معروف شاعر آنند بخشی نغمہ نگار نہیں بلکہ گلوکار بننا چاہتے تھے
اشاعت کی تاریخ: 1st, April 2025 GMT
اپنے سدا بہار گیتوں سے سامعین کا دل لبھانے والے بالی ووڈ کے مشہور نغمہ نگار آنند بخشی نے قریبا 4 دہائی تک سامعین کو اپنا دیوانہ بنائے رکھا لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ وہ نغمہ نگار نہیں بلکہ گلوکار بننا چاہتے تھے۔
متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں 21 جولائی 1930 کو پیدا ہوئے آنند بخشی کو ان کے رشتہ دار پیار سے نند یا نندو کہہ کر پکارتے تھے۔ بخشی ان کے خاندان کا لقب تھا جبکہ ان کے اہلخانہ نے ان کا نام آنند پرکاش رکھا تھا۔ لیکن فلمی دنیا میں آنے کے بعدآنند بخشی کے نام سے ان کی پہچان بنی۔
آنند بخشی بچپن سے ہی فلموں میں کام کرکے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کا خواب دیکھا کرتے تھے لیکن لوگوں کے مذاق اڑانے کے خوف سے انہوں نے اپنی یہ منشا کبھی ظاہر نہیں کی تھی۔ وہ فلمی دنیا میں گلوکارکے طور پر اپنی شناخت بنانا چاہتے تھے۔ آنند بخشی اپنے خواب پورا کرنے کے لیے 14 سال کی عمر میں ہی گھر سے بھاگ کر فلم نگری ممبئی آ گئے جہاں انہوں نے رائل انڈين نیوی میں کیڈٹ کے طور پر 6 سال تک کام کیا۔
مزید پڑھیں: احمد فراز: صحرائے محبت کا مسافر
کسی تنازع کی وجہ سے انہیں وہ نوکری چھوڑنا پڑی۔ انہوں نے ہندوستانی فوج میں بھی ملازمت کی۔ بچپن سے ہی مضبوط ارادے والے آنند بخشی اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے نئےجوش کے ساتھ دوبارہ ممبئی پہنچے جہاں ان کی ملاقات اس زمانے کے مشہور اداکار بھگوان دادا سے ہوئی۔
شاید قسمت کو یہی منظور تھا کہ وہ نغمہ نگار ہی بنیں۔ بھگوان دادا نے انہیں اپنی فلم ’بھلا آدمی‘ میں نغمہ نگار کے طور پر کام کرنے کا موقع دیا۔ اس فلم کے ذریعے وہ اپنی شناخت بنانے میں بھلے ہی کامیاب نہیں ہو پائے لیکن ایک نغمہ نگار کے طورپر ان کے فلمی کیریئر کا سفر شروع ہو گیا۔
آنند بخشی قریباً 8 برس تک فلم انڈسٹری میں جدوجہد کرتے رہے۔ 1965 میں فلم ’جب جب پھول کھلے‘ ریلیز ہوئی تو ان کے نغمے:
’پردیسیوں سے نہ اكھياں ملانا‘
’یہ سماں، سماں ہے یہ پیار کا‘
’ایک تھا گل اور ایک تھی بلبل‘
سپر ہٹ رہے اور نغمہ نگارکے طور پر ان کی شناخت بن گئی۔ اسی سال فلم ’ہمالیہ کی گود میں ‘ان کا نغمہ ’چاند سی محبوبہ ہو مری کب ایسا میں نے سوچا تھا‘ کو بھی شائقین نے بہت پسند کیا۔
مزید پڑھیں: سپمورن سنگھ کالرا سے گلزار تک
1968 میں ریلیز سنیل دت اور نوتن کی فلم ’ملن‘ کے نغمہ ’ساون کا مہینہ پون کرے شور، یگ یگ تک ہم گیت ملن کے گاتے رہیں گے، رام کرے ایسا ہو جائے‘ جیسے سدا بہار نغموں کے ذریعے انہوں نے نغہ نگارکے طور پر نئی بلندیوں کو چھو لیا۔
فلم انڈسٹری میں بطور نغمہ نگار جگہ بنانے کے بعد بھی گلوکار بننے کی آنند بخشی کی حسرت ہمیشہ بنی رہی۔ انہوں نے 80 کی دہائی میں آئی فلم موم کی گڑیا میں ’میں ڈھونڈ رہا تھا سپنوں میں‘ اور ’باغوں میں بہار آئی‘ جیسے نغمے گائے، جو کافی مقبول بھی ہوئے۔
اس کے ساتھ ہی فلم ’چرس‘ کا گیت ’آجا تیری یاد آئی‘ کی چند لائنوں میں اور کچھ دیگر فلموں میں بھی انہوں نے اپنی آواز دی ہے۔ آنند بخشی نے 550 سے بھی زائد فلموں میں قریباً 4 ہزار گیت لکھے۔ اپنے نغموں سے قریباً 4 دہائی تک سامعین کو مسحور کرنے والے نغمہ نگار آنند بخشی 30 مارچ 2002 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔
آنند بخشی ٹاپ 10 گیتچنگاری کوئی بھڑکے: امر پریم
چاند سی محبوبہ ہو مری کب ایسا میں نے سوچا تھا: ہمالے کی گود میں
کورا کاغذ تھا یہ من میرا: کورا کاغذ
میری تصویر لے کر کیا کرو گے؟: کالا سمندر
اچھا تو ہم چلتے ہیں: آن ملو سجنا
تجھے دیکھا تو یہ جانا صنم: دل والے دلہنیا لے جائیں گے
یہ جو چلمن ہے دشمن ہے ہماری: محبوب کی مہندی
روپ تیرا مستانہ پیار میرا دیوانہ: آرادھنا
یہ ریشمی زلفیں یہ شربتی آنکھیں: دو راستے
یہ شام مستانی مدہوش کیے جائے: کٹی پتنگ
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آنند بخشی بھارت شاعر گیت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت گیت نغمہ نگار کے طور پر انہوں نے
پڑھیں:
عمران خان کی رہائی کےلیے تحریک چلانے کا اعلان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنمائوں نے عمران خان کی رہائی کےلیے کمر کس لی ہے۔تحریک انصاف کے سابق اور منحرف ارکان نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کردیا۔
اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے سابق رہنمائوں نے پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی کے لیے سیاسی جماعتوں اور دیگراسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطوں کا فیصلہ کیا گیا ہے،اس حوالے سے رابطہ کاری مشن میں فواد چودھری، عمران اسماعیل، علی زیدی، محمود مولوی، سبطین خان اور دیگر رہنماءشامل ہیں۔
سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے بتایا کہ ہم نے سوچا کوشش کریں کہ عمران خان باہر آسکیں اور یہ ٹمپریچرنیچے لاکر ہوگا، اس کے لیے پی ٹی آئی کے اصل لوگ جو جیل میں ہیں وہ کرسکتے ہیں اور وہ بھی یہی چاہتے ہیں۔
ہم نے ن کے اہم وزراءسے ملاقاتیں کی ہیں جو بات کرنا چاہتے ہیں، ہم نے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو کہا اگر پی ٹی آئی کو انگیج نہی کریں گے تو ٹکرائو کے سوا کیارہ جائےگا؟۔
شاہ محمود قریشی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں اور وہ وہی کریں گے جو عمران خان کا فیصلہ ہوگا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ درجہ حرارت نیچے آئے اور بات چیت شروع ہو ، ہمیں ہرطرف سے سپورٹ مل رہی ہے اور ہر طرف سے سپورٹ کے بغیر تویہ ممکن بھی نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ میں100 فیصد پی ٹی آئی میں ہوں، اگر نہ ہوتا تو اس وقت وزیر ہوتا اور جو اب پارٹی چلانے والے ہیں ان کی تو دہاڑیاں لگی ہوئی ہیں ،یہ جو قبرستانوں کے لیڈر بننا چاہتے ہیں، یہ عمران خان کی رہائی نہیں چاہتے۔
میں نے عمران خان کو کہا میں جنگجونہیں، بندوق چلانا نہیں آتی تو پھر کیا پہاڑوں پرچڑھ جاو ¿ں؟ میں تو سیاستدان ہوں اور مجھے اسپیس چاہیے۔
میں نے عمران خان کو کہا آپ نے 50ملین ڈالرز کی معیشت باہریوٹیوبرز کی بنائی ہوئی ہے، آپ کے اپنے لوگ ہی آپ کو باہر نہیں آنے دیں گے،جنہوں نے ماچس پکڑی ہوئی ہے اور آگ لگادیتے ہیں۔
اسی طرح ن لیگ اور پیپلزپارٹی والے پریشان ہوجاتے ہیں کیوں کہ اگر پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کی سیٹنگ ہوگئی تویہ سب فارغ ہوجائیں گے۔