گزشتہ 6 روز سے استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے وفود کے درمیان انتہائی اہم مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ مذاکرات کا مقصد پاکستان کی طرف سے ایک ہی بنیادی مطالبے پر پیشرفت حاصل کرنا تھا۔

افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال ہونے سے مؤثر طور پر روکنا، اور بھارت کی پشت پناہی یافتہ دہشتگرد گروہوں، خصوصاً فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنا۔

یہ مذاکرات کئی مواقع پر تعطل کا شکار ہوتے دکھائی دیے۔ خاص طور پر گزشتہ روز تک صورتحال یہ تھی کہ بات چیت کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پائی تھی اور پاکستانی وفد واپسی کی تیاری کر چکا تھا۔

مزید پڑھیں:افغان طالبان کی اندرونی دھڑے بندیوں نے استنبول مذاکرات کو کیسے سبوتاژ کیا؟

تاہم، میزبان ممالک ترکیہ اور قطر کی درخواست اور افغان طالبان وفد کی طرف سے پہنچائی گئی التماس کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر امن کو ایک موقع دینے کے لیے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے پر رضامندی ظاہر کی۔

آج ہونے والے مذاکرات کے  دوران ایک عبوری باہمی رضامندی پر اتفاق کیا گیا، جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

01: فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دوحا میں طے شدہ فائربندی کو پختہ بننے کے قصد سے مذاکرات کیے۔

02: تمام پارٹیوں نے سیز فائر کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا (تاہم یہ رضامندی مشروط ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشتگردی نہ ہو: اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان طالبان فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے دہشتگرد گروہوں کے خلاف واضح، قابلِ تصدیق اور مؤثر کارروائی کریں گے)۔

مزید پڑھیں: اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدے کے بعد کون سا احتجاج؟ خواجہ آصف کی ٹی ایل پی پر تنقید

03: مزید تفصیلات طے کرنے اور ان پر عملدرآمد کے لیے اگلی ملاقات 6 نومبر کو استنبول میں ہوگی۔

04: ایک مشترکہ مانیٹرنگ اور ویریفیکیشن میکانزم تشکیل دیا جائے گا جو امن کو یقینی بنانے کے ساتھ خلاف ورزی کرنے والی پارٹی پر سزا عائد کرنے کا بھی اختیار رکھے گا۔

05: ترکیہ اور قطر نے بطور ثالث اور میزبان، فریقوں کی فعال شمولیت کو سراہا ہے اور اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ مستقل امن اور استحکام کے لیے دونوں اطراف کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔

مذاکرات کے دوران پاکستان کا وفد دلائل، شواہد اور اصولی مؤقف کے ساتھ ثابت قدم رہا۔ پاکستانی وفد نے جس استقامت، بصیرت اور منطقی بنیادوں پر اپنے مطالبات پیش کیے، وہ پیشہ ورانہ کمال کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ آخر کار عوام کے مفاد کی جیت ہوئی اور افغان وفد ایک عبوری مفاہمت پر آمادہ ہونے پر مجبور ہو گیا۔

اس تمام پس منظر میں جو عبوری پیشرفت حاصل ہوئی ہے، اسے نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے عوام بلکہ خطے میں امن، استحکام اور عالمی سیکیورٹی کے لیے ایک مثبت سنگِ میل قرار دیا جانا چاہیے۔ یہ ایک ایسی کامیابی ہے جو دشمنوں کی جانب سے پیدا کردہ رکاوٹوں، الزامات اور تخریبی ذہنیت کے باوجود دلیل، تدبر اور قومی مفاد پر ڈٹے رہنے کا نتیجہ ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے جو بات ہوگی تحریری ہوگی اور ترکیہ اور سعودی عرب کی گواہی میں ہوگی، وزیر دفاع خواجہ آصف

پاکستان نے جس سنجیدگی، فہم و فراست اور قومی وقار کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کی، وہ قابلِ تحسین ہے۔ ساتھ ہی ترکیہ اور قطر جیسے برادر ممالک کی میزبانی اور ثالثی نے اس عبوری کامیابی کو ممکن بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

پاکستان کی ریاست، قیادت اور عوام کی طرف سے امن کی کوششیں جاری رہیں گی، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی واضح اعلان ہے کہ ملکی خودمختاری، قومی مفاد اور عوام کی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتا ہرگز نہیں کیا جائے گا۔

پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اس مؤقف پر یکساں، پُرعزم اور مکمل طور پر متحد ہے، اور اپنی قوم کو یقین دلاتی ہے کہ وہ ہر داخلی و خارجی خطرے کا مقابلہ بھرپور تیاری، وسائل اور عزم سے کرے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

استنبول مذاکرات افغانستان پاکستان ترکیہ قطر.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: استنبول مذاکرات افغانستان پاکستان ترکیہ افغان طالبان اور افغان ترکیہ اور کے ساتھ کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

افغان طالبان کی ہٹ دھرمی کے سبب استنبول مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار



اسلام آباد:

استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے مذاکرات کا تیسرا راؤنڈ ہوا، افغان طالبان کی ہٹ دھرمی کے سبب معاملہ ڈیڈ لاک کی طرف چلا گیا۔

استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کا تیسرا دن 18 گھنٹے طویل بات چیت کے بعد اختتام پذیر ہوگیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دوران افغان طالبان کے وفد نے پاکستان کے خوارج (ٹی ٹی پی) اور دہشت گردی کے خلاف مصدقہ اور یقینی کارروائی کے پاکستانی مطالبے کو متعدد بار منطقی اور جائز قرار دیا۔میزبان ثالثوں کی موجودگی میں بھی افغان وفد نے اس بنیادی مسئلے کی سنگینی کو تسلیم کیا، تاہم ہر مرتبہ کابل سے موصول ہونے والی ہدایات کے بعد افغان وفد کا مؤقف تبدیل ہوتا رہا۔۔۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کابل سے آنے والے غیر منطقی اور ناجائز مشورے ہی بات چیت کے بے نتیجہ رہنے کا باعث بنے۔باخبر ذرائع نے بتایا کہ پاکستان اور میزبان فریق اب بھی نہایت سنجیدگی اور تدبر کے ساتھ ان پیچیدہ معاملات کو حل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں ذرائع کے مطابق، اب بھی ایک آخری کوشش جاری ہے کہ طالبان کی ہٹ دھرمی کے باوجود معاملات کو مکالمے اور منطق کے ذریعے حل کیا جائے اور مذاکرات ایک ممکنہ آخری دور کی جانب بڑھ رہے ہیں۔خالدمحمود ایکسپریس نیوز آسلام آباد ۔۔۔

Tagsپاکستان

متعلقہ مضامین

  • ترکیہ کی درخواست اور پاکستان کی رضامندی کے بعد افغان طالبان سے مذاکرات کا پھر آغاز
  • پاک افغان مذاکرات، ترکیہ کی درخواست پر پاکستان کی رضامندی
  • استنبول مذاکرات میں عبوری رضامندی — خطے میں امن و استحکام کی نئی امید
  • ترکیہ کی درخواست: پاکستان نے افغانستان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کردی
  • استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مابین مذاکرات ناکام ہو گئے
  • افغان طالبان کی ہٹ دھرمی کے سبب استنبول مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار
  • افغان طالبان کی ہٹ دھرمی کے سبب استنبول مذاکرات تعطل کا شکار
  • پاک افغان مذاکرات کی ناکامی، افغان طالبان کو فیل کرے گی
  • پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات کا دوبارہ آغاز