حکومت کا خیبرپختونخوا میں زیر تعلیم افغان طلبہ کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
وفاقی وزارت داخلہ نے خیبرپختونخوا حکومت سے صوبے میں زیر تعلیم افغان طلبہ کی مکمل تفصیلات طلب کر لی ہیں اس حوالے سے فارن نیشنل سیکیورٹی سیل نے خیبرپختونخوا کے سیکرٹری داخلہ کو خط ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں موجود تمام افغان طلبہ کا ڈیٹا مرتب کر کے 27 مارچ تک فراہم کیا جائے وزارت داخلہ کے مطابق فارن نیشنل سیکیورٹی سیل ملک میں مقیم غیر ملکیوں سے متعلق ڈیش بورڈ کو اپ ڈیٹ کر رہا ہے جس کے تحت افغان طلبہ کی تفصیلات اکٹھی کی جا رہی ہیں حکومت پاکستان نے گزشتہ سال نومبر میں ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کی تھی جس کے نتیجے میں ہزاروں افغان باشندے اپنے وطن واپس جا چکے ہیں۔ اس پالیسی کے تحت حکومت نے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو 31 مارچ 2025 تک پاکستان چھوڑنے کی حتمی مہلت دے رکھی ہے جس کے بعد مزید سخت اقدامات کیے جائیں گے اسی پالیسی کے تحت وزارت داخلہ نے تمام افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو بھی 31 مارچ تک پاکستان سے نکلنے کی ہدایت جاری کر دی ہے وزارت داخلہ نے خبردار کیا ہے کہ جو غیر ملکی 31 مارچ کی ڈیڈ لائن تک پاکستان سے روانہ نہیں ہوں گے ان کے خلاف یکم اپریل سے ملک بدری کی کارروائی شروع کر دی جائے گی اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی ہدایات جاری کی جا چکی ہیں تاکہ ڈیڈ لائن کے بعد سختی سے اس فیصلے پر عمل درآمد کرایا جا سکے ذرائع کے مطابق حکومت کا مؤقف ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی موجودگی ملک کی سیکیورٹی اور معاشی صورتحال پر منفی اثر ڈال رہی ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا چاہتی ہے۔ اس سے قبل بھی حکومت کئی بار غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو رضاکارانہ طور پر واپس جانے کا موقع دے چکی ہے تاہم اب اس حوالے سے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں خیبرپختونخوا میں بڑی تعداد میں افغان طلبہ مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں، جن میں سے کئی سٹیزن کارڈ ہولڈرز بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں وزارت داخلہ کی جانب سے ان کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے اقدام کو حکومت کے غیر قانونی غیر ملکیوں کے خلاف جاری آپریشن کا ایک اور اہم مرحلہ قرار دیا جا رہا ہے کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ملکی سیکیورٹی کے لیے ضروری ہے جبکہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے کئی افغان خاندان اور طلبہ مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں تاہم حکومت کا مؤقف ہے کہ جو افغان باشندے قانونی دستاویزات کے ساتھ پاکستان میں مقیم ہیں انہیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: مقیم غیر ملکیوں وزارت داخلہ افغان طلبہ
پڑھیں:
پاک افغان مذاکرات پر بھارت کی پریشانی بڑھنے لگی ہے: وزیر دفاع
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغانستان میں دہشتگردوں کا جلسہ ہو رہا ہے، جو خود افغانستان کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت کے عمل کا کریڈٹ ترکیہ اور قطر کو جاتا ہے، اور اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوئے تو بھارت کے لیے یہ ایک بڑی مایوسی ہوگی کیونکہ بھارت کا کابل میں بیٹھے لوگوں کے ساتھ گہرا تعلق اور مفاہمت ہے۔
خواجہ آصف نےنجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشتگردوں کو ایکسپورٹ نہیں کرتا، بلکہ ان سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات کر رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 6 نومبر کو مذاکرات سے متعلق مزید تفصیلات طے ہوں گی، اور پاکستان امید رکھتا ہے کہ اس عمل سے خطے میں امن و استحکام آئے گا۔
غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری
دوسری جانب پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں اور دیگر غیر ملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ راولپنڈی میں اٹھارہ مالک مکانوں کو گرفتار کیا گیا ہے جنہوں نے افغان شہریوں کو کرائے پر مکانات دے رکھے تھے، جب کہ دو سو سولہ افغان باشندوں کو تحویل میں لے کر ہولڈنگ سینٹر منتقل کردیا گیا ہے۔ لاہور کے علاقے رائے ونڈ میں بھی ایک مالک مکان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
پنجاب پولیس کے مطابق صوبے بھر میں اعلانات کیے جا رہے ہیں کہ کوئی بھی شہری غیر قانونی مقیم افغان یا دیگر غیر ملکی کو مکان یا دکان کرائے پر نہ دے۔ پولیس نے خبردار کیا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
چمن اور طورخم کے راستے افغان مہاجرین کی وطن واپسی بھی جاری ہے۔ حکام کے مطابق اب تک پندرہ لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد افغان باشندے اپنے ملک واپس جا چکے ہیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ سرحدیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کھولی گئی ہیں تاکہ وہاں پھنسے افغان شہری باحفاظت اپنے وطن جا سکیں۔