لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 مارچ2025ء) سابق وزیر اعظم و پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے کہاہے کہ ملک کو دہشتگردی سمیت دیگر چیلنجز کا سامنا ہے ،باہمی اتحاد کی قوت سے ہی ملک کو مشکلات کی دلدل سے نکالا جاسکتا ہے ،اتحاد کی جتنی آج ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہ ہو۔ ان خیالات کا اظہارانہوںنے چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی مولانا عبدالخبیر آزاد سے اپنی رہائشگاہ پر ملاقات کے موقع پر کیا ۔

اس موقع پرامن وامان کی صورتحال ،ملک کو درپیش چیلنجز ،اتحادو یگانگت اور باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی گئی ۔ملاقات میں صوبائی وزیر اوقاف ومذہبی امور چوہدری شافع حسین بھی ملاقات میں موجود تھے ۔ملاقات میں خاتم النبیین یونیورسٹی کی بحالی اور قرآن کمپلیکس سے استفادہ کرنے کیلئے مختلف تجاویز پر بھی غور کیا گیا ۔

(جاری ہے)

چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے سب کو مل کر آگے بڑھنا ہے ،ملک کو دہشتگردی اور انتہا پسندی سے نجات دلانے کیلئے علما ء اور مشائخ کو کلیدی کردار ادا کرنا ہے ،وقت کی ضرورت ہے کہ محراب و منبر سے اتحاد کے فروغ کی آواز بلند ہو،علما ئے کرام ،مشائخ عظام اور دینی سکالرز معاشرے میں رواداری ،برداشت اور بھائی چارے کے جذبات کو فروغ دیں۔

انہوںنے کہا کہ قرآن اکیڈمی بڑی محنت سے بنائی گئی تھی لیکن بدقسمتی سے اس پر توجہ نہیں دی گئی ،چوہدری شافع حسین کو قرآن کمپلیکس کے معاملات ٹھیک کرنے کا کہا ہے ۔چوہدری شجاعت حسین نے رویت ہلال کمیٹی کے امور میں بہتری لانے میں عبدالخبیر آزاد کی خدمات کو سراہا ۔ چوہدری شافع حسین نے کہاکہ محکمہ اوقاف و مذہبیامور کے پورے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کیا جارہا ہے ، مساجد اور مزارات میں صفائی کے نظام کو بھی بہتر کیا جا رہا ہے ،محکمہ اوقاف و مذہبی امور کے معاملات کی بہتری کیلئے علما ئے کرام اور دینی سکالرز سے مشاورت کا عمل جاری ہے ۔

مولانا عبد الخبیر آزاد نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین کا گھر وحدت کی علامت ہے جہاں سے سب راہنمائی حاصل کرتے ہیں ،چوہدری شجاعت حسین شرافت اور رواداری کی علامت ہیں جنہیں دیکھ کر پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں ،مولانا عبد القادر آذاد مرحوم کے امت مسلمہ کے اتحاد کے مشن کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں ۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے چوہدری شجاعت حسین نے کہا ملک کو

پڑھیں:

حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار

اسلام آباد:

پاکستان میں توانائی کا شعبہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں پالیسی سمت اور اس کے عملی نفاذکے درمیان بڑھتا ہوا تضاد ملک کی صاف توانائی کی منتقلی کو شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔ 

حکومت، جو ایک وقت میں گھریلو اور تجارتی سطح پر شمسی توانائی کو بجلی کے بڑھتے نرخوں اور توانائی کی عدم تحفظ کا دیرپا حل قرار دیتی تھی، اب نیٹ میٹرنگ پالیسی میں یوٹرن لے رہی ہے، اس فیصلے نے عوام اور کاروباری طبقے کو حکومت کی قابلِ تجدید توانائی کے عزم پر سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ 

ملک میں گرمیوں کے دوران بجلی کی طلب 29  ہزارمیگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے جبکہ نصب شدہ پیداواری صلاحیت  46 ہزار میگاواٹ سے تجاوزکر چکی ہے، اس کے باوجود ناقص گرڈ ڈھانچے، درآمدی ایندھن پر بڑھتے انحصار اور پیداواری صلاحیت کے ناکافی استعمال کی وجہ سے بجلی کی ترسیل غیر مؤثر ہو چکی ہے۔

2022 سے 2024 کے درمیان شمسی توانائی، خاص طور پر چھتوں پر لگے سولر سسٹمز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نیٹ میٹرنگ اسکیم کے تحت رجسٹرڈ صارفین کی تعداد 2.8 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور مجموعی صلاحیت 2813 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔

تاہم حالیہ حکومتی فیصلے کے تحت نیٹ میٹرنگ کے نرخ کو 27 روپے فی یونٹ سے گھٹاکر 10 روپے کرنے سے شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں شدید مایوسی پھیل گئی ہے۔

پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشنز فرنٹ کے سرپرست اعلیٰ میاں سہیل نثار نے کہاکہ شمسی توانائی کی منتقلی، جسے ایک وقت میں پاکستان کے توانائی کے مستقبل کی بنیاد سمجھا جاتا تھا، اب حکومت کی نظر میں بوجھ بن چکی ہے، یہ پالیسیاں عوامی اعتماد اور سرمایہ کاروں کے حوصلے کو تباہ کر رہی ہیں۔

توانائی ماہرین کاکہنا ہے کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی کی اصل وجہ مالیاتی دباؤ ہے، شمسی صارفین کے گرڈ پر کم انحصار اور زائد بجلی کی فروخت کے باعث بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنے بنیادی اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہو گئی ہیں، صرف 2024 میں ہی گرڈ پر انحصار کرنیوالے صارفین پر 159 ارب روپے کا اضافی بوجھ منتقل ہوا، اگر یہی صورتحال جاری رہی تو آئندہ دہائی میں یہ عدم توازن 4000 ارب روپے تک جا سکتا ہے۔

سابق پاور سیکٹر افسر کے مطابق مسئلہ شمسی توانائی نہیں، بلکہ ناقص منصوبہ بندی ہے، حکومت نے گرڈ کو اپ گریڈ کرنے میں کوتاہی کی، اب وہ اپنی ناکامی کا ملبہ سولر صارفین پر ڈال رہی ہے۔

ماہرین کاکہنا ہے کہ نئے 'گراس میٹرنگ' ماڈل کو مرحلہ وار متعارف کرانا چاہیے تھا ، اس تبدیلی نے ان صارفین کو بھی مایوس کیا ہے جنہوں نے حکومت کی ترغیب پر بھاری سرمایہ کاری کی تھی اور اب وہ اپنے مالی نقصان، غیر یقینی بلنگ اور ممکنہ طور پر اسمارٹ میٹرزکی خفیہ تبدیلی جیسے خدشات کا سامنا کر رہے ہیں۔

توانائی تجزیہ کار فرید حسین کا کہنا تھا کہ ہماری سب سے بڑی ناکامی جامع اور مربوط توانائی روڈ میپ کی عدم موجودگی ہے، وقتی پالیسیوں سے دیرپا تبدیلی ممکن نہیں، توانائی شعبے کا گردشی قرضہ 2.6 ٹریلین روپے سے تجاوزکر چکااور حکومت نے ناقص نظام کو درست کرنے کے بجائے بوجھ صارفین پر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔

ماہرین اور صنعت کاروں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ پاکستان کو واضح اور مستقل توانائی حکمت عملی کی ضرورت ہے، بصورت دیگر ملک ان ہی متبادل توانائی حلوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا جو اس کے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب پولیس کے انسپکٹرز کیلئے اچھی خبر
  • قوم کا اتحاد دشمن کی شکست کی ضمانت ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • ماہ صفر المظفر کا چاند دیکھنے کیلئے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج ہو گا
  • داؤد انجینئرنگ یونیورسٹی کی وی سی ڈاکٹر ثمرین حسین نے وزیر اعلیٰ سندھ کو استعفیٰ پیش کردیا
  • حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار
  • چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی مذاکرات سویڈن میں ہوں گے، ترجمان چینی وزارت تجارت
  • صدرمملکت سے آسٹریا کی سبکدوش ہونے والی سفیر کی ایوانِ صدر میں الوداعی ملاقات،آصف علی زرداری نے باہمی تعلقات کے فروغ میں اینڈریا وکے کی خدمات کو سراہا
  • شاہ محمود قریشی کا بری ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں،جس کسی نے ان پر 9مئی کا کیس بنایا ہے وہ کوئی بیوقوف آدمی تھا،حامد میرکا تبصرہ
  • دوسرا ٹی ٹوئنٹی: بنگلا دیش کا پاکستان کو جیت کیلئے 134 رنز کا ہدف
  • پی ٹی آئی کے اندر گروپ بندی سے حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے، جے یو آئی رہنما