جہان دیگر
۔۔۔۔۔
زریں اختر
کہانی پرانی ہے ، کردار نئے ہیںشاید ہر کہانی ایسی ہوتی ہے۔ کسی نے کہا تاریخ خود کو دہراتی ہے تو کسی کے نزدیک یہ بجاے خود تاریخی مغالطہ ہے ، کوئی کہتاہے کہ زندگی کا سفر دائرے میں ہوتاہے تو کوئی اسے سیدھی لکیر کا سفر گردانتاہے۔
ایسے فرمودات جو وقت کے پنوں پر ایسے رقم ہوئے کہ انہوں نے سیدھی لکیر کے سفر کو راست رستے پر ڈال دیا ، لیکن ٹرمپ نے اس سے انحراف کیا۔ تاریخ میں بہترین و بد ترین دونوں مثالیں قائم رہتی ہیں ،جو قومیت ملت رنگ نسل سب پر حاوی ہوتی ہیں، اعلیٰ مثال پر حرف نہیں آتااور اسفل کو بھی کوئی نہیں مٹا سکتا۔ یو ٹرن ابھی بہت آگے ہے ، زوال بھی آتے آتے آتا ہے، جس طرح مسلمان قیامت کی نشانیاں دیکھتے ہیں ،میرے نزدیک یہ امریکہ کے زوال کی پہلی اینٹ ہے جو امریکہ نواز ملکوں کے غریبوں کے لیے بھی اتنی ہی منحوس ہے۔خدا کی پکار فرشتوں سے جو اقبال کی زبانی پہنچی ‘اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو’ ۔ خود امریکہ میں اس پر کتنی آواز ہے ، مجھے نہیںمعلوم ،نہ مجھے وہاں کے امراء کا پتا نہ غرباء کا ۔
امریکہ کے آئین کی پہلی ترمیم آزادیٔ اظہار کا سنگ ِ میل بنی ۔ممکن ہے ہم یہاں بیٹھ کر اس کو زیادہ مثالی سمجھ رہے ہوں لیکن جو ترمیم شہری، صحافی اور مصنف کو قانونی تحفظ فراہم کرتی ہے اور آواز کا مضبوط جواز بنتی ہے ( اس سے انکار نہیں کہ مستثنیات بھی ہیں )لیکن یہ امریکہ کو دنیا سے منفرد بنانے والی ترمیم تھی ،اسے امریکہ کا طرئہ امتیاز قرار دیا جاتاہے ۔ ١٥ ِ دسمبر ١٧٩١ ء امریکی ایوان میں اس کی تو ثیق ہوتی ہے ، جس ترمیم کو سوا دو صدیوں سے زائد عرصہ بیت گیا، کسی نے اس ترمیم کو اختصار کے ساتھ انتہائی عمدگی سے یوں بیان کیا کہ ” امریکی کانگریس کوئی ایسا قانون منظور نہیں کرے گی جو آزادی ء اظہار کے منافی ہو۔”قانون تو ایسا منظور نہیں ہوا لیکن وار کاری ہوا۔
شعلہ بیاں و شعلہ صفت ٹرمپ آتے ہیں اور خبر آتی ہے کہ :
١٦ ِ مارچ ٢٠٢٥ء بی بی سی اردو کے مطابق ”وائس آف امریکہ کے غیر مستقل ملازمین کی نوکریاں ختم ہونے کا عمل شروع ، مستقل عملہ بدستور انتظامی چھٹی پر”۔ تفصیل کے مطابق ”ڈونلڈ ٹرمپ نے سرکاری امداد سے چلنے والے خبر رساں ادارے وائس آف امریکہ پر ٹرمپ مخالف اور بنیاد پرست ہونے کا الزام لگاتے ہوئے اس کی فنڈنگ ختم کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دست خط کر دیے ہیں۔۔۔۔وائس آف امریکہ جواب بھی بنیادی طور پر ایک ریڈیو سروس ہے ،دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا گیاتھا۔ اس کے دنیا بھر میں کروڑوں صارفین ہیںاور یہ لگ بھگ ٥٠ زبانوں میں سروسز فراہم کرتا تھا۔”خبر کے مطابق تیرہ سو صحافیوں ، پروڈیوسروں اور اسسٹنٹوں کو(جبری) انتظامی رخصت دے دی گئی ہے ۔وائس آف امریکہ کے ڈائریکٹر مائیک ابرا مووٹر کا کہنا ہے کہ ”مجھے بہت افسوس ہے کہ ٨٣ سال میں پہلی مرتبہ تاریخی وائس آف امریکہ کو خاموش کروایا جارہا ہے۔”
اور اس خاموشی کا سہرابندھتاہے ٹرمپ کے سر ۔
اپنے ملک کی ١٩ ِ مارچ ٢٠٢٥ء بی بی سی اردو خبر دیتا ہے کہ پاکستانی صحافی احمد نورانی کے بھائیوں کو ان کے گھر سے اٹھالیا گیا۔
احمد نورانی تفتیشی صحافی ہیں پاکستان چھوڑ گئے ہیں اور امریکہ میں مقیم ہیں جہاں وائس آف امریکہ کاگلا گھونٹ دیا گیاہے وہاں یہ ‘فیکٹ فوکس’نامی ویب سائٹ چلارہے ہیںیہاں ان کے گھر نامعلوم اداے سے تعلق رکھنے والے نامعلوم افراد گھس آتے ہیںاور ان کے بھائیوںکو جو انجینئر ہیں اور نوارنی کے کرتوتوں سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے ، اٹھاکر لے جاتے ہیں۔ خبروں میں الفاظ کا استعمال اگر پس منظر سے واقفیت نہ ہوتو حقیقت کو کچھ سے کچھ بنا دیتا ہے۔ ڈان اُردو کی ٢٧ ِ مارچ کی خبر ہے کہ ” آئی جی اسلام آباد نے صحافی احمد نورانی کے لاپتا بھائیوں کی بازیابی کیلئے دو ہفتے کی مہلت مانگ لی۔” ُ
”لاپتا” ! ؟، بی بی سی لکھ رہا ہے کہ اٹھالیا گیا اور ڈان لکھتا ہے لاپتا؛احمد نورانی کے بھائی لا پتا ہوئے ہیں؟ گھر سے گئے واپس نہیں آئے تو لاپتا ، دفتر سے نکلے گھر نہیں پہنچے تو لاپتا، گھر سے اٹھایا گیا تو لاپتا کیسے ؟ شہری نامعلوم افراد کے ہاتھوں فائرنگ سے مرتے رہے ہیں اب نامعلوم افراد یا اداروں کے ذریعے اٹھالیے جاتے ہیں۔ اغوا بھی رستے میں سے کیا جائے تو اغوا ہے ، غائب ہوگیا ،یہاں تو گھر آکر اٹھایا گیاہے ، تو اٹھایا گیا لکھیں۔ گرفتاربھی کیسے لکھیں؟ گرفتاری کس جرم میںیا شک میں؟اس کے لیے وارنٹ چاہیے اور چوبیس گھنٹے میں عدالت میں پیش کرنا پڑے گا۔ حالات لفظ لاتے ہیں ، جیسے ماضی میں الفاظ آئے”ماورائے عدالت قتل ”،اور اب ”جبری گم شدگی” ، الفاظ ہی ہیں جو حقیقت بیان کرتے ہیں اس سے پردہ اٹھاتے ہیں؛احمد نورانی کے بھائی گم شدہ نہیں ہوئے ، کھوئے نہیں ، لاپتا نہیں ہیں ؛ انہیں اٹھایا گیاہے ، جبری طور پر اٹھایا گیا ہے اور یہی الفاظ حقائق کی درست تصویر پیش کرتے ہیں۔ اخبار لاپتا نہیں لکھے، اٹھایا گیالکھے۔ آخری اطلاعات تک احمد نورانی کے بھائیوں کے ”جبری لاپتا ”مقدمے کی سماعت عید کے بعد تک کے لیے ملتوی کردی گئی ۔
کاش ٹرمپ یا اس کا کوئی بھائی بندہ ان دوامریکیوںاسٹینلے جے باران اور ڈینس کے ڈیوس کی کتاب ”تھیوریز آف ماس کمیونیکیشن ”پڑھا ہوتا۔ جس کا ترجمہ ”نظریات ِ ابلاغ” کے نام سے پروفیسر متین الرحمن مرتضٰی نے مرتب کیا اور جامعہ کراچی شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ سے نومبر ١٩٩٨ء میں چھپا، میری کم علمی کہ بلاغیات کے نظریات پر اس سے اعلیٰ کتاب میری نظر سے نہیں گزری ،اس میں ابلاغ عامہ کے نظریات کو عالمی سیاسی و سماجی تبدیلیوں اور تناظر میں پیش کیاگیا ہے۔ اس میں باب بعنوان ”پروپیگنڈہ کے دور میں ابلاغی نظریے کا عروج” مترجم سعدیہ تبسم قریشی ،صفحہ ٤٩ سے ایک پارہ نقل ہے :
”ذرائع ابلاغ کے ابتدائی نظریہ سازوں کی توجہ پروپیگنڈے کی جانب مبذول ہوئی کیونکہ پروپیگنڈہ ہرجگہ جمہوری حکومتوں اور امریکی سیاسی نظام کی بنیادوں کے لیے خطرہ بنتا جارہا تھا۔ ١٩٣٠ء کے عشرے کے اواخر تک امریکی رہنمائوں میں اکثر نہیں تو بہرحال کئی اس بات کے قائل نظر آتے تھے کہ اگر انتہا پسندوں کے پروپیگنڈہ مواد کی آزادانہ تقسیم کی اجازت بحال رہی تو جمہوریت برقرار نہیں رہ سکے گی ۔لیکن پروپیگنڈے پر سنسر عائد کرنے کا مطلب یہ ہوتا کہ مغربی جمہوریت اور آزادی ابلاغ کے اہم اصول پر پابندیاں عائد کی جائیں ۔ یہ صورت حال بڑا وحشت ناک مخمصہ تھی ۔ اگر سخت سنسر شپ عائد کیا جاتا تو اس سے جمہوریت کی قوت کمزور ہوتی ۔ پروپیگنڈے کے نظریہ سازوں نے طے کیا کہ وہ اس مخمصے پر توجہ دے کر اس کا کوئی حل نکالیں گے۔ ” صفحہ نمبر ٥٠پر ہے : ” اگرچہ پروپیگنڈے کا خطرہ بہت بڑا تھا مگر اس کالی گھٹا کا کوئی کنارہ تنویر تو آنا ہی تھا۔ اگر اچھے اور منصفانہ تصورات کے فروغ کے لیے پروپیگنڈے کی قوت پرعبور پایا جاسکے تو پھر نہ صرف بجائے خود اس پروپیگنڈے کے خطرے سے نمٹا جاسکتاہے بلکہ اس سے ایک بہتر سماجی نظام کی تعمیر میں مدد بھی لی جاسکتی ہے ۔یہ وہ امید تھی جسے ‘سفید پروپیگنڈے ‘ کا نام دیا گیا۔”
اکبر الہٰ آبادی کی اس ترنگ کا اگر یہاں کوئی جوڑ نہیں بنتا تو وہ یاد کیوں آئے
یوں قتل سے بچوں کے وہ بد نام نہ ہوتا
افسوس کے فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: وائس آف امریکہ احمد نورانی کے امریکہ کے کے لیے
پڑھیں:
تجدید وتجدّْ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-9
4
مفتی منیب الرحمن
اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔
معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔
ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔
قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔
اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔
ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔
(جاری)