غزل
پھر وہی فکرِ جہاں اور ترا غم دونوں
رات بھر دست و گریباں ہوئے باہم دونوں
کھل رہا تھا کہ خزاں لے اڑی رنگت میری
مجھ پہ اک ساتھ اتر آئے ہیں موسم دونوں
مدتوں بعد سرِ شام ہماری آنکھیں
آپ کی یاد میں برسی ہیں چھماچھم دونوں
شوخ موسم کی ہواؤں کا مزہ لینے کو
گھوم آتے ہیں چلو وادیِ نیلم دونوں
کیسے معلوم ہو قاتل مر ادشمن ہے کہ دوست
یعنی کرتے ہیں مری لاش پہ ماتم دونوں
رنج و راحت کی طرح ساتھ رہا کرتے ہیں
باغ میں خندۂ گل، گریۂ شبنم دونوں
ایک مدت سے یہاں دشت میں آ کر صادقؔ
بھول بیٹھا ہوں غمِ یار میں عالم دونوں
(محمد ولی صادق۔کوہستان لوئر)
۔۔۔
غزل
ہوں کہ جب تک ہے کسی نے معتبر رکھا ہوا
ورنہ وہ ہے باندھ کر رخت ِ سفر رکھا ہوا
مجھ کو میرے سب شہیدوں کے تقدس کی قسم
ایک طعنہ ہے مجھے شانوں پہ سر رکھا ہوا
میرے بوجھل پاؤں گھنگھرو باندھ کر ہلکے ہوئے
سوچنے سے کیا نکلتا دل میں ڈر رکھا ہوا
اک نئی منزل کی دھن میں دفعتاً سرکا لیا
اس نے اپنا پاؤں میرے پاؤں پر رکھا ہوا
تو ہی دنیا کو سمجھ پروردۂ دنیا ہے تو
میں یونہی اچھا ہوں سب سے بے خبر رکھا ہوا
(احمد حسین مجاہد ۔ایبٹ آباد)
۔۔۔
غزل
میں کھیل کھیل رہا تھا نئے طریقے سے
سو مجھ کو زخم لگے ہیں ترے پسینے سے
نجانے کل، کہاں،کس موڑ پر بچھڑ جاؤں
پرکھ لو جان میری مجھ کو آج اچھے سے
حضور شہرِ تمنا میں آگ لگ گئی ہے
کسی کو ہاتھ لگانے کسی کو چھونے سے
یقین کیجیے مجھ کو نہیں ہے کچھ معلوم
یہاں پہ لایا گیا ہے مجھے بھی دھوکے سے
تمھارا ہاتھ لگانے کی دیر تھی کہ ندیمؔ
نکل کے آگئے سب لوگ اپنے کمرے سے
(ندیم ملک۔ کنجروڑ، نارووال)
۔۔۔
غزل
اتنی فریاد ہے فریاد سمجھتے رہنا
مجھ کو اک بھولی ہوئی یاد سمجھتے رہنا
دوسری بیوی تو لے آئے ہو اب مِنّت ہے
پہلی اولاد کو اولاد سمجھتے رہنا
حاکمِ شہر کے جھانسے میں نہ آنا لوگو
اپنی اُجرت کو نہ امداد سمجھتے رہنا
نہر مشکل نہیں اِس دور میں شیریں سے کہو
کسی لونڈے کو نہ فرہاد سمجھتے رہنا
دیکھ لے غور سے منظر ترا حق ہے لیکن
اپنی آنکھوں کی بھی افتاد سمجھتے رہنا
حکم آیا ہے یہ صیّاد کا پنجرے میں نثارؔ
خود کو ہر حال میں آزاد سمجھتے رہنا
(نثاراحمدنثار۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
شدّت کا شور شار ہے اور ہم خموش ہیں
ہر آنکھ اشکبار ہے اور ہم خموش ہیں
بینائی لوٹ آئی تو کیا دیکھتے ہیں ہم
وہ محوِ انتظار ہے اور ہم خموش ہیں
افسردگی ہی چھائی ہوئی ہے بروزِ عید
ماحول خوشگوار ہے اور ہم خموش ہیں
ایسی جگہ پہ بس رہے ہیں ہم کہ جس جگہ
ہر سمت انتشار ہے اور ہم خموش ہیں
آخر کو رمزِ صبر سمجھ آ گئی ہے یوں
دل کافی بے قرار ہے اور ہم خموش ہیں
شوزب ؔاب اس سے بڑھ کے بھلا بے بسی ہو کیا
وہ آج سوگوار ہے اور ہم خموش ہیں
(شوزب حکیم۔شرقپور، ضلع شیخوپورہ)
۔۔۔
غزل
رہ رہ کے کوئی زخم تو موجود ہے مجھ میں
جو شاعری کی شکل میں بارود ہے مجھ میں
کب سے مری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ہے
لگتا ہے کہ ہر جذبہ ہی مفقود ہے مجھ میں
بارش کی طرح ٹوٹ کے برسا تھا کوئی دن
اب یوں ہے کہ بس گرد ہی مسدود ہے مجھ میں
سو بار سمیٹی ہے خیالات کی گتھی
وحشت کی مگر اب بھی اچھل کود ہے مجھ میں
میں اپنی خطاؤں میں اکیلا نہیں شامل
اکسانے پہ اک اور بھی مردود ہے مجھ میں
ہر ایک قدم پر ہیں امیدیں مری رب سے
بس ایک یہی منزلِ مقصود ہے مجھ میں
(امیر حمزہ سلفی۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
پاؤں کو چھوا، ماں کو کہا عید مبارک
دل نے کہا جنّت کی ہوا عید مبارک
جرات ہی نہ تھی عید ملیں اور کہیں کچھ
ہاں فقرہ ہوا لب سے ادا، عید مبارک
پردیسی بجھے دل سے یہ دیکھا کیے منظر
سڑکوں پہ تھا اک شور بپا عید مبارک
روٹھے تھے جو مجھ سے میں گلے ان سے ملا ہوں
ٹوٹے ہوئے لفظوں سے سنا عید مبارک
ممکن نہ تھا ملنا، کہ وہ تھا دور بہت ہی
ہر سانس نے دی اس کو دعا عید مبارک
تو جاتی ہے ہر کوچہ ،گلی اور مکاں میں
کہہ آ تُو اسے بادِ صبا عید مبارک
ویسے تو شہاب ؔاس نے کہا کچھ بھی نہیں تھا
آنکھوں میں چھپا میں نے پڑھا عید مبارک
(شہاب اللہ شہاب۔ منڈا، دیر لوئر، خیبر پختونخوا)
۔۔۔
غزل
لوگ لکھتے رہے ہیں دولت پر
میں نے لکھا ہے صرف عورت پر
خوب چہرہ ہے آئینے میں ایک
تم بھی مرتی ہو اسکی صورت پر
خاک زادے ہیں چاند کو تکتے
واری جاؤں میں ان کی حسرت پر
میں تو ادنیٰ سا ایک شاعر ہوں
کون روئے گا میری تربت پر
اس نے بیٹی کو مار ڈالا پھر
داغ آئے نہ کوئی عزت پر
تجھ پہ ہر دم وہ مہربان رہا
شکر بنتا ہے رب کی رحمت پر
فیضی ؔبرسی ہے تیرے خوابوں کی
اور آیا ہے شہر دعوت پر
(اویس فیضی ۔پھلروان، سرگودھا)
۔۔۔
غزل
منافق ہاتھ کرنے لگ گئے ہیں
یوں سولی با وفا چڑھتے نہیں ہیں
ضمیروں کی خریداری پہ لعنت
وگرنہ پاس کب پیسے نہیں ہیں
گلہ دشمن سے بنتا ہی نہیں ہے
ہمارے یار ہم جیسے نہیں ہیں
مرے لہجے کی تلخی کا یقیں کر
سبھی کردار اک جیسے نہیں ہیں
جو کھانے لگ گئے بچوں کو اپنے
کسی جنگل کے شیر ایسے نہیں ہیں
کبھی پیسے تھے اور کچھ بھی نہیں تھا
مگر آج خواب ہیں پیسے نہیں ہیں
یہ دنیا دیکھ کر ہم خوش نہیں ہیں
جو دکھتے لوگ ہیں ویسے نہیں ہیں
(ناصر معروف۔ عمان)
۔۔۔
غزل
چھت پہ جلتا دیا دیکھنے کے لیے
چل رہی ہے ہوا دیکھنے کے لیے
تابِ جلوہ ٔ یزداں نہیں ہے اگر
کیوں چلے ہو خدا دیکھنے کے لیے
ہیں مناظر ابھی دلنشیں یاں بہت
آنکھ اپنی بچا دیکھنے کے لیے
نزع کے وقت آئے ہو تم مہرباں
مجھ کو مرتا ہوا دیکھنے کے لیے
دیکھنے کے لیے ہائے یہ کیا بچا
ہائے یہ کیا بچا دیکھنے کے لیے
لے گیا باتوں باتوں میں دریا تلک
وہ مجھے ڈوبتا دیکھنے کے لیے
آئینہ اٹ گیا گرد میں مہ جبیں
یہ ترا دیکھنا دیکھنے کے لیے
انتہا سے کرو ابتدا شاہ میر
پھر سفر اک نیا دیکھنے کے لیے
(شاہ میر مغل۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
بے سبب قیل و قال کرتے ہیں
حسن والے کمال کرتے ہیں
ہم سے کٹّر قسم کے مسلم ہی
کافروں کا خیال کرتے ہیں
دل کے کچھ زخم ہوتے ہیں ایسے
جو ہمیشہ نڈھال کرتے ہیں
پیش آتی ہے جب کوئی حاجت
ہم خدا سے سوال کرتے ہیں
دیکھتا رہتا ہے کوئی چھپ کر
رخ کدھر کا غزال کرتے ہیں
اپنی خاطر ہے ایک دن کی عید
اور کچھ پورے سال کرتے ہیں
آپ سے کس نے کہہ دیا ہے فیضؔ
شاعری بے مثال کرتے ہیں
(فیض الامین فیض۔کلٹی،مغربی بنگال، بھارت)
۔۔۔
غزل
تمہارے رخ کی بدولت اگر خراب ہوئے
اکیلے ہم نہیں سب معتبر خراب ہوئے
تمہارا ہجر بھی لگتا تھا ایک عام سی شے
ہم ایک عام سی شے سے مگر خراب ہوئے
تمہاری زلف کے سائے میں کچھ سکون ملا
وگرنہ پہلے تو ہم عمر بھر خراب ہوئے
کبھی بھی غیر کے آ گے سناؤ مت دل کی
ہم اپنا آپ ہی تو کھول کر خراب ہوئے
خدایا خیر ہو اپنے تمام رشتوں کی
نجانے منصفوں سے کتنے گھر خراب ہوئے
یہاں پہ ظلم کا بدلہ ہے صرف خاموشی
نظامِ عدل کے سب مقتدر خراب ہوئے
(شعیب مجیب ۔ننکانہ صاحب)
۔۔۔
غزل
یہ حقیقت مان، میری جان، پیسے کو سلام
فطرتِ دنیا کو تو پہچان، پیسے کو سلام
محترم صد محترم ہے جس کسی کے پاس ہے
مال و دولت، گاڑی اور دوکان، پیسے کو سلام
علم و حکمت کی قدر کوئی نہیں کرتا ادھر
اس جہاں میں پیسے سے ہے شان، پیسے کو سلام
جیب بھرنی ہے ہمیں چاہے غلط ہو راستہ
بس میاں پیسا بنا ایمان، پیسے کو سلام
لالچِ دولت میں آ کر بھول بیٹھا موت کو
آدمی نادان ہے نادان، پیسے کو سلام
روزِ محشر کیا خدا کا سامنا کر پائے گا؟
ہوش کر آدم نما شیطان، پیسے کو سلام
خواہشِ دولت میں ہی ہر شخص پاگل ہو گیا
طلحہ ؔکیوں انسان ہے انجان، پیسے کو سلام
(طلحہ بن زاہد۔اوکاڑہ)
شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں، انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہے اور ہم خموش ہیں دیکھنے کے لیے پیسے کو سلام سمجھتے رہنا ہے مجھ میں خراب ہوئے کرتے ہیں نہیں ہیں رکھا ہوا نہیں ہے ہیں ہی مجھ کو
پڑھیں:
اولاد کی تعلیم و تربیت
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: کسی باپ نے اپنی اولاد کو حسن ادب سے بہتر تحفہ انعام میں نہیں دیا۔‘‘ (ترمذی)
اولاد کی تربیت کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتا ہے، مفہوم: ’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔‘‘ آگ سے بچانے کی صورت تو صرف یہی ہے کہ انھیں اچھے اخلاق و آداب سکھا کر سچا مسلمان بنایا جائے تاکہ وہ جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ کوئی باپ اپنے بچے کو حسن آداب سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا۔ آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اولاد کا باپ پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کی صحیح تربیت کرے اور اچھا سا نام رکھے۔
ماں کی گود بچے کے لیے پہلی تربیت گاہ ہے‘ اخلاق کی جو تربیت ماں کی گود میں ہو جاتی ہے اسی پر بچے کی شخصیت پروان چڑھتی ہے، اسی تربیت پر کسی بچے کی سیرت کے بننے یا بگڑنے کا انحصار ہوتا ہے۔ اسی لیے ماں کا یہ اہم فریضہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسلامی اخلاق کی تربیت دے۔ ماں اور باپ دونوں بچے کے سامنے حسن اخلاق کا نمونہ پیش کریں تاکہ ان کی اولاد عمدہ اخلاق کی حامل ہو۔ ان کا یہ فرض ہے کہ بچوں کو اسلامی تعلیمات سے رُوشناس کرائیں۔ انہیں اسلام کے عقائد سکھائیں اور پھر ان پر عمل بھی کرائیں۔ اس لیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اس کو نماز کی تلقین کرنی چاہیے اور جب وہ دس سال کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اس کو سزا دی جائے۔
اسلام میں اولاد کی صحیح تربیت کی بڑی تاکید ہے۔ تربیت اولاد ایک انتہائی اور بنیادی ذمے داری ہے جو والدین پر ناصرف اسلام عاید کرتا ہے بل کہ اولاد کی صحیح تربیت کا فریضہ ملک و ملت کی طرف سے بھی عاید ہوتا ہے۔ چوں کہ بُری صحبت سے بُرے شہری پیدا ہوتے ہیں جو ملک پر بار ہوتے ہیں، اگر تربیت صحیح اصولوں پر ہو جائے تو یہی بچے اپنے ملک اور ملت کا نام روشن کرنے والے ہوں گے اور قوم کو ان پر فخر ہوگا۔
اولاد کی تربیت ایک دینی فریضہ بھی ہے۔ حدیث کی رُو سے بچہ اپنے والدین پر کچھ خرچ کرے تو صرف بچے کو ہی نہیں بل کہ والدین کو بھی ثواب ملتا ہے۔ والدین کو اس بات کا ثواب ملے گا کہ بچے کو نیک تربیت دی کہ والدین کی خدمت بجا لا رہا ہے اور یہ کہ والدین نے اسے دولت کمانے کا طریقہ سکھایا اور اسے اس قابل بنایا۔ نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے یعنی جاری رہنے والی خیرات ہے۔ حدیث شریف میں ہے، مفہوم: ’’جب چند لوگوں کا درجہ چند دوسرے لوگ بلند دیکھیں گے تو پوچھیں گے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ تو جواب ملے گا تمہاری اولاد نے تمہارے لیے جو استغفار کیا ہے یہ اس کی وجہ سے ہے۔‘‘ (ترمذی)
آنحضور ﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی جس انداز سے تربیت و پرورش فرمائی وہ سارے انسانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب فاطمہ الزہرا رضی اﷲ عنہا سب عورتوں سے عقل مند ہیں۔ وہ اپنے طرزِ کلام، حسن خلق، اسلوب گفت گُو، خشوع و خضوع میں آنحضرت ﷺ کے مشابہ ہیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی پاکیزہ زندگی مسلمانانِ عالم کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ ان سب نے حضور اکرم ﷺ کی تربیت سے فیض حاصل کیا۔
اولاد کا والدین پر یہ بھی حق ہے کہ وہ حیثیت کے مطابق اولاد کو مروجہ تعلیم بھی دلائیں اور دینی تعلیم کا بھی بندوبست کریں۔ علم وہ دولت ہے جس سے انسان کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں اور وہ انسانیت کے زیور سے آراستہ ہوتا ہے۔
جہاں اس تعلیم سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انسان انسان بن جاتا ہے وہاں اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ حصول معاش میں آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور یہ اولاد بڑھاپے میں والدین کا سہارا بن جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے زمانے میں بغیر علم کے ملک کے کسی بھی شعبہ میں انسان خدمت نہیں کر سکتا۔ کسی ملک کی ترقی کے لیے اس بات کی ضرورت بنیادی طور پر ہے کہ اس کے افراد تعلیم یافتہ ہوں اور ان میں ماہرین فن بھی ہوں اور ماہرین تعلیم بھی تاکہ ملک کے منصوبے پورے ہو سکیں۔
بچوں کو تعلیم دلانا گویا کہ ایک ملی فریضہ بھی ہے، جسے ہر ماں باپ کو ادا کرنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے تعلیم کو بڑی اہمیت دی۔ بدر کے قیدیوں کا فدیہ یہ فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ حصول تعلیم میں تکلیفیں اٹھانے والوں کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا درجہ دیا۔ شرط صرف اتنی ہے کہ اس طلب علم کا مقصد نیک ہو۔
اولاد کا یہ بھی حق ہے کہ والدین ان سے محبت و شفقت کا اظہار کریں اور ان پر رحم کرنا مسلمان ہونے کی نشانی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا اُسوہ بھی یہی ہے کہ آپ ﷺ بچوں سے محبت کیا کرتے تھے۔
ایک دن ایک دیہاتی حاضر خدمت ہوا بچوں کو پیار کرتے دیکھ کر پوچھا: کیا آپ ﷺ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے ہیں؟ ہم تو ایسا نہیں کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کہ میں اس پر قادر نہیں ہوں کہ تیرے دل سے اﷲ تعالیٰ نے جو رحم نکال لیا ہے پھر تیرے دل میں رکھ دوں۔
اولاد سے محبت ایک فطری بات ہے مگر اس میں اعتدال سے گزر جانا تباہ کن ہے۔ انسان کو یہ محبت راہ ہدایت سے بھی گم راہ کر دیتی ہے۔ اولاد میں انسان کے لیے بڑی آزمائش ہے۔ جو اس میں پورا اترا وہ کام یاب ہُوا۔ یہ اولاد ہی تو ہے جو انسان کو حرام روزی کمانے پر مجبور کرتی ہے۔ پھر انھی کی محبت میں گرفتار ہو کر آدمی فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی کرتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔‘‘ (التغابن)
اسلام اموال اور اولاد کی محبت میں اعتدال اور میانہ روی کا راستہ تجویز کرتا ہے۔ اس کے برعکس عمل سے انسان کو سراسر گھاٹا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے روز حرام روزی مہیا کرنے والے آدمی کے ساتھ سب سے پہلے اس کے اہل و عیال جھگڑا کریں گے اور گناہوں کی تمام تر ذمے داری اس پر ڈال دیں گے۔
والدین کا یہ فرض ہے کہ اپنے تمام بچوں سے یک ساں اور عدل و انصاف والا سلوک کریں۔ اسلام میں لڑکے اور لڑکی یا چھوٹے اور بڑے کی کوئی تمیز نہیں، سب کے حقوق یک ساں ہیں، اسلام نے لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کے مقابلے میں ترجیحی سلوک کو روا نہیں رکھا۔ اسلام پہلا مذہب ہے جس نے لڑکیوں کو وراثت میں حق دلایا۔ اپنی اولاد میں کسی ایک کو کوئی چیز دے دینا اور دوسروں کو اس سے محروم رکھنا جائز نہیں، اسے ظلم قرار دیا گیا کیوں کہ یہ انصاف کے خلاف ہے۔
ایک مرتبہ ایک صحابیؓ نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا اور حضور ﷺ سے آکر عرض کیا: آپ ﷺ اس کے گواہ رہیے۔
آپ ﷺ نے پوچھا: کیا دوسرے بچوں کو بھی ایک غلام دیا ہے؟
اس نے عرض کیا: نہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں اس ظلم کا گواہ نہیں بننا چاہتا۔‘‘
اولاد کے درمیان ناانصافی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بہن بھائیوں میں عداوت اور دشمنی کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں، جس سے گھر کا سکون ختم ہو جاتا ہے اور وہ بچہ جس سے ناروا سلوک کیا گیا ہے والدین سے نفرت کرنے لگے گا۔ یہ بات اس کی اور والدین کی زندگی پر بُری طرح اثر انداز ہو گی۔ لہٰذا ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کے لیے اولاد کی تربیت عمدہ خطوط میں کرنا والدین کا ایک اہم فریضہ ہے۔
اﷲ رب العزت ہمیں دین اسلام کے مطابق بہترین طرزِ عمل اختیار کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین