دشمن جہاں بھی بیٹھا ہوگا ہم نے پیچھا کرنا ہے، افغانستان کے اندر ایکشن لینا پڑے تو لینا چاہئے، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
اسلام آباد: وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغانستان دہشتگردوں کی سرپرستی کر رہا ہے اور اگر افغانستان کے اندر ایکشن لینا پڑے تو لینا چاہئے۔
خواجہ آصف نے اپنے بیان میں کہا کہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے افغانستان سے کئی بار بات کی ہے، گڈی گڈی برتاؤ رکھنا ہماری قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہے، دشمن جہاں بھی بیٹھا ہوگا ہم نے پیچھا کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو شخص کہے افغانستان جاکر پیچھا نہیں کرنا چاہئے، وہ پاکستان کے مفاد کے خلاف بات کررہے ہیں۔
وزیردفاع نے کہا کہ ٹی ٹی پی کو 3 سال پہلے پرائیوٹ ملیشیا بنانے کیلئے لایا گیا، ہمارا حکومتی اسٹرکچر یا تو غیرفعال ہے یا انتہائی کرپٹ ہے، ہمیں گورننس کے خلا کو پر کرنا ہوگا، فوج اندرونی اور بیرونی سرحدوں کا تحفظ کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا بڑا گروپ اجلاس میں شرکت کرنا چاہتا تھا، بانی پی ٹی آئی سے کوئی پرانا ادھار چکایا جارہا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
طالبان کے ماتحت افغانستان کتنا ’محفوظ‘ ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جون 2025ء) یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ افغانستان محفوظ ہے، طالبان ان تمام افغانوں سے، جو ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں وطن واپس لوٹ آنے کی اپیل کر رہے ہیں۔
طالبان حکومت کی وزراتی کونسل کے چیئرمین محمد حسن اخوند نے عید الاضحیٰ کے اسلامی تہوار کے موقع پر ہفتے کے روز اپنے پیغام میں وطن واپس آنے والوں کے لیے عام معافی کا وعدہ کیا۔
طالبان کی طرف سے افغانستان چھوڑ جانے والوں کو وطن واپسی کی پیشکش
نیلوفر ابراہیمی، جو طالبان کے قبضے سے پہلے افغانستان کی پارلیمنٹ کی سابق رکن ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ’’تشدد کے مرتکب اب اقتدار میں ہیں، مثال کے طور پر، وزارت داخلہ کے سربراہ کے طور پر۔ یقیناً، اور اب وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ملک محفوظ ہے۔
(جاری ہے)
‘‘
سراج الدین حقانی طالبان کے وزیر داخلہ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ حقانی 2021 میں طالبان کے ملک پر قبضے تک افغانستان میں متعدد مہلک حملوں کے ذمہ دار تھے۔وہ ’’افغانستان میں امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف سرحد پار حملوں کو مربوط کرنے اور مدد کرنے‘‘ کے شبہے میں امریکی کے ایف بی آئی کی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔
حقانی اب طالبان کے طاقت کے ڈھانچے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور خاص طور پر سکیورٹی اور پولیس کے معاملات کے لیے ذمہ دار ہیں۔
افغانستان: انسانی حقوق پر طالبان حکمرانوں کے حملوں کا سلسلہ جاری
ابراہیمی، جنہیں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان چھوڑنا پڑا، نے کہا، ’’طالبان کسی بھی مزاحمت کو دباتے ہیں اور لوگوں کو ڈراتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’ملک کے شمال مشرق میں، صوبہ بدخشاں میں، وہ کسانوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں جو نہیں جانتے کہ وہ کون سی فصل اگائیں کیونکہ طالبان نے پوست کی کاشت پر پابندی لگا دی ہے۔
‘‘دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک، افغانستان میں، آبادی کا 80 فیصد تک زراعت سے وابستہ ہے۔ دیگر فصلوں کے مقابلے میں، افیون کی کاشت نمایاں طور پر زیادہ منافع بخش تھی، یہاں تک کہ خشک سالی کے وقت بھی، اور بہت سے کسانوں کو آمدنی کا ایک محفوظ ذریعہ فراہم کرتا تھا۔
اپنے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے حکم پر طالبان نے پورے افغانستان میں پوست کی کاشت بند کر دی ہے۔
اب کسانوں کے پاس کچھ نہیں بچا اور وہ نہیں جانتے کہ اپنے خاندان کا پیٹ کیسے پالیں۔ طالبان کے دور میں افغانستان میں غربتطالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے۔ لاکھوں لوگ انسانی امداد پر منحصر ہیں۔ ملک کی آبادی تقریباً 41.5 ملین ہے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق، تقریباً 43 فیصد ایسے بچے ہیں جن کی عمریں 0 سے 14 سال کے درمیان ہیں۔
یونیسیف کی مارچ 2025 کی رپورٹ کے مطابق، افغانستان میں ہر دوسرے بچے کو ہنگامی امداد کی فوری ضرورت ہے۔ شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بہت سی نابالغ لڑکیوں کی زبردستی شادی کر دی جاتی ہے کیونکہ ان کے گھر والے نہیں جانتے کہ اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالیں۔
افغان خواتین کی احتجاجی تحریک پرپل سٹرڈے کی ایک کارکن نے ڈی ڈبلیو کو ایک ای میل میں بتایا کہ’’یہ وہ بچے ہیں جنہیں تعلیم، ذاتی نشوونما اور یہاں تک کہ بچوں کی طرح کھیلنے کے حق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔
انہیں قبل از وقت پیدائش، انتہائی غربت، خاندانی تشدد اور سماجی تنہائی جیسے تکلیف دہ نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ مذکورہ خاتون نے سکیورٹی وجوہات کی بناء پراپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔انہوں نے مزید کہا، ’’اور یہ ایک ایسے معاشرے میں ہے جس میں خواتین اور بچوں کے لیے امدادی ڈھانچے عملی طور پر منہدم ہو چکے ہیں۔
‘‘یہ مقامی کارکن خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو اپنے نیٹ ورک کے ذریعے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں نجی طور پر تعلیم دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
طالبان کے دور میں خواتین کو اب یونیورسٹیوں میں پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ پانچویں جماعت کے بعد سیکنڈری اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
کارکن نے کہا، ’’اب ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ، بین الاقوامی برادری کی حقیقی اور غیر مشروط یکجہتی کی ضرورت ہے۔
‘‘ ملک سے بھاگنے والے طالبان سے خوفزدہبہت سی مایوس خواتین پڑوسی ممالک کو بھاگ گئی ہیں، جن میں تین بچوں کی ماں دیبا بھی شامل ہے۔
طالبان کے قبضے سے قبل، وہ افغان وزارت تعلیم میں کام کر چکی تھیں اور خواتین کی ترقی کے لیے ایک ادارے کی شریک بانی تھیں، جسے بعد میں طالبان نے بند کر دیا تھا۔ طالبان کی حکومت کے کئی مہینوں کے بعد، خواتین کے حقوق کی کارکن کو پاکستان فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں نے اپنا سارا سامان بیچ دیا اور فرار ہو گئی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اب ویزا کی مدت ختم ہونے کے بعد انہیں پاکستان سے ڈی پورٹ کیے جانے کا خدشہ ہے۔ افغان مہاجرین کو اس وقت پاکستان سے بڑے پیمانے پر ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ اندازوں کے مطابق صرف اپریل اور مئی میں تقریباً 200,000 افراد کو ملک بدر کیا گیا۔
دیبا نے کہا، ’’میں افغانستان واپس جانے کے بجائے روپوش ہوجانا پسند کروں گی‘‘
طالبان کی حکومت والے افغانستان میں، انہیں ایک عورت کے طور پر معاشرے میں آزادانہ طور پر گھومنے پھرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی، اپنے خاندان کی کفالت کے لیے نوکری تلاش کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ان کی بیٹیوں کو اپنی زندگی جینے کی اجازت نہیں ملے گی۔
وہ اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو محفوظ تیسرے ملک تک پہنچانے کا راستہ تلاش کرنے کی امید رکھتی ہے۔دیگر ممالک بھی افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
مثال کے طور پر، ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس سال چالیس لاکھ افغانوں کو ان کے ’’محفوظ وطن" واپس بھیجے گا۔ صرف مئی میں 15000 افراد کو ملک بدر کیا گیا۔
طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ ’’ہم ان کا استقبال کریں گے۔‘‘
ج ا ⁄ ص ز (شبنم وان ہیئن)
ڈی ڈبلیو کے دری/پشتو ڈیپارٹمنٹ کی پروانہ علی زادہ نے اس رپورٹ میں تعاون کیا۔ یہ مضمون اصل میں جرمن زبان میں لکھا گیا تھا۔