پاکستانی شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ منال خان نے خود پر تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نماز بھی پڑھتی ہیں اور روزے بھی رکھتی ہیں۔

منال خان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ’آپ لوگوں نے میری کل والی ویڈیو کو بہت پسند کیا اور لوگوں نے سوال کیا کہ کیا آپ نماز پڑھتی ہیں؟ تو میں نے سوچا آج ابھی ابھی نماز پڑھی ہے اور اللہ سے آپ لوگوں کے لیے اور اپنے لیے دعا کی ہے تو دکھا دیتے ہیں کہ ہم نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں ۔ ہم بھی مسلمان ہیں۔ اور ناخنوں پر نیل پالش بھی نہیں لگاتے اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں‘۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by DIVA Magazine Pakistan (@divamagazinepakistan)


منال خان کی ویڈیو پر تبصرے کرتے ہوئے صارفین کی جانب سے ان کو خوب سراہا جا رہا ہے۔ مداحوں کا کہنا ہے کہ یہ اللہ اور انسان کا معاملہ ہے، لوگوں کو اپنے ایمان کا پتہ نہیں اور دوسروں کا امتحان لیتے رہتے ہیں۔ تو کئی صارفین نے کہا کہ کسی کے مذہب کو ٹارگٹ نہ کیا کریں۔

واضح رہے کہ شوبز انڈسٹری کی معروف جڑواں بہنیں ایمن خان اور منال خان بچپن سے ہی اسکرین کا حصہ رہی ہیں، انہوں نے چائلڈ اسٹار کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور اب وہ کامیاب اداکارائیں ہیں جنہوں نے اپنی الگ شناخت بنائی ہے۔

منال خان سوشل میڈیا پر بھی بہت سرگرم رہتی ہیں اور انسٹاگرام پر ان کے 10.

4 ملین فالوورز ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایمن خان پاکستانی ڈرامے رمضان شوبز انڈسٹری منال خان

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایمن خان پاکستانی ڈرامے منال خان منال خان

پڑھیں:

انکار کیوں کیا؟

ثناء یوسف، ایک 17سالہ لڑکی جو 22سالہ نوجوان کی ضد اور انا کی بھینٹ چڑھ گئی۔ پھر کہنے والوں نے وہ وہ کہا کہ جس سے انسانیت شرما جائے۔ 

’اچھا ہوا، مار دیا۔۔۔ معاشرے کا گند صاف ہوگیا۔۔’۔

’جس نے بھی کیا، اچھا کیا‘۔ 

’یہ ٹک ٹاکرز اسی قابل ہیں‘۔ 

’بے حیائی پھیلاتی تھی۔ اچھا ہوا، صفائی ہوگئی‘۔

’برے کام کا برا نتیجہ ہی ہوتا ہے‘۔

انسانیت کی اس سے زیادہ توہین کیا ہی ہوسکتی ہے جو یہ رذیل اور پست ذہنیت کے لوگ کر رہے ہیں۔  

اپنی اس نیچ سوچ سے اس گھناونے جرم کو تقویت دینے والے یہ وہ ہی لوگ ہیں کہ جن کی عورت کو دیکھ کر رال ٹپکتی ہے۔ جو اسے عیاشی کا سامان اور ضرورت کی ایک چیز سمجھتے ہیں۔ اس پہ جملے کسنا ، اس کا تعاقب کرنا، اس تک پہنچنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا، اور اگر حاصل نہ ہو پا رہی ہو تو اسے ہراساں کرنا یا اس کی کردار کشی کرنا، یہ ان کا عام رویہ ہے۔

جب گیم ان کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل جائے تو یا یہ  اپنی فرسٹریشن میں پستی کی آخری حد تک گر جاتے ہیں یا جعلی مولوی بن کر دوسروں کو اخلاقی اور دینی اسباق پڑھانے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے لیے اپنے گھر کی عورتوں کو چھوڑ کر ہر عورت گندی ہے۔ جس پر کیچڑ اچھالنا یہ واجب سمجھتے ہیں۔ 

یہ ایک واقعہ نہیں، یہ ایک سلسلہ ہے۔ کئی دہائیوں سے مسلسل کتنی ہی عورتیں اس غلاظت بھری سوچ کا نشانہ بن رہی ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر، کبھی کسی کی جنسی ہوس کا شکار ہوکر، کبھی کسی کی نفسیاتی بیماری کا نشانہ بن کر، کبھی کسی کی انا کی تسکین کے طور پر۔ یہ تو وہ کیسز ہیں جو کسی نہ کسی طور منظر عام پر آ رہے ہیں۔ کتنی ہی عورتیں چپ چاپ کسی کی ہراسانی، بلیک میلنگ،  اور نفسیاتی، اور جنسی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں یا غیرت کے نام پر مار کرگھر کے صحنوں میں دفن کر دی جاتی ہیں۔

ثنا ایک ٹین ایجر بچی تھی، جس کی آنکھوں میں خواب تھے، کچھ شوق تھے۔ کسی قسم کی بری حرکات نہیں کر رہی تھی۔ مگر اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہی ہے یہ انسانیت سوز معاشرہ ہے، یہ کسی بھی طرح سے محفوظ نہیں۔ 

وہ اس معاشرے میں رہ رہی تھی جہاں کچھ لوگوں کی جانب سے انکار کو ایک منفی رویہ مانا جاتا ہے۔ نہ تو انکار کرنا سکھایا جاتا ہے نا انکار کو سہنا سکھایا جاتا ہے۔ بلکہ ان کے ہاں ایک عورت کا انکار ان کی مردانگی پہ وار ہے۔ 

پھر یہ کسی نا مرد کی انا پر تازیانہ بن کر، کسی کی جان لے لینے پر ختم ہوتا ہے۔ ایسا ہی ثناء یوسف کے ساتھ ہوا۔

 دوسری حل طلب بات ہے جہالت اور جہالت پر ڈھٹائی۔ اگر اس جہالت کو اپنی حد تک رکھا جائے تب بھی ٹھیک ہے مگر بھئی جو خود دنیا میں رہنے کے قابل نہیں وہ دوسروں کی تقدیروں کا فیصلہ کر رہے ہیں۔

یہ وہی ہیں  جن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ان کی جنسی خواہش دبا کے بیٹھی ہے،  وہ کہہ رہے ہیں کہ ٹک ٹاکر تھی تو اسی قابل تھی کہ مار دی جاتی۔

جب ایک عورت سڑک پہ چلتی ہے تو ان مردوں کی آنکھیں اسکا بھرپور تعاقب کرتی ہیں، جسم تو کیا ! کچھ آنکھیں روح تک کو چیردینے کو بے قرار ہوتی ہیں، اور پھر یہ عورت کے ساتھ ہوئے ہر ظلم کو بے حیائی اور برے کاموں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔

جبکہ یہ وہی ہیں جو ان کو دیکھتے ہیں، ٹٹولتے ہیں، چاہتے ہیں۔ یہ سڑکوں پہ گاڑیاں روکتے ہیں تبھی عورت سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ ان کے دام لگاتے ہیں تو وہ ذریعہ بناتی ہیں۔ انہیں مردوں کے گاہک بننے کی امید ہوتی ہے تو کوٹھوں پہ بیٹھتی ہیں۔ یہ استمعال کرتے ہیں تو وہ استمعال ہوتی ہیں۔ 

 دوسروں کی مرضی پر، ان کے افعال پر، ان کی زندگی پر حق جتانے کی یہ ذہنیت کہاں سے بن کرآ رہی ہے۔ کیا اولاد کی شخصیت کی، ان کی سوچ اور کردار کی صحیح تشکیل دی جا رہی ہے؟

یہاں قصور وار صرف اس معاشرے کی ‘تربیت’ ہے۔  خدارا اسے سمجھیں کہ نسل پیدا کرنے سے بڑی ذمہ داری اس نسل کی تربیت ہے۔ پہلے اپنی نسلوں کو جنس کی تفریق سے بالاترہو کر انسان کی تعظیم کرنا سکھائیں۔

کسی انسان کی شخصی آزادی، اس کی انفرادیت، اس کی مرضی کا احترام کرنا سکھائیں۔ اس کے اقرار کی قدر اور اس کے انکار کا احترام سکھائیں۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکنا سکھائیں، ان کو شعور دیں۔ 

کوئی عورت چاہے ٹک ٹاکر ہو، اداکارہ ہو ،رقاصہ ہو، کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہو، یہاں تک کہ طوائف ہی کیوں نہ ہو اس کی زندگی پر اور اسکی مرضی پر صرف اس کا اور خدا کا حق ہے۔  وہ قابلِ لحاظ ہے ، قابلِ عزت و تکریم ہے ، صرف اس لیے کہ وہ عورت ہے۔ عورت کا پیشہ نہیں، اس کا کام نہیں، اس کی ذات قابلِ عزت ہے، اور عورت کی تعظیم ہی مردانگی کی نشانی ہے۔ 

انسان کی زندگی صرف خدا کی ملکیت ہے۔  جسکا وہ صرف اپنے خدا کو جوابدہ ہے۔ ایک عورت ہی کیا، کسی بھی انسان کی زندگی  پر،  اس کی عزت پر کسی دوسرے انسان کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس کی تذلیل کرے یا اسے زندگی کے حق سے محروم کرے، چاہے وہ کسی کے لیے کتنی بھی باعثِ تکلیف اور باعثِ نفرت کیوں نہ ہو۔ 

یہ وہ وقت نہیں ہے جب خاموشی کو اقرار سمجھا جاتا تھا۔ اب اقرار کی گونج سنتی ہے۔ اس کی آواز ہے، اس کے جیسچرز ہیں، اس کی باڈی لینگویج ہے، اس کا ایکسپریشن ہے۔ اب خاموشی بھی انکار ہے۔ ‘نو’ اور ‘نہیں’ ہی نہیں کسی کے چہرے کا خوف، اس کی ہچکچاہٹ، اس کے چہرے کا ماند پڑ جانا اور اس کی انرجی کا گر جانا بھی انکار ہے۔ 

انکار ـــ شخصی حق ہے۔ وہ حق جو ہر انسان کو اپنی مرضی سے اپنی ذات پر، اپنی زندگی پر حاصل ہے۔ ہر انکار صرف انکار ہوتا ہے، جس میں کیوں، اگر، مگر کی بھی گنجائش نہیں کیوں کہ ہر شخص اپنی وجہ رکھتا ہے اور اس تک پہنچنا بھی دوسرے انسان کے لیے ضروری نہیں۔

کیا ثناء یوسف اس صورتحال پر قابو پا سکتی تھی؟  کسی بھی قسم کی ہراسانی، زبردستی یا خطرے کی صورت میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے، اگلے بلاگ میں پڑھیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سعدیہ سویرا

ثنا یوسف ٹک ٹاکر عورت مرد

متعلقہ مضامین

  • گورنر پنجاب نے کھلی کچہری میں آئے لوگوں سے اسپیکر آن کر کے وزیراعظم کی بات کروائی
  • فیصل آباد سے گرفتار بھارتی ایجنسی ’را‘ کے 3 ایجنٹس کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
  • کشمیر میں اگر سب کچھ معمول پر ہے تو جامع مسجد کیوں بند ہے، التجا مفتی
  • حج کیلئے گھوڑوں پر 6 ہزار کلومیٹر کا سفر: 3 ہسپانوی مسلمانوں نے صدیوں پرانی روایت زندہ کردی
  • قیدیوں کیلئے خوشخبری، پنجاب بھر میں 90 روزہ سزا معافی کا اعلان
  • ہم الزامات کی بجائے عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں، میئر کراچی
  • انکار کیوں کیا؟
  • نواز شریف کی لندن میں نماز عیدالاضحیٰ کی ادائیگی، پاکستان کی ترقی کیلئے خصوصی دعا
  • وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کا دو روزہ دورہءِ سعودی عرب, ولی عہد کی طرف سے دیے گئے ظہرانے میں بطور مہمان خصوصی شرکت
  • سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سنٹرل لندن ماسک میں نماز عید ادا کی