صدا کا ایک ایسا سفر جو حرمین تک جا پہنچا
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
پاکستان کی سرزمین بے شمار باصلاحیت افراد کی جنم بھومی رہی ہے، لیکن کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی خداداد صلاحیتوں اور انتھک محنت کے باعث نہ صرف اپنی پہچان بناتی ہیں بلکہ ملک و ملت کا وقار بھی بلند کرتی ہیں۔ انہی خوش نصیب اور منتخب شخصیات میں ایک نام طاہر عبید چودھری کا ہے۔طاہر عبید چودھری کا تعلق مردم خیز ضلع گجرات سے ہے، جو علم و ادب، فن اور قیادت کے کئی عظیم چراغوں کا مسکن رہا ہے۔ وہ نہ صرف میرے عزیز بلکہ میرے گاں کے قابلِ فخر سپوت بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بچپن ہی سے ایک شاندار اور حیرت انگیز آواز اور منفرد صدا کاری کی صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا، جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید نکھرتی چلی گئیں۔ لیکن محض قدرتی صلاحیت ہی سب کچھ نہیں ہوتی، اصل کمال تو وہ محنت شاقہ اور خلوصِ نیت ہے، جس کے ذریعے کوئی فرد عام سے خاص بنتا ہے، اور طاہر عبید چودھری نے اپنی لگن، جستجو اور شب و روز کی ریاضت سے یہ ثابت کر دیا کہ کامیابی کسی کی میراث نہیں بلکہ محنت کی کمائی ہوتی ہے۔طاہر عبید چودھری نے2004 ء ایف ایم ریڈیو سے صدا کاری کے فن میں پہلا قدم رکھا۔ ان کے لیے یہ محض ایک پیشہ ورانہ تجربہ نہیں تھا بلکہ ایک جنون تھا، جو انہیں آگے بڑھنے پر مجبور کرتا رہا۔ 17 ایف ایم ریڈیوز پر بطور اسٹیشن مینیجر ذمہ داریاں سنبھالیں اور مختلف نجی ٹی وی چینلز سے ہوتے ہوئے 5 برس قبل اپنے متقدمین کی پیروی میں پاکستان ٹیلی وژن کو بطور نیوز اینکر جوائن کیا۔ ان کا شعر و ادبی پارے پڑھنے کا انداز ان کے اتالیق ضیا محی الدین کی یاد تازہ کردیتا ہے۔ ہر لفظ کی ادائیگی میں جذبات، ہر جملے میں وقار اور ہر تحریر میں جان ڈالنے کی جو مہارت انہیں حاصل ہے، وہ بہت کم لوگوں کے نصیب میں آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صدا کاری کے میدان میں نئے معیارات قائم کیے اور اپنی صلاحیتوں کو دن بہ دن نکھارتے گئے۔
2008 ء میں انٹرنیٹ کی آسان رسائی نہ ہونے کے باوجود ان کی ریڈیو پر پڑھی گئی غزلیات دنیا بھر کے شائقین تک وائرل ہوگئیں۔ ان کی آواز میں جو ٹھہرائو، رچائو اور تاثیر تھی، اس نے انہیں جلد ہی شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔محنت اور خلوص کبھی رائیگاں نہیں جاتے اور جب اللہ کسی کو عزت سے نوازنا چاہے تو وہ کسی بھی در پر دستک دے سکتا ہے۔ یہی ہوا طاہر عبید چودھری کے ساتھ، جب ان کے فن کو عالمی سطح پر وہ پذیرائی ملی جو بہت کم لوگوں کے نصیب میں آتی ہے۔انہیں سعودی حکومت کی جانب سے مسجد الحرام، مسجد نبویؐ اور دیگر بین الاقوامی سیرت میوزیمز میں سیرت الانبیاء اور اسلامی تاریخ کی صداکاری کے لئے منتخب کیا گیا۔ یہ اعزاز نہ صرف ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت اور سعادت بھی ہے، جو کسی کسی کو ہی عطا ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ برس حج میں شروع ہوا وار ان کی پرنور آواز آج لاکھوں زائرین کے کانوں میں رس گھول رہی ہے، انہیں دین کی روشنی سے آشنا اور روحانی کیف و سرور میں مبتلا کر رہی ہے۔ جب کہ امسال مزید چار گھنٹے کا مواد زائرین و حجاج کی معلومات اور راہنمائی کے لئے ان کی آواز میں پیش کیا جارہا ہے۔یہ ایک غیر معمولی بات ہے کہ کوئی صدا کار صرف ایک پروفیشنل وائس اوور آرٹسٹ نہیں بلکہ اسلامی تاریخ و سیرت کے ترجمان کے طور پر بھی پہچانا جائے۔ طاہر عبید چودھری نے اپنے بے مثال تلفظ، شاندار ادائیگی اور پراثر صدا کے ذریعے اسلامی تعلیمات کو خوبصورت اور دل نشین انداز میں لوگوں تک پہنچانے کا کام سنبھالا ہے۔ سوشل میڈیا پر آج جابجا ان کی آواز سننے کو ملتی ہے۔ مختلف تفاسیر قرآن، مجموعاتِ احادیث، تواریخ اور اسلامی مشاہیر کے حالاتِ زندگی پر سوشل میڈیا پہ ان کی ہزاروں منٹ پر مبنی صوتی کتب کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔
حرمین شریفین میں ان کی آواز کا گونجنا ایک ایسا منفرد اعزاز ہے جو بہت کم صداکاروں کے نصیب میں آیا ہے۔ یہ ان کی نیک نیتی، محنت، لگن اور ایمان کی سچائی کا انعام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا انتخاب اس عظیم سعادت کے لیے کیا۔طاہر عبید چودھری کا شمار پاکستان کے نمایاں صحافیوں، ادیبوں، شاعروں اور وائس اوور آرٹسٹس میں ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسے سوشل میڈیا تخلیق کار بھی ہیں، جن کا کام لاکھوں لوگ سراہتے ہیں۔ زبان و بیان کے لاکھوں شائقین ان کی اردو تلفظ پر مبنی ویڈیوز سے استفادہ کرتے ہیں ۔یہ محض ایک کامیابی کی داستان نہیں بلکہ ایک خواب کی تعبیر، ایک صدا کی پرواز اور ایک محنتی انسان کے یقین کی جیت ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے، جب ایک فرد کی کامیابی پورے پاکستان کے لیے فخر کی علامت بن چکی ہے۔ طاہر عبید چودھری پر اللہ سبحان و تعالیٰ کا خصوصی فضل اور سرکارِ دوعالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کا کرم ہے۔ اس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ اللہ رب العزت نے انہیں نسل در نسل قرآن حکیم کے ساتھ وابستگی کا شرف عطا فرمایا ہے۔ طاہر عبید چودھری نے اپنے دادا چودھری عبدالمجید کی زیرِ نگرانی تربیت پائی جو عربی و فارسی کے عالم و معلم ہونے کے ساتھ ساتھ نعت گو شاعر بھی تھے، جن کی عمر کا بڑا حصہ امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری اور آغا شورش کاشمیری جیسی نابغ روزگار ہستیوں کی رفاقت میں گزرا۔ یہی وجہ ہے کہ طاہر عبید کو بچپن ہی سے فارسی ، عربی اور اردو زبان کے ہزاروں اشعار یاد تھے۔ سینے میں قرآن کا نور لئے اس نوجوان نے کیلی گرافی اور شعر گوئی کو بھی اظہار فن کا ذریعہ بنایا ۔
آج کوئی ٹی وی یا ریڈیو چینل لگائیں یا سوشل میڈیا پر ویڈیو دیکھیں ، کسی ادارے یا بنک میں کال کریں تو طاہر عبید چودھری کی آواز کمرشل، اسلام یا اخلاقیات پر مبنی سوشل میڈیا ویڈیو یا آئی وی آر کی صورت سننے کو مل جاتی ہے۔ درجنوں میڈیا ایوارڈز کے باوجود سب سے بڑا اعزاز جو طاہر عبید چودھری کو عطا ہوا وہ یہی ہے کہ ان کی آواز آج حرمین الشرفین کی فضاں میں گونج رہی ہے۔یہ کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اگر محنت، لگن اور نیک نیتی کے ساتھ اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کیا جائے تو وہ ایک دن سعادت میں بدل جاتا ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے، جب ایک آواز محض الفاظ نہیں بلکہ ایک مقدس پیغام بن جاتی ہے۔طاہر عبید چودھری، آپ گجرات کی شان ہیں ، فخر پاکستان ہیں ۔ رب کریم آپ کو مزید ترقی ، رحمتوں اور برکتوں سے سرفراز فرمائے ۔ آمین
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: طاہر عبید چودھری نے سوشل میڈیا ان کی آواز نہیں بلکہ ہیں بلکہ کے ساتھ صدا کا رہی ہے
پڑھیں:
سیلاب کی روک تھام، حکمت عملی کیا ہے؟
ملک کے مختلف علاقوں میں مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، جاں بحق افراد کی مجموعی تعداد 250 افراد سے زائد ہوچکی ہے۔ تاحال کئی مقامی سیاح لاپتہ ہیں، مری، گلیات،کشمیر اورگلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ اور ندی نالوں میں طغیانی کا خطرہ ہے۔ ساڑھے چار لاکھ کیوسک کا بڑا سیلابی ریلا تونسہ سے گزر رہا ہے، انتظامیہ نے آبادی کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کے اعلانات کروائے ہیں۔
وطن عزیز ان دنوں ایک ایسی آزمائش سے گزر رہا ہے جو صرف فطری آفات کی نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی کی بھی غماز ہے۔ شدید بارشوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور اس کے نتیجے میں جو تباہی ہمارے دیہی و شہری علاقوں میں برپا ہوئی ہے، وہ کسی بھی ذی شعور دل کو دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع، مال و متاع کی بربادی، کھڑی فصلوں کی تباہی، مکانات کا گرنا اور مواصلاتی نظام کی درہم برہم صورتِ حالیہ سب کچھ ہمیں صرف قدرت کے قہر کا نہیں، بلکہ اپنی کوتاہیوں کا بھی آئینہ دکھاتا ہے۔
بارشوں کے تسلسل سے دریاؤں کا جوبن خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے۔ خاص طور پر دریائے سندھ، جو ماضی میں بارہا اپنی بے قابو موجوں سے سندھ کو اجاڑ چکا ہے، ایک بار پھر غضبناک صورت اختیار کرسکتا ہے، سیلاب محض پانی کی زیادتی نہیں، بلکہ یہ معیشت کی بربادی، غربت کی شدت، اور انسانی المیے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ کسان جو پہلے ہی مہنگائی، پانی کی قلت اور زرعی مداخل کی قیمتوں سے نڈھال ہیں، وہ اب کھیت کھلیان پانی میں ڈوبتے دیکھ رہے ہیں۔
شہروں میں چھتیں گر رہی ہیں، سڑکیں نالوں میں بدل گئی ہیں اور کاروبار زندگی مفلوج ہو چکا ہے۔ موسم کی یہ سختی محض فطرت کا فیصلہ نہیں، بلکہ اس میں انسان کے خود ساختہ اعمال کا بھی عمل دخل ہے۔ قدرتی نظام میں خلل ڈال کر ہم نے خود اپنے لیے مصیبتوں کا بازار گرم کیا ہے۔ اربنائزیشن کی دوڑ میں دریاؤں کے قدرتی راستے بند کردیے گئے، جنگلات کاٹ دیے گئے، پہاڑ کھود دیے گئے اور آبی ذخائر کو نظر انداز کیا گیا، نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
دریاؤں کی سطح بلند ہوتی جا رہی ہے، خاص طور پر دریائے سندھ، جو پاکستان کی شہ رگ سمجھا جاتا ہے، اب غضبناک موجوں کی آماجگاہ بنتا جا رہا ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ جب سندھ پر سیلاب کا قہر ٹوٹتا ہے تو اس کی تباہ کاری صرف مقامی نہیں رہتی، بلکہ اس کے اثرات پورے ملک کی معیشت، فوڈ سیکیورٹی اور سیاسی ماحول تک پھیل جاتے ہیں۔
یہ المیہ صرف سندھ کا نہیں، بلکہ پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان تک پھیلا ہوا ہے۔ جہاں بارشیں کہیں زمین کی زرخیزی بن کر برستی ہیں، وہیں جب ان کی شدت حد سے تجاوز کرتی ہے، تو زمین بھی انسان کی طرح بغاوت پر اُتر آتی ہے۔ مٹی کٹنے لگتی ہے، پہاڑ کھسکنے لگتے ہیں، درخت جڑوں سے اکھڑ جاتے ہیں اور بستیاں ملیامیٹ ہو جاتی ہیں۔
ندی نالوں اور برساتی راستوں کی مستقل صفائی اور نگرانی کے نظام کو مضبوط بنایا جائے۔ شہروں کے اندر نکاسی آب کے نظام کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے، خاص طور پر کراچی، لاہور، ملتان، اور پشاور جیسے بڑے شہروں میں چند گھنٹوں کی بارش پورے شہر کو پانی میں ڈوبا ہوا دکھاتی ہے۔ یہ کوئی اتفاقیہ حادثہ نہیں، بلکہ ناقص منصوبہ بندی، کرپشن، اور غفلت کی داستان ہے، جس کا انجام عوام بھگت رہے ہیں۔
معاشی لحاظ سے بھی سیلاب ایک بھیانک خواب ہے۔ ایک طرف زرعی زمینیں پانی میں ڈوبتی ہیں، تو دوسری جانب کسان اپنے قرضوں میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ کھاد، بیج، مشینری اور زرعی ادویات کی پہلے ہی آسمان کو چھوتی قیمتیں، جب فصل کے تباہ ہو جانے کے بعد بھی معاف نہ کی جائیں، تو کسان کو اس ملک میں جینے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ ہمیں ایک ایسا زرعی و مالیاتی نظام تشکیل دینا ہوگا جو قدرتی آفات کے متاثرین کو فوری سہارا دے، تاکہ وہ دوبارہ زندگی کی دوڑ میں شامل ہو سکیں۔
2010 اور 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلابوں نے سندھ کو جس معاشی، زرعی، اور سماجی تباہی سے دوچار کیا تھا، اس کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ 2022کے سیلاب میں صرف سندھ میں 800 سے زائد اموات ہوئیں اور 12.3 ملین افراد متاثر ہوئے تھے۔ اُس وقت صوبے کے 23 میں سے 21 اضلاع آفت زدہ قرار دیے گئے تھے، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں، اور ہزاروں اسکول، اسپتال، سڑکیں اور پل مکمل یا جزوی طور پر برباد ہو چکے تھے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ان سانحات سے کچھ سیکھا؟ کیا 2022 کے بعد کوئی جامع منصوبہ بندی کی گئی؟ کیا برساتی نالوں کی صفائی مستقل بنیادوں پر ہوئی؟ کیا سندھ میں موجود قدرتی آبی گزرگاہوں پر تجاوزات ہٹائی گئیں؟ کیا جدید سیلاب پیشگی انتباہی نظام (Early Warning Systems) کو موثر بنایا گیا؟ سچ تو یہ ہے کہ ان تمام سوالوں کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہے۔
پہلا اور سب سے اہم قدم یہ ہونا چاہیے کہ سندھ کے تمام اضلاع میں ماحولیاتی نقشہ سازی (Environmental Zoning) کی جائے تاکہ یہ طے ہو سکے کہ کون سے علاقے سیلاب کے لیے حساس ہیں۔ ان علاقوں میں مستقل بنیادوں پر آبادی کو روکنا یا مخصوص تعمیراتی ضوابط نافذ کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
دوسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ نالوں، برساتی راستوں اور دریائی حفاظتی بندوں کی سالانہ صفائی اور مرمت کا عمل صرف کاغذی کارروائی نہ ہو بلکہ شفافیت سے مکمل کیا جائے۔ سندھ کے کئی اضلاع میں برساتی پانی کے لیے مخصوص راستے تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات سے بند ہو چکے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں ریور ری کلیمیشن (River Reclamation) پروجیکٹس کی فوری ضرورت ہے۔ تیسرا قدم ڈرینج ماسٹر پلان کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد ہے، خاص طور پر کراچی، حیدرآباد اور سکھر جیسے شہروں میں، جہاں شہری سیلاب (Urban Flooding) ایک مستقل خطرہ بن چکا ہے، اگر حکومت صرف ان تین شہروں کے نکاسی آب کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کر دے، تو آدھے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔
چوتھا اہم اقدام یہ ہے کہ سندھ میں چھوٹے ڈیمز اور رین واٹر ہارویسٹنگ سسٹمز کو فروغ دیا جائے۔ تھرپارکر، عمرکوٹ، جامشورو اور دادو جیسے اضلاع میں اگر بارش کا پانی محفوظ کر لیا جائے تو نہ صرف سیلاب کے خطرات میں کمی آئے گی، بلکہ پینے کے پانی اور زراعت کے لیے بھی انقلابی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ سندھ کے تعلیمی اداروں، مساجد، اور کمیونٹی سینٹرز کو سیلاب آگاہی مراکز کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عوام کو تربیت دی جائے کہ بارشوں کے دوران کن احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہے، کہاں پناہ لینا ہے، اور کس نمبر پر مدد کے لیے رابطہ کرنا ہے۔ یہ شعور وقتی نہیں بلکہ مسلسل مہم کے تحت اجاگر کیا جانا چاہیے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ حکومت اپنے ترقیاتی بجٹ میں سیلاب سے بچاؤ اور ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کو پہلی ترجیح دے۔ 2024-25 کے صوبائی بجٹ میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے مختص رقم کل بجٹ کا صرف 1.4 فیصد تھی، جو ایک مذاق سے کم نہیں۔ اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں یہ تناسب 5 سے 7 فیصد تک بڑھانا ہوگا۔
بین الاقوامی سطح پر بھی سندھ کو مدد حاصل کرنے کے لیے اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اور کلائمیٹ رسک انشورنس اداروں کے ساتھ فوری اشتراک کی ضرورت ہے۔ 2022 میں UNDP اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی مدد سے سندھ میں کچھ منصوبے شروع کیے گئے تھے، مگر وہ ناکافی تھے اور ان کا دائرہ بہت محدود تھا۔ صرف حکومت نہیں، بلکہ عوام، میڈیا، تعلیمی ادارے، اور کاروباری برادری سب کو مل کر اس ماحولیاتی چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ وقت الزامات کا نہیں، اقدامات کا ہے۔ ہمیں اب ماضی کی غفلتوں کو دفن کر کے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی، ورنہ ہر سال بارشیں آئیں گی، اور ہم ان کے ساتھ بہتے چلے جائیں گے۔
سیلاب کی روک تھام کے لیے ہمیں ایک کثیرالجہتی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہمیں پانی کے قدرتی بہاؤ کو بحال کرنے کے لیے ڈیمز اور واٹر ریگولیشن سسٹمز کی فوری تعمیر کرنا ہوگی۔ کالا باغ ڈیم جیسے متنازع منصوبوں پر صرف سیاست کرنے کے بجائے، ہمیں قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا۔ بڑے اور چھوٹے ڈیمز نہ صرف پانی ذخیرہ کرنے میں مدد دیں گے بلکہ وہ زمینوں کی سیرابی، بجلی کی پیداوار، اور سیلاب کے خطرات میں بھی نمایاں کمی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
اب وقت ہے کہ حکومت تمام سطحوں پر سیلاب سے بچاؤ کو اپنی اولین ترجیح بنائے۔ یہ کام محض ایک وزارت یا ادارے کے بس کی بات نہیں، بلکہ ایک قومی ایمرجنسی کی مانند تمام محکموں، شعبوں اور اسٹیک ہولڈرز کو یکجا ہو کر مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی سطح پر مربوط اور ہم آہنگ حکمت عملی ہی سیلاب جیسے عفریت کا مقابلہ کرسکتی ہے۔