بھارتی فضائیہ (IAF) کی تاریخ میں طویل ترین خدمات انجام دینے والا لڑاکا طیارہ مگ-21 ستمبر 2025  کو اپنی آخری پرواز کرے گا، یوں اس کا اہم لیکن متنازعہ دور اختتام پذیر ہونے کو ہے۔ جہاں ایک طرف مگ-21 کو 1971 کی جنگ سمیت کئی محاذوں پر اہم کامیابیوں کا سہرا دیا جاتا ہے، وہیں اسے  اڑتا ہوا تابوت کہہ کر بدنام بھی کیا گیا —ایک خطاب جو اس کے حادثات کے سبب اس کے ریکارڈ سے جڑا ہے۔

بھارتی میڈیا ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کی ایک رپورٹ میں بھارتی فضائیہ کے مورخ اور ماہر انچت گپتا نے مگ-21 کے کردار، کامیابیوں، چیلنجز اور اس کی بدنامی کی وجوہات کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ ان کے مطابق، مگ-21 کو بدنام کرنے کی بجائے ہمیں اس سسٹم پر سوال اٹھانا چاہیے جس نے ناقص تربیت اور غیر مناسب حکمت عملی کے ذریعے کئی نوجوان پائلٹس کی جانوں کو خطرے میں ڈالا۔

ایک انٹرسیپٹر، جو تربیتی طیارہ بن گیا

1963 میں روس سے حاصل کیے گئے مگ-21 طیارے کو اصل میں ہائی ایلٹیٹیوڈ انٹرسیپٹر کے طور پر خریدا گیا تھا، خاص طور پر امریکی U-2 جاسوس طیارے جیسے اہداف کے خلاف۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے زمین پر حملہ، فضائی دفاع، ریکی، حتیٰ کہ جیٹ تربیت جیسے فرائض میں جھونک دیا گیا — جو اس کے ڈیزائن کے دائرے سے باہر تھے۔

یہ بھی پڑھیے حادثات، ہلاکتیں اور بدنامی: بھارتی فضائیہ کا مگ 21 طیاروں سے جان چھڑانے کا فیصلہ

انچت گپتا نے کہا:

’مگ-21 کو تربیتی طیارے کے طور پر استعمال کرنا سب سے بڑی غلطی تھی۔ اسے سپرسونک کارکردگی کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن ہم نے اسے ایسے پائلٹس کو دینا شروع کر دیا جو صرف سب سونک تربیت لے کر آئے تھے۔ یہ فاصلہ تربیتی نظام کی سب سے بڑی خامی تھی۔‘

’اڑتا تابوت‘  کا خطاب

تقریباً 800 سے زائد مگ-21 طیارے IAF کے بیڑے کا حصہ رہے، جن میں سے 300 حادثات میں تباہ ہوئے۔ لیکن ماہرین کے مطابق یہ خود طیارے کی خرابی نہیں بلکہ ناقابلِ کفایت تربیت، ناقص منصوبہ بندی اور تجربہ کار پائلٹس کی کمی تھی، جس نے ان سانحات کو جنم دیا۔

گپتا کہتے ہیں کہ  حادثات کی تحقیقات میں جب ‘انسانی غلطی’ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ پائلٹ قصوروار ہے۔ یہ اس سسٹم پر سوال ہوتا ہے جس نے اس پائلٹ کو مکمل تیاری کے بغیر ایسی خطرناک مشق پر بھیج دیا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی فضائیہ کا مگ 21 طیارہ حادثے کا شکار، 3 افراد ہلاک

انچت گپتا نے بتایا کہ ان کے والد خود مگ-21 پائلٹ رہے ہیں، اور ان کے لیے یہ طیارہ محض ایک مشین نہیں، بلکہ جذباتی وابستگی کا نام ہے۔

’میں نے اپنے والد کو مگ-21 اڑاتے دیکھا ہے۔ ہماری صبح کا الارم وہی گرجدار آواز ہوا کرتی تھی۔ 1986 کی آپریشن براس ٹیکس میں میرے والد بھُج میں تھے، اور وہ روز ٹرینچز میں بیٹھ کر طیاروں کو گن کر واپس آتے دیکھتے تھے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ  ہر پائلٹ جو اس طیارے سے جُڑا، اس نے اسے چاہا۔ لیکن جب کوئی ساتھی حادثے میں مارا جاتا، تو صرف ایک زندگی نہیں، ایک پوری کہانی چلی جاتی تھی۔

کارکردگی کا ریکارڈ

باوجود تنقید کے، مگ-21 نے بھارتی فضائیہ کے کئی اہم جنگی مشنوں میں اہم کردار ادا کیا۔ 1971 کی جنگ میں ’رن وے بسٹر‘ کا لقب پایا۔ کارگل جنگ میں بھی اس کی موجودگی نمایاں رہی، جب اسکواڈرن لیڈر اجے آہوجا نے اس میں جان دی۔

آگے کیا؟ LCA سے امیدیں

مگ-21 کی رخصتی کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی جگہ کون لے گا؟ انچت گپتا کا جواب واضح ہے:

یہ بھی پڑھیں: بھارتی جنگی طیارے ’اڑتے تابوت‘ بن گئے، 550 سے زائد فضائی حادثات، 150پائلٹس ہلاک

’یہ جگہ ہندوستانی لائٹ کامبیٹ ایئرکرافٹ (LCA) کو لینی ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو نبھا سکے لیکن یہ ایک بڑی جوتی ہے جسے بھرنا آسان نہیں۔‘

خلاصہ: ناکامی نظام کی تھی، طیارے کی نہیں

مگ-21 کو ’اڑتا تابوت‘ کہہ کر صرف اس مشین پر الزام دینا انسانی غلطیوں کی اصل وجوہات پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارتی فضائیہ مگ 21.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بھارتی فضائیہ بھارتی فضائیہ مگ 21 کو

پڑھیں:

بھارتی حکومت نے سکھ یاتریوں کو بابا گورونانک کی برسی پر آنے سے روک دیا

 بھارت نے باباگورو نانک کی برسی پر سکھ یاتریوں کو پاکستان آنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔سکھ مذہب کے بانی باباگورونانک دیو جی کی 486 ویں برسی (جوتی جوت) کی تقریبات 22 ستمبرکو گردوارہ دربار صاحب کرتارپور میں منعقد ہوں گی، پاکستان کی دعوت کے باوجود بھارتی حکومت نے اپنے سکھ یاتریوں کو پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی۔واہگہ، اٹاری باردڑ اور کرتارپور کوریڈور بند ہونے کے باعث بھارت سے کوئی یاتری شریک نہیں ہو سکے گا، البتہ امریکا، برطانیہ اور یورپ سمیت دیگر ممالک سے سکھ عقیدت مند پہنچ رہے ہیں۔پاکستان سکھ گردوارہ پربندھک کمیٹی کے سربراہ سردار رمیش سنگھ اروڑہ نے کہا ہے کہ سکھوں کو ان کے مقدس مقامات کی یاترا سے روکنا بنیادی مذہبی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ’میچ کھیل سکتے ہیں، تو سکھ یاتری پاکستان کیوں نہیں جا سکتے؟‘
  • مشاہد حسین سید کا پاکستان کو بھارت کے ساتھ نہ کھیلنے کا مشورہ
  • بھارتی کرکٹ ٹیم یا بی جے پی کا اشتہاری بورڈ
  • چھ طیارے تباہ، جنگ ہاری، اب کہتے ہیں کرکٹ میں ہاتھ نہیں ملائیں گے: وزیر اطلاعات
  • کیا بھارت آپریشن سندور جیت گیا تھا؟ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ اپنی ہی ٹیم کے کھلاڑیوں پر برس پڑے
  • پاکستان کا کرپٹو کرنسی میں ابھرتا ہوا عالمی مقام، بھارتی ماہرین بھی معترف
  • 1965 جنگ کے 16ویں روز بھارتی فوج کو کتنا نقصان پہنچا؟
  • بھارتی حکومت نے سکھ یاتریوں کو بابا گورونانک کی برسی پر آنے سے روک دیا
  • ’اگر پہلگام کا مسئلہ ہے تو جنگ لڑیں‘، راشد لطیف بھارتی کھلاڑیوں کے رویے پر برس پڑے
  • صیہونی افواج جان بوجھ کر بچوں کو نشانہ بنا رہی ہے، غیر ملکی طبی ماہرین کی رپورٹ میں انکشاف