اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 21 مارچ 2025ء) صنفی مساوات کے لیے اقوام متحدہ کا عزم تشکیل دینے والی خواتین کی میراث کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ادارے کے ہیڈکوارٹر میں منعقدہ تقریب کے مقررین نے پیغام دیا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے جدوجہد میں خاموشی کی کوئی گنجائش نہیں۔

اس موقع پر امریکہ کی سابق خاتون اول ایلینار روزویلٹ کی پڑپوتی اینا فیئرسٹ نے ان کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا کہ عالمگیر انسانی حقوق کا آغاز گھروں اور روزمرہ زندگی سے ہوتا ہے۔

جب تک مقامی آبادیوں، سکولوں اور کارخانوں اور ایسی دیگر جگہوں پر یہ حقوق یقینی نہ بنائے جائیں اس وقت تک یہ بے معنی رہتے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ آج انسانی حقوق کو تحفظ دینے میں قانون اور متحرک سول سوسائٹی کی لازمی اہمیت ہے۔

(جاری ہے)

اگر ایلینار روزویلٹ زندہ ہوتیں تو انہیں خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں آنے والے اتار چڑھاؤ کو دیکھ کر حیرت نہ ہوتی۔

اس کے بجائے انہیں لوگوں کو ٹیکنالوجی کی آڑ لے کر خواتین کے حقوق پامال کیے جانے پر افسوس ہوتا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ٹیلی فون اور ٹیلی ویژن سے کام لینا ترک کر دیا تھا کیونکہ وہ کہتی تھیں کہ جب لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں تو ایک دوسرے سے بات کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ UN Photo جاپانی خواتین کا ایک وفد فروری 1950 میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر کے دورہ کے دوران انسانی حقوق پر عالمی اعلامیہ کو دیکھ رہا ہے۔

ثابت قدم جدوجہد

اس تقریب کا انعقاد خواتین کی صورتحال پر اقوام متحدہ کے کمیشن (سی ایس ڈبلیو) کے اجلاس کے موقع پر کیا گیا جو جمعے کو ختم ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے شعبہ عالمگیر اطلاعات اور دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) تقریب کے میزبان تھے۔ اس موقع پر انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ تشکیل دینے میں نمایاں کردار ادا کرنے والی متعدد خواتین کا تذکرہ کیا گیا جن میں ایلینار روزویلٹ پیش پیش تھیں۔

1995 میں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں منعقدہ چوتھی عالمی کانفرنس برائے خواتین کی سیکرٹری جنرل گیرٹروڈ مونجیلا نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری ہے اور اسے جاری رکھنا ہو گا۔ قوانین سازی اور خواتین کے لیے نقصان دہ سماجی رسومات کے خاتمے سے متعلق کام کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات جب فاصلہ طویل ہو تو رفتار سست ہو جاتی ہے لیکن چلنا ترک نہیں کیا جاتا۔

گیرٹروڈ مونجیلا کو 'ماما بیجنگ' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 30 برس پہلے ہونے والی بیجنگ کانفرنس کو صنفی مساوات پر عالمی ایجنڈے کی تشکیل کے حوالے سے اہم موڑ سمجھا جاتا ہے اور اس کا خواتین کی صورتحال پر اقوام متحدہ کے کمیشن سے براہ راست تعلق ہے۔

خواتین کے حقوق پر حملے

انہوں نے بتایا کہ تین دہائیاں پہلے کس طرح فیصلے لیے گئے اور رکن ممالک نے ان پر کیسے عملدرآمد کیا۔

ان فیصلوں کی بدولت آج خواتین کو اپنی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر قابو پانے اور دفاع کی وزارتیں سنبھالنے جیسے قائدانہ کردار ادا کرنے کا موقع بھی ملا ہے جن کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

انہوں نے 'یو این ویمن' کی تازہ ترین رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال تقریباً ایک چوتھائی حکومتوں نے خواتین کے حقوق پر پس رفت کی اطلاع دی تھی۔

ان میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک، ان کے لیے کمزور قانونی تحفظ اور خواتین کے پروگراموں اور اداروں کے لیے مالی وسائل کی قلت خاص طور پر نمایاں ہیں۔ UN Photo/Yutaka Nagata اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 1953 پہلی خاتون صدر بننے والی وجے لکشمی پنڈت۔

انڈیا کی سفارتی رہنما

تقریب میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی پہلی خاتون صدر بننے والی وجے لکشمی پنڈت کی خدمات کا تذکرہ بھی ہوا۔ وہ اقوام متحدہ میں انڈیا کی پہلی سفیر اور سوویت یونین کے لیے انڈیا کی پہلی سفیر تھیں

وجے لکشمی پنڈت نے اپنی توانائیاں خواتین اور لڑکیوں کی صحت اور ان کی تعلیم تک رسائی یقینی بنانے کے لیے صرف کیں۔

نیویارک کے ہنٹر کالج کے پروفیسر مانو بھگوان نے بتایا کہ وہ اس قدر مقبول تھیں کہ ایک مرتبہ کسی ریسٹورنٹ میں لوگ ان سے آٹوگراف لینے کے لیے جمع ہو گئے جبکہ ان کے قریب بیٹھے ہالی وڈ کے معروف اداکار جیمز کیگنی پر کسی نے توجہ نہ دی۔

مانو بھگوان کا کہنا تھا کہ 1975 میں اپنی چچازاد بہن اور انڈیا کی وزیراعظم اندرا گاندھی پر تنقید کرنے کی پاداش میں انہیں گھر پر نظربند کر دیا گیا۔

اس وقت ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے آئینی حقوق معطل کر دیے گئے تھے۔ نظربندی کے بعد وجے لکشمی پنڈت نے اندرا گاندھی کے خلاف پرزور مہم چلائی اور آمریت کو روکنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کی جدوجہد کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کیا کچھ کرنا ممکن ہے، کیا کرنا ضروری ہوتا ہے اور آگے کیسے بڑھا جاتا ہے۔

اس تقریب میں سویڈن کی سٹاک ہوم یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ریبیکا ایڈیمی بھی شریک ہوئیں جن کی 'انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ تشکیل دینے والی ماؤں' پر تحقیق اقوام متحدہ میں منعقدہ حالیہ نمائش کا حصہ تھی۔

انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی تیاری میں حصہ لینے والی خواتین کے بارے میں ان کی بات چیت 2018 میں لیے گئے اس آڈیو انٹرویو میں سنیے (انگریزی)۔

Soundcloud.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواتین کے حقوق اقوام متحدہ کے تشکیل دینے خواتین کی انڈیا کی کے لیے

پڑھیں:

غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف

غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز

غزہ(آئی پی ایس )اردن اور جرمنی نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ پلان کے تحت فلسطینی پولیس کی معاونت کے لیے متوقع بین الاقوامی فورس کو اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔

یہ نام نہاد بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی جبکہ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔اردن کے وزیرِ خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔

تاہم اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا، الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزر خارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نا صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے، جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے۔اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو اس وقت لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل بیرون ممالک کا ایجنڈا ہمارے خلاف کام کررہا ہے: مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی کی سابق قیادت کا حکومتی وزرا اور فضل الرحمان سے ملاقاتوں کا فیصلہ شاہ محمود قریشی سے سابق رہنمائوں کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی پاکستان کے بلال بن ثاقب دنیا کے بااثر ترین کرپٹو رہنما ئوں میں شامل اینٹی ٹیرف اشتہار پر صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی، کینیڈین وزیرِاعظم TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • غزہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • امریکی صدر کے حکم پر کیریبین میں منشیات بردار کشتی پر حملہ، 3 افراد ہلاک
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور
  • غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
  • غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف
  • مقبوضہ کشمیر، 05 اگست 2019ء سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں تیزی آئی
  • خواتین کے سرطان کے 40 فیصد کیسز چھاتی کے سرطان پر مشتمل ہیں
  • الفاشر پر آر ایس ایف کے قبضے کے بعد شہر جہنم میں تبدیل ہو گیا ہے، اقوام متحدہ
  • غزہ، صورتحال میں بہتری کے لیے مزید تعاون درکار ہے: اقوام متحدہ