اسلام ٹائمز: صیہونیت کی بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی اور انکے خلاف صیہونیت مخالف یہودیوں کی اندرونی تنقید نے مغربی حکومتوں پر صیہونیت نواز پالیسیاں تبدیل کرنے کیلئے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی مسلسل فوجی حمایت اور صیہونیت مخالف مظاہرین کیساتھ سکیورٹی فورسز کے تصادم نے عوام اور مغربی حکومتوں کے درمیان فاصلے کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق عوام اور حکومت کے درمیان بڑھتی ہوئی یہ خلیج مستقبل میں مغربی ممالک کیلئے ایسا چیلنج بنے گی، جس سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔ تحریر: مرتضیٰ مکی
یوم القدس میں ابھی چند دن باقی ہیں، تاہم پیرس اور یورپ کے دیگر شہروں میں غزہ پٹی پر صیہونی حکومت کے حملوں کے نئے دور کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ یہ مظاہرے مغرب کی اسرائیل نواز پالیسیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی ناراضگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان مظاہروں میں مختلف گروہوں کی موجودگی صیہونیت مخالف یہودیوں کی شرکت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ میں اسرائیل پر تنقید کے خلاف ماضی کا بیانیہ اب کمزور ہو رہا ہے۔ البتہ کچھ یورپی ممالک میں پولیس کے سخت ردعمل نے مغرب کے انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے دعوے کی حقیقت کو اجاگر کر دیا ہے۔
اکتوبر 2023ء کو اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملوں کے آغاز کے بعد سے مغرب میں صیہونی مخالف مظاہروں میں تیزی آئی ہے۔ عالمی یوم قدس کی مناسبت سے پیرس، برلن، ویانا، لندن اور دیگر یورپی شہروں میں مظاہرے ہوئے، جن میں اسرائیل کی فوجی اور سیاسی حمایت ختم کرنے اور اس کے رہنماؤں کو جنگی جرائم کے الزام میں مقدمے کی سماعت کا مطالبہ کیا گیا۔ برطانیہ میں فلسطینی یکجہتی کی تحریک کے رہنماء پیٹر لیری نے کہا کہ ہم 17 ماہ سے فلسطینی عوام کے ساتھ ان کی تاریخ کے تاریک ترین لمحات میں کھڑے ہیں، اسرائیل کی جانب سے ہونے والے خوفناک قتل عام کے دوران ہم اہل غزہ سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔
جنگ کو روکنے کی تحریک کے نمائندے لنڈسی جرمن نے بھی کہا ہے کہ ہمیں غزہ میں مزید کتنے جنگی جرائم دیکھنے پڑیں گے، جب تک کہ لندن حکومت اس کو نسل کشی قرار نہیں دے گی۔؟ ان مظاہروں میں مظاہرین نے "فلسطین کو آزاد کرو"، "غزہ میں نسل کشی بند کرو" جیسے نعرے لگائے اور غزہ میں نسل کشی کی مذمت کی۔ دوسری جانب پیرس میں مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کے تشدد نے سرکاری سنسرشپ پر تنقید میں اضافہ کیا ہے۔ حالانکہ ان مظاہروں میں مختلف گروہوں بالخصوص نوجوانوں، بائیں بازو کے کارکنوں اور یہاں تک کہ صیہونی مخالف یہودیوں کی شرکت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ عوامی احتجاج ہے اور کسی خاص مذہب یا علاقے سے مربوط نہیں۔ کچھ یورپی نمائندوں اور کارکنوں نے اپنی حکومتوں پر اسرائیل کے ساتھ تعاون کرنے کا الزام لگایا۔
فرانس میں سرگرم "یہودی اتحاد برائے امن" نے پیرس میں ایک سیمینار منعقد کیا، جس کا مقصد خطے میں اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کے خطرے سے نمٹنا اور غزہ پٹی میں فلسطینی قوم کے قتل عام کے جرم میں قابض صیہونی حکومت کے سربراہان کو جوابدہ ٹھہرانا تھا۔ بہرحال صیہونیت کی بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی اور ان کے خلاف صیہونیت مخالف یہودیوں کی اندرونی تنقید نے مغربی حکومتوں پر صیہونیت نواز پالیسیاں تبدیل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی مسلسل فوجی حمایت اور صیہونیت مخالف مظاہرین کے ساتھ سکیورٹی فورسز کے تصادم نے عوام اور مغربی حکومتوں کے درمیان فاصلے کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق عوام اور حکومت کے درمیان بڑھتی ہوئی یہ خلیج مستقبل میں مغربی ممالک کے لیے ایسا چیلنج بنے گی، جس سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صیہونیت مخالف مغربی حکومتوں مظاہروں میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی کے درمیان عوام اور حکومت کے کے خلاف دیا ہے
پڑھیں:
پاکستان کا ترقی کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنا لازمی ہے؟ پروفیسر شاہدہ وزارت کا انٹرویو
کیا پاکستان کو معاشی ترقی کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنا لازمی ہے؟ کیا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کیے بغیر ترقی نہیں کر سکتا؟ اسرائیل کو کیوں تسلیم نہیں کیا جا سکتا؟ قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کیبجائے پاکستان اسے بڑی طاقتوں کے حوالے کیوں کر رہا ہے؟ کیا اسرائیلی دانشوروں نے پاکستانی حکومت کو قدرتی معدنیات امریکا کو دینے کا مشورہ دیا؟ پاکستانی حکومتیں ماہر معاشیات کی ملک دوست پالیسیز کو سنجیدہ کیوں نہیں لیتیں؟ پاکستان کی امریکا نواز معدنیات پالیسی کے پاک چین تعلقات پر اثرات؟ اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان نظر انداز، امریکا کا بھارت کیساتھ دس سالہ دفاعی اسٹراٹیجک معاہدہ کیوں؟ کیا پاکستان ابھی بھی نوآبادیاتی دور سے گزر رہا ہے؟ و دیگر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ماہر معاشیات پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا خصوصی ویڈیو انٹرویو ضرور سنیئے اور احباب و اقارب کیساتھ بھی شیئر کیجیئے۔ متعلقہ فائیلیںپروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت پاکستان کی معروف ماہر معاشیات اور تجزیہ کار ہیں، وہ انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کے کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیویلپمنٹ کی ڈین کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ وہ کئی کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں، گزشتہ سال انکی کتاب “Alternative to the IMF And Other Out of the Box Solutions” کو بہت پذیرائی ملی۔ وہ اکثر و بیشتر ملکی و غیر ملکی ٹی وی چینلز، فورمز اور ٹاک شوز میں بحیثیت تجزیہ کار ملکی و عالمی معاشی امور پر اپنی ماہرانہ رائے پیش کرتی ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دباؤ، معاشی ترقی کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنا، قیمتی معدنیات امریکا کو دینا، پاکستان کو نظرانداز کرکے امریکا کا ہندوستان سے دفاعی معاہدہ سمیت دیگر متعلقہ موضوعات کی مناسبت سے انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی میں انکے ساتھ مختصر نشست کی۔ اس موقع پر ان سے لیا گیا خصوصی انٹرویو پیش خدمت ہے۔ قارئین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial