غزل
پھر وہی فکرِ جہاں اور ترا غم دونوں
رات بھر دست و گریباں ہوئے باہم دونوں
کھل رہا تھا کہ خزاں لے اڑی رنگت میری
مجھ پہ اک ساتھ اتر آئے ہیں موسم دونوں
مدتوں بعد سرِ شام ہماری آنکھیں
آپ کی یاد میں برسی ہیں چھماچھم دونوں
شوخ موسم کی ہواؤں کا مزہ لینے کو
گھوم آتے ہیں چلو وادیِ نیلم دونوں
کیسے معلوم ہو قاتل مر ادشمن ہے کہ دوست
یعنی کرتے ہیں مری لاش پہ ماتم دونوں
رنج و راحت کی طرح ساتھ رہا کرتے ہیں
باغ میں خندۂ گل، گریۂ شبنم دونوں
ایک مدت سے یہاں دشت میں آ کر صادقؔ
بھول بیٹھا ہوں غمِ یار میں عالم دونوں
(محمد ولی صادق۔کوہستان لوئر)
۔۔۔
غزل
ہوں کہ جب تک ہے کسی نے معتبر رکھا ہوا
ورنہ وہ ہے باندھ کر رخت ِ سفر رکھا ہوا
مجھ کو میرے سب شہیدوں کے تقدس کی قسم
ایک طعنہ ہے مجھے شانوں پہ سر رکھا ہوا
میرے بوجھل پاؤں گھنگھرو باندھ کر ہلکے ہوئے
سوچنے سے کیا نکلتا دل میں ڈر رکھا ہوا
اک نئی منزل کی دھن میں دفعتاً سرکا لیا
اس نے اپنا پاؤں میرے پاؤں پر رکھا ہوا
تو ہی دنیا کو سمجھ پروردۂ دنیا ہے تو
میں یونہی اچھا ہوں سب سے بے خبر رکھا ہوا
(احمد حسین مجاہد ۔ایبٹ آباد)
۔۔۔
غزل
میں کھیل کھیل رہا تھا نئے طریقے سے
سو مجھ کو زخم لگے ہیں ترے پسینے سے
نجانے کل، کہاں،کس موڑ پر بچھڑ جاؤں
پرکھ لو جان میری مجھ کو آج اچھے سے
حضور شہرِ تمنا میں آگ لگ گئی ہے
کسی کو ہاتھ لگانے کسی کو چھونے سے
یقین کیجیے مجھ کو نہیں ہے کچھ معلوم
یہاں پہ لایا گیا ہے مجھے بھی دھوکے سے
تمھارا ہاتھ لگانے کی دیر تھی کہ ندیمؔ
نکل کے آگئے سب لوگ اپنے کمرے سے
(ندیم ملک۔ کنجروڑ، نارووال)
۔۔۔
غزل
اتنی فریاد ہے فریاد سمجھتے رہنا
مجھ کو اک بھولی ہوئی یاد سمجھتے رہنا
دوسری بیوی تو لے آئے ہو اب مِنّت ہے
پہلی اولاد کو اولاد سمجھتے رہنا
حاکمِ شہر کے جھانسے میں نہ آنا لوگو
اپنی اُجرت کو نہ امداد سمجھتے رہنا
نہر مشکل نہیں اِس دور میں شیریں سے کہو
کسی لونڈے کو نہ فرہاد سمجھتے رہنا
دیکھ لے غور سے منظر ترا حق ہے لیکن
اپنی آنکھوں کی بھی افتاد سمجھتے رہنا
حکم آیا ہے یہ صیّاد کا پنجرے میں نثارؔ
خود کو ہر حال میں آزاد سمجھتے رہنا
(نثاراحمدنثار۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
شدّت کا شور شار ہے اور ہم خموش ہیں
ہر آنکھ اشکبار ہے اور ہم خموش ہیں
بینائی لوٹ آئی تو کیا دیکھتے ہیں ہم
وہ محوِ انتظار ہے اور ہم خموش ہیں
افسردگی ہی چھائی ہوئی ہے بروزِ عید
ماحول خوشگوار ہے اور ہم خموش ہیں
ایسی جگہ پہ بس رہے ہیں ہم کہ جس جگہ
ہر سمت انتشار ہے اور ہم خموش ہیں
آخر کو رمزِ صبر سمجھ آ گئی ہے یوں
دل کافی بے قرار ہے اور ہم خموش ہیں
شوزب ؔاب اس سے بڑھ کے بھلا بے بسی ہو کیا
وہ آج سوگوار ہے اور ہم خموش ہیں
(شوزب حکیم۔شرقپور، ضلع شیخوپورہ)
۔۔۔
غزل
رہ رہ کے کوئی زخم تو موجود ہے مجھ میں
جو شاعری کی شکل میں بارود ہے مجھ میں
کب سے مری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ہے
لگتا ہے کہ ہر جذبہ ہی مفقود ہے مجھ میں
بارش کی طرح ٹوٹ کے برسا تھا کوئی دن
اب یوں ہے کہ بس گرد ہی مسدود ہے مجھ میں
سو بار سمیٹی ہے خیالات کی گتھی
وحشت کی مگر اب بھی اچھل کود ہے مجھ میں
میں اپنی خطاؤں میں اکیلا نہیں شامل
اکسانے پہ اک اور بھی مردود ہے مجھ میں
ہر ایک قدم پر ہیں امیدیں مری رب سے
بس ایک یہی منزلِ مقصود ہے مجھ میں
(امیر حمزہ سلفی۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
پاؤں کو چھوا، ماں کو کہا عید مبارک
دل نے کہا جنّت کی ہوا عید مبارک
جرات ہی نہ تھی عید ملیں اور کہیں کچھ
ہاں فقرہ ہوا لب سے ادا، عید مبارک
پردیسی بجھے دل سے یہ دیکھا کیے منظر
سڑکوں پہ تھا اک شور بپا عید مبارک
روٹھے تھے جو مجھ سے میں گلے ان سے ملا ہوں
ٹوٹے ہوئے لفظوں سے سنا عید مبارک
ممکن نہ تھا ملنا، کہ وہ تھا دور بہت ہی
ہر سانس نے دی اس کو دعا عید مبارک
تو جاتی ہے ہر کوچہ ،گلی اور مکاں میں
کہہ آ تُو اسے بادِ صبا عید مبارک
ویسے تو شہاب ؔاس نے کہا کچھ بھی نہیں تھا
آنکھوں میں چھپا میں نے پڑھا عید مبارک
(شہاب اللہ شہاب۔ منڈا، دیر لوئر، خیبر پختونخوا)
۔۔۔
غزل
لوگ لکھتے رہے ہیں دولت پر
میں نے لکھا ہے صرف عورت پر
خوب چہرہ ہے آئینے میں ایک
تم بھی مرتی ہو اسکی صورت پر
خاک زادے ہیں چاند کو تکتے
واری جاؤں میں ان کی حسرت پر
میں تو ادنیٰ سا ایک شاعر ہوں
کون روئے گا میری تربت پر
اس نے بیٹی کو مار ڈالا پھر
داغ آئے نہ کوئی عزت پر
تجھ پہ ہر دم وہ مہربان رہا
شکر بنتا ہے رب کی رحمت پر
فیضی ؔبرسی ہے تیرے خوابوں کی
اور آیا ہے شہر دعوت پر
(اویس فیضی ۔پھلروان، سرگودھا)
۔۔۔
غزل
منافق ہاتھ کرنے لگ گئے ہیں
یوں سولی با وفا چڑھتے نہیں ہیں
ضمیروں کی خریداری پہ لعنت
وگرنہ پاس کب پیسے نہیں ہیں
گلہ دشمن سے بنتا ہی نہیں ہے
ہمارے یار ہم جیسے نہیں ہیں
مرے لہجے کی تلخی کا یقیں کر
سبھی کردار اک جیسے نہیں ہیں
جو کھانے لگ گئے بچوں کو اپنے
کسی جنگل کے شیر ایسے نہیں ہیں
کبھی پیسے تھے اور کچھ بھی نہیں تھا
مگر آج خواب ہیں پیسے نہیں ہیں
یہ دنیا دیکھ کر ہم خوش نہیں ہیں
جو دکھتے لوگ ہیں ویسے نہیں ہیں
(ناصر معروف۔ عمان)
۔۔۔
غزل
چھت پہ جلتا دیا دیکھنے کے لیے
چل رہی ہے ہوا دیکھنے کے لیے
تابِ جلوہ ٔ یزداں نہیں ہے اگر
کیوں چلے ہو خدا دیکھنے کے لیے
ہیں مناظر ابھی دلنشیں یاں بہت
آنکھ اپنی بچا دیکھنے کے لیے
نزع کے وقت آئے ہو تم مہرباں
مجھ کو مرتا ہوا دیکھنے کے لیے
دیکھنے کے لیے ہائے یہ کیا بچا
ہائے یہ کیا بچا دیکھنے کے لیے
لے گیا باتوں باتوں میں دریا تلک
وہ مجھے ڈوبتا دیکھنے کے لیے
آئینہ اٹ گیا گرد میں مہ جبیں
یہ ترا دیکھنا دیکھنے کے لیے
انتہا سے کرو ابتدا شاہ میر
پھر سفر اک نیا دیکھنے کے لیے
(شاہ میر مغل۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
بے سبب قیل و قال کرتے ہیں
حسن والے کمال کرتے ہیں
ہم سے کٹّر قسم کے مسلم ہی
کافروں کا خیال کرتے ہیں
دل کے کچھ زخم ہوتے ہیں ایسے
جو ہمیشہ نڈھال کرتے ہیں
پیش آتی ہے جب کوئی حاجت
ہم خدا سے سوال کرتے ہیں
دیکھتا رہتا ہے کوئی چھپ کر
رخ کدھر کا غزال کرتے ہیں
اپنی خاطر ہے ایک دن کی عید
اور کچھ پورے سال کرتے ہیں
آپ سے کس نے کہہ دیا ہے فیضؔ
شاعری بے مثال کرتے ہیں
(فیض الامین فیض۔کلٹی،مغربی بنگال، بھارت)
۔۔۔
غزل
تمہارے رخ کی بدولت اگر خراب ہوئے
اکیلے ہم نہیں سب معتبر خراب ہوئے
تمہارا ہجر بھی لگتا تھا ایک عام سی شے
ہم ایک عام سی شے سے مگر خراب ہوئے
تمہاری زلف کے سائے میں کچھ سکون ملا
وگرنہ پہلے تو ہم عمر بھر خراب ہوئے
کبھی بھی غیر کے آ گے سناؤ مت دل کی
ہم اپنا آپ ہی تو کھول کر خراب ہوئے
خدایا خیر ہو اپنے تمام رشتوں کی
نجانے منصفوں سے کتنے گھر خراب ہوئے
یہاں پہ ظلم کا بدلہ ہے صرف خاموشی
نظامِ عدل کے سب مقتدر خراب ہوئے
(شعیب مجیب ۔ننکانہ صاحب)
۔۔۔
غزل
یہ حقیقت مان، میری جان، پیسے کو سلام
فطرتِ دنیا کو تو پہچان، پیسے کو سلام
محترم صد محترم ہے جس کسی کے پاس ہے
مال و دولت، گاڑی اور دوکان، پیسے کو سلام
علم و حکمت کی قدر کوئی نہیں کرتا ادھر
اس جہاں میں پیسے سے ہے شان، پیسے کو سلام
جیب بھرنی ہے ہمیں چاہے غلط ہو راستہ
بس میاں پیسا بنا ایمان، پیسے کو سلام
لالچِ دولت میں آ کر بھول بیٹھا موت کو
آدمی نادان ہے نادان، پیسے کو سلام
روزِ محشر کیا خدا کا سامنا کر پائے گا؟
ہوش کر آدم نما شیطان، پیسے کو سلام
خواہشِ دولت میں ہی ہر شخص پاگل ہو گیا
طلحہ ؔکیوں انسان ہے انجان، پیسے کو سلام
(طلحہ بن زاہد۔اوکاڑہ)
شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں، انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہے اور ہم خموش ہیں دیکھنے کے لیے پیسے کو سلام سمجھتے رہنا ہے مجھ میں خراب ہوئے کرتے ہیں نہیں ہیں رکھا ہوا نہیں ہے ہیں ہی مجھ کو
پڑھیں:
سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز
جنگل کی طرح ’سماجی غول‘ بنانا
رضوان طاہر مبین
ایک ’غول‘ ضروری ہے، جی ہاں بہت ضروری ہے صاحب۔۔۔!
ہمارے آج کے سماج کی ایک تلخ حقیقت ایسی ہے کہ آپ کے ساتھ آپ کے کچھ نہ کچھ ’ہم نوا‘ ہونا بہت ضروری ہیں، ورنہ آپ بُری طرح تنہا کردیے جاتے ہیں، جیسے کسی جنگل میں اکیلے جانور کو درندے بھنبھوڑ دیتے ہیں، اس لیے وہ گروہ کی شکل میں رہتے ہیں، بالکل ایسے ہی گروہ کے بغیر اس سماج کے ’طاقت وَر‘ آپ کو بھی بھنبھوڑ ڈالیں گے اور کچھ نہیں تو کسی موضوع پر اختلاف رائے یا اپنی آزادانہ رائے رکھنے کی پاداش میں یہی نام نہاد پڑھے لکھے اور ’’دانش وَر‘‘ آپ کو کچا نہ بھی چبا ڈالیں، تو پکا پکا کر ضرور نگل جائیں گے!
اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ ’غول‘ کیسا ہو۔۔۔؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ چوں کہ آپ اشرف المخلوقات کہلاتے ہیں یا یوں کہیے کہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے اِسے آپ پیار سے یا مصلحت سے ’غول‘ کبھی نہیں کہیں گے، بلکہ ’ہم خیال‘ کہیں گے، ہم پیالہ بتائیں گے یا پھر کوئی ’لابی‘ کہلائیں گے۔
اب یہ ’لابی‘ کام کیا کرتی ہے۔۔۔؟
یہ بڑا دل چسپ سوال ہے، جناب، یہی تو پھر سارے کام کرتی ہے، اور بعضے وقت جب یہ کام کرتی ہے، تو کبھی کبھی تو آپ کو کچھ کرنے کی ہی ضرورت نہیں رہتی، سمجھ رہے ہیں ناں۔۔۔
اور اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی کوئی آپ پر ٹیڑھی نگاہ سے دیکھے، کسی بھی جگہ کوئی کٹھنائی ہو، زندگی میں خدانخواستہ کوئی اچھا یا برا، صحیح یا غلط، آڑھا یا ترچھا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو، آپ کا یہ ’غول‘ اس نظریے کے تحت آپ کے ’دفاع‘ کے لیے سینہ سپر ہو جائے گا کہ ’’صحیح ہے یا غلط ہے، یہ اہم نہیں، آدمی ہمارا ہے بس یہی اہم ہے۔۔۔!!‘‘
اپنی ’لابی‘ بنانے کے لیے آپ کو کرنا کیا ہوگا۔۔۔؟
’غول‘ بنانے کے لیے سب سے پہلے ’اتحاد‘ بہت ضروری ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اتحاد میں کتنی ’’برکت‘‘ ہوتی ہے، یہی برکت آپ کو یہاں اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی۔ آپ کو اس ’اتحاد‘ کے واسطے اپنی ’لابی‘ کی ہاں میں ہاں اور نہ میں نہ ملانا ہوگا۔ چاہے سورج آپ کے سر پر آگ برسا رہا ہو، لیکن اگر آپ کے ’جَتھے‘ نے یہ طے کیا ہے کہ اس وقت تاریک آسمان پر چاند چمک رہا ہے اور جھینگر جھنگار رہا ہے، تو آپ کو بہر صورت یہی راگ الاپنا ہوگا کہ چاند کتنا روشن ہے اور اس وقت جھینگر کی آوازوں کے کیا زیر و بم ہیں۔
اس کے ساتھ ہی حسب ضرورت ’واہ واہ‘ کے ڈونگرے اور مخالفانہ دلائل پر منطقی و غیر منطقی ہر دو طرح کے بھرپور تمسخرانہ انداز سے بھی گریز نہیں کرنا ہوگا، الغرض یہ جان لیجیے کہ آپ کے گروہ کے ’مائی باپوں‘ نے جو کہہ دیا وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا، یہ بات کبھی فراموش نہیں کیجیے گا۔۔۔! اور آپ کی اپنی رائے/ نقطہ نظر/ اختلاف اور آپ کے اپنے ذاتی یا آزادانہ موقف ٹائپ کی کسی چیز کی اب کوئی گنجائش نہیں ہوگی، سچ صرف اور صرف وہی ہوگا جو آپ کے اِس ’’غول‘‘ نے کہہ دیا ہے، بات وہی اونچی ہوگی جو آپ کے ’’لَمڈوں‘‘ نے نعرۂ مستانہ بنا کر بلند کردی ہے۔۔۔ کوئی سچ کی تلاش نہیں ہوگی، عقل وغیرہ جیسی کسی چیز کا کوئی استعمال نہیں ہوگا۔
بعد میں یہ ساری ’خرمستی‘ آپ کو بھی یہ ’سہولت‘ فراہم کرے گی کہ آپ رات بے رات اور وقت بے وقت کچھ فرمائش بھی کر سکتے ہیں۔۔۔ آپ کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے سے لے کر آپ کی روزی روٹی، دکھ بیماری، کاروبار ملازمت، ترقی اور ہمہ قسم کے مفادات سے لے کر سماج کے بدمعاشوں اور ’غیر بدمعاشوں‘ کے سارے کے سارے مسائل اور وسائل اب آپ کی فکر بالکل بھی نہیں ہوگی، بلکہ جیسے آپ نے ہر بار ان کی ’ہاہاکار‘ میں حصہ ڈالا ہوگا، ایسے ہی صحیح یا غلط سے قطعی طور پر بے پروا ہو کر یہ بھی آپ کے وقت پڑنے پر جائز وناجائز ہر ’پھڈے‘ میں آپ کی پشت پر بلکہ آپ سے بھی آگے صف اول میں کھڑے ہوں گے اور آپ کو غول پسند معاشرے میں وہ سکون فراہم کریں گے کہ بس آپ سوچ ہی سکتے ہیں!
اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ گروہ یا ’لابی‘ کیسی ہو۔۔۔؟ یا یہ غول بنائے کیوں کر بنائے جا سکتے ہیں۔۔۔؟
اس کے لیے بے آپ اپنی ذاتی وخاندانی مماثلتیں ’کام میں‘ لے سکتے ہیں، جیسے:
آپ کون سی زبان بولتے ہیں۔۔۔؟
کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟
ملک کے کس صوبے کے رکھوالے اور کس علاقے کے نام لیوا ہیں۔۔۔؟
آپ کس نسل، ذات اور برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟
اتفاق سے آپ کے شجرے میں کوئی خاص عنصر یا شخصیت موجود ہے؟ تو آپ (موقعے کے لحاظ سے) اس کا عَلم بھی بلند کر سکتے ہیں۔
یہی نہیں آپ کا مذہب اور آپ کے مسلک اور عقیدے کے ساتھ ساتھ ’غول‘ بننے کی یہ سہولت بہت سی سیاسی، مذہبی اور تفرقہ باز جماعتیں بھی بہت خوبی سے فراہم کرتی ہیں، اب تو اس کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری ’غیر سرکاری تنظیمیں‘ بھی دل وجان سے آپ کے لیے ’حاضر‘ ہیں، اور اس کام کے باقاعدہ ’معاوضے‘ سالانہ انعامات اور بین الاقوامی اکرامات کی صورت میں آپ کو ہاتھ کے ہاتھ مطمئن بھی کرتی رہتی ہیں۔ اب یہ صرف آپ پر منحصر ہے کہ آپ ’قدرت‘ کی دی گئی ان مماثلتوں اور صلاحیتوں سے کس قدر فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔۔۔!
کیوں کہ فی زمانہ یہ ساری خاصیتیں بڑی کارآمد اور کارگر ہیں، یہی نہیں ’غول‘ بنانے کے لیے آپ کے پیشے کا بھی کافی اہم کردار ہوتا ہے، آپ کیا کام کرتے ہیں۔۔۔؟ اور کام میں بھی کیسا اور ’’کس طرح‘‘ کے کام زیادہ فرماتے ہیں۔۔۔؟ اس مناسبت سے بھی آپ کسی نہ کسی سے گٹھ جوڑ کر سکتے ہیں۔ اب ہم آپ کو کیا کیا کھل کر بتائیں کہ اگر آپ تاجر، شاعر، ادیب، صحافی، مصنف، ڈاکٹر، نرس، وکیل، استاد، بیوروکریٹ، بِلڈر، پراپرٹی ڈیلر ہیں، تو آپ بھی بہ آسانی اس سماج کے ’نائیوں‘، ’موچیوں‘ سے لے کر ’نان بائیوں‘ کی طرح ’’مشترکہ مفادات‘‘ کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ انجمن تشکیل دے سکتے ہیں، اور انجمن سے ہمیں یاد آیا کہ اگر آپ ان میں کچھ بھی نہیں ہیں، تب بھی ایک ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ کی سہولت تو ہر ایک کے لیے ہر وقت موجود رہتی ہے، جہاں دو، چار فارغ، (بلکہ طبیعت سے فارغ) مگر چالاک دماغ اور آگ آج کل کی زبان میں کہیے تو ’’سمجھ دار‘‘ احباب جمع ہوئے، لیجیے وہیں آپ کا ایک بھرپور کام یاب اور بھرپور فعال غول تیار ہوگیا ہے، اب آپ ایک دوسرے کے لیے ساری خدمات انجام دے سکتے ہیں، جیسے فارسی میں کہا گیا ہے کہ ’’میں تمھیں حاجی کہوں، تم مجھے مُلا کہو!‘‘
بھارت کا سفارتی رافیل
ابنِ امین
ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید جنگ تھم چکی ہے، اور اب ہم ایک ذمے دار اور باشعور پڑوسی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنے کی کوئی صورت نکال لیں گے۔ لیکن ہمارا پڑوسی، جو کہ ہم سے کئی گنا بڑا ہے، اس جنگ کو ایک ایسے مقام تک لے جانا چاہتا ہے جس کے نتائج کے بارے میں نہ یقین سے کچھ کہا جا سکتا ہے، نہ کوئی گارنٹی دی جا سکتی ہے۔
2019 کے پلوامہ حملے اور اس کے بعد بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک نئی سطح کی جارحیت دیکھی گئی ہے۔ تاہم، حالیہ پہلگام حملے (اپریل 2025) اور اس کے بعد بھارت کے 'آپریشن سندور' (مئی 2025) کے تناظر میں، بھارت نے ایک جارحانہ سفارتی مہم کا آغاز کیا ہے۔
اس مہم کے تحت سات وفود دنیا کے مختلف خطوں میں روانہ کیے گئے جن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلیمان، بشمول مسلم اراکین پارلیمنٹ، اور ریٹائرڈ سفارت کاروں کو شامل کر کے یہ تاثر دیا گیا کہ بھارت کی پوری سیاسی قیادت پاکستان سے درپیش خطرات پر یک زبان ہے۔ ان کا مقصد عالمی برادری کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی دہشت گردی کا معاون ہے۔ یہ کوششیں بظاہر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی ایک منصوبہ بند مہم کا حصہ ہیں۔
اس سفارتی یلغار کے ساتھ ساتھ، بھارت نے دیگر جوابی اقدامات بھی کیے جن میں اہم سرحدی گزرگاہوں کی بندش، سندھ طاس معاہدے (IWT) کی معطلی، پاکستانی سفارت کاروں کی بے دخلی، اور پاکستانی شہریوں کے لیے زیادہ تر ویزوں پر پابندی شامل تھی۔ خاص طور پر، سندھ طاس معاہدے کی معطلی ایک اہم اور ممکنہ طور پر تباہ کن اقدام تھا، جسے بھارت نے ’’مسلسل سرحد پار دہشت گردی‘‘ سے جوڑا۔ یہ اقدام بین الاقوامی اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے کیوںکہ معاہدہ یک طرفہ کارروائی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ صورت حال پانی کی سلامتی کو ایک اہم فلیش پوائنٹ میں بدل دیتی ہے، جو ممکنہ طور پر روایتی فوجی ذرائع سے بھی آگے تنازعات کو بڑھا سکتی ہے۔
اس تمام صورت حال میں، بھارتی سیاست داں اور سابق سفارت کار ششی تھرور کی نیویارک میں حالیہ ملاقاتیں اور موجودگی بھی اسی مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد عالمی سطح پر بھارت کے بیانیے کو مزید تقویت دینا ہے۔
تاہم، تجزیاتی نقطۂ نظر سے، یہی مہم پاکستان کے لیے ایک غیرمتوقع مگر غیرمعمولی سفارتی موقع کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ جب بھارت کی طرف سے پاکستان پر ایسے سنگین الزامات عائد کیے جاتے ہیں، اور ان کی تائید کے لیے دنیا بھر میں وفود بھیجے جاتے ہیں، تو لامحالہ بین الاقوامی میڈیا، تھنک ٹینکس اور پالیسی ادارے بھی اس بیانیے کی صداقت کو پرکھنے کے لیے پاکستان کے مؤقف کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، بھارت جس پلیٹ فارم کو صرف اپنا بیانیہ آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے، وہی پلیٹ فارم پاکستان کے لیے اپنے مؤقف کو سامنے لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس منظرنامے میں پاکستان کو محض دفاعی انداز اپنانے کی بجائے ایک فعال، شواہد پر مبنی اور بیانیہ ساز حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔
پاکستان نے سفارتی سطح پر ابتدائی ردعمل میں عالمی سفیروں کو اعتماد میں لیا، حملے کی غیرجانب دار تحقیقات کی پیشکش کی، اور ساتھ ہی بھارت کی طرف سے انڈس واٹر ٹریٹی جیسے حساس معاہدے کی معطلی کو ایک ممکنہ اشتعال انگیز اقدام کے طور پر عالمی برادری کے سامنے رکھا۔ پاکستان نے چین، سعودی عرب، ترکی، قطر اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ فوری روابط قائم کیے تاکہ بھارت کے یک طرفہ بیانیے کو توازن دیا جا سکے۔
یہ تمام اقدامات ایک فعال اور اسٹریٹجک سفارت کاری کی غمازی کرتے ہیں، اور 2025 کے بحران کے بعد پاکستان کی میڈیا حکمت عملی میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے جو ماضی کے ’’ٹکڑے ٹکڑے، دفاعی اور ردعمل پر مبنی‘‘ نقطۂ نظر کے برعکس ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی سفارتی یلغار نے پاکستان کو بین الاقوامی مکالمے کا مرکزی موضوع بنا دیا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان داخلی سیاسی بحران، اقتصادی غیریقینی صورت حال، اور سفارتی خاموشی کا شکار تھا، بھارت کی یہ مہم ایک اتفاقیہ موقع بن گئی ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر نہ صرف خود کو ایک پرامن، قانون پر کاربند اور تعمیری ریاست کے طور پر متعارف کرائے بلکہ اپنے حقیقی چیلینجز، قربانیوں اور امن پسندی کو عالمی بیانیے کا حصہ بھی بنائے۔ بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے بارے میں ’’غیرجانب دارانہ سے مثبت تاثر میں واضح اضافہ‘‘ دیکھا گیا ہے۔
پاکستان کے لیے اب ناگزیر ہے کہ وہ محض رسمی سفارتی بیانات سے آگے بڑھے اور ایک منظم، سائنسی، اور ادارہ جاتی حکمت عملی کے تحت عالمی میڈیا (جیسے CNN، BBC، Sky News)، یونیورسٹیز، تھنک ٹینکس اور ڈاسپورا نیٹ ورکس کو متحرک کرے۔ ڈاسپورا نیٹ ورکس سے مراد وہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کمیونٹیز ہیں جو اپنے میزبان ملکوں میں پالیسی، میڈیا، اور رائے سازی پر اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ نیٹ ورکس پاکستان کی سفارتی soft power کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔
بھارت نے اپنے وفود میں صرف سیاست داں نہیں بلکہ سابق سفیروں، سفارتی ماہرین اور ابلاغی شخصیات کو شامل کر کے بیانیہ سازی کا ایک بھرپور ماڈل پیش کیا ہے۔
پاکستان کے لیے اس وقت چیلینج صرف ردعمل دینا نہیں بلکہ ایک متبادل بیانیہ ترتیب دینا ہے جو مستقل بنیادوں پر پاکستان کے مؤقف کو مضبوط کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو بین الاقوامی برادری کو بھارت کی ’’گرے زون‘‘ حکمت عملیوں کے خطرات سے بھی آگاہ کرنا چاہیے، جہاں وہ جوہری حد سے نیچے محدود حملوں کے ذریعے اخراجات عائد کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے ’’جوہری تباہی کی طرف ایک غلط قدم کے خطرے‘‘ میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس وقت دنیا کی نظریں خطے پر مرکوز ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ، پالیسی ادارے، اور تجزیہ کار جنوبی ایشیا کی صورتحال کو باریکی سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ایک غیرمعمولی موقع ہے کہ وہ خود کو نہ صرف ایک اہم اسٹریٹجک کھلاڑی کے طور پر پیش کرے بلکہ اپنی دانش، امن پسندی اور سفارتی بلوغت سے ایک نئے عالمی امیج کی بنیاد رکھے۔ بھارت کی الزاماتی سفارت کاری پاکستان کے لیے ایک ایسے کوریڈور کی شکل اختیار کر چکی ہے جو اگر حکمت سے استعمال کیا جائے تو سفارتی تنہائی کو سفارتی مرکزیت میں بدل سکتا ہے۔