ماضی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر خوشیاں منائی جا سکتی ہیں، اس پر جشن منایا جا سکتا ہے یا پھر اس پر آنسو بہائے جا سکتے ہیں، اس پر ماتم کیا جا سکتا ہے مگر اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے مگر بلوچستان کے حوالے سے یہ سچ زیادہ تکلیف دہ ہے۔
بلوچستان کے ماضی میں بہت ابہام بھی ہے، دھوکہ بھی ہے، بے وفائی ہے، تکالیف بھی ہیں، جبر بھی ہے اور صبر بھی ہے۔
تاریخ کا سبق یہی ہے کہ بلوچوں کے ساتھ وفا کرنے والے کم رہے ہیں اور جفا کرنے والے بے شمار۔ کوئی بلوچستان کی تاریخ کو خان آف قلات سے شروع کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا۔ کوئی ماتم کرتا ہے کہ خان آف قلات نے دھوکہ دیا۔ کوئی ایوب خان کو دوش دیتا ہے اور کوئی ان کو ہیرو قرار دیتا ہے ۔ کوئی نیپ کی حکومت گرانے پر بھٹو کو الزام دیتا ہے، کوئی اکبر بگتی کو بلوچوں پر ستم کی وجہ قرار دیتا ہے۔ کوئی 70 کی دہائی کو خونچکاں قرار دیتا ہے، کوئی 80 کی دہائی پر دہائی دیتا ہے۔
کوئی مشرف کو بگتی کا قاتل بتاتا ہے کوئی مشرف کو محسن بلوچستان بناتا ہے۔ کوئی گوادر کو گیم چینجر بتاتا ہے، کوئی اس کی بین الاقومی اہمیت کو وجہ عناد بتاتا ہے۔ کسی کے خیال میں ساری دنیا کی نظر بلوچستان کے پہاڑوں میں دفن معدنیات پر ہے، کوئی ان پہاڑوں کو فراریوں/ دہشتگردوں کی آماجگاہ بتاتا ہے۔ کوئی ایران کو دوش دیتا ہے کوئی افغانستان پر الزام دھرتا ہے اور کوئی چین پر انگلی اٹھاتا ہے۔ کوئی ماہ رنگ بلوچ کے حق میں ہے، کوئی دہشتگردوں کے ذریعے غیر بلوچوں کی نسل کشی پر پشیمان ہے۔ کوئی بی ایل اے کو نجات دہندہ کہتا ہے۔ کوئی اس پر را کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتا ہے۔
تاہم سچ یہ ہے بلوچوں کے ساتھ وفا کسی نے نہیں کی۔ سرداری نظام نے بلوچوں کو صرف مطیع بنایا اور استعمال کیا۔ اس نظام نے بلوچوں کو کیا دیا اس سوال کے جواب میں تاریخ خاموش ہے۔ کوئی ڈکٹیٹروں کو الزام دیتا ہے، کوئی مفاد پرست سیاست دانوں کو دوش دیتا ہے، کسی کے خیال میں بیورو کریسی بلوچستان کو کھا گئی، کسی کے خیال میں افغان جنگ بلوچوں کو مروا گئی۔ کوئی کہتا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں گھس بیٹھیوں نے بلوچستان کو حق نہیں ملنے دیا۔ کوئی کہتا ہے کہ آزادی اظہار کی قدغنوں نے بلوچستان کی آواز بلند نہیں ہونے دی۔ یہ الزامات تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہی بلوچستان کا ماضی ہیں مگر ماضی کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
بلوچستان کے حال میں 2 قوتیں ایک دوسرے سے نبرد آزما دکھائی دیتی ہیں۔ ایک قوت کی وجہ سے دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بسوں سے غیربلوچوں کو نکال کر قتل کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں نوجوان خواتین کو بلیک میل کر کے انہیں خود کش بننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ بی ایل اے اور بی وائے سی جیسی علیحدگی پسند آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ سیکورٹی فورسز پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ بلوچستان کے پہاڑوں سے خون بہہ رہا ہے۔ اور حال کی دوسری صورت یہ ہے کہ سعودی عرب ریکوڈک میں سرمایہ کاری کرنے پر رضامند دکھائی دیتا ہے۔ گوادر پورٹ دنیا کی آنکھ کا تارا بنتی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم اکثر بلوچستان کا دورہ کر کے بلوچ قیادت سے رابطہ کرتے ہیں، ان کے دکھ سکھ سنتے ہیں۔ وفاق بلوچستان کے حقوق پورے کرنے میں مدت سے سرگرم عمل ہے۔
2008 میں پیپلز پارٹی کے ’آغاز حقوق بلوچستان‘ سے لے کر آج تک بلوچوں کو وفاق اپنا پیٹ کاٹ کر حصہ دے دہا ہے۔ بلوچستان سے وفاقی خزانے میں آنے والی رقم نہ ہونے کے برابر ہے مگر وفاق سے بلوچستان جانے والے فنڈز کثیر ہیں۔ ان سب اقدامات کے باوجود بلوچستان کی محرومی دور نہیں ہو رہی ہے۔
اگر بلوچستان میں منفی اور مثبت قوتوں کی جنگ اسی طرح چلتی رہی تو محرومی کے اس احساس میں اضافہ ہو گا، چاہے یہ کتنا ہی جھوٹ کیوں نہ ہو۔ ماضی اور حال کی تفصیل جان کر بلوچستان کے مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بلوچوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ بلوچستان کس کے ساتھ ہے۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ خود کش دھماکے کرنے والے بلوچستان سے مخلص ہیں؟ کیا شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو ذبح کرنے والے بلوچستان کے ہمدرد ہیں؟ کیا ٹرینوں کو ہائی جیک کرنے والے بلوچستان کا بھلا چاہتے ہیں؟ ان سب سوالات کے جوابات نفی میں ہیں۔ جو لوگ ان واقعات میں ملوث ہیں، دراصل وہ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں۔ جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹ رہے ہیں، انہوں نے جس دھرتی پر جنم لیا ہے، اسی دھرتی کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔ یہ بلوچستان سے دوستی نہیں بلکہ بلوچوں اور بلوچستان سے سب سے بڑی دشمنی ہے۔
ان دہشتگرد تنظیموں کو اگر بلوچستان کی فلاح عزیز ہوتی تو یہ بلوچستان میں پھیلی غربت کے خلاف احتجاج کرتے، بے روزگاری کے خاتمے کے لیے آواز بلند کرتے، جہالت کو ختم کرنے کے لیئے یونیورسٹیوں کا مطالبہ کرتے، بلوچستان کی ترقی کے لیے انفرا سٹرکچر کی بات کرتے مگر انہوں نے ریاست کے خلاف مزاحمت کا رستہ اپنایا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ریاست کسی بھی دہشتگرد گروپ سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ یہ ساری دنیا میں مسلمہ ہے کہ ریاست کی طاقت کو چیلنج کرنے والے نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔ خود دیکھیں کہ چین نے باغیوں کو کیسے کچلا، روس میں ریاست سے لڑنے والوں کا کیا حشر ہوا۔ امریکا میں کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ کیا بنی۔ برطانوی فسادات میں سرکاری املاک پر حملے کرنے والوں کا کیا حشر ہوا۔
یہ مثالیں اس لیے دینا ضروری ہیں کہ ریاست پاکستان بھی اپنی سلامتی کے معاملے میں مخلف نہیں ۔ یہاں بھی بات اگر ریاست کی سلامتی پر آ گئی تو کوئی دہشت گروپ نہیں بچے گا ۔ تو یہ سمجھ لیجیے کہ بلوچستان کا مستقبل صرف اور صرف پاکستان سے وابستہ ہے۔ یاد رکھیے کہ جب سبز پرچم کو بلوچستان کے کونے کونے میں پوری حرمت سے لہرایا جائے گا تو بلوچستان دہشتگردی کے اس بھنور سے نکل آئے گا۔ یہی بلوچستان کے مسائل کا حل ہے یہی درس سات دہائیوں کی ریاضت کا پھل ہے۔
یہ واحد طریقہ ہے، جس سے بلوچستان کے ماضی کی تلخیاں دور ہوں گی، حال روشن بنے گا اور مستقبل تابناک رہے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
اردو کالم بلوچستان عمار مسعود.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اردو کالم بلوچستان بلوچستان کے بلوچستان کی بلوچستان کا بلوچستان سے کیا جا سکتا کرنے والے کہتا ہے رہے ہیں نہیں کی کے ساتھ دیتا ہے بھی ہے ہے اور رہا ہے ہے مگر
پڑھیں:
پی ٹی آئی کی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت نہیں ہورہی، بیرسٹر گوہر
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ اس وقت پارٹی اور وفاقی حکومت یا فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہو رہے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام دوسرا رخ میں گفتگو کرتے ہوئے گوہر علی خان نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی انداز میں تلاش نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ہونے والی بات چیت بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: موجودہ آرمی چیف کے دور میں عمران خان کی رہائی ممکن ہے، بیرسٹر گوہر علی خان
انہوں نے بتایا کہ جب مارچ 2024 میں پی ٹی آئی نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کا مینڈیٹ چُرایا گیا ہے، تو پارٹی بانی عمران خان نے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی، مگر جب بات چیت آگے نہ بڑھی تو کہا گیا کہ پی ٹی آئی صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے۔
گوہر علی خان کے مطابق عمران خان نے کہا تھا کہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اگر کوئی تجویز لے کر آتے ہیں تو اس پر غور کیا جائے گا۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے مزید بتایا کہ 26 نومبر کو ایک اور کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی لیکن حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدگی ظاہر نہیں کی گئی۔ ہماری اور حکومت کی کمیٹیوں کے قیام کے باوجود دو ہفتے تک ملاقات نہ ہو سکی۔ اس کے بعد حکومت نے ملنے میں دلچسپی نہیں دکھائی، اس لیے ہم نے محض فوٹو سیشن کے لیے بیٹھنے سے انکار کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر کا قومی اسمبلی کی 4 قائمہ کمیٹیوں سے استعفیٰ
انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد محض بات چیت نہیں بلکہ سیاسی مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنا تھا، جو جمہوریت، پارلیمان اور تمام جماعتوں کے لیے بہتر ہوتا، مگر ایسا نہیں ہو سکا۔
خیبر پختونخوا میں فوجی آپریشنز پر مؤقفگوہر علی خان نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں جاری آپریشنز کے حوالے سے جنوری، جولائی اور ستمبر میں آل پارٹیز کانفرنسز بلائیں۔ ان کے مطابق انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز ضروری ہیں، تاہم ان میں شہریوں کو نقصان یا سیاسی استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ آپریشنز میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے گھر آج تک دوبارہ تعمیر نہیں ہو سکے، اس لیے آئندہ کسی بھی کارروائی میں عوامی تحفظ اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسٹیبلشمنٹ بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی مذاکرات