Islam Times:
2025-07-26@01:09:23 GMT

یوم القدس کیوں اہم ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

یوم القدس کیوں اہم ہے؟

اسلام ٹائمز: روز قدس حقیقی معنی میں بین الاقوامی اسلامی دن ہے۔ وہ دن جب ایرانی قوم دنیا کی دیگر اقوام کے ہمراہ حق کی آواز اٹھاتی ہے، ایسی آواز جسے خاموش کرنے کے لیے گذشتہ ساٹھ سال سے استکباری طاقتیں سرگرم عمل ہیں، البتہ غاصب رژیم کی تشکیل سے ساٹھ سال گزرے ہیں ورنہ شاید سو سال سے زیادہ عرصہ ہے کہ دنیا کے نقشے سے فلسطین ختم کرنے کے درپے ہیں۔ کافی حد تک اس کام میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ اسلامی انقلاب نے ان کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔ اسلامی جمہوریہ نظام کی تشکیل، عالمی یوم القدس کے اعلان اور غاصب صہیونی رژیم کے سفارت خانے کی جگہ فلسطین کا سفارت خانہ قرار دینے کے بعد ایک نئی تحریک نے جنم لیا جو استکباری سازشوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ آج خوش قسمتی سے یہ تحریک روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ تحریر: علی احمدی
 
ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کے فرامین کی روشنی میں یوم القدس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یوم القدس حق اور باطل کے درمیان صف آرائی کی علامت
ان سالوں میں انہوں نے یوم القدس کو کمزور کرنے کی کس قدر کوشش کی ہے جو حق اور باطل کے درمیان صف آرائی کی علامت ہے۔ یوم القدس حق اور باطل کے درمیان صف آرائی اور انصاف اور ظلم کے درمیان صف آرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ صیہونزم جیسے مہلک کینسر کے خلاف مسلمانوں کی صدائے احتجاج کا دن ہے جو غاصب، جارح اور استعماری طاقتوں نے اسلامی دنیا میں ڈالا ہے۔ روز قدس چھوٹی چیز نہیں ہے، روز قدس ایک عالمی دن ہے، ایک عالمی پیغام رکھتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ امت مسلمہ ظلم کے سامنے نہیں جھکتی چاہے اس ظلم کو دنیا کی طاقتور ترین حکومتوں کی حمایت بھی حاصل کیوں نہ ہو۔ روز قدس کو کمزور کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں لیکن ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ (20 ستمبر 2009ء)
 
دنیا کے نقشے سے فلسطین ختم کرنے میں رکاوٹ
روز قدس حقیقی معنی میں بین الاقوامی اسلامی دن ہے۔ وہ دن جب ایرانی قوم دنیا کی دیگر اقوام کے ہمراہ حق کی آواز اٹھاتی ہے، ایسی آواز جسے خاموش کرنے کے لیے گذشتہ ساٹھ سال سے استکباری طاقتیں سرگرم عمل ہیں، البتہ غاصب رژیم کی تشکیل سے ساٹھ سال گزرے ہیں ورنہ شاید سو سال سے زیادہ عرصہ ہے کہ دنیا کے نقشے سے فلسطین ختم کرنے کے درپے ہیں۔ کافی حد تک اس کام میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ اسلامی انقلاب نے ان کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔ اسلامی جمہوریہ نظام کی تشکیل، عالمی یوم القدس کے اعلان اور غاصب صہیونی رژیم کے سفارت خانے کی جگہ فلسطین کا سفارت خانہ قرار دینے کے بعد ایک نئی تحریک نے جنم لیا جو استکباری سازشوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ آج خوش قسمتی سے یہ تحریک روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ (24 اگست 2011ء)
 
مسئلہ فلسطین فراموش کر دیے جانے کی سازش کا مقابلہ
روز قدس بہت اہم اور فیصلہ کن دنوں میں سے ایک ہے۔ کئی سالوں سے مسئلہ فلسطین کو فراموشی کا شکار کر دیے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ روز قدس وہ تیر ہے جس نے اس سازش کو نشانہ بنایا ہے۔ ایسی تحریک ہے جس نے اس منحوس سازش کو ناکام بنا دیا ہے جو استکبار اور صیہونزم کی جانب سے تشکیل پائی تھی۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین کو فراموش کر دیے جانے کی پوری کوشش کی ہے۔ روز قدس کو اہمیت دیں۔ یہ دن صرف ایران سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا کے مختلف حصوں میں مومن اور جذبہ ایمان سے سرشار عوام اپنی حکومتوں کی جانب سے پیدا کردہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود مناتے ہیں۔ انشاءاللہ مجھے امید ہے کہ اس سال بھی روز قدس فلسطینی قوم اور اسلامی دنیا کے دشمنوں کے منہ پر شدید طمانچہ ثابت ہو گا۔ (8 جنوری 1999ء)
 
وہ دن جب مظلوم فلسطینی عوام حمایت کا احساس کرتے ہیں
آج آپ جو مظاہرہ کرنا چاہ رہے ہیں وہ انتہائی اہم ہے، اس کی خبریں عالمی میڈیا میں آتی ہیں اور مظلوم فلسطینی عوام محسوس کرتے ہیں کہ دنیا کی اقوام ان کی حامی ہیں۔ البتہ ہماری قوم نے الحمدللہ کبھی بھی سستی کا مظاہرہ نہیں کیا اور جب بھی انہیں فلسطین کے لیے بلایا گیا ہے وسیع پیمانے پر حاضر ہوئے ہیں۔ عالمی اداروں اور اقوام کو بیدار ہونا چاہیے۔ یہ عالمی ادارے جو اکثر اوقات استکباری اہداف کی تکمیل کے لیے سرگرم رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ ایک بار ہی سہی استکباری طاقتوں کی مرضی کے خلاف اقوام عالم کے حق میں عمل کریں اور عالمی رائے عامہ کی توجہ حاصل کریں اور ظالم اور غاصب کی مذمت کر کے مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت کریں۔ اگر عرب حکومتیں، اسلامی حکومتیں، مسلمان اقوام اور عالمی ادارے فعال ہوں تو فلسطینیوں کو ان کا حق مل سکتا ہے۔ (5 اپریل 2002ء)
 
اسلامی دنیا میں یہ عظیم عمل روز بروز رائج ہو رہا ہے اور مزید وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے، اس سال عالم اسلام میں اکثر مسلمان اقوام نے یوم القدس کی مناسبت سے مظاہرے منعقد کیے ہیں، عالم اسلام کے مشرقی حصے یعنی انڈونیشیا سے لے کر اسلامی دنیا کے مغربی حصے یعنی افریقہ اور نائیجیریا تک۔ اسلامی ممالک میں جہاں بھی عوام کو اجازت دی گئی ہے انہوں نے یوم القدس کے دن اپنی نیت اور ارادے کا اظہار کیا ہے، عوام سڑکوں پر نکلے ہیں اور انہوں نے ثابت کیا ہے کہ مسئلہ فلسطین ان کے لیے اہم ہے۔ حتی وہ مسلمان جو یورپی ممالک میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور وہاں اقلیت میں ہیں اور حکومت کی جانب سے شدید دباو کا شکار ہیں وہ بھی یوم القدس منانے سڑکوں پر آئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامیوں کی خواہش کے برعکس مسئلہ فلسطین روز بروز اسلامی دنیا میں زندہ ہوتا جا رہا ہے۔ (1 اکتوبر 2008ء)
 
امت مسلمہ کی رگوں میں نیا خون دوڑنے کا دن
یوم القدس، یہ عظیم اقدام جس کی بنیاد امام خمینی رح نے رکھی اور الحمد اللہ روز بروز بہتر اور ہر سال زیادہ پرجوش انداز میں منایا جا رہا ہے ایک بہت ہی گہرا اور معنی خیز اقدام ہے۔ یہ صرف ایک مظاہرہ یا ریلی نہیں ہے بلکہ وہ خون ہے جو اس دن امت مسلمہ کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ اگرچہ دشمن مسئلہ فلسطین اور ملت فلسطین کو فراموش کر دیے جانے کی بھرپور کوششیں انجام دے رہے ہیں لیکن یہ مسئلہ دن بدن زندہ ہوتا جا رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ اسلامی حکومتوں کے کاندھوں پر بہت بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ہمیں امید ہے کہ خدا سب کو ہدایت دے اور انہیں اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کرے اور انہیں یہ ذمہ داریاں انجام دینے میں مدد فراہم کرے۔ (19 اگست 2012ء)

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے درمیان صف آرائی کر دیے جانے کی مسئلہ فلسطین اسلامی دنیا یوم القدس اسلامی دن جا رہا ہے انہوں نے کی تشکیل ساٹھ سال کہ دنیا کرنے کے دنیا کے کے خلاف دنیا کی ہیں اور کے لیے سال سے

پڑھیں:

ڈراموں میں زبردستی اور جبر کو رومانس بنایا جا رہا ہے، صحیفہ جبار خٹک

صحیفہ جبار خٹک نے کہا ہے کہ ریٹنگز کی خاطر ڈرامے جبر اور ظلم جیسے موضوعات کو رومانوی انداز میں دکھا رہے ہیں۔حال ہی میں انسٹاگرام پر صحیفہ جبار نے ایک اسٹوری شیئر کی، جس میں انہوں نے پاکستانی ڈراموں میں خواتین کی غیر حقیقی نمائندگی اور جبر و ظلم جیسے موضوعات کو رومانوی انداز میں پیش کیے جانے پر شدید تنقید کی ہے۔صحیفہ جبار نے لکھا کہ کیا واقعی پاکستانی گھروں میں خواتین روزانہ ساڑھیاں پہنتی ہیں؟ کیا وہ ہر روز اتنا میک اپ کرتی ہیں؟ ہمارے ڈراموں میں یہ سب دکھانے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کی اکثریتی آبادی کا تعلق نچلے یا متوسط طبقے سے ہے، جہاں روزمرہ زندگی میں مہنگے کپڑے پہننا عام بات نہیں ہے۔اداکارہ نے مزید کہا کہ ہمارے ڈراموں میں غلط طرزِ زندگی دکھایا جا رہا ہے اور ایسا پیش کیا جا رہا ہے جیسے ہر عورت اسی انداز میں زندگی گزارتی ہو۔اداکارہ نے ڈراما سیریلز کے بار بار دہرائے جانے والے مواد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جیسے کہ ساس بہو کی لڑائیاں، مظلوم عورت کا عزت بچانے کی جدوجہد اور ظلم کو رومانی انداز میں دکھانا۔انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ ڈراموں کی کہانیاں ایک جیسی کیوں ہو گئی ہیں؟ ہر کہانی میں ایک ہی بات کیوں ہوتی ہے؟ ہر لڑکی اپنی عزت کی وضاحت کیوں دیتی ہے؟ ہر ساس اپنی بہو پر ظلم کیوں کرتی ہے؟ ہر رشتہ زبردستی اور جبر پر کیوں مبنی دکھایا جا رہا ہے؟اداکارہ کے مطابق جبری شادی، ناپسندیدہ تعلق اور شوہر کا بیوی پر ظلم، یہ سب کچھ کئی ڈراموں میں اس طرح دکھایا جا رہا ہے جیسے یہ محبت کا حصہ ہو یا جیسے یہ سب عام اور قابلِ قبول بات ہو۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سب آخر کیوں ہو رہا ہے؟ صرف ریٹنگز کے لیے؟ یا ہم واقعی اپنے معاشرے کو مزید خراب کر رہے ہیں؟

متعلقہ مضامین

  • ہمارے حکمرانوں نے غزہ میں مظالم کی پشت پناہی کرنیوالے ٹرمپ کو نوبل انعام کیلئے نامزد کردیا، حافظ نعیم
  • ٹرمپ غزہ میں مظالم کی پشت پناہی کر رہا ہے جبکہ حکمرانوں نوبل انعام کیلئے نامزد کردیا ہے، حافظ نعیم
  • کراٹے کمبیٹ کے 3 مرتبہ عالمی چیمپیئن شاہ زیب رند وزیراعظم سے نالاں کیوں؟
  • ابھیشیک بچن اور کرشمہ کپور کی منگنی کیوں ٹوٹی تھی؟ وجہ سامنے آگئی
  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • ڈراموں میں زبردستی اور جبر کو رومانس بنایا جا رہا ہے، صحیفہ جبار خٹک
  • فلسطین کی صورتحال پرمسلم ممالک اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں(حافظ نعیم )
  • معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
  • عاشر وجاہت نے ہانیہ عامر سے دُوری کیوں اختیار کی؟
  • فلسطین کو رکنیت کیوں دی؟ امریکا نے تیسری بار یونیسکو سے علیحدگی کا اعلان کر دیا