دشمن جہاں بھی بیٹھا ہوگا ہم نے پیچھا کرنا ہے، افغانستان کے اندر ایکشن لینا پڑے تو لینا چاہئے، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
اسلام آباد: وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغانستان دہشتگردوں کی سرپرستی کر رہا ہے اور اگر افغانستان کے اندر ایکشن لینا پڑے تو لینا چاہئے۔
خواجہ آصف نے اپنے بیان میں کہا کہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے افغانستان سے کئی بار بات کی ہے، گڈی گڈی برتاؤ رکھنا ہماری قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہے، دشمن جہاں بھی بیٹھا ہوگا ہم نے پیچھا کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو شخص کہے افغانستان جاکر پیچھا نہیں کرنا چاہئے، وہ پاکستان کے مفاد کے خلاف بات کررہے ہیں۔
وزیردفاع نے کہا کہ ٹی ٹی پی کو 3 سال پہلے پرائیوٹ ملیشیا بنانے کیلئے لایا گیا، ہمارا حکومتی اسٹرکچر یا تو غیرفعال ہے یا انتہائی کرپٹ ہے، ہمیں گورننس کے خلا کو پر کرنا ہوگا، فوج اندرونی اور بیرونی سرحدوں کا تحفظ کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا بڑا گروپ اجلاس میں شرکت کرنا چاہتا تھا، بانی پی ٹی آئی سے کوئی پرانا ادھار چکایا جارہا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈینس کیا ہے، پی ٹی آئی کی قانون سازی پر علی امین گنڈاپور کو تحفظات کیوں؟
خیبر پختونخوا میں حالیہ دہشتگردی کی لہر کے بعد عسکری آپریشن کا آغاز ہوا ہے مگر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے اس آپریشن پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے واضح مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کی حکومت صوبے میں کسی بھی قسم کی کارروائی کی اجازت نہیں دے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ’ایکشن ان ایڈ آف سول پاور‘ جیسے قوانین پر شدید تحفظات ہیں حالانکہ یہی قانون پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے سنہ 2019 میں خیبر پختونخوا میں نافذ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: باجوڑ میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن، علی امین گنڈاپور کی مخالفت، ڈی سیز سے کرفیو کا اختیار واپس
گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں صوبے کی سیکیورٹی صورت حال پر آل پارٹیز کانفرنس کے بعد علی امین گنڈاپور نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت عسکری آپریشن کی اجازت نہیں دے گی۔ ساتھ ہی قبائلی علاقوں کی روایات کے مطابق جرگہ سسٹم کو اپنانے کی تجویز بھی دی گئی۔ مسلسل دہشتگردی کے واقعات اور شدت پسندوں کی مرکزی شاہراہوں پر نقل و حرکت نے صوبائی حکومت کو شدید دباؤ میں ڈال دیا ہے۔ اسی تناظر میں گزشتہ روز پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی وزیر اعلیٰ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں امن و امان کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے بعد علی امین گنڈاپور نے ایک بار پھر ایکشن ان ایڈ آف سول پاور پر اپنے تحفظات کا اعادہ کیا۔
ایکشن ان ایڈ آف سول پاور کیا ہے اور کب لاگو کیا گیا؟ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ایک ایسا ریگولیشن یا آرڈیننس ہے جس کے تحت سول حکومت سیکیورٹی فورسز کو اپنے تعاون کے لیے طلب کرتی ہے اور انہیں خصوصی اختیارات دیتی ہے۔ یہ قانون پہلی مرتبہ سنہ 2011 میں سابقہ فاٹا اور پاٹا میں دہشتگردوں کے خلاف جاری فوجی کارروائیوں کے دوران نافذ کیا گیا تاہم اس کا اطلاق سنہ 2008 سے مؤثر سمجھا گیا۔
مزید پڑھیے: باجوڑ میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن، علی امین گنڈاپور کی مخالفت، ڈی سیز سے کرفیو کا اختیار واپس
اس قانون کے ذریعے وفاق اور صوبائی حکومتیں سیکیورٹی فورسز کو قانونی تحفظ فراہم کرتی ہیں تاکہ وہ بغیر کسی عدالتی اجازت کے مشتبہ افراد کو گرفتار، حراست میں رکھ سکیں، چھاپے مار سکیں اور حراستی مراکز قائم کر سکیں۔ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور تحویل میں لیے گئے افراد کو عدالت میں پیش کیے بغیر حراست میں رکھنا بھی اس قانون کا حصہ ہے۔
خیبر پختونخوا میں اس کا اطلاق کب اور کیسے ہوا؟سال 2018 میں فاٹا اور پاٹا کو آئینی ترمیم کے ذریعے خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا۔ سنہ 2019 میں پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت نے ایکشن ان ایڈ آف سول پاور کو پورے صوبے تک توسیع دے دی۔ اس وقت کے گورنر شاہ فرمان نے آرڈیننس جاری کر کے اس ریگولیشن کو صوبہ خیبر پختونخوا میں نافذ کیا جو اس سے قبل صرف قبائلی اضلاع تک محدود تھا۔
تاہم اس اقدام کو پشاور ہائیکورٹ میں وکیل شبیر حسین گگیانی نے چیلنج کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ نفاذ غیر قانونی ہے۔ ہائیکورٹ نے اس قانون کو غیر آئینی قرار دے دیا مگر پی ٹی آئی حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا۔ تاحال یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔
اس قانون کے تحت سیکیورٹی فورسز کو کیا اختیارات حاصل ہوتے ہیں؟ایکشن ان ایڈ آف سول پاور کے تحت سیکیورٹی فورسز کو وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں جس میں بغیر وارنٹ چھاپے مارنے کا اختیار، مشتبہ افراد کو عدالت میں پیش کیے بغیر غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنے کی اجازت، حراستی مراکز کے قیام اور ان کی قانونی حیثیت، سویلین عدالتوں کو بائی پاس کرتے ہوئے براہِ راست کارروائی کا اختیار، تمام کارروائیوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنا شامل ہیں۔
علی امین گنڈاپور کے تحفظات کیا ہیں؟وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ انہیں اس قانون کے نفاذ اور سیکیورٹی فورسز کو دیے گئے غیر معمولی اختیارات پر شدید تحفظات ہیں۔ پارلیمانی پارٹی اجلاس میں بھی اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے متعدد اراکین نے آپریشن کی مخالفت کی اور مذاکرات و جرگہ سسٹم اپنانے کی تجویز دی۔ ان کا مؤقف تھا کہ ممکنہ آپریشن سے قبائلی علاقوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔
مزید یہ کہ بعض اراکین نے تجویز دی کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا اسٹے آرڈر ختم کرانے کے لیے دوبارہ قانونی چارہ جوئی کی جائے تاکہ ایکشن ان ایڈ آف سول پاور کے اختیارات واپس لیے جا سکیں۔
مزید پڑھیں: علی امین گنڈاپور ضرورت کے مطابق تعاون کرتے ہیں، بیانات کی کوئی حیثیت نہیں، رانا ثنااللہ
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور پارٹی کے اندرونی دباؤ اور مقتدر حلقوں سے کشیدہ تعلقات کے باعث آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ ممکنہ فوجی کارروائی پارٹی کے لیے سیاسی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
تاہم ذرائع کے مطابق اپیکس کمیٹی میں دی جانے والی بریفنگ کے بعد وزیر اعلیٰ کے کچھ تحفظات دور ہو چکے ہیں جس کے بعد وہ ممکنہ طور پر نرم مؤقف اختیار کر سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایکشن ان ایڈ آف سول پاور پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور