وزراء کیلئے اچھی، یوٹیلیٹی سٹورزملازمین کیلئے بری خبر
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمود سمیر )وفاقی وزراء ، وزرائے مملکت اور مشیروں کی تنخواہوں میں 159فیصد سے لیکر 188فیصد تک کا اضافہ کر دیا گیا ہے اور وزراء کو عیدالفطر کی بڑی خوشخبری وزیراعظم نے سمری کی منظوری دیکر دی ہے۔ وزراء کی تنخواہ اور الائونسز بڑھ
کر اب مجموعی طور پر 5لاکھ 19ہزار روپے ماہانہ ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل وفاقی وزیرکی تنخواہ 2لاکھ اور وزیر مملکت کی تنخواہ 1لاکھ 80روپے تھی ۔ وزراء کی یہ تنخواہ 12سال کے بعد بڑھائی گئی ہے۔ اس سے قبل ارکان پارلیمنٹ جن میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران شامل ہیں ان کی تنخواہیں بھی بڑھائی جا چکی ہیں اور اب وفاقی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں برابر ہوگئی ہیں ۔ تنخواہوں میں اضافے کا یہ سلسلہ پنجاب اسمبلی سے شروع ہوا تھا۔ ایک طرف ارکان پارلیمنٹ اور وزراء کی تنخواہوں میں بھاری اضافہ کیا جارہا ہے تو دوسری طرف افسوسناک امر یہ ہے کہ 1700 یوٹیلٹی اسٹورز بند کرنے، 6 ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ وزیر خزانہ تحریری طور پر قومی اسمبلی آگاہ کر چکے ہیںکہ فی الحال سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور الائونسز میں اضافے کی کوئی تجویز نہیں ہے ۔ حکومتی پالیسیوں میں اس حوالے سے بہت بڑا تضاد ہے ، ایک طرف وزیراعظم شہبازشریف اپنی تقاریر میں مسلسل یہ کہہ رہے ہیںکہ تنخواہ دار طبقے نے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کیا اور دوسری جانب ان کی کابینہ کے اہم وزیر اسمبلی میں تحریری طور پر یہ لکھ کر دے رہے ہیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ زیر غور نہیں ہے، یہ کتنے افسوس کی بات ہے تین چار سال سے مہنگائی کی جو لہر آئی اس میں تنخواہ دار طبقہ پس کر رہ گیا ہے ، سرکاری ملازمین ہوں یا نجی شعبے کا تنخواہ دار طبقہ ہو اسے دو وقت کی روٹی کھانے کے لیے بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ بجلی اور دیگر یوٹیلٹی بلز میں جو اضافہ ہوا وہ بھی ناقابل برداشت ہے،ہم یہ نہیںکہتے کہ وزراء کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہونا چاہئے لیکن جس شرح سے یہ اضافہ ہوا ہے کیا اس کا نصف بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں حکومت اضافہ کرنے کے لیے تیار ہے؟ حال ہی میں کابینہ میں توسیع کی گئی اور کابینہ کے ارکان کی تعداد 55سے زائد ہو چکی ہے ،کیا یہ قومی خزانے پر بوجھ نہیں ہے ، یوٹیلٹی سٹورزکے ملازمین کو ہزاروںکی تعداد میں بیروزگارکرنا کوئی درست عمل نہیں ہے ۔اگر یہ ادارہ خسارے میں ہے اور مبینہ طور پرکرپشن بھی ہو رہی ہے تو یہ ملازمین اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے ، ذمہ دار وزراء ، وفاقی سیکرٹریز ،مینجنگ ڈائریکٹرز اور دیگر سینئر افسران ہوں گے جو لاکھوں روپے کی تنخواہیں وصول کرتے رہے۔اداروں کو بند کرنا مسائل کا حل نہیں ہے اداروں کو درست سمت میں لانا ایک چیلنج بھی ہوتا ہے اور اس چیلنج کو جو قبول کرکے کامیاب ہو اسے ہی مقدرکا سکندر قرار دیا جاتا ہے ۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کی تنخواہوں میں سرکاری ملازمین ملازمین کی کی تنخواہ وزراء کی نہیں ہے
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کا تخواہوں میں 50 اور پنشن میں 100 فیصد اضافے کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی نے بجٹ 2025-26 میں سرکاری ملازمین کی کم از کم تنخواہ 50 ہزار روپے کرنے اور تنخواہوں میں 50 فیصد اور ای او بی آئی کی پنشن میں 100 فیصد اضافہ کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی لیبر ونگ کے انچارج چودھری منظور نےاسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 500 فیصد اضافہ نہیں مانگ رہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافہ کیا جائے اور کم ازکم تنخواہ 50 ہزار کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک سروے کے مطابق پاکستان کی 44 فیصد آبادی یعنی 10 کروڑ سے زاید پاکستانی غربت کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ مطالبات صدر پاکستان آصف علی زرداری سے شیئر کیے ہیں جنہوں نے ان مطالبات کو پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی سے شیئر کرنے کا کہا۔
چودھری منظور نے پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ صنعتی مزدوروں کو علاج کی سہولت دی جائے، ڈیتھ گرانٹ کو 8 سے بڑھا کر 10 لاکھ کیا جائیے اور میرج گرانٹ کو 4 لاکھ سے بڑھا کر 5 لاکھ روپے کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ای او بی آئی کی پنشن اس وقت 10 ہزار روپے کے قریب ہے اس میں 100 فیصد اضافہ کیا جائے۔
چوہدری منظورنےکہا کہ پنجاب میں ورکرز ویلفیئر فنڈ کو دوسری جگہ استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ خلاف قانون ہے اسے دوسری جگہ استعمال نہیں کر سکتے۔
ان کا کہنا تھاکہ نجکاری کی پالیسی کو فوری بند کیا جائے، یوٹیلیٹی اسٹورز کو بند کرکے 5 ہزار ملازمین کو نکالا جا رہا ہے، یہ حکومتی وعدے کے خلاف ہے۔
چودھری منطور نے کہا کہ اگر یہ مطالبات نہیں مانے جاتے تو ہم اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے، کل بجٹ کے موقع پر کچھ تنظیمیں مظاہرہ کریں گی ہم ان مظاہروں میں شریک ہوں گے۔