و زیرِ اعظم کےمعاون خصوصی طارق فاطمی کی امریکی اہم عہدیداروں سے ملاقاتیں
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
و زیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ سید طارق فاطمی نے امریکی اہم عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔ ان اعلی سطحی ملاقاتوں میں پاک امریکہ دو طرفہ تعلقات خصوصا تجارت، معاشی تعلقات اور سرمایہ کاری کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینے کے لئے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ علاوہ ازیں علاقائی صورتحال اور بین الاقوامی معاملات بھی زیر غور آئے۔ پاکستانی سفارتخانہ واشنگٹن ڈی سی سے جاری بیان کے مطابق معاون خصوصی نے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی قائم مقام انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ برائے سیاسی امور لیزا کینا سے ملاقات کی۔ انہوں نے نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سینیئر ڈائریکٹر برائے جنوبی و سنٹرل ایشیا رکی گل سے بھی ملاقات کی۔ دیگر ملاقاتوں میں امریکی کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی کے رینکنگ ممبر گریگوری میکس ، امور خارجہ کی ذیلی کمیٹی برائے جنوبی و سنٹرل ایشیا کے چئیرمین بل ہوئی زنگا اور ریپبلکن پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر جم بینکس سے بھی ملاقات شامل ہے۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ بھی ان ملاقاتوں میں معاونِ خصوصی کے ہمراہ تھے۔امریکی رہنماں سے ملاقاتوں کے دوران معاونِ خصوصی نے حکومت پاکستان کی معاشی ترجیحات کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی دن رات کوششوں کی بدولت معاشی اشاروں میں واضح بہتری آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی جانب سے ملکی معیشت پر اظہار اطمیان اس امر کا ثبوت ہے کہ معیشت درست سمت میں گامزن ہے۔ معاونِ خصوصی نے کہا کہ پاک امریکہ تعلقات کے ضمن میں تجارت، سرمایہ کاری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں میں تجارتی تعلقات کے فروغ کا بے انتہا پوٹینشل موجود ہے جسے برے کار لا کر نہ صرف دونوں ملکوں کی کاروباری استفادہ کر سکتی ہے بلکہ اس سے خطے کی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
شام کی صورتحال شہید سید ابراہیم رئِسی کے معاون کی آنکھ سے
ایک ٹی وی پروگرام میں پروفیسر سید محمد حسینی کا کہنا تھا کہ اب بہت سی اقوام پر واضح ہو چکا ہے کہ اصل خطرہ ایران نہیں بلکہ امریکہ و اسرائیل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق ایرانی صدر شہید "سید ابراہیم رئیسی" کے معاون، پروفیسر "سید محمد حسینی" نے نیشنل ٹی وی پر شام کی صورت حال پر تبصرہ کیا۔ اس حوالے سے سید محمد حسینی نے کہا کہ آج کل شام میں اہم واقعات رونماء ہو رہے ہیں۔ اسرائیل نے جولانی گینگ جیسے دہشت گرد گروہ کے زیر استعمال صدارتی محل اور فوجی ہیڈکوارٹر کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا۔ حالانکہ شام کے پاس نہ تو کوئی جوہری پروگرام ہے، نہ ہی یورینیم افزودگی کا نظام، نہ میزائل کی صلاحیت اور نہ ہی مؤثر فضائی دفاع۔ اس ملک کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے اور یہ کسی کے لیے بھی سنگین فوجی خطرہ نہیں۔ اس کے باوجود دشمن شام پر بمباری اور مداخلت جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ حقیقت اسرائیل کے مقاصد کی نوعیت کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ شام کو ٹکڑوں میں بانٹنا چاہتے ہیں۔ ترکیہ سے وابستہ حلب کی حکومت، امریکہ سے وابستہ کردوں کی حکومت، دروزیوں کی ایک الگ حکومت، اور دمشق یا علویوں کی حکومت کے قیام کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ واضح طور پر شام کے حکومتی ڈھانچے کے مکمل ٹوٹنے کی منصوبہ بندی کو ظاہر کرتا ہے۔
پروفیسر سید محمد حسینی نے کہا کہ اسرائیل کا ہدف صرف شام اور لبنان تک محدود نہیں۔ اگر وہ کر سکیں تو عراق، سعودی عرب، مصر اور خطے کے دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ وہ ایک ایسا علاقائی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں طاقت ان کے ہاتھ میں ہو اور باقی ممالک ان کے تابع۔ انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے آج عالم اسلام میں وسیع پیمانے پر بیداری پیدا ہوئی ہے۔ گذشتہ دور میں، ایران کو علاقائی خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا لیکن اب بہت سی اقوام پر واضح ہو چکا ہے کہ اصل خطرہ ایران نہیں بلکہ امریکہ و اسرائیل ہیں۔ یہی عوامی بیداری ہے جس کی وجہ سے قومیں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی حمایت کر رہی ہیں اور یہاں تک کہ بہت سی حکومتیں بھی ساتھ دینے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلی بار ہم نے دیکھا کہ اسلامی ممالک اور یہانتک کہ عرب لیگ بھی ایران کے موقف کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس کا عالمی عوامی رائے پر مثبت اثر پڑا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ رجحان مستقبل میں بھی جاری رہے گا اور مزید مضبوط ہوگا۔