غزہ، رمضان مبارک پر جنگ کے سائے
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: امدادی گروہوں کا کہنا ہے کہ انسانی امداد کی فراہمی کی تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے طویل مدت تک بھی مشکلات برطرف ہونے کی امید ختم ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے کچھ امدادی گروہوں نے کسانوں میں پھلوں اور سبزیوں کے بیج اور مویشیوں کا چارہ تقسیم کیا تھا تاکہ غزہ میں ہی کھانے پینے کی اشیاء کی پیداوار بڑھائی جا سکے لیکن اسرائیل کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں میں اضافے کے باعث یہ کوششیں بھی بے فائدہ ہو گئی ہیں۔ صیہونی حکمرانوں کا دعوی ہے کہ فلسطین کے مسلح گروہ ہر آنے والی امداد اپنی جہادی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں لہذا انہوں نے اس بہانے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ ایسے حالات میں غزہ میں مقیم فلسطینی شہریوں کی پہلی ترجیح اپنی بقا ہے۔ اہل غزہ نہ جشن کے بارے میں سوچتے ہیں اور نہ ہی رمضان میں افطار کی لذتوں سے بہرہ مند ہو سکے ہیں۔ تحریر: علی احمدی
غزہ کے خلاف غاصب صیہونی رژیم نے شدید محاصرہ جاری رکھا ہوا ہے جس کے نتیجے میں نہ تو انسانی امداد فراہم کی جا رہی ہے اور نہ ہی ادویہ جات اور میڈیکل سہولیات بھیجی جا رہی ہیں۔ اس طرح غزہ میں زندگی روز بروز مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ روٹی کے لیے لمبی لائنیں، کھانے پینے کی اشیاء کی قیمت میں ہوشربا اضافہ، ایندھن کی قلت اور دیگر مشکلات نے اہل غزہ کو شدید بحران سے روبرو کر دیا ہے۔ اکثر گھرانے ایسے ہیں جن کے پاس بنیادی ترین ضرورت کی اشیاء خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں اور ان کا انحصار انسانی امداد پر ہے۔ ماہ مبارک رمضان اپنے آخری ہفتے میں داخل ہو چکا ہے اور اسلامی دنیا میں سب عید فطر کے جشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں جبکہ غزہ میں مقیم مظلوم فلسطینی صیہونی بمباری تلے شہید اور زخمی ہو رہے ہیں۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے: "غزہ کے مرکز میں زادنا تنور کے سامنے لوگوں کی لمبی لائن لگی ہے جو بحرانی حالات میں روٹی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیکورٹی گارڈ چیخ چیخ کر سب کو نظم و ضبط کی پابندی کرنے کی ہدایت کر رہا ہے لیکن کوئی اس کی بات نہیں سن رہا۔ صرف چند قدم اس طرف وہ افراد کھڑے ہیں جنہوں نے چند گھنٹے پہلے روٹی خرید لی ہے اور اب تین گنا زیادہ قیمت پر دوسروں کو بیچنا چاہتے ہیں۔" جیسے جیسے افطار کا وقت قریب آتا ہے روٹی، پانی اور ایندھن ناپید ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ 19 جنوری کے دن ڈیڑھ سال جنگ کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا جس کے بعد محدود مقدار میں انسانی امداد غزہ بھیجی گئی تھی۔ لیکن 2 مارچ کے بعد یہ امداد پوری طرح بند کر دی گئی تھی۔
غزہ میں انسانی امداد پوری طرح رک جانے کے بعد کھانے پینے کی اشیاء سمیت تمام اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ غزہ میں مقیم اکثر فلسطینی بنیادی ضرورت کی اشیاء تک خریدنے سے قاصر ہیں۔ تازہ سبزیاں اور پھل ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتے اور افراد غذاوں کے ٹن پیک خریدنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف اکثر طبی مراکز تباہ ہو جانے کے بعد میڈیکل سہولیات بھی ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ اسپتال بند پڑے ہیں اور پانی کا نظام بھی درہم برہم ہے۔ جنگ بندی کے بعد کچھ مقدار میں پلاسٹک پائپس غزہ بھیجے گئے تھے تاکہ پانی کا نظام بحال کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ سے وابستہ امدادی گروپس نے اعلام کیا ہے کہ بچے، حاملہ خواتین اور مائیں شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور ان کی صحت سخت خطرے میں ہے۔
انسانی امداد کے اداروں نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ صرف فروری کے مہینے میں کم از کم 6 شیرخوار بچے سردی کے باعث جاں بحق ہو گئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ گرم کپڑوں، کمبل، خیموں اور میڈیکل سہولیات کی کمی بتائی گئی ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی امداد کے اداروں نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ انسانی امداد کی فراہمی بحال کی جائے۔ گذشتہ ہفتے اتوار کے دن اسرائیل نے غزہ کی بجلی بھی بند کر دی ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں میٹھا پانی پیدا کرنے والے پلانٹس بھی بند ہو گئے ہیں اور 6 لاکھ کے قریب فلسطینی باشندے پینے کے پانی سے محروم ہو گئے ہیں۔ اسرائیل کے وزیر انرجی نے عنقریب غزہ کا پانی بھی بند کر دینے کی دھمکی دی ہے۔ امدادی گروہوں کا کہنا ہے کہ غزہ میں چند کنوویں موجود ہیں لیکن ان کا پانی نمکین ہے اور وہ پینے کے قابل نہیں ہے۔
اہل غزہ کا کہنا ہے کہ اس وقت بہت کم کھانے پینے کی اشیاء دستیاب ہیں جو تمام فلسطینیوں کے لیے کافی نہیں ہیں۔ دوسری طرف امدادی گروہوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ کھانے پینے کی اشیاء جنگ بندی کے پہلے چھ ہفتوں میں جمع کی گئی تھیں لیکن اب انسانی امداد بند ہو چکی ہے اور یہ ذخیرہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ آٹے کی قلت کی وجہ سے غزہ میں چھ تنور بند ہو چکے ہیں جبکہ کھانا تیار کرنے والے مراکز بھی اپنی سرگرمیاں محدود کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ غزہ کے شہر دیر البلح میں ایک بڑا بازار ہے جو اس ہفتے پوری طرح بند دکھائی دیا۔ اس کی بنیادی وجہ پھلوں، سبزیوں، گھی، چینی اور آٹے کے ذخائر ختم ہو جانا ہے۔ دکاندار کہتے ہیں کہ پیاز اور گاجر کی قیمت دوگنا ہو گئی ہے، کدو چار گنا مہنگا ہو گیا ہے جبکہ لیمو کی قیمت دس گنا بڑھ گئی ہے۔ بینگن بہت مشکل سے دستیاب ہے جبکہ آلو بالکل ختم ہو گیا ہے۔
امدادی گروہوں کا کہنا ہے کہ انسانی امداد کی فراہمی کی تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے طویل مدت تک بھی مشکلات برطرف ہونے کی امید ختم ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے کچھ امدادی گروہوں نے کسانوں میں پھلوں اور سبزیوں کے بیج اور مویشیوں کا چارہ تقسیم کیا تھا تاکہ غزہ میں ہی کھانے پینے کی اشیاء کی پیداوار بڑھائی جا سکے لیکن اسرائیل کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں میں اضافے کے باعث یہ کوششیں بھی بے فائدہ ہو گئی ہیں۔ صیہونی حکمرانوں کا دعوی ہے کہ فلسطین کے مسلح گروہ ہر آنے والی امداد اپنی جہادی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں لہذا انہوں نے اس بہانے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ ایسے حالات میں غزہ میں مقیم فلسطینی شہریوں کی پہلی ترجیح اپنی بقا ہے۔ اہل غزہ نہ جشن کے بارے میں سوچتے ہیں اور نہ ہی رمضان میں افطار کی لذتوں سے بہرہ مند ہو سکے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کھانے پینے کی اشیاء امدادی گروہوں کا کہنا ہے کہ کہ غزہ میں ہو گئے ہیں اشیاء کی کی قیمت ہیں اور رہی ہیں اہل غزہ کے بعد ہے اور کے لیے جا رہی ختم ہو ہو گئی گئی ہے
پڑھیں:
اردن کے ساتھ ملکر غزہ میں فضا سے امداد پھینکنے پر کام کررہے ہیں، برطانوی وزیراعظم
برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ ان کا ملک اردن کے ساتھ مل کر غزہ میں فضائی امداد فراہم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب 220 ارکان پارلیمنٹ، جن میں اکثریت لیبر پارٹی سے ہے، نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے۔
برطانوی حکومت نے اردن کی مدد کے لیے ایک چھوٹی ٹیم روانہ کی ہے جس میں فوجی منصوبہ ساز اور لاجسٹکس ماہرین شامل ہیں تاکہ امداد غزہ پہنچائی جا سکے۔ اسرائیل نے بھی حالیہ دنوں میں غیر ملکی فضائی امداد کی اجازت دینے کا اعلان کیا ہے، تاہم اقوام متحدہ اور امدادی ادارے خبردار کر چکے ہیں کہ فضائی امداد ناکافی اور خطرناک طریقہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ میں قحط سے بچوں سمیت مزید 10 فلسطینی شہید، 100 امدادی تنظیموں کا عالمی مداخلت کا مطالبہ
وزیراعظم اسٹارمر نے کہا کہ برطانیہ شدید بیمار بچوں کو علاج کے لیے جلد از جلد برطانیہ منتقل کرنے کے اقدامات تیز کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ انسانیت سوز بحران اب ختم ہونا چاہیے۔
ڈاؤننگ اسٹریٹ کے مطابق، وزیراعظم نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور جرمن چانسلر فریڈرک مرز سے بھی رابطہ کیا ہے جہاں تینوں رہنماؤں نے اسرائیل پر امداد کی پابندیاں ختم کرنے پر زور دیا۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان سے غزہ میں امداد کی رسائی کے لیے اثرورسوخ استعمال کریں، خالد مشعل کی مولانا فضل الرحمان سے اپیل
لیبر رکن پارلیمنٹ سارہ چیمپیئن نے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور یہ دیر نہ ہو جائے۔ انہوں نے فضائی امداد کو ‘علامتی’ قرار دیا اور کہا کہ حقیقی حل تمام سرحدی راستوں کو کھولنا ہے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں ایک تہائی افراد کئی دنوں سے بھوکے ہیں اور 90 ہزار خواتین و بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایئرڈراپ برطانیہ غزہ فضائی امداد کیئر اسٹارمر