی چیک ہے، جو بغیر ویزہ کے برطانیہ آنے والے مسافروں کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد سرحدی سلامتی کو مضبوط بنانا اور امیگریشن سسٹم کے غلط استعمال کو روکنا ہے۔
یہ نظام امریکہ کے 'ای ایس ٹی اے‘ اور آسٹریلیا کے سکیورٹی ماڈلز سے مستعار لیا گیا ہے، جو مجرمانہ ریکارڈ سمیت دیگر حفاظتی جانچ کو یقینی بناتے ہیں۔
ہوم آفس کا کہنا ہے کہ اس سے برطانیہ کے لیے خطرہ بننے والوں کی آمد کو روکا جا سکے گا۔ درخواست کا عمل اور فیسیورپی یونین کے شہریوں سمیت دیگر یورپی ممالک کے باشندے اس اجازت کے لیے برطانوی حکومت کی ویب سائٹ یا اسمارٹ فون ایپ کے ذریعے درخواست دے سکتے ہیں۔
(جاری ہے)
درخواست کے لیے سکیورٹی سوالات کے جوابات، ایڈریس اور کام کی جگہ کی تفصیلات سمیت پاسپورٹ کی تصویر اور نو سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے چہرے کی تصویر جیسی معلومات درکار ہوں گی۔
جن مسافروں کے پاس یہ درخواست دینے کے لیے ہم آہنگ سمارٹ فون نہیں ہوں گے، وہ کمپیوٹر کے ذریعے سرکاری ویب سائٹ کا استعمال کرتے ہوئے درخواست جمع کرا سکتے ہیں۔فی الحال ای ٹی اے کی درخواست فیس 10 پاؤنڈ (تقریباً بارہ یورو یا 12.
ایک منظور شدہ ای ٹی اے دو سال تک قابلِ استعمال رہے گا، بشرطیکہ پاسپورٹ اس دوران درست رہے۔ اس کے ساتھ مسافر متعدد بار برطانیہ میں داخل ہو سکتے ہیں اور ہر بار چھ ماہ تک قیام کر سکتے ہیں۔ یہ ویزہ نہیں ہے، بلکہ داخلے کا اجازت نامہ ہے۔
ای ٹی اے کا استعمال عالمی سطح پربرطانیہ نے سب سے پہلے سن 2023 میں قطر کے لیے ای ٹی اے متعارف کیا، جسے بعد میں خلیجی خطے کے پانچ دیگر ممالک تک بڑھایا گیا۔
جنوری سے یہ نظام ارجنٹائن، برازیل، جاپان اور نیوزی لینڈ سمیت مزید ممالک کے لیے نافذ ہے۔ اب یورپی مسافروں کے لیے اس کی توسیع سے برطانیہ اپنی سرحدی سلامتی کو مزید سخت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یورپ کا ایٹیاس نظامدوسری جانب یورپ میں بھی 30 یورپی ممالک کے لیے ایک مماثل نظام ایٹیاس (Etias) رواں سال کے وسط میں نافذ ہونا تھا، جس میں جرمنی بھی شامل ہے۔ تاہم یورپی کمیشن کے مطابق اس کی تعیناتی میں تاخیر ہوئی ہے اور اب اس کا نفاذ سن 2026 کی آخری سہ ماہی کے آغاز میں ہو گا۔ اس نظام کے تحت بغیر ویزہ داخلہ سات یورو کی لاگت سے ممکن ہو گا اور یہ اجازت نامہ تین سال تک قابلِ استعمال رہے گا۔
ا ا/ا ب ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مسافروں کے سکتے ہیں کے لیے
پڑھیں:
’وہ کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں‘ ٹرمپ نے پاکستان کو ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل قرار دیدیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل ہے، انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ امریکا واحد ملک ہو جو ایسا نہ کرے۔
ٹرمپ نے امریکی ٹی وی پروگرام ’سکسٹی منٹس‘ میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ’شمالی کوریا تجربے کر رہا ہے، پاکستان تجربے کر رہا ہے، مگر وہ اس کے بارے میں آپ کو نہیں بتاتے‘، ان سے یہ سوال اُس وقت پوچھا گیا جب گفتگو کا موضوع ان کی حالیہ ہدایت بنی، جس کے مطابق انہوں نے پینٹاگون کو ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں امریکی محکمہ جنگ کو ہدایت دی تھی کہ وہ ’فوری طور پر‘ ایٹمی تجربات دوبارہ شروع کرے، اس اعلان کے بعد سے یہ الجھن پائی جا رہی ہے کہ آیا وہ 1992 کے بعد امریکا کے پہلے ایٹمی دھماکے کا حکم دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جب انٹرویو میں ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’ہمارے پاس کسی بھی ملک سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں تخفیفِ اسلحہ کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے، اور میں نے اس پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ سے بات بھی کی تھی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پاس اتنے ایٹمی ہتھیار ہیں کہ دنیا کو 150 مرتبہ تباہ کر سکتے ہیں، روس کے پاس بھی بہت سے ہتھیار ہیں اور چین کے پاس بھی ہوں گے‘۔
جب میزبان نے سوال کیا کہ ’پھر ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟‘ تو ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’کیونکہ آپ کو دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ کام کیسے کرتے ہیں، روس نے اعلان کیا کہ وہ تجربہ کرے گا، شمالی کوریا مسلسل تجربے کر رہا ہے، دوسرے ممالک بھی کر رہے ہیں، ہم واحد ملک ہیں جو تجربے نہیں کرتا، میں نہیں چاہتا کہ ہم واحد ملک ہوں جو ایسا نہ کرے‘۔
میزبان نے نشاندہی کی کہ شمالی کوریا کے سوا کوئی ملک ایٹمی تجربے نہیں کر رہا، کیونکہ روس اور چین نے بالترتیب 1990 اور 1996 کے بعد سے کوئی تجربہ نہیں کیا،اس پر ٹرمپ نے کہا کہ ’روس اور چین بھی تجربے کرتے ہیں، بس آپ کو اس کا علم نہیں ہوتا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ایک کھلا معاشرہ ہیں، ہم اس بارے میں بات کرتے ہیں، روس یا چین میں رپورٹرز نہیں ہیں جو ایسی چیزوں پر لکھ سکیں، ہم بات کرتے ہیں، کیونکہ آپ لوگ رپورٹ کرتے ہیں‘۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم تجربے کریں گے کیونکہ دوسرے ملک بھی کرتے ہیں، شمالی کوریا کرتا ہے، پاکستان کرتا ہے، مگر وہ اس بارے میں نہیں بتاتے، وہ زمین کے بہت نیچے تجربے کرتے ہیں جہاں کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ اصل میں کیا ہو رہا ہے، آپ صرف ایک ہلکی سی لرزش محسوس کرتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنا ہوگا، ورنہ آپ کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں‘۔
ڈان نے اس معاملے پر امریکی صدر کے اس بیان کے حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ سے ردِعمل کے لیے رابطہ کیا ہے۔
انٹرویو کے دوران میزبان نے یہ بھی کہا کہ ماہرین کے مطابق امریکا کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی دنیا کے بہترین ہتھیار ہیں۔
اس پر ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’میرے مطابق بھی ہمارے ہتھیار بہترین ہیں، میں ہی وہ شخص ہوں جس نے انہیں اپنی 4 سالہ مدت کے دوران جدید بنایا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے یہ کام کرنا پسند نہیں تھا کیونکہ ان کی تباہ کن صلاحیت ایسی ہے کہ اس کا تصور بھی خوفناک ہے، مگر اگر دوسرے ملکوں کے پاس ہوں گے تو ہمیں بھی رکھنے ہوں گے، اور جب ہمارے پاس ہوں گے تو ہمیں ان کا تجربہ بھی کرنا ہوگا، ورنہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں، ہم انہیں استعمال نہیں کرنا چاہتے، مگر ہمیں تیار رہنا چاہیے‘