یوم شہادت حضرت علیؓ پر ملک کے مختلف شہروں میں جلوس برآمد ہوں گے
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
فائل فوٹو
آج اکیس رمضان کو یوم شہادت حضرت علی کرم اللّٰہ وجہ پر ملک کے مختلف شہروں میں جلوس برآمد ہوں گے۔
کراچی میں مرکزی جلوس دوپہر ایک بجے نشتر پارک سے برآمد ہوگا جو کہ کھارادر میں امام بارگاہ حسینیہ ایرانیاں پر ختم ہوگا۔
جلوس کی گزرگاہ پر آنے والی گلیوں اور سڑکوں کو کنٹینر لگا کر بند کردیا گیا ہے۔
کمشنر کراچی کی جانب سے یوم علی کے موقع پر شہر میں دفعہ 144 کے تحت موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
دوسری جانب کوئٹہ شہر میں جلوس کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے موبائل فون سروس بند کر دی گئی ہے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
بھارت: شہروں میں صفائی ستھرائی کرنے والوں کا فیصلہ ذات پات پر
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جولائی 2025ء) بھارت کے نیشنل ایکشن فار میکانائزڈ سینی ٹیشن ایکو سسٹم (این اے ایم ایس ٹی ای یا نمستے) کے اعداد و شمار کے مطابق، ہندوستان کے 38 ہزار 'سیور اینڈ سیپٹک‘ ورکرز میں سے کم از کم 77 فیصد دلت برادری سے ہیں۔
دلت ایک تاریخی طور پر پسماندہ گروہ ہیں، جو بھارت کی صدیوں پرانی امتیازی ذات پات کی درجہ بندی میں سب سے نچلی سطح پر سمجھے جاتے ہیں۔
بھارت: دلت لڑکی کا مبینہ ریپ واقعہ، 60 میں سے 43 ملزم گرفتار
بھارت میں دلت خواتین کے خلاف جنسی جرائم کبھی رکیں گے بھی؟
نمستے ایک ایسی تنظیم ہے جس کا مقصد صفائی کرنے والے ملازمین کی فلاح ہے، جبکہ مشینی صفائی والی مشینوں کے استعمال کو فروغ دینا اور دستی مزدوری کو کم کرنے کے لیے سبسڈی حاصل کرنا ہے۔
(جاری ہے)
2020 میں، بھارتی حکومت نے اگست 2021 تک ہاتھ سے صفائی کرنے کے خطرناک عمل کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کا اعلان کیا، جن بیت الخلاء، سیپٹک ٹینک اور سیور سے انسانی فضلے کو ہاتھ سے ہٹانا شامل تھا۔
یہ اقدامات وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے ذریعہ شروع کردہ ''کلین انڈیا انیشی ایٹیو‘‘ کا حصہ تھے جس کا مقصد ہاتھ سے صفائی کرنے پر پابندی کے قوانین کو نافذ کرنا تھا۔
صفائی کے کاموں میں 'پھنسے‘ دلتزمینی حقائق یہ ہیں کہ پابندی کے باوجود، ہاتھ سے انسانی فضلہ صاف کرنے کا یہ کام جاری ہے، جسے زیادہ تر دلت کرتے ہیں۔
میونسپل کی دیگر نوکریاں حاصل کرنے کی ان کی کوششوں کے باوجود، جن کے لیے وہ اہل ہیں، بہت سے دلتوں کا کہنا ہے کہ انہیں دوسرے کام سے محروم کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ صفائی کے کام پر مجبور ہو کر رہ گئے ہیں۔
’’حکومت اس سماجی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہی ہے کہ بھارت بنیادی طور پر ذات پات پر مبنی سماج ہے۔‘‘ یہ کہنا ہے بیزواڈا ولسن کا جو صفائی کام چاری اندولن (ایس کے اے) سے وابستہ ہیں۔
یہ ایڈووکیسی گروپ ہاتھ سے صفائی کرنے کے عمل کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ولسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''وہ جو دعویٰ کرتے ہیں وہ حقائق کے بارے میں کم اور اپنی رائے کے بارے میں زیادہ ہے۔‘‘
ولسن نے کہا، ''نمستے اسکیم کے تحت ہاتھ سے صفائی کرنے والوں کو خود مشینیں خریدنے کے لیے کہنا 'بحالی‘ کی ایک ظالمانہ شکل ہے۔
’’ذات پات کی بنیاد پر بھرتیوں کو ختم کرنے کے بجائے، یہ اسے صرف ایک جدید نام دینے کی کوشش ہے... نمستے ترقی کے طور پر ذات پات کی بنیاد پر امتیازی عمل جاری رکھنے کی کوشش ہے۔‘‘
ذات پات اور ترقی سے محرومیدلت برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو عام طور پر سب سے زیادہ معمولی اور خطرناک نوکریاں دی جاتی ہیں، جنہیں مذہبی اور سماجی معیارات کے مطابق 'ناپاک‘ سمجھا جاتا ہے۔
یہ نوکریاں نسلوں تک چلتی ہیں، جس سے خاندان سماجی اخراج اور معاشی محرومی کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔یہاں تک کہ دلتوں میں بھی، ذیلی ذات والمیکی کے ارکان کو تاریخی طور پر سخت سماجی، سیاسی اور معاشی محرومی، جبر اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے پروفیسر وویک کمار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ذات پات کو کسی کے ماضی کے کاموں کے نتیجے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو صفائی کرنے والوں کو دوسروں کے فضلے کو صاف کرنے کی زندگی گزارنے کی سزا دیتا ہے۔
‘‘کمار نے مزید کہا، ''اسے روحانی فریضہ یا سماج کی عظیم خدمت کہہ کر اس کی سرپرستی کرنا امتیازی سلوک کی تلخ حقیقت پر پردہ ڈالتا ہے۔‘‘
امتیازی ذات پات کے نظام سے آگے بڑھتے ہوئےدلتوں کو اکثر رہائش، تعلیم اور سماجی تعامل میں الگ تھلگ رہنے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذات پات اور صفائی ستھرائی کے کام کے درمیان تعلق دلتوں کو سماجی ترقی سے روکتا ہے کیونکہ دیگر ملازمتیں اور مواقع تک ان کی رسائی منع ہے۔
کمار نے کہا کہ ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک جدیدیت یا شہری طرز زندگی سے ختم نہیں ہوا، اس کے بجائے، یہ شہری مراکز میں پھیل گیا ہے اور صنعت، سول سوسائٹی، سیاست اور بیوروکریسی جیسے جدید اداروں میں داخل ہو گیا ہے۔
کمار کا ماننا ہے کہ پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک 'ڈگنٹی آف لیبر‘ یا کام کی عظمت کو اجاگر کیا جانا چاہیے تاکہ صفائی کے کام کا کسی کی پیدائش سے جڑے ہونے کے فرسودہ عقیدے کو ختم کیا جا سکے۔
وہ کہتےہیں، ''ایک بار جب ذات پات اور صفائی کے درمیان تعلق ٹوٹ جائے گا اور کام کرنے والے کو مناسب معاوضہ مل جائے گا، تو ہم دیکھیں گے کہ دیگر برادریاں بھی ان ملازمتوں میں قدم رکھ رہی ہیں۔‘‘
ادارت: کشور مصطفیٰ