مذاکرات دوبارہ،کیا آخری موقع؟
اشاعت کی تاریخ: 31st, October 2025 GMT
پاکستان میزبانوں کی درخواست پر افغانستان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامند ہوگیا ہے۔ مذاکرات پاکستان کے اُسی مرکزی مطالبے پر ہوں گے کہ افغانستان دہشت گردوں کے خلاف واضح، قابلِ تصدیق اور مؤثر کارروائی کرے۔ مذاکرات کا پہلا دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر پر اتفاق کیا گیا تھا لیکن یہ چار روز مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوئے تھے۔
استنبول کے حالیہ مذاکرات کا آغاز تو مثبت تھا، تحریری معاہدے کی تیاری، چار روزہ نشستیں اور خارجہ پالیسی کے بولنے والوں کی زبانی یقین دہانیاں مگر جب نتیجہ صفر رہے، طالبان کے مطالبات بدل جائیں اور ہر ملاقات کے بعد نئے مسائل جنم لیں، تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ اصل میں گفتگو کے فقدان سے زیادہ دوعملی، مکاری اور جنگی معیشت کی بقا کی خواہش سے جڑا ہوا ہے۔ استنبول میں وقت ضایع ہوا، مگر اس سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ مذاکرات کا ایجنڈا بار بار تبدیل کیا گیا، پاکستان کی جانب سے پیش کیے گئے مرکزی مطالبات کو بارہا دہرایا جانے کے باوجود عملدرآمد کو مشکوک بنا دیا۔
قابلِ غور یہ بات ہے کہ جب تحریری معاہدے کی تیاری بھی کر لی گئی، نئی مانگیں سامنے آئیں تو یہ محض مذاکراتی خطا نہیں بلکہ کابل کی ایسی حکمتِ عملی کی علامت ہے جس میں شمولیت محض وقتی، مفاد پرستانہ اور اپنی گروہی بقا کو مقدم رکھنے والی نظر آتی ہے۔
یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ مذاکرات کا فریم ورک کنٹرول کرنے والی پارٹی اپنے اندرکسی ایسے مؤقف کی حامل نہیں جس پر قابلِ اعتماد، مستقل اور قابلِ تصدیق عمل ممکن ہو۔ جب ایک معاہدے پر دستخط کیے جانے کے بعد دوسرے خطے یا اس کے اندرونی عناصر کو شامل کر کے نئی شرطیں رکھی جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائی معاہدہ بذاتِ خود آدھا یا وقتی سمجھا جا رہا تھا اور یہی بات اعتماد کی ناکامی کو جنم دیتی ہے۔
یہاں ایک اور پہلو قابلِ غور ہے افغان طالبان نے بھارت کو اس کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، مگر وہ پاکستان کے بارے میں ’’پہلو تہی‘‘ کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نکالا جا سکتا ہے کہ طالبان خارجہ تعلقات اور خطے کے موازنہ میں بدنیتی رکھتے ہیں۔ یہاں قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ طالبان کے اپنے اندرونی گروہی ایجنڈے ہیں ، بعض عناصر دہشت گردی اور مسلح سرگرمیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، بعض اپنے علاقائی قوت کو برقرار رکھنے کے لیے ایسی پالیسی اپناتے ہیں جو معاملات کو بگاڑ دیتی ہے۔
کالعدم ٹی ٹی پیکا سوال کلیدی حیثیت رکھتا ہے، اگر افغان طالبان ٹی ٹی پی کو ایک دہشت گرد گروہ تسلیم کر لیں تو یہ ایک بڑا قدم ہوگا،کیونکہ اس کے بعد افغان رویے پر بعض شرائط لاگو کی جا سکتی ہیں اور اس کے خلاف افغانستان کے اندر کارروائی کے سیاسی جواز کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔
تاہم صرف تسلیم کرنا کافی نہیں، تسلیم کے ساتھ ساتھ روک تھام،گرفتاری، عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن، سرحدی نگرانی، معلومات کا تبادلہ اور منظم طریقے سے ان کے مالیاتی اور لاجسٹک نیٹ ورکس کا خاتمہ ضروری ہوگا۔ اس میں شفافیت اور قابلِ تصدیق طریقہ کارکا ہونا لازمی ہے، بصورتِ دیگر یہ صرف الفاظ کی حد تک رہ جائے گا۔ پاکستان کی توقعات درست ہیں، اگر کوئی گروہ دہشت گردی میں ملوث ہے تو اس کی شناخت کے بعد ٹھوس، مؤثر اور تصدیق شدہ اقدام ہونا چاہیے۔ اس سے نہ صرف دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئے گی بلکہ علاقے میں اعتماد کی فضا بھی بحال ہونے کی راہ پا سکتی ہے۔
اگرچہ پاکستانی وفد واپس بھی جانے والا تھا مگر اب استنبول میں قیام طویل کر دیا گیا ہے تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ فریقین نے کم از کم ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مگر سوال وہی ہے۔ کیا یہ ’’ایک اور موقع‘‘ حقیقی ہوگا یا محض وقت خریدنے کی کوشش؟ مذاکرات کے دوران معاہدے پر دستخط تو ہو سکتے ہیں، مگر اگر اس پر عملدرآمد کے لیے کوئی آزاد بین الاقوامی یا علاقائی میکانزم موجود نہ ہو تو وہ معاہدہ کاغذ کی حد تک محدود رہے گا۔
دوسری افغانستان میں منشیات کی پیداوار کا تیزی سے بدلتا ہوا نقشہ بھی مسئلے کو سنگین بناتا ہے۔ افغانستان منشیات کا گڑھ ہے، رپورٹیں بتاتی ہیں کہ افغانستان میں مصنوعی منشیات، اور نشہ آور میٹریل کی پیداوار وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ یہ تبدیلی صرف ایک منشیات کی شکل کی تبدیلی نہیں، یہ اس بات کی علامت ہے کہ طالبان کی منشیاتی معیشت کا حجم بڑھ رہا ہے، نئی طرح کے جرائم، منی لانڈرنگ اور مسلح گروہوں کی مالی معاونت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جب افغانستان کی زرعی زمینیں بھی منشیات کے لیے مخصوص لیبارٹریوں میں بدلنے لگیں، تو ریاستی کنٹرول مزید کمزور ہوتا ہے اور دولت کا لالچ کئی سو گناہ بڑھ جاتا ہے۔
یہ اقتصادی تبدیلی ایک بڑے طویل المدتی مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے، جنگی معیشت دہشت گردی کو جاری رکھنے کی کشش ہے بلکہ ان اجزاء کے ذریعے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو مضبوط کرتی ہے جو امن کے وقت ٹوٹ نہیں پاتے۔ اسی لیے طالبان کی ’’ جنگی معیشت کو بچانے‘‘ جیسی باتیں سننے میں آتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے مالیاتی ذرائع کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں جو ان کی بقا میں اہم ہیں، اگر یہی ذرائع دہشت گردی کے ذریعے باقاعدہ فنڈنگ، منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی یا دیگر غیرقانونی نیٹ ورکس ہیں، تو بنیادی مسئلہ صرف عسکری یا سفارتی نہیں، بلکہ یہ معاشی ڈھانچے کی تبدیلی کا بھی ہے۔
یہاں یہ بھی اہم ہے کہ بین الاقوامی برادری کا کردار کیا ہوگا؟ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں جب بھی کسی علاقائی یا عالمی پلیئرکا کردار آتا ہے، تو اس کا وزن اور اثر غالب طور پر سیاسی اور اقتصادی دونوں سطحوں پر پڑتا ہے۔ قطر میں دوحہ کی ثالثی نے پہلے بھی کچھ پیش رفت کی، مگر مستقل امن کے لیے ایک جامع اور بین الاقوامی طور پر مانیٹرڈ فریم ورک لازمی ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور اہم خطے کے ملک جیسے چین، روس، ایران اور امریکا کو اگر حقیقتاً امن کی تشکیل میں حصہ ڈالنا ہو گا ۔
ٹی ٹی پی اور اس جیسی تنظیموں کے خلاف مربوط قانونی اور فوجی حکمتِ عملی مرتب کی جانی چاہیے۔ اس میں یہ ضروری ہے کہ پاکستان اپنے اندرونی ادارتی صلاحیتوں کو مضبوط کرے، عدالتی نظام، خفیہ اداروں کے ساتھ شفاف شواہد کا تبادلہ اور دہشت گردی کے خلاف قانونی فریم ورک کی مضبوطی۔ افغانستان کو یہ باورکروایا جائے کہ دہشت گردی کے خلاف قدم اس کی خود مختاری کے خلاف نہیں بلکہ اس کے داخلی استحکام کی ضمانت ہیں۔ اگر طالبان اپنے زیرِکنٹرول علاقوں میں اس طرح کے گروہوں کو پناہ دیتے ہیں تو یہ نہ صرف پاکستان کے لیے خطرہ ہے بلکہ خود افغانستان کے لیے بھی ایک اندرونی خطرہ ہے جو اس کی بین الاقوامی قبولیت اور داخلی قانون سازی کو متاثر کرتا ہے۔
بھارت کے ساتھ طالبان کی یقین دہانی اور پاکستان کے خلاف نسبتاً غفلت کی پالیسی کی روشنی میں یہ ضروری ہے کہ علاقائی ممالک اس بات کو سمجھیں کہ افغانستان میں طالبان رجیم پورے خطے کو متاثر کر رہی ہے۔ چین، روس، ایران، اور امریکا کو افغانستان میں استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں بروئے کار لانی ہوں گی، چاہے ان کے علاقائی مفادات مختلف ہوں ،کیونکہ ایک ایسی رجیم جو دہشت گردی، منشیات اور آوارہ معاشی سرگرمیوں کی پشت پناہ بن جائے تو سب کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بین الاقوامی دباؤ طالبان پر بھرپور انداز میں ڈالنا چاہیے۔
مذاکرات کی بحالی ایک اچھی شروعات ہے، مگر اس کے لیے شواہد پر مبنی، شفاف اور قابلِ تصدیق میکینزم لازمی ہیں، اگر طالبان واقعی امن چاہتے ہیں تو انھیں دکھانا ہوگا کہ وہ اپنے عزم میں سنجیدہ ہیں، نہ صرف الفاظ میں بلکہ عمل میں۔ اس عمل میں ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کو واضح طور پر دہشت گرد تسلیم کرنا، ان کے خلاف کارروائی کرنا، منشیات کی پیداوار اور مارکیٹنگ کے خلاف جامع اقدامات اور سرحدی نگرانی کے لیے جدید ٹیکنالوجی و بین الاقوامی نگرانی کا استعمال شامل ہونا چاہیے۔
امن کی یہ راہ مشکل ہے، اگر اس میں سنجیدہ نہیں رہیں گے تو وقت ضایع ہونے کے ساتھ ساتھ خطے میں عدم استحکام گہرا ہوتا جائے گا اور تب حالات ہر فرد، ہر قوم اور ہر ریاست کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔ امن کی کوششیں ایک مستقل، شفاف اور قابلِ تصدیق بنیاد پر ہونی چاہئیں، ورنہ مذاکرات نہ صرف وقت کا ضیاع ثابت ہوں گے بلکہ مستقبل میں ان کا حوالہ دینا بھی مشکل ہو جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغانستان میں بین الاقوامی دہشت گردی کے پاکستان کے مذاکرات کا اور قابل کے ساتھ کے خلاف کے بعد کے لیے
پڑھیں:
استنبول مذاکرات: جنوبی ایشیا کا نیا بحران
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251030-03-6
 میر بابر مشتاق
 بحیرۂ مرمرہ کے کنارے، ترکی کے تاریخی شہر استنبول میں، جہاں کبھی خلافت ِ عثمانیہ کے فیصلے امت ِ مسلمہ کی تقدیر بدل دیتے تھے، آج ایک نیا فیصلہ لکھا جا رہا ہے۔ مگر اس بار قلم سپہ سالاروں کے نہیں بلکہ سفارت کاروں کے ہاتھ میں ہے۔یہ مذاکرات بظاہر پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ہیں، مگر حقیقت میں ان کے اثرات جنوبی ایشیا کے تزویراتی توازن تک پھیل چکے ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ آیا یہ خطہ کسی نئے امن کی طرف بڑھ رہا ہے یا ایک اور عسکری تصادم کی طرف۔گزشتہ ہفتوں میں پاک – افغان سرحد پر شدید جھڑپوں کے بعد 19 اکتوبر کو دوحا میں عارضی جنگ بندی طے پائی، جس کے بعد ترکی کی ثالثی میں استنبول میں باقاعدہ مذاکرات شروع ہوئے۔ مقصد یہ تھا کہ دونوں ممالک ایک مستقل سیز فائر، بارڈر میکانزم، اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف مشترکہ حکمت ِ عملی پر متفق ہو سکیں۔ لیکن 28 اکتوبر تک کوئی نمایاں پیش رفت سامنے نہیں آ سکی۔ ان مذاکرات نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ افغانستان میں امن کی سب سے بڑی رکاوٹ طالبان کی داخلی کمزوری اور اقتدار کی کشمکش ہے۔
 طالبان حکومت اس وقت تین بڑے دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے 1۔ قندھار گروہ: جو امیر المؤمنین ہیبت اللہ اخوندزادہ کے زیر ِ اثر ہے اور سخت مذہبی احکامات، عسکری کنٹرول اور شرعی اجارہ داری پر یقین رکھتا ہے۔2۔ کابل دھڑا: جو نسبتاً شہری، سیاسی اور دنیا سے جڑا ہوا طبقہ ہے، جس کی توجہ معاشی بحران اور بین الاقوامی تعلقات پر مرکوز ہے۔3۔ خوست گروہ: جو سرحدی قبائل، پاکستان سے روابط، اور مقامی سیاست میں اثر رسوخ رکھنے والے عناصر پر مشتمل ہے۔
 استنبول مذاکرات کے دوران یہ تقسیم پوری شدت سے نمایاں ہوئی۔ ایک ہی افغان وفد تین مختلف سمتوں میں بٹا ہوا نظر آیا۔ پاکستان نے جب ٹی ٹی پی کے خلاف عملی کارروائی اور سرحد پار حملوں کی روک تھام کے لیے تحریری یقین دہانی مانگی تو قندھار گروہ نے خاموشی سے اس کی تائید کی، مگر کابل دھڑے نے اچانک شرط عائد کر دی کہ امریکا کو ضامن کے طور پر شامل کیا جائے، بصورتِ دیگر کوئی معاہدہ ممکن نہیں۔ یہ شرط نہ صرف پاکستان بلکہ ترکی اور قطر کے ثالثوں کے لیے بھی حیران کن تھی۔ دراصل اس کے پیچھے سیکورٹی نہیں بلکہ مالی و سیاسی مفاد کارفرما تھا۔ کابل دھڑا سمجھتا ہے کہ اگر امریکا دوبارہ مذاکراتی عمل میں شامل ہو جائے تو بین الاقوامی امداد کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ 2021 کے انخلا کے بعد افغانستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق نصف سے زیادہ آبادی غذائی قلت کا شکار ہے، اور مجموعی پیداوار میں بیس فی صد کمی آئی ہے۔ استنبول مذاکرات کے دوران افغان وفد کا رویہ اسی داخلی انتشار کا آئینہ دار تھا۔ اجلاس بار بار ملتوی ہوتے رہے، وفد کے ارکان کابل سے ہدایات لیتے، واپس آ کر پہلے سے طے شدہ نکات پر اعتراضات اٹھا دیتے۔ ترک اور قطری ثالثوں نے بھی اعتراف کیا کہ اصل مسئلہ پاکستان کے مطالبات نہیں بلکہ طالبان کے باہمی اختلافات ہیں۔
 یہ روش نئی نہیں۔ دوحا میں امریکا کے ساتھ مذاکرات کے دوران بھی طالبان نے وقت حاصل کرنے اور مخالف کو تھکانے کی یہی حکمت ِ عملی اپنائی تھی۔ اْس وقت وہ کامیاب ہو گئے کیونکہ امریکا انخلا کے لیے بے تاب تھا۔ مگر پاکستان کے ساتھ اب یہ چال کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پاکستان نے سرحدی باڑ مکمل کی، انٹیلی جنس تعاون بڑھایا، اور عسکری آپریشنز دوبارہ منظم کیے۔ چین اور روس بھی اس موقف پر متفق ہیں کہ طالبان اگر دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی جاری رکھتے ہیں تو افغانستان سرمایہ کاری کے قابل نہیں رہے گا۔ طالبان کے اندر یہ غلط فہمی شدت اختیار کر چکی ہے کہ ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کو پاکستان کے خلاف ایک تزویراتی ہتھیار کے طور پر رکھا جا سکتا ہے۔ یہ سوچ نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ بلکہ خود طالبان کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ حالیہ مہمند، باجوڑ اور خیبر میں ہونے والے حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ طالبان کی خاموش حمایت نے دہشت گردی کو نئی زندگی دی ہے۔ پاکستان کا مؤقف دوٹوک ہے، افغان سرزمین کسی صورت پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ اگر طالبان واقعی ریاستی ذمے داریوں کو سمجھتے ہیں تو انہیں اپنی سرزمین سے دہشت گرد نیٹ ورکس کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
 استنبول مذاکرات میں ترکی نے بطور ثالث ایک دلچسپ تجویز پیش کی جسے غیر رسمی طور پر ’’سیریا ماڈل‘‘ کہا جا رہا ہے۔ اس کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ، بارڈر سیکورٹی کوآرڈی نیشن، اور مشترکہ انسدادِ دہشت گردی کارروائیوں کا نظام قائم کیا جائے۔ جس میں ترکی اور قطر بطور مبصر شامل ہوں تاکہ غلط فہمیوں کا بروقت ازالہ ہو سکے۔ یہ تجویز اعتماد سازی کی ایک نئی راہ کھول سکتی تھی، مگر طالبان نے اسے اپنی خودمختاری کے منافی قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اس ردعمل نے ثالثی کے عمل کو کمزور کر دیا، اور مذاکرات کے امکانات مزید دھندلا گئے۔ دوسری طرف، عسکری ماہرین کے مطابق طالبان دراصل بھارت کو ایک اسٹرٹیجک واک اوور دینے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
 رپورٹس کے مطابق بھارت آنے والے دنوں میں پاکستان پر دو محاذی دباؤ بڑھانے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایک جانب بحیرۂ عرب اور سرکریک میں ممکنہ کارروائیاں، اور دوسری جانب کنٹرول لائن پر جارحیت۔ ایسے حالات میں طالبان دانستہ طور پر پاکستان کے ساتھ کسی مستقل معاہدے سے پہلوتہی کر رہے ہیں تاکہ پاکستان مغربی سرحد پر مطمئن نہ رہے۔ یہ صورتحال اسلام آباد کے لیے ایک سنگین تزویراتی چیلنج ہے۔ بیک وقت مغربی، مشرقی اور بحری تین محاذوں پر دباؤ کسی بھی ملک کے لیے خطرناک امتحان ہوتا ہے۔ اگر طالبان اپنی موجودہ روش پر قائم رہے تو بھارت اس صورتحال کا سیاسی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ خاص طور پر نریندر مودی، جو ’’پاکستان کو نیچا دکھانے‘‘ کے بیانیے سے اپنی گرتی مقبولیت کو سہارا دینا چاہتا ہے۔ طالبان کی اندرونی تقسیم دراصل ایک گہرا فکری بحران ہے۔ قندھار کی مذہبی شدت، کابل کی سیاسی موقع پرستی، اور خوست کی قبائلی خودمختاری مل کر ایک ایسی حکومت تشکیل دیتے ہیں جو نہ متحد ہے نہ مستحکم۔ امیر المؤمنین کی خاموشی، ملا برادر اور سراج الدین حقانی کے الگ بیانیے، اور وزارتِ خارجہ کے متضاد مؤقف۔ سب مل کر اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ طالبان حکومت فکری طور پر ایک واضح سمت سے محروم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے لیے ہر مذاکراتی میز انتشار کا مظہر بن جاتی ہے۔ وہ ایک طرف اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں، دوسری طرف عالمی امداد کے حصول کے لیے مغرب کی خوشنودی کے طلبگار ہیں۔ یہ دوغلا رویہ انہیں نہ صرف دنیا سے دور کر رہا ہے بلکہ اپنے عوام کے اعتماد سے بھی محروم کر رہا ہے۔ پاکستان کے لیے اب دو ہی راستے باقی ہیں یا تو خاموش تماشائی بن کر دہشت گردی کے پھیلاؤ کا انتظار کرے، یا ایک فعال اور مربوط علاقائی حکمت ِ عملی اختیار کرے۔
 اسلام آباد کو چین، سعودی عرب، قطر اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ مل کر طالبان پر دباؤ بڑھانا ہوگا تاکہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کریں۔ یہی عملی راستہ ہے، کیونکہ افغانستان میں امن کے بغیر نہ سی پیک ممکن ہے، نہ وسط ایشیائی توانائی منصوبے، اور نہ جنوبی ایشیا میں کسی پائیدار معاشی نظام کی بنیاد۔ استنبول مذاکرات کی ناکامی پاکستان کی سفارتی ناکامی نہیں بلکہ طالبان کی سیاسی ناپختگی کا شاخسانہ ہے۔ اگر طالبان نے اپنی اندرونی اختلافات کو ختم نہ کیا اور دہشت گرد گروہوں کو اقتدار کے تحفظ کا ذریعہ بنائے رکھا، تو افغانستان ایک بار پھر عالمی تنہائی اور تباہی کے دہانے پر کھڑا ہو گا۔ ترکی کی ثالثی اس وقت ایک نازک موڑ پر ہے۔ امن کی باتیں جاری ہیں مگر فضا میں بارود کی بو پھیلی ہوئی ہے۔ طالبان اگر واقعی اسلامی دنیا کے ایک ذمے دار حکمران بننا چاہتے ہیں تو انہیں سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کی سرپرستی اسلام نہیں سیاسی خودکشی ہے۔
 پاکستانی نژاد آسٹریلوی شہری پر مبینہ پولیس تشدد، تحقیقات جاری
پاکستانی نژاد آسٹریلوی شہری پر مبینہ پولیس تشدد، تحقیقات جاری