اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔26 مارچ ۔2025 ) سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ حکومت تنخواہ دار طبقات سے 38فیصد ٹیکس لیتی ہے، ہزاروں ایکڑ اراضی اوربڑی پراپرٹی والوں سے ٹیکس نہیں لیتی ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ترسیلات زر نے ہماری معیشت کو بڑا سہارا دیا ہے، اور ترسیلات زر مزید بڑھ رہی ہیں، ایکسپورٹ اور ترسیلات زر بڑھا کر امپورٹ کے برابر ہوتی ہیں، اگر ہم امپورٹ کو کم رکھیں، جب ہماری گروتھ، شرح نمو بڑھتی ہے تو ہماری امپورٹ بھی بڑھ جاتی ہیں جس کی وجہ سے اس کیلئے ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے اور روپیہ پھر ڈی ویلیو ہوتا ہے، ہمارے اوپر 20، 25ارب ڈالر کا قرض ہے ، اس پر سود دینا ہوتا ہے اور پیسے واپس کرنے ہوتے ہیں، اس کیلئے مزید قرض لینا پڑتا ہے.

انہوں نے کہا ہماری کوشش ہونی چاہیئے کہ برآمدات کو اتنا بڑھا لیں کہ امپورٹ کے برابر آجائیں، تاکہ ترسیلات زر سے قرض ادا کرسکیں ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے 90 کی دہائی سے ہم وقت ضائع کررہے ہیں، اس وقت ہماری ایکسپورٹ ویتنام کے برابر تھیں، آج ویتنام کی ایکسپورٹ 380 ارب ڈالر کے برابر ہیں، ہم بچوں کو تعلیم نہیں دے سکتے، ہمارے 2 کروڑ 70لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں، صحت کی سہولیات نہیں دے سکتے، بجلی مہنگی ہے ٹیکسز زیادہ ہیں، دنیا بھر میں ایکسپورٹ پر ہمارا ٹیکس زیادہ ہے، گیس مہنگی ہے، بجلی مہنگی ہے ، امن وامان کی صورتحال کے مسائل ہیں، تو کیسے ایکسپورٹ بڑھے گی؟جب تک ہم لوکل گورنمنٹ کو خود مختار نہیں بناتے، بجلی سستی نہیں کرتے، نجکاری نہیں کرتے تو ہم کیسے ایکسپورٹ بڑھائیں گے؟.

مفتاح اسماعیل نے کہا اس حکومت میں افراط زر اس لئے کم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں خام تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، اس حکومت نے ایک سال میں معاشی پالیسی کیلئے ایک اقدام نہیں اٹھایاجس سے معاشی استحکام آسکے اور ہم گروتھ کی جانب جاسکیں ماسوائے آئی ایم ایف پروگرام دستخط کرنے کے کوئی معاشی قدم نہیں اٹھایا گیا جب تک این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی نہیں کرتے ملک میں خسارہ کم نہیں ہوگا حکومت تنخواہ دار طبقات سے 38فیصد ٹیکس لیتی ہے لیکن ہزاروں ایکڑ اراضی اوربڑی پراپرٹی والوں سے ٹیکس نہیں لیتی جب تک اشرافیہ کے پنجے سے ملک کو نہیں چھڑوائیں گے تو ملک کیسے آگے بڑھے گا؟ .

انہوں نے کہا کہ حکومت کہہ رہی تھی کہ پیٹرول اور ڈیزل پر 10، 10روپے ٹیکس لگایا، 17ارب حکومت ملتا ہے یعنی 200ارب عوام کی جیب سے نکل کر حکومت کو جائے گا انہوں نے کہا امید تھی کہ وزیراعظم 23 مارچ کوبجلی سستی کرنے کا بڑا اعلان کریں گے ٹیکس لگانے کے بعد بھی بجلی سستی نہیں کی گئی حکومت نے ٹیکس بھی لے لیا اور آئی پی پیز معاہدوں سے بھی بچت ہوئی لیکن پھربجلی سستی نہیں کی گئی ستم ظریفی یہ ہے کہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بھی 3، 4روپے سستے نہیں کئے گئے انہوں نے کہا کہ کپاس، گندم ، گنا، چاول اور مکئی پانچوں کو فصلوں کی پیداوار کم سطح پر ہے، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ بھی کم ہوگئی ہے، اسی لئے اوسط انکم کم ہورہی ہے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا ترسیلات زر بجلی سستی کے برابر

پڑھیں:

پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے  سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔

وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔

حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔

حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے،  ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔

انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ  قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان  نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔

متعلقہ مضامین

  • اگست کے دوران ٹیکسٹائل، خوراک، پیڑولیم اور مینوفیکچرنگ سیکٹرز کی ایکسپورٹ میں کمی
  • ’اپنی سیلری سے خوش ہوں‘، ایمازون کے بانی جیف بیزوس سالانہ کتنی تنخواہ لیتے ہیں؟
  • آئی ایم ایف کی اگلے قرض پروگرام کیلئے نئی شرائط، حکومت بجٹ سرپلس اورٹیکس ہدف حاصل کرنے میں ناکام
  • چین کی بڑھتی طلب، پاکستان کو بیف ایکسپورٹ کا نیا آرڈر حاصل
  • سیلاب متاثرین کی بحالی، کاروں، سگریٹ اور الیکٹرانک اشیا پر اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز
  • کسانوں پر زرعی ٹیکس کے نفاذ پر اسپیکر پنجاب اسمبلی برہم
  • سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
  • پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
  • پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ