فاروق رحمانی کی مقبوضہ کشمیر میں چھاپوں، تلاشی کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اسلام آباد سے جاری ایک بیان میں حریت کانفرنس کے رہنما کا کہنا کہ قابض فورسز سری نگر، سوپور، بانڈی پور، بڈگام اور دیگر اضلاع میں چھاپوں کے دوران حریت رہنمائوں کی رہائش گاہوں کو خاص طور پر نشانہ بنا رہی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر شاخ کے سابق کنوینر محمد فاروق رحمانی نے بھارتی حکام کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں چھاپوں اور تلاشی کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی شدید مذمت کی ہے۔ ذرائٰع کے مطابق محمد فاروق رحمانی نے اسلام آباد سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ قابض فورسز سری نگر، سوپور، بانڈی پور، بڈگام اور دیگر اضلاع میں چھاپوں کے دوران حریت رہنمائوں کی رہائش گاہوں کو خاص طور پر نشانہ بنا رہی ہیں۔ محمد فاروق رحمانی نے کہا کہ اوناگام بانڈی پور میں ان کے آبائی گھر کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی کئی دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات پر ان کے گھر پر کئی مرتبہ چھاپہ مارا گیا اور علاقے میں خوف و دہشت کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے حصے بخرے کرنے اور اسے یونین ٹیریٹری بنانے کے بعد علاقے میں انتظامیہ مکمل طور پر تبدیل کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتظامی نوعیت کی تمام اہم پوسٹوں پر بھارتی عہدیداروں کو مقرر کیا گیا ہے اور کشمیریوں کی زندگی جہنم بنا دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی ہندوتوا حکومت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ محمد فاروق رحمانی نے کہا کہ بھارت اپنے غیر قانونی اقدامات سے جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت ہرگز تبدیل نہیں کر سکتا اور نہ ہی ظالمانہ ہتھکنڈوں سے کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو دبا سکتا ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: محمد فاروق رحمانی نے انہوں نے کہا کہ میں چھاپوں
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، 05 اگست 2019ء سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں تیزی آئی
سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشاء کو مسلسل ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے اور کشمیری بھی سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہندوتوا بھارتی حکومت کیطرف سے اگست 2019ء میں 370 اور 35 اے دفعات کی منسوخی کے بعد بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بڑے پیمانے پر تیزی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی فورسز نے اگست 2019ء سے اب تک مقبوضہ علاقے میں کئی خواتین سمیت 1 ہزار 43 افراد کو شہید کیا۔ شہید ہونے والوں میں اکثر نوجوان تھے۔ اس عرصے کے دوران 2 ہزار 6 سو 56 سے زائد افرار کو زخمی جبکہ 29 ہزار 9 سو 97 سے زائد کو شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ دریں اثنا بھارتی فورسز نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں میں گزشتہ ماہ(اکتوبر) میں 2 کشمیریوں کو ایک جعلی مقابلے میں شہید کیا۔بھارتی فوجیوں، پولیس، پیرا ملٹری اہلکاروں اور بدنام زمانہ تحقیقاتی اداروں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے)، سٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی (ایس آئی اے) کی ٹیموں نے محاصرے اور تلاشی کی 244 کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران 42 شہریوں کو گرفتار کیا، جن میں زیادہ تر سیاسی کارکن، نوجوان اور طلباء شامل ہیں۔
گرفتار کیے جانے والوں میں سے بیشتر کے خلاف ”پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے“ جیسے کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ اس عرصے کے دوران 20 کشمیریوں کے مکان، اراضی اور دیگر املاک ضبط کی گئیں جبکہ دو کشمیری مسلم ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا۔ بھارتی فورسز اہلکاروں نے اکتوبر میں دو کشمیری خواتین کو بے حرمتی کا نشانہ بنایا۔ ادھر کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، نعیم احمد خان، ایاز اکبر، پیر سیف اللہ، معراج الدین کلوال، فاروق احمد شاہ ڈار، سید شاہد شاہ،، ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم، مشتاق الاسلام، ڈاکٹر حمید فیاض، شاہد الاسلام، بلال صدیقی، مولوی بشیر عرفانی، ظفر اکبر بٹ، نور محمد فیاض، عبدالاحد پرہ، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، رفیق احمد گنائی، فردوس احمد شاہ، سلیم ننا جی، محمد یاسین بٹ، فیاض حسین جعفری، عمر عادل ڈار، انسانی حقوق کے محافظ خرم پرویز اور صحافی عرفان مجید سمیت 3 ہزار سے زائد کشمیری جھوٹے مقدمات میں جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند ہیں جہاں انہیں طبی سمیت تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔
سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے وادی کشمیر میں بھارت کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا دنیا جنوبی ایشیا میں ایک اور فلسطین جیسی صورتحال پیدا ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔ بی جے پی کی ہندو انتہا پسند بھارتی حکومت بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین پامالی کررہی ہے جس کا واحد مقصد کشمیریوں کی آزادی کی آواز کو دبانا ہے۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشاء کو مسلسل ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے اور کشمیری بھی سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں نہتے لوگوں پر جاری بھارتی جبر و تشدد کا نوٹس لیں اور تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے بھارتی حکومت پر دباﺅ ڈالے۔