لاکھوں پاکستانی مرنے کے بعد بھی نادرا ریکارڈ میں زندہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 مارچ 2025ء) پاکستان کی حکومت نے اب ماضی میں وفات پا جانے والے ان افراد کے شناختی کارڈ منسوخ کرنے کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو کو دستیاب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ملک بھر میں 70 لاکھ سے زائد ایسے افراد کے شناختی کارڈ اب بھی فعال ہیں، جن کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹس یونین کونسل سے جاری ہو چکے ہیں۔
ریکارڈ میں فرق کیوں؟نادرا کے ترجمان سید شباہت علی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یونین کونسلوں کے ریکارڈ میں یہ افراد وفات پا چکے ہیں لیکن نادرا کے ڈیٹا بیس میں وہ تاحال فعال شمار ہو رہے ہیں کیونکہ ان کے رشتہ داروں نے نادرا دفتر آ کر ان کے شناختی کارڈ منسوخ نہیں کروائے۔ شباہت علی کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں آگاہی کا نہ ہونا بھی شناختی کارڈ منسوخی کے مسئلے کی بڑی وجہ ہے، کیونکہ دیہات میں رہنے والے بیشتر لوگ قانونی تقاضوں سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے وہاں شناختی کارڈ کی منسوخی کا رجحان نسبتاً کم ہے۔
(جاری ہے)
فیصل شہزاد، ریکارڈ کلرک یونین کونسل بہارہ کہو، کے مطابق بیشتر شہری لاعلم ہوتے ہیں کہ پیدائش یا وفات کے اندراج کے بعد ان معلومات کا نادرا میں بھی اندراج ضروری ہے، ''لوگ سمجھتے ہیں کہ یونین کونسل میں اندراج کے بعد ان کا کام مکمل ہو گیا۔ یونین کونسل کی سطح پر کوئی باضابطہ آگاہی نظام موجود نہیں، جس کی وجہ سے شہری اس عمل سے بے خبر رہتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر نادرا جاتے ہیں۔
‘‘پاکستان میں شناختی کارڈ سے محروم لاکھوں افراد مشکلات کا شکار
سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹوز (سی پی ڈی آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مختار احمد کے مطابق ماضی میں گاؤں میں ایک چوکیدار کا نظام موجود تھا، جو کسی بھی وفات کی اطلاع دے کر اس کی رجسٹریشن کرواتا تھا، تاہم اب یہ نظام تقریباً ختم ہو چکا ہے، '' اس کے نتیجے میں وفات شدگان کی رجسٹریشن کی ذمہ داری خاندان کے افراد پر آ گئی ہے، جو اکثر تاخیر یا کوتاہی برتتے ہیں۔
مزید برآں، کوئی جامع نظام موجود نہیں جو وقتاً فوقتاً سروے کرکے یہ معلوم کرے کہ کن افراد کا انتقال ہو چکا ہے اور ان کی رجسٹریشن نہیں ہوئی۔‘‘ شناختی کارڈ کی بروقت منسوخی کیوں ضروری؟نادرا ترجمان شباہت علی کے مطابق کسی بھی متوفی شخص کا شناختی کارڈ نادرا کے ریکارڈ سے اس وقت تک نہیں نکالا جا سکتا، جب تک اس کے لواحقین خود آ کر شناختی کارڈ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ جمع نہ کرائیں، کیونکہ یہ ایک حساس قانونی معاملہ ہے۔
نادرا کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ ایک قانونی تقاضا ہے، جسے قریبی رشتہ دار بلا معاوضہ کسی بھی نادرا سینٹر میں مکمل کر سکتے ہیں۔ اگر شناختی کارڈ بروقت منسوخ نہ کرایا جائے تو بعد میں ورثا کو قانونی دستاویزات کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان کی سوا کروڑ خواتین، جو ’ہیں، پر نہیں ہیں‘
مختار احمد علی کے مطابق نادرا کے ڈیٹا بیس میں ایسے افراد کا ریکارڈ موجود ہونے کی ایک بڑی وجہ ڈیتھ رجسٹریشن کا کمزور نظام ہے۔
الیکشن کمیشن اور اموات کا ریکارڈاسلام آباد میں ای سی پی کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ووٹر لسٹوں کی ماہانہ اپ ڈیٹ کے لیے نادرا سے نئے، ترمیم شدہ اور منسوخ شدہ این آئی سیز کا ڈیٹا حاصل کیا جاتا ہے، جس کی تصدیق کے بعد رجسٹریشن افسران CERS کے ذریعے فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرتے ہیں۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت، مقامی حکومتوں سے بھی سہ ماہی بنیادوں پر فوت شدہ ووٹرز کا ڈیٹا لیا جاتا ہے اور تصدیق کے بعد نام انتخابی فہرستوں سے خارج کیے جاتے ہیں۔
نادرا کا ڈیٹا بیس ایک بنیادی چیکمختار احمد کا کہنا تھا کہ نادرا کا ڈیٹا بیس ایک بنیادی چیک ہے، اس لیے اس کا درست ہونا نہایت ضروری ہے۔ تاہم شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی فرد کے انتقال کے بعد اس کا شناختی کارڈ واپس کریں اور اس کی وفات کو یونین کونسل میں رجسٹرڈ کروائیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ نادرا کا نظام مجموعی طور پر بہت اچھا ہے لیکن وفات شدگان کی رجسٹریشن کے حوالے سے مزید بہتری کی ضرورت ہے۔
شبیر احمد، سابقہ کونسلر بہارہ کہو، کے مطابق باضابطہ آگاہی مہم نہ ہونے کی وجہ سے خصوصاً دیہی علاقوں کے لوگ اس عمل سے لاعلم رہتے ہیں۔ وہ بروقت اپنوں کی وفات، بچوں کی پیدائش اور طلاق کا اندراج نہیں کراتے، جس کے نتیجے میں شناختی کارڈ بنوانے یا دیگر قانونی معاملات کے دوران نادرا میں ضروری دستاویزات کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شبیر احمد نے تجویز دی ہے کہ حکومت اور نادرا کو مؤثر نظام وضع کرنا چاہیے تاکہ وفات شدگان کی بروقت رجسٹریشن یقینی بنائی جا سکے اور عوام میں شعور اجاگر کیا جائے تاکہ وہ سرکاری ریکارڈ کی درستی میں اپنا کردار ادا کریں۔
غلط استعمال کتنا بڑا خطرہ؟قانون دان ساجد شاہ کے مطابق، متوفی افراد کے شناختی کارڈز کی بروقت منسوخی قانونی اور شہری ذمہ داری ہے تاکہ انہیں انتخابی دھاندلی، دہشت گردی اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں استعمال ہونے سے روکا جا سکے، '' بے پروائی، لاعلمی یا غیر قانونی فوائد حاصل کرنے کی نیت سے منسوخی میں تاخیر پاکستان پینل کوڈ کے تحت فراڈ کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے شناختی کارڈ یونین کونسل کی رجسٹریشن کے مطابق نادرا کے ڈیٹا بیس کا ڈیٹا کے بعد
پڑھیں:
ارض کشمیر جنت نظیر کے عظم فرزند غنی بھٹ قضائے الٰہی سے وفات پا گئے
سٹی42: کشمیر کی آزادی کے لئے زندگی بھر بھارتی سامراج سے لڑنے اور طویل ترین جدوجہد کرنے والے ارض کشمیر جنت نظیر کے عظم فرزند غنی بھٹ قضائے الٰہی سے وفات پا گئے۔
پروفیسر غنی بھٹ کشمیر کی آزادی کی تحریک کے نا قابلِ شکست سرخیل تھے، انہوں نے بچپن سے مرتے دم تک آزادی کی جدوجہد میں پہلی صف میں رہ کر عدم تشدد کی تلاور سے پر امن لڑائی لری اور غاصب کو بد ترین شکستوں سے دوچار کئے رکھا۔
بلاول بھٹو زرداری کا اپنی سالگرہ سیلاب زدگان کے نام کرنے کا فیصلہ
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
ارضِ کشمیر اپنے جاں نثار اور جری فرزند سے محروم ہو گئی اورتحریکِ آزادیٔ کشمیر آج ایک عظیم کارکن سےمحروم ہو گئی، تحریک آزادی کے کارکن انتھک محنت کرنے اور کبھی سمجھوتہ نہ کرنے والے اوللعزم رہنما سے محروم ہوگئے۔
غنی بھٹ پہشہ کے لحاظ سے پروفیسر تھے، انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہی جدوجہد کے کارزار میں قدم رکھ دیا تھا اور زندگی کے آخری دم تک غاصب کو سخت جدوجہد سے ناکوں چنے چبوائے۔
ایشیا کپ ٹی ٹوینٹی ٹورنامنٹ؛ پاکستان متحدہ عرب امارات میچ کا ٹاس ہو گیا
پروفیسر غنی بھٹ کل جماعتی حریت کانفرنس کے متحدہ پلیٹ فارم پر مادرِ وطن کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے تمام کشمیریوں کو متحد رکھنے والی عظیم قوتِ محرکہ تھے۔ وہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چئیر مین بھی رہے اور دوسری پوزیشنوں مین بھی خدمت کرتے رہے۔
پروفیسر عبدالغنی بھٹ کا انتقال سوپور میں ان کے گھر پر ہوا۔
پروفیسر بھٹ نے بے پناہ جدوجہد کر کے کشمیریوں کی کئی جنریشنوں میں آزادی کے شعور کو پروان چڑھایا، ان کی اپنی زندگی کے ساتھ ان کے سارے گھرانے کی زندگیاں کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی جدوجہد کے لیے وقف ہیں۔
سندھ اسمبلی کے سابق اسپیکر کی اچانک طبیعت ناساز ،آئی سی یو میں داخل
کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کے کارکنوں نے پروفیسر غنی بھٹ کی وفات پر کہا ہے کہ ان کی بلند سوچ، جرات مندانہ موقف اور سیاسی بصیرت کشمیری عوام کے لیے مشعلِ راہ رہے گی۔
پروفیسر غنی بھٹ کی وفات نہ صرف کشمیر ی قوم اور تحریکِ آزادی کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے بلکہ یہ پاکستان کے لئے بھی بہت بھاری نقصان ہے۔ پروفیسر غنی بھٹ پاکستان کے دیرینہ رفیق تھے،۔
Waseem Azmet