سندھ کے نجی اسکولوں میں بُک بینک قائم کیا جائے: رفیعہ ملاح کا مراسلہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
پروفیسر رفیعہ ملاح — فائل فوٹو
صوبائی وزیرِ تعلیم سردار علی شاہ کی نجی اسکولوں کو بُک بینک قائم کرنے کی ہدایت پر رجسٹرار پرائیویٹ اسکول پروفیسر رفیعہ ملاح نے نجی اسکولوں کے لیے بُک بینک کے قیام کا گشتی مراسلہ جاری کر دیا۔
مراسلے میں نجی اسکولوں کے سربراہوں سے کہا گیا ہے کہ وہ وزیرِ تعلیم کے اس وژن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامات کریں، ان کا یہ اقدام تعلیمی وسائل کو بانٹنے کے لیے ایک معاون نظام بنائے گا، جس سے ضرورت مند طلبہ کے لیے زیادہ سے زیادہ رسائی کو یقینی بنایا جائے گا۔
مراسلے کے مطابق بُک بینک ایک مرکزی ذخیرے کے طور پر کام کرے گا، اسکولوں کے ساتھ اس کی ترقی میں طلبہ، والدین اور کمیونٹی کے اراکین کو بھی فعال طور پر شامل کیا جائے گا، جو طلبہ نئی کتابیں خرید سکتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، اگلی جماعت میں ترقی کرنے والے طلبہ کو چاہیے کہ وہ اپنی استعمال شدہ نصابی کتابیں چھوٹے بہن بھائیوں، ساتھی طلبہ کو منتقل کریں۔
سندھ میں سپریم کورٹ کے احکامات کے برخلاف او پی ایس پر ایک اور تقرری کر دی گئی ہے۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ حکومتِ سندھ ’تعلیم سب کے لیے‘ کے رہنما اصول کے تحت تعلیم کے شعبے میں درپیش چیلنجز پر قابو پانے کے لیے پُرعزم ہے، اس اقدام کا مقصد یکساں تعلیمی مواقع کو یقینی بنا کر تمام بچوں اور نوجوانوں کی سیکھنے کی ضروریات کو پورا کرنا ہے اور خاص طور پر مستحق اور پسماندہ طلباء کو تعلیمی مدد فراہم کرنا ہے۔
مزید برآں بہت سے خاندانوں کو درپیش مالی رکاوٹوں کو تسلیم کرتے ہوئے محکمۂ تعلیم نے سندھ بھر کے تمام پبلک سیکٹر اسکولوں میں مفت نصابی کتب کی فراہمی اور بک بینکوں کے قیام سمیت کئی انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ بُک بینک کے قیام کے مؤثر نفاذ کے لیے اسکول ایک فوکل پرسن کو نامزد کریں جو بک بینک کے مناسب کام کو یقینی بنانے کے لیے بک بینک کے تمام پہلوؤں کی نگرانی اور انتظام کے لیے ذمے دار ہو۔
کراچی کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ کانفرنس کا عنوان ’ڈیولپمنٹ کانفرنس آن فلڈ افیکٹڈ اسکولز‘ تھا جسے ایشیائی ترقیاتی بینک کے اشتراک سے منعقد کیا گیا۔
مزید برآں اسکول نئی کتابوں یا کورسز کی خریداری کے لیے عطیہ کردہ کتابیں استعمال کرنے والے طلبہ پر کوئی شرط عائد نہیں کریں گے۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ بُک بینک کے قیام سے ناصرف پسماندہ طلبہ کی تعلیم میں مدد ملے گی اور سیکھنے کے مساوی مواقع حاصل کرنے کے ان کے حق کو یقینی بنایا جائے گا بلکہ تعلیمی وسائل کے ضیاع کو کم کرنے، اسکولوں میں پائیداری اور کمیونٹی کی حمایت کے کلچر کو فروغ دینے میں بھی مدد ملے گی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کہا گیا ہے کہ نجی اسکولوں مراسلے میں ک بینک کے کو یقینی کے قیام کے لیے
پڑھیں:
اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-5
غلام حسین سوہو
یہ مضمون اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ تعلیمی کارکنوں کی اندرونی تحریک کو کس طرح دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ اس جمی ہوئی بے حسی کا مقابلہ کیا جا سکے جو ایک خطرناک اور ہر طرف پھیلی ہوئی بلا کی طرح پروان چڑھ چکی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اس آفت سے ناآشنا ہیں جس نے ہماری قومی اساس کو خود انحصاری اور خوشحالی کے لیے کھوکھلا کر دیا ہے۔
“I hope when the going gets tough, the tough get going” کے مطابق اگر ہم کامیاب ہو گئے تو ہم تدریسی شعبے کو قربانی، ہمدردی اور مسلسل نشوونما کی بنیاد پر ایک باوقار پیشے میں بدل سکیں گے۔ لوگ استاد کے کردار کو محض تدریسی ذمے داری نہیں بلکہ طلبہ کو علم کی بھول بھلیوں میں رہنمائی کرنے، تجسس کی آگ جلانے، مہارتیں، قابلیتیں اور باوقار کردار حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اسی پیمانے پر جب ہم یہ سوال کرنے کی ہمت کرتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور تعلیمی رجحانات کس طرف بڑھ رہے ہیں، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ٹیکسٹ بْک، رٹے بازی اور مبہم تعلیمی منتقلی کا کلچر حاوی ہے۔ جدید بورڈز، اسمارٹ کلاس رومز اور ہائی ٹیک لیب کے باوجود تعلیمی ترقی جمود کا شکار ہے۔ مسئلہ ٹیکنالوجی کی موجودگی یا غیر موجودگی کا نہیں بلکہ جذبے، لگن اور جدت کی کمی کا ہے۔
یہ موجودہ کلچر گھوڑے کی لاش کو پیٹنے کے مترادف ہے، جہاں تعلیم حوصلہ افزا نہیں بلکہ مایوس کن ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اساتذہ کو زیادہ پیشہ ورانہ خودمختاری دی جائے تو وہ اپنے کام کو ذاتی ذمے داری سمجھیں گے۔ مثال کے طور پر اگر اساتذہ کو نصابی کتب اور باندھے ہوئے وسائل سے ہٹ کر اپنی تدریسی حکمت ِ عملیاں بنانے اور نافذ کرنے کی آزادی دی جائے تو وہ طلبہ کو ذمے دار شہری اور روزگار کے قابل بنانے میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ اسی طرح معاونتی نظام بھی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ اساتذہ اپنی فلاح و بہبود کو ترجیح دے سکیں، مثلاً وسائل میں سہولت، رعایتیں اور انتظامی بوجھ میں کمی۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معزز اساتذہ اپنی علمی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بعض کا ماننا ہے کہ ہاں، مگر عملی رکاوٹیں جیسے نصاب کی تکمیل کے لیے وقت کی کمی، وسائل کی قلت اور ناکافی تحریک انہیں مزید ترقی سے روکتی ہے۔ دوسری طرف کچھ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اساتذہ میں پائی جانے والی بے حسی پورے نظام تعلیم کو کمزور کر سکتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم ایسا احتسابی کلچر پیدا کریں جو ہمدردی پر مبنی ہو۔ میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ احتساب کا مطلب صرف سزا نہیں بلکہ نشوونما اور بہتری ہے۔ اساتذہ کو بااختیار بنانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کریں اور اجتماعی ذمے داری کا ماحول پیدا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی کلچر میں جذبے، جدت اور لگن کی کمی ہے۔ ہمیں ایسے کلچر کی ضرورت ہے جہاں استاد خود کو تبدیلی کے ایجنٹ سمجھیں اور نئے تجربات کرنے سے نہ گھبرائیں۔ اسی طرح طلبہ پر مرکوز تدریسی طریقے مثلاً تحقیق پر مبنی اور منصوبہ جاتی تدریس اساتذہ میں تدریس کی خوشی دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔
’’سماج اکثر یہ خواب دیکھتا ہے کہ اساتذہ کو اپنے آپ کو روشنی کے نگہبان سمجھنا چاہیے — ایسے افراد جو دوسروں کی راہوں کو روشن کرنے کے لیے اپنی قربانی پیش کرتے ہیں‘‘۔ لیکن اس کے لیے ہمدردی اور نرمی پر زور دینا لازمی ہے۔ جذباتی ذہانت کی تربیت اساتذہ کو یہ سکھا سکتی ہے کہ طلبہ کے ساتھ بامعنی تعلقات کیسے قائم کیے جائیں، اعتماد اور تعاون کا ماحول کیسے پیدا کیا جائے۔
’’میٹا کوگنیٹو مہارتوں کی پرورش اساتذہ کو یہ قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی تدریسی حکمت ِ عملیوں کا تنقیدی جائزہ لیں اور طلبہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ضروری تبدیلیاں کریں‘‘۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی، واضح تدریسی طریقے اور عملی تربیت کو ملانا ضروری ہے تاکہ طلبہ کو صاف اور منظم رہنمائی ملے۔ اسی طرح مضمون پر مبنی تربیت اساتذہ کے علمی اثاثے کو گہرا کرتی ہے جس سے وہ زیادہ مؤثر اور دلچسپ اسباق فراہم کر سکیں۔
کامیاب تعلیمی نظام کا انحصار مسلسل سیکھنے، ہمدردی اور جدت پر ہے۔ اس طرح ہم اپنے اساتذہ کو حقیقی روشنی کے نگہبان میں بدل سکتے ہیں جو قربانی، نرمی اور غیر متزلزل لگن کے ساتھ اپنے کردار کو نبھائیں۔ جب ہم ان کی ترقی میں سرمایہ کاری کریں گے اور ان کو ضروری سہولتیں فراہم کریں گے تو ہم ایسا ماحول تشکیل دیں گے جہاں استاد اور طلبہ دونوں ترقی کریں اور آئندہ نسلوں کی زندگیوں کو روشن، بااختیار اور بہتر بنائیں۔
(مصنف ایک ماہر ِ تعلیم ہیں جنہوں نے مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، جن میں: سینئر ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈی جی ایجوکیشن، ایف ڈی ای اسلام آباد۔ ڈائریکٹر (سرٹیفکیشن) NAVTTC۔ ڈائریکٹر (آپریشنز اینڈ لیگل) STEVTA۔ ریجنل ڈائریکٹر وفاقی محتسب حیدرآباد۔ چیئرمین، بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی)