اسسٹنٹ کمشنرز کیلئے 138 ڈبل کیبن گاڑیوں کی خریداری کیخلاف درخواست مسترد
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
— فائل فوٹو
سندھ ہائی کورٹ نے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے 138 ڈبل کیبن گاڑیوں کی خریداری کے خلاف دائر درخواست مسترد کر دی۔
عدالتِ عالیہ میں سندھ حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے ڈبل کیبن گاڑیوں کی خریداری کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
درخواست جماعتِ اسلامی کے رکنِ سندھ اسمبلی محمد فاروق و دیگر نے دائر کی تھی۔
ایڈووکیٹ جنرل جواد ڈیرو اور درخواست گزار رکنِ سندھ اسمبلی محمد فاروق عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ بتائیں آپ لوگ اس اسکیم سے کیسے متاثر ہوئے اور یہ معاملہ اسمبلی میں کیسے گیا ہو گا، یہاں درخواست پر تو کوئی بل یا ایکٹ نظر نہیں آ رہا، آپ کیسے متاثر ہو سکتے ہیں؟
کراچی جماعت اسلامی رکن صوبائی محمد فاروق کی.
جس پر درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ بجٹ اور پیسہ سندھ حکومت کا ہی خرچ ہو گا، لگژری گاڑیوں کے بجائے 1000 سی سی کی گاڑیاں خریدی جائیں۔
جس پر عدالت کی جانب سے سوال کیا گیا کہ آپ کو گاڑیوں کی سی سی پر مسئلہ ہے؟ آپ بتائیں کونسے رولز اور پالیسی کی خلاف ورزی ہوئی ہے؟
ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے کہا کہ بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔
عدالت نے پھر سوال کیا کہ آپ کے کونسے حقوق متاثر ہوئے؟ کون سے قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
جس پر درخواست گزار نے کہا کہ مجھے وقت دے دیں میں رولز اور پالیسی کی خلاف ورزی سے متعلق تفصیلات دے دوں گا۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ وقت نہیں دے سکتے پہلے ہی کیس زیرِ التواء ہے۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ عوامی مفادات کو سیاسی مفادات نہ بنایا جائے، یہ صرف پبلسٹی کے لیے کر رہے ہیں، یہ لگژری گاڑیاں نہیں بلکہ ضرورت ہیں، درخواست مسترد کی جائے، اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے گاڑیوں کی خریداری غیر ضروری نہیں، گاڑیوں کے لیے فنڈز کا غلط استعمال بھی نہیں کیا جا رہا، اسسٹنٹ کمشنرز کے پاس بہت اہم ذمے داریاں ہوتی ہیں، گاڑیوں کی خریداری ضروری ہے تاکہ افسران ذمے داریاں احسن طریقے سے انجام دے سکیں۔
ایڈووکیٹ جنرل جواد ڈیرو نے بتایا کہ اس سے قبل اسسنٹنٹ کمشنرز کے لیے آخری بار خریداری 2010ء اور 2012ء میں ہوئی تھی۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: گاڑیوں کی خریداری اسسٹنٹ کمشنرز کے کمشنرز کے لیے درخواست گزار ڈبل کیبن متاثر ہو
پڑھیں:
پنجاب اسمبلی: پولیس چھاپوں کیخلاف اپوزیشن کا احتجاج، اعجاز شفیع 15 اجلاسوں کیلئے معطل
لاہور (خصوصی نامہ نگار+ آئی این پی) قائم مقام سپیکر پنجاب اسمبلی ملک ظہیر اقبال چنڑ نے اپوزیشن رکن اعجاز شفیع کوغیر پارلیمانی اور نازیبا الفاظ کے استعمال پر 15 اسمبلی اجلاسوں کیلئے معطل کر دیا، ایجنڈا مکمل ہونے پر اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیاگیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس دو گھنٹے30 منٹ کی تاخیر سے قائم مقام سپیکر ملک ظہیر اقبال چنڑ کی صدارت میں شروع ہوا، اجلاس کے آغاز میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر معین ریاض قریشی نے کہا کہ پرامن احتجاج سب کا حق ہے، پانچ اگست کو ہماری جماعت نے احتجاج کی کال دی ہوئی ہے۔دو دن سے پولیس ہمارے ورکرز کو ہراساں کر رہی ہے۔ ہمارے کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں، ایم پی ایز کے گھروں میں چھاپے مار کر سامان کو توڑ پھوڑ رہے ہیں۔ حکومت اس کا نوٹس لے۔وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمان نے کہا کہ میرے علم میں نہیں کہ ان کے گھروں پر کوئی چھاپے مارے جارہ ہیں۔ پولیس اور ہوم ڈیپارٹمنٹ سے پتہ کر لیتا ہوں، بیشک پرامن احتجاج سب کا حق ہے،کہیں تو ہم بھی ان کے پیچھے کھڑے ہو جائیں گے۔ اجلاس میں محکمہ فنانس سے متعلقہ وقفہ سوالات میں صرف ایک سوال عظمیٰ کاردار کی جانب سے شامل تھا جو انکی عدم موجودگی کی وجہ سے موخر کر دیا گیا۔ بعدازاں وزیر پارلیمانی مجتبیٰ شجاع الرحمان نے پرنسپل پالیسی سالانہ رپورٹ برائے 2023ء اور این ایف سی ایوارڈ پر عمل درآمد کی ششماہی رپورٹ مالی سال 2019-20ء پیش کیں، حکومتی رکن امجد علی جاوید نے اعتراض کیا کہ رپورٹس رکھنے کا کہا گیا ہے جبکہ یہاں رپورٹ رکھی نہیں گئی ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں حسب معمول اپوزیشن اور حکومت اراکین کی نوک جھوک جاری رہی۔ لوکل گورنمنٹ سے متعلقہ اپوزیشن رکن نادیہ کھر کی تحریک التوائے کار ان کی عدم موجودگی اور جواب نہ آنے کی وجہ سے موخر کر دی، سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن سے متعلق قاضی احمد سعید کی تحریک التوائے کار بھی موخرکردی گئی۔ اپوزیشن رکن طیب راشد سندھو نے کہا کہ گذشتہ روز شیخوپورہ میں ایک غریب آدمی کا مافیا نے گردہ نکال لیا، پتہ نہیں یہ واقعات کب سے ہو رہے ہیں، حکومت اس کا نوٹس لے۔ قاضی احمد سعید نے کہا کہ کسان پریشان اور بدحال ہے، با اثر لوگ موگوں کا پانی اپنی طرف کر لیتے ہیں۔ غریب کسان پریشان ہے، چیف ایری گیشن انتہائی نا اہل ہے اس کو کئی دفعہ بتایا لیکن اس نے کوئی توجہ نہیں دی۔ حکومتی رکن امجد علی جاوید نے کہا کہ حکومت پنجاب کا فوکس ہے کہ پاکستان میں کمپیوٹر کی تعلیم کو فروغ ملے۔ پنجاب ہائر ایجوکیشن کمشن ایسی ایسی پالیسیاں لا رہی ہے جس سے کمپیوٹر کی تعلیم میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہیں۔ پنجاب ہائر ایجوکیشن کمشن اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے، یا شرائط نرم کرے۔ علاوہ ازیںشہری غیر منقولہ جائیداد ٹیکس ایکٹ 1958 ء میں وسل بلوور سے متعلق بڑی ترمیم کر کے بل 2025ء پنجاب اسمبلی سے کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔ ترمیمی بل کے تحت پراپرٹی ٹیکس چوری کی اطلاع دینے والے شہریوں کو انعام دیا جائے گا، پراپرٹی ٹیکس چوری کی کھوج لگانے پر ایکسائز افسر کو بھی کارکردگی کی بنیاد پر انعامی رقم ملے گی۔ اطلاع دینے والا شخص وسل بلوور کہلائے گا۔ وسل بلوور کی فراہم کردہ معلومات پر ٹیکس یا جرمانہ وصول ہونے کی صورت میں اسے انعام دیا جائے گا اور انعامی رقم ٹیکس چوری کے مقدمے میں لگنے والے جرمانے سے ادا کی جائے گی۔ ناقابلِ بھروسہ، پبلک ریکارڈ میں موجود یا پہلے سے معلوم اطلاع پر انعام نہیں دیا جائے گا۔ کلیکٹر ٹیکس چوری یا چھپانے کی صورت میں متعلقہ ذمہ دار افسر کا تعین کرے گا۔ حکومت افسران کے انعام کے لیے انفرادی یا اجتماعی کارکردگی کی بنیاد پر طریقہ کار طے کرے گی۔